امریکی میڈیا کا تاریک چہرہ

جسے صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ اور صحافی جورگے راموس کی جھڑپ نے بے نقاب کردیا

امریکا کے مین اسٹریم میڈیا کا رویہ غارت گر امریکی سام راج کو سہارا دیتا ہے ۔ فوٹو : فائل

ڈونالڈ ٹرمپ کا شمار دنیا کے چند امیر ترین آدمیوں میں ہوتا ہے۔ امریکا کے صدارتی انتخابات میں ری پبلکن پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے وہ پُرزور مہم چلارہا ہے۔ اب تک جو سروے سامنے آئے ہیں۔

ان کے مطابق مقبولیت کی دوڑ میں ٹرمپ سب سے آگے ہے۔ اس نے سفید فام ووٹروں کی متعصبانہ ترجیحات اور نسل پرستانہ روش کے پیش نظر اپنے جلسوں میں نفرت انگیز بیانات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ یہ نسخہ محض فتح حاصل کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جارہا ہے، بلکہ یہ ایک ایسی سوچی سمجھی ذہنیت کا اظہار ہے جو نسلی برتری کے نشے سے وجود میں آئی ہے۔ امریکی اسٹیبلشمینٹ پوری دنیا کو اپنی مٹھی میں جکڑ چکی ہے اور سفید فام امریکی باشندوں کی اکثریت اس ''کام یابی'' پر اپنے لیے خوشی کشید کرنے میں مصروف ہے۔ وہ اکبروافضل ہیں، ساری دنیا ان کے سامنے حقیر و کم تر ہے۔



جیفرسن اور لنکن کے نظریات کہاں ہیں، کاغذ پر لکھے امریکی آئین کے زریں اصول کہاں ہیں، سب کچھ طاقت، دولت، غرور اور احساس برتری کی آگ نے ہڑپ کرلیا ہے۔ یہ جُنون پرانا ہے، اسی لیے وجود میں آنے کے بعد سے اب تک امریکا ہر دس سال کے بعد اس دنیا کو کسی نہ کسی خوف ناک جنگ کی بھٹی میں جھونکتا رہا ہے۔

اس لیے ڈونالڈ ٹرمپ کا یہ اعلان انوکھا نہیں لگتا کہ صدر بننے کے بعد وہ امریکا میں مقیم ایک کروڑ دس لاکھ انسانوں کو بہ زور ملک سے باہر نکال دے گا، جن کے پاس ضروری قانونی کاغذات نہیں ہیں۔

ان میں زیادہ تعداد (60-55 لاکھ) میکسیکن تارکین وطن کی ہے۔ ٹرمپ نے ان ہی کو سب سے زیادہ مطعون کیا ہے۔ وہ بار بار کہہ چکا ہے، انہیں جانا ہوگا۔ اس کے مطابق میکسیکن زناکار، منشیات کے بیوپاری، جرائم پیشہ لوگ ہیں۔ اب اس کے انتخابی منشور میں یہ نکتہ بھی شامل ہوگیا ہے کہ صدر منتخب ہونے کے بعد وہ میکسیکو اور امریکا کی سرحد پر لمبی دیوار تعمیر کرائے گا، تاکہ میکسیکو سے تارکین وطن کی آمد کا سلسلہ روکا جاسکے۔



ڈونالڈ ٹرمپ نے یہ محاذ سوچ سمجھ کر کھولا ہے۔ تارکین وطن کی تعداد اگرچہ بہت زیادہ ہے، لیکن وہ سفید فام اکثریت کی خوش نُودی حاصل کرنا چاہتا ہے، جو انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔ اور اسی سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ امریکا کی سفید فام اکثریت نسل پرستی کے غلیظ چلن سے ابھی تک تائب نہیں ہوئی۔ بہ ہر حال، ری پبلکن پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے کی دوڑ میں ڈونالڈ ٹرمپ کی کام یابی کے آثار نمایاں نظر آرہے ہیں۔

دوسری طرف میڈیا کا ایک حلقہ ٹرمپ پر تنقید کررہا ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ نہیں کہ وہ نسل پرستی کے اس تماشے پر برہم ہے۔ دراصل، جب بعض اخبارات اور ٹی وی چینلز نے ٹرمپ کے بیان کو ہدف تنقید بنایا تو ٹرمپ ضبط کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھا۔ اس نے جوابی حملے اتنی شدت سے کیے کہ اس کے الفاظ گرفت میں آگئے۔ مثال کے طور پر اس نے ایک ٹی وی اینکر پرسن کے بارے میں کہا کہ وہ نا اہل ہے، اور اس کا پروگرام واپس لے لیا جانا چاہیے۔

اس محاذ کو گرم کرنے میں مشہور ٹی وی اینکر پرسن جورگے راموس کی پیش عملی نے اور بھی زیادہ اہم کردار ادا کیا۔ جورگے راموس اسپینی نژاد امریکی ہے، اور امریکا کے ساتھ میکسیکو کی شہریت بھی رکھتا ہے۔ وہ بلاشبہہ اپنے شعبے میں ممتاز مقام پا چکا ہے، اور اپنی صحافیانہ خدمات پر چھ بار گریمی ایوارڈ کے علاوہ دیگر اعزازات بھی حاصل کرچکا ہے۔



چند روز قبل ریاست آیووا میں ٹرمپ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کررہا تھا تو اچانک راموس نے کھڑے ہوکر سوال کیا کہ تارکین وطن کے بارے میں آپ کے کیا نظریات ہیں؟ ٹرمپ نے پہلے تو نظر انداز کیا، پھر راموس پر گرجنے لگا کہ بغیر اجازت کے تم سوال کیسے کررہے ہو۔ وہ بار بار راموس کو ڈانٹتا رہا اور اسے بیٹھنے کا حکم دیتا رہا۔ راموس نے کہا، ''میں ایک رپورٹر ہوں، ایک تارک وطن، ایک سینیر شہری، مجھے سوال کرنے کا حق حاصل ہے۔''

''یونی ویژن (وہ چینل جہاں راموس کام کرتا ہے) واپس چلے جاؤ۔'' ٹرمپ نے غصے سے کہا۔ راموس نے انکار کردیا اور خاموش بھی نہیں ہوا، اس پر ٹرمپ کے ایک باڈی گارڈ نے اسے زبردستی باہر نکال دیا۔ پریس کانفرنس ختم ہوئی تو راموس واپس آگیا اور پھر راموس سے سوالات کرنے لگا۔ صورت حال یہ تھی کہ ٹرمپ براہ راست اور واضح جواب دینے پر تیار نہیں تھا۔ جب راموس نے اس کی پالیسیوں پر بنیادی اعتراضات کیے تو ٹرمپ چیخنے لگا، ''یہ ذاتی حملہ کررہا ہے ... یہ ہمارے والدین پر حملہ کر رہا ہے ... ہمارے دوستوں پر ... ہمارے بچوں پر حملہ کر رہا ہے۔''

ظاہر ہے، ٹرمپ کا یہ رد عمل نسل پرستی کے مترادف تھا۔ والدین تو منڈیاں لگاکر سیاہ فام غلاموں کی خرید و فروخت کے نیک کام میں مصروف رہا کرتے تھے۔ ان کی ''ناموس'' کا تحفظ ٹرمپ جیسے نسل پرست پر واجب تھا۔



امریکا کا مین اسٹریم میڈیا اپنے متعصبانہ اور جانب دارانہ تجزیوں کے لیے مشہور ہے۔ اگرچہ بعض حلقوں نے راموس کے حق میں آواز بلند کی، لیکن مین اسٹریم میڈیا نے حسب معمول ادھر ادھر جُھکائیاں دیتے ہوئے اپنا تبصرہ ان الفاظ پر ختم کیا کہ راموس کو ضبط سے کام لینا چاہیے تھا، اپنا سوال سوالات کے سیشن ہی میں اٹھانا چاہیے تھا۔ یہ امریکا کا وہ مین اسٹریم میڈیا ہے جو وائٹ ہاؤس کے ظالمانہ اقدامات کے حق میں دلائل تراشنے میں مہارت حاصل کرچکا ہے۔

بہ ظاہر، وہ انسانی حقوق کا نام لیوا ہے، لیکن امریکا انسانی حقوق کی دھجیاں اڑاتا ہے تو وہ ڈھونڈ ڈھانڈ کر ''اگر مگر'' اور ''چوں کہ، چناںچہ'' کرتے ہوئے اس کے حق میں دلائل کے انبار لگادیتا ہے۔ وہ بہ ظاہر اقوام عالم کے درمیان مساوات کے نظریے کی حمایت کرتا ہے، لیکن امریکا جتنی بار دوسرے ملکوں پر حملے کرکے لاکھوں لوگوں کو قتل کرتا ہے، اتنی ہی بار اس کا مین اسٹریم میڈیا اس گھناؤنے عمل کے لیے سنہرا پیرہن تلاش کرلیتا ہے۔

''راموس کا طرز عمل صحافیوں جیسا نہیں تھا۔'' یہ ان کا فرمان ہے، اس کے لیے وہ صحافتی ضابطۂ اخلاق کے ''مقدس'' اوراق کی گواہی پیش کرتے ہیں۔ یہ ''مقدس ضابطۂ اخلاق'' اس وقت محو خواب ہوتا ہے جب ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا میں امریکی فوجیں خون کے دریا بہاتی ہیں، لاشوں کے ڈھیر لگاتی ہیں، قیدیوں پر بہیمانہ تشدد کرتی ہیں، عورتوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بناتی ہیں۔ آج جتنے بھی بڑے فتنے انسانیت کا لہو پی رہے ہیں۔



ان کی تخلیق اور ان کے فروغ میں بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر وائٹ ہاؤس کا ہاتھ ہے۔ طالبان، القاعدہ، داعش اور اس قسم کی ساری سفاک تنظیمیں عراق، افغانستان، لیبیا اور دوسرے ممالک پر امریکی حملوں کے بعد وجود میں آئیں۔ امریکا کے طالبان اور القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیموں سے راز و نیاز کے رشتے سب پر عیاں ہیں، اور یہ بھی کوئی راز نہیں کہ امریکا اپنی تاریخ کے ہر دور میں حسب منشا دہشت گرد حکومتوں، ڈکٹیٹروں، دہشت گرد تنظیموں اور دہشت گرد لوگوں سے گٹھ جوڑ کرتا رہا ہے۔ دنیا بھر میں امریکا کے ساڑھے سات سو سے زائد فوجی اڈے اس کی دہشت گردی کا منہ بولتا ثبوت پیش کرتے ہیں۔

امریکا کے مین اسٹریم میڈیا کو ایسے منظر نظر نہیں آتے!!
اب راموس کے ''رویے'' پر تنقید کرنے کے لیے ایسے صحافیوں نے اپنے طور پر بڑی محفوظ راہ تلاش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''راموس ذاتیات پر اتر آیا، یہ متعصبانہ طرز فکر ہے۔ وہ واضح طور پر اپنا ایجنڈا بیان کر رہا تھا۔ ٹرمپ کے بیان پر تنقید کی جاسکتی ہے اور کی جانی چاہیے، لیکن اس کے لیے Activist بننے کی ضرورت نہیں تھی۔ سب کچھ نفاست سے کیا جاسکتا ہے۔''

اچھی خبر سازی کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ''نفیس'' اور ''اچھی'' رپورٹنگ!!
مشہور جریدے Politico کے مشہور رپورٹر مارک کپوٹو نے لکھا، ''راموس نے نہ صرف صحافت کے اصولوں کو پیش نظر نہیں رکھا، بلکہ اس نے اصل میں صحافت کو تباہ کردیا۔ ایک صحافی تعصب کو الگ رکھتے ہوئے سوالات کرسکتا ہے، خبر بناسکتا ہے۔ میں برس ہا برس سے یہ کام کرتا رہا ہوں اور کرتا رہوں گا۔'' جو ذرا زیادہ مدبرانہ انداز میں سامنے آنا چاہتے ہیں۔



انھوں نے ذرا سا مختلف پیرایہ اختیار کیا۔ مثال کے طور پر ''واشنگٹن پوسٹ'' میں ایک مضمون نگار نے لکھا، راموس تنازعات کھڑے کرنے کی لت میں گرفتار ہے، جیسے کہ اس کا تازہ ترین ہدف، ڈونالڈ ٹرمپ بھی ہے۔ راموس کا رویہ صحافت سے مختلف تھا۔ وہ امیگریشن پالیسی میں اصلاحات کی جس طرح پیروکاری کررہا ہے اس نے جرنلسٹ اور ایکٹوسٹ کے درمیان خط فاصل کو دُھندلا دیا ہے۔''

امریکی میڈیا کی تمام برگزیدہ اور مقدس ہستیوں کا یہی فرمان ہے۔ یہ وہ برگزیدہ اور مقدس ہستیاں ہیں جو اس وقت اس خط فاصل کو خوشی خوشی پھلانگ جاتی ہیں، جب وائٹ ہاؤس کے ظالم حکم راں دنیا کے کونے کونے میں سفاکی کی داستانیں رقم کرتے ہیں۔ اُس وقت ان برگزیدہ ہستیوں کو سپرپاور کی جلالت میں اپنی عظمت کے نقوش بھی جھلملاتے دکھائی دیتے ہیں۔ تب انھیں یاد نہیں رہتا کہ ان کی تحریروں، رپورٹوں اور تجزیوں میں نمایاں چال بازی ان کے ایکٹوسٹ ہونے کی چغلی کھا رہی ہے۔ ''معروضیت'' اور ''غیرجانب داری'' کے نام نہاد تقاضوں کو پامال کررہی ہے۔

معروضیت اور ''غیر جانب داری!!
تو اچھا جرنلسٹ وہ ہوتا ہے جو اپنی کوئی رائے نہیں رکھتا، سیاسی مباحث سے لا تعلق رہتا ہے، کبھی کسی فریق کا ساتھ نہیں دیتا، ہر موضوع پر انسانی احساسات سے بے گانہ ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مکروہ ترین نا انصافی اور ظلم کی صورت میں بھی اپنا کوئی کردار اسے نظر نہیں آتا؟ ایسے افضل صحافی ہمارے اپنے درمیان پاکستان میں بھی نظر آتے ہیں، جو بھیڑ کا لبادہ زیب تن رکھتے ہیں۔



اس وقت بھی جب خوں خوار حکم راں طبقات بھیڑیوں کی طرح بے بس لوگوں کی بوٹیاں نوچتے ہیں، کوئی پوچھے، ادھر اُدھر کیوں دیکھ رہے ہو، بغلیں کیوں جھانک رہے ہو۔ دراصل، اس وقت یہ معززین مناسب اور نفیس الفاظ کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہیں!! اور جب امریکی اور دوسرے مغربی صحافی اپنے ناپسندیدہ، تیسری دنیا کے کسی لیڈر کا انٹرویو کرتے ہوئے قصائی بن کر ان کی بوٹیاں نوچتے ہیں تو یہ لوگ تالیاں بجاتے ہیں، واہ واہ، یہ ہوتی ہے dashing journalsim۔

اعلیٰ صحافت کے اعلیٰ کمالات!!
ایسے پاکستانی صحافیوں کے آئیڈیل امریکی صحافی اسی کارخیر میں مشغول ہیں۔ اگر امریکی حکومت انکار کرے کہ ہم نے کسی پر تشدد نہیں کیا تو اس بیان کو سند کے طور پر پیش کیا جائے گا۔


اگر امریکی پولیس کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی غیرمسلح سیاہ فام باشندے کو معمولی شبہے پر بھی گولی کا نشانہ بناسکتا ہے تو اس فیصلے پر تنقید کے لیے خوب صورت استعارات اور علامات ڈھونڈتے رہو۔ ڈونالڈ ٹرمپ جیسا معزز صدارتی امیدوار منہ سے آگ اگلتے ہوئے اعلان کرے کہ وہ ایک کروڑ 17 لاکھ تارکین وطن کو زبردستی اپنی مقدس سرزمین سے باہر نکال دے گا، تو صحافت کی کتابِ اخلاقیات کے صفحات کا مطالعہ کرتے رہو کہ اس بیان پر ردعمل کس طرح ظاہر کیا جانا چاہیے۔

مشہور مصنف اور صحافی جیک شیفر نے چند سال قبل اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ ''حرب آزما اور 'ایکٹوسٹ' جرنلزم صدیوں سے چلی آرہی ہے اور اس کا ورثہ بہت مقدس ہے۔

یہ خیال کہ جرنلسٹ کو اپنی رائے ظاہر کرنے کے جذبے سے بلند ہونا چاہیے، بالکل نئی چیز ہے، یہ بانجھ غیرجانب داری ہے اور امریکی جرنلزم کی تیزی سے بڑھتی ہوئی Corporatization کا نتیجہ ہے۔ بڑی کارپوریشنوں کی فکر کا محور یہ اصول ہوتا ہے کہ کسی کو بھی، خاص طور پر بر سر اقتدار اور صاحب اختیار لوگوں کو، ناراض نہ کیا جائے، کیوں کہ دوسری صورت میں ان کے کاروباری مفادات کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ میڈیا کے جو ادارے کارپوریشنوں کے قبضے (یا ملکیت) میں ہیں، ان کے صحافیوں کو یہ ''فرض'' سکھایا جاتا ہے کہ کسی سے بھی تنازع یا تصادم کی نوبت نہیں آنی چاہیے۔''

جیک شیفر کا یہ تجزیہ پاکستانی صحافت پر بھی صادق آتا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ کارپوریٹ کلچر کی یلغار کے ساتھ ساتھ اس قسم کے رویے تقریباً پوری دنیا کے صحافیانہ حلقوں میں پروان چڑھ رہے ہیں۔ پاکستان میں ایک عرصے تک میڈیا پر حکومتِ وقت کا اجارہ رہا۔

پھر سرمائے کا زور بڑھا، اور مختلف کاروباری ادارے بھی اس نفع آور ''انڈسٹری'' کا رُخ کرنے لگے (صحافت کے لیے انڈسٹری کا لاحقہ اسی کارپوریٹ کلچر کا عطیہ ہے) اس کارپوریٹ کلچر کے زیرسایہ پاکستان میں جو صحافت پروان چڑھ رہی ہے، اس میں بانجھ غیر جانب داری، مصلحت پسندی، اور تنازع یا تصادم سے گریز کا درس ہی دیا جاتا ہے۔ مالکان کا اول و آخر مقصد اس انڈسٹری سے مال کمانا ہے، اس کے آگے کوئی مقصد نہیں ہے۔ دو طرفہ ستم یہ کہ اب یہاں اشتہاری دنیا بھی خبروں کو کنٹرول کر رہی ہے۔ شاید دوسرے ملکوں میں بھی ایسا ہوتا ہوگا، لیکن یہاں اس کا رنگ چوکھا ہے۔

بانجھ غیرجانب داری اور تنازع یا تصادم سے گریز کا ''زریں اصول'' ہماری ''پریس انڈسٹری'' میں کس مضحکہ خیز انداز میں اپنایا جاتا ہے اس کے لیے بے شمار جیتی جاگتی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ منڈی کے اشتہارات میڈیا کی پالیسی سازی کے عمل میں بلا واسطہ یا بالواسطہ نمایاں کردار ادا کررہے ہیں۔

اس پہلو سے قطع نظر کہ ہمارے میڈیا کے نام نہاد ''ضابطۂ اخلاق'' میں گم راہ کن اور جُھوٹے اشتہارات پیش کرنا جائز عمل ہے، اشتہارات کے پیچھے جو پیسے کا زور ہوتا ہے وہ خبروں کو اوپر نیچے کرنے یا گھٹانے بڑھانے کا سبب بنتا ہے۔ جو لوگ کالا دھندا کرتے ہیں وہ اخبارات میں نیک کام کرتے دکھائی دیتے ہیں، کیوں کہ وہ اپنی مصنوعات یا اشیاء کے اشتہارات فیاضی سے بانٹ سکتے ہیں۔ تمام سرکاری، نیم سرکاری اور نجی کمپنیوں کو اشتہار بازی کے طفیل یہ سہولت مل جاتی ہے کہ ان کی منفی سرگرمیوں کو نمایاں نہیں کیا جاتا یا پھر چُھپادیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے۔ چوں کہ یہاں اقتدار والے لوگ، سیاست والے لوگ کرپشن کرتے ہیں، اس لیے وہ میڈیا سے خائف رہتے ہیں۔

یوں میڈیا اپنی اندرونی خستہ حالی کے باوجود بڑا بااثر اور طاقت وَر نظر آتا ہے۔ اس طاقت اور اثر کا فائدہ اٹھانے کے لیے کارپوریٹ کلچر سے تعلق رکھنے والے متعدد لوگ میڈیا میں داخل ہوگئے ہیں۔

وہ اس لیے چینل اور اخبارات چلاتے ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں میں سرخ روئی حاصل کرسکیں۔ ایسے لوگوں کو صحافت کے ''مقدس'' مقام سے کوئی دل چسپی نہیں ہوتی، وہ صرف کسب زر کا شوق رکھتے ہیں، اور ان کی ''صحافتی طاقت'' انھیں تمام مثبت اور منفی سرگرمیوں کے دوران تحفظ فراہم کرتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ''ایگزیکٹ'' والوں کی جو واردات سامنے آئی تھی، اس کے پیچھے یہی مقصد کار فرما تھا، کالے دھندے کو چھپانے کے لیے میڈیا کی ملکیت کا ہتھیار استعمال کرنا۔ چناںچہ ان کے بعض خیر خواہوں نے کہا کہ ''ایگزیکٹ والے بے چارے سست روی کے باعث مارے گئے۔ اگر ان کا چینل کچھ پہلے چالُو ہوجاتا تو کون ان پر ہاتھ ڈال سکتا تھا۔ سب میڈیا والے کسی نہ کسی عنوان بدعنوانی میں ملوث ہیں، صرف ایگزیکٹ والوں پر تلوار کیوں چلی۔''

بدقسمتی سے ہر معاملے میں ہماری تربیت کے مراکز مغرب اور خاص طور پر امریکا میں پائے جاتے ہیں، جہاں ہر قدر کا تعین اب زر کی چمکیلی طاقت کی بنیاد پر ہورہا ہے۔ کارپوریٹ کلچر اس نئی زندگی کی نئی اقدار کے لیے نئے بہانوں کی تعمیروتشہیر کر رہا ہے، جو دراصل ابن آدم کے تہذیبی سفر کی پستی کا منظر ہے۔

کارپوریٹ کلچر نام نہاد معروضیت، غیرجانب داری اور Pragmatism کی فصیلیں کھینچ رہا ہے، کہ ان کے باہر نکلنا نئی تہذیب کے نئے تقاضوں کے پیش نظر ممنوع قرار پایا ہے۔ اسی Pragmatism کے تحت سیاسی حلقوں میں امریکی انتظامیہ کے حق میں بولنے کی راہ بھی ہم وار کی جاتی ہے، جو ارض عالم کے سینے پر خوف ناک ترین گھاؤ لگاتی رہی ہے۔

بہ ہر حال، یہ ایک غور طلب مسئلہ ہے کہ انسانی تہذیب کا سفر گھناؤنے کارپوریٹ کلچر کی تاریکیوں میں گم ہوجائے گا یا نئے راہ رَو مصلحت اور خوف اور موقع پرستی کی یلغار روکنے کے لیے نئی فصیلیں تعمیر کریں گے اور ظلم کرنے والی طاقتوں کے چہرے بے نقاب کرنے کے لیے مجہول Pragmatism یا معروضیت کی موت کا سامان ایجاد کریں گے۔

بہ ہر حال، یہ جدوجہد اب بھی جاری ہے۔ جورگے راموس نے ڈونالڈ ٹرمپ کو جو آئینہ دکھایا ہے، وہ اس کا ایک ثبوت ہے۔ سیاہی میں ڈوبے ڈونالڈ ٹرمپ جیسے کرداروں کو معروضیت کی آڑ میں تحفظ فراہم نہیں کیا جانا چاہیے۔ جورگے راموس نے ایک سفاک طاقت کے سفاک نمائندے کے خلاف آواز اٹھائی، اس کی حمایت میں بخالت نہیں کی جانی چاہیے۔

کم زور پاکستان کے میڈیا والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ طاقت وَر ضرورت پڑنے پر معروضیت کے نئے پیمانے تراش لیتا ہے، اور اپنی کھلم کھلا جانب داری کے لیے بھی منطق اور دلیل کے پُرکشش پہاڑ کھڑے کردیتا ہے۔ اسی لیے آج امریکا کا مین اسٹریم میڈیا آخری تجزیے میں موضوعی اور داخلی خواہشات کے حصار سے باہر نہیں نکلتا اور اس کا یہی رویہ غارت گر امریکی سام راج کو سہارا دیتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں میڈیا والے اپنی تجزیہ کاری میں محض ان مغربی چال بازوں کی نقالی کا فرض انجام دیتے نظر آتے ہیں۔

رپورٹنگ کرتے وقت یا تجزیہ پیش کرتے ہوئے حقائق اور واقعات میں کمی بیشی یا جُھوٹ اور خوشامد کی آمیزش نہیں کی جانی چاہیے۔ یہ بد ترین فعل ہے۔ ''لطافت، نفاست اور معروضیت'' میں کوئی بُرائی نہیں لیکن عُریاں سفاکی کے سامنے صحافی کو نفاست اور لطافت کی چُوسنی اپنے منہ سے نکال کر باہر پھینک دینی چاہیے۔

پریس کانفرنس میں کیا ہوا؟
1916 کے صدارتی انتخابات میں ری پبلکن پارٹی کی طرف سے ٹکٹ کے امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ اور اسپینی نژاد مشہور صحافی جورگے راموس کے درمیان جھڑپ کا آغاز کیسے ہوا، اس کی تفصیل سامنے آچکی ہے۔

پریس کانفرنس کے دوران راموس نے کھڑے ہوکر نرم لہجے میں کہا، ''میرے پاس ایک سوال ہے! آپ نے ایک کروڑ دس لاکھ لوگوں کو امریکا سے باہر نکالنے کا عندیہ کس بنیاد پر دیا؟'' ٹرمپ نے جواب دیا، ''اپنی باری کا انتظار کرو۔'' اور پھر تیزی سے بولا، ''یونی ویژن'' (جس چینل میں راموس ملازم ہے) جاؤ، واپس جاؤ۔''

راموس اپنی جگہ ڈٹا رہا، اس نے پھر شایستگی سے کہا، ''آپ میکسیکو کی سرحد پر دیوار کیسے کھڑی کریں گے اور امریکا میں پیدا ہونے والے بچوں کو کیسے باہر نکال سکتے ہیں؟'' ٹرمپ نے اپنے پیچھے کھڑے ایک لمبے تڑنگے آدمی کو اشارہ کیا۔ اس آدمی نے جاکر راموس کا کاندھا پکڑا اور اسے پیچھے کی طرف دھکیلتے ہوئے باہر لے جانے لگا۔ راموس نے کہا، ''مجھے ہاتھ مت لگاؤ۔ میں ایک رپورٹر ہوں۔

میں سوالات کرنے کا حق رکھتا ہوں۔'' پھر ہال وے میں ٹرمپ کے عملے سے تعلق رکھنے والا ایک آدمی اس سے بِھڑ گیا۔ اس نے دانت پیستے ہوئے کہا، ''یونی ویژن' میرے ملک سے باہر نکل جاؤ'' راموس نے کہا کہ میں امریکا کا شہری ہوں۔ اس پر اس آدمی نے کہا، ''تم جو کچھ ہو، اس ملک سے باہر نکل جاؤ۔'' تھوڑی دیر کے بعد عملے کی ایک رکن راموس کے پاس آئی اور پوچھا، ''آپ پریس کانفرنس میں واپس جانا چاہتے ہیں؟ مجھے یقین ہے، آپ کو واپس بلایا جائے گا۔''

راموس واپس آیا تو ٹرمپ نے کہا، ''اچھا ہوا، تم آگئے۔'' راموس نے کہنا شروع کیا، ''آپ ایک کروڑ دس لاکھ لوگوں کو باہر نہیں نکال سکتے۔''

ٹرمپ نے کہا، ''بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کانگریس قانون منظور کرے تو ایسا ہوسکتا ہے۔'' پھر اس نے کہا، ''عورتیں بچے پیدا کرنے کے بعد دوسرے ہی دن سرحد پار کرنے (میکسیکو سے) آجاتی ہیں۔'' پھر اس نے ان بچوں کے بارے میں ہتک آمیز اصطلاح ''اینکر بے بی'' استعمال کرتے ہوئے بتایا کہ بعض بڑے قانونی ماہرین نے اس تھیوری کی تائید کی ہے۔

راموس نے کہا، ''کوئی شخص 1900 میل لمبی دیوار تعمیر نہیں کرسکتا۔'' ٹرمپ نے جواب دیا، ''میں ایک بلڈر ہوں۔ (اس کا ریئل اسٹیٹ کا بہت بڑا کاروبار ہے) ''94 منزلہ بلڈنگ تعمیر کرنے والے کو 95 منزلہ بلڈنگ کھڑی کرنے میں کیا مشکل پیش آسکتی ہے۔'' پھر وہ سرحد پار سے منشیات کی اسمگلنگ کا ذکر کرنے لگا۔ اس نے راموس سے کہا، ''تم اتفاق کرتے ہو کہ ... فوٹو گراف موجود ہیں ... منشیات باڑ کے اوپر سے لائی جاتی ہیں۔'' اس نے کہا کہ سرحد پر متعین گشت کرنے والے ہمارے سپاہیوں کو اجازت نہیں دی جارہی کہ وہ لوگوں کو اس طرف آنے سے روکیں۔

راموس نے پوچھا کہ کیا آپ اس کے لیے فوج طلب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ ٹرمپ نے بات کا رخ موڑتے ہوئے کہا، '' تم اتفاق کرتے ہو کہ وہاں (سرحد پر) بدمعاشوں کے ٹولے سرگرم عمل ہیں۔ کیا تم اتفاق کرتے ہو کہ ان میں کچھ بُرے لوگ بھی ہیں یا تم سب کو بے خطا سمجھتے ہو؟''

راموس کے پاس مائیک نہیں تھا، اس نے اپنا سوال دہرانے کی کوشش کی، ٹرمپ نے جواب دیا، ''میں اس سلسلے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔'' اور پھر وہ دوسرے رپورٹر کی طرف متوجہ ہو گیا۔

ٹرمپ نے یونی ویژن والوں پر پہلے ہی ایک مقدمہ دائر کر رکھا ہے، کیوں کہ انہوں نے میکسیکن لوگوں کے خلاف زہر افشانی کرنے پر ٹرمپ سے کیا گیا ایک کنٹریکٹ منسوخ کر دیا تھا۔ ٹرمپ نے راموس سے کہا، ''جانتے ہو، میں نے یونی ویژن والوں سے کتنا ہرجانہ طلب کیا ہے؟ اور تمہارا نام اس میں شامل ہے۔''

راموس نے جواب دیا، ''میں محض ایک رپورٹر ہوں۔'' ٹرمپ نے کہا، ''پانچ سو ملین، جس سے وہ (یونی ویژن والے) پریشان ہیں اور میں اس صورت حال سے آسودگی محسوس کر رہا ہوں۔'' ٹرمپ اسی قسم کا آدمی ہے۔ اس نے اعلان کر رکھا ہے کہ تارکین وطن جو رقوم میکسیکو بھیجتے ہیں، صدر بننے کے بعد وہ انہیں ضبط کر لے گا۔ جب راموس نے اس سے کہا، اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو نکالنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی تو ٹرمپ نے جواب دیا، ''میں تم سے بڑا دل رکھتا ہوں۔ ہم انہیں بڑے انسانی انداز میں بے دخل کریں گے۔''

اگلے روز راموس نے یونی ویژن کے ایک پروگرام میں میزبانوں سے کہا، ''مجھے امید ہے کہ آپ لوگوں سے گفتگو ٹرمپ سے گفتگو کرنے کے مقابلے میں آسان ہوگی۔''

اس پروگرام میں راموس سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اپنی باری آنے سے پہلے بول اُٹھے تھے۔

اس پر راموس نے وضاحت کی کہ پریس کانفرنسیں کس کس نوعیت کی ہوتی ہیں۔ ''بعض اوقات رپورٹروں کو دعوت دی جاتی ہے، بعض اوقات رپورٹر از خود سوالات کرتے ہیں۔ جب میں سوال کرنے اٹھا تو اس وقت کوئی اور نہیں بول رہا تھا۔ اسے میرا سوال پسند نہیں آیا، اور وہ میرا منہ بند کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ میرے تیس سالہ صحافتی کیریئر میں یہ پہلا واقعہ ہے، جب مجھے کسی پریس کانفرنس سے نکالا گیا۔

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ ڈونالڈ ٹرمپ کا ملک نہیں، ہمارا ملک ہے!! اگر ہم ٹرمپ کے خیالات پر سنجیدگی سے دھیان نہیں دیں گے تو یہ ایک سنگین غلطی ہوگی۔ اگر ہم رپورٹر کھڑے نہیں ہوں گے، مشکل سوالات نہیں اٹھائیں گے تو اپنے فرض سے غفلت کریںگے۔'' راموس سے سوال کیا گیا، ''کیا آپ کے خیال میں ٹرمپ ملک کا اگلا صدر ہوسکتا ہے؟''

راموس نے جواب دیا، ''اگر ہم ٹرمپ کے معاملے پر سنجیدگی سے غور نہیں کریں گے تو یہ ایک سنگین غلطی ہوگی۔ کئی ملین امریکی ٹرمپ جیسی سوچ رکھتے ہیں اور یہ بہت خطرناک بات ہے۔ وہ تارکین وطن کو مورد الزام ٹھیراتے ہیں۔ ہمیں پس پائی قبول نہیں کرنی چاہیے۔ پورے لاطینی امریکا سے تعلق رکھنے والے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ووٹرز پولنگ کے لیے جائیں گے، یہ بات بہت اہم ہے کہ وہ جائیں اور اپنا ووٹ ضرور ڈالیں۔''
Load Next Story