سگریٹ شراب اور موٹاپے کے باعث یورپی شہریوں کی اوسط عمریں کم ہورہی ہیں عالمی ادارہ صحت

یورپ کے مختلف ممالک میں متوقع زندگی کی شرح میں گزشتہ 11 سال میں بہت کمی آئی ہے، رپورٹ

یورپ کے مختلف ممالک میں متوقع زندگی کی شرح میں گزشتہ 11 سال میں بہت کمی آئی ہے، رپورٹ، فوٹو:فائل

عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ یورپ بھر میں سگریٹ اور شراب نوشی کی بڑھتی ہوئی عادت اور موٹاپے کی وجہ سے لوگوں کی اوسط عمر میں کمی واقع ہو رہی اور اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو آئندہ نسلوں کی عمریں اور بھی کم ہوجائیں گی۔

عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سے قبل یورپ کے لوگ لمبی عمریں جیتے تھے اور یہاں قبل ازوقت موت کی شرح کم تھی لیکن اب سگریٹ نوشی کے خطرناک حد تک بڑھتے ہوئے رجحان، حد سے زیادہ شراب نوشی اور موٹاپے پن کے باعث اوسط عمروں میں تیزی سے کمی ہورہی ہے جب کہ یورپ کے مختلف ممالک میں متوقع زندگی کی شرح میں گزشتہ 11 سال میں بہت کمی آئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس مطالعہ کے دوران گزشتہ 3 سال کے دوران 39 یورپی ممالک اور روس سے آزادی حاصل کرنے والی وسطی ریاستوں کے ممالک کے لوگوں کی عمروں کا جائزہ لیا گیا۔


رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جان لیوا بیماریوں جیسے کینسر، دل کی بیماریوں، شوگر اور سانس کی بیماریوں سے اموات کی شرح بڑھ رہی ہے کیوں کہ الکوحل، سگریٹ نوشی اور موٹاپے پن میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور اگر اس عادت کو قابو نہیں کیا گیا تو اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ آئندہ یورپی نسلیں کم زندگی جیئیں گی اور صحت مند زندگی گزارنے والے یہ لوگ جلد موت کو گلے لگانے لگیں گے۔

رپورٹ کے مطابق یورپ میں شراب اور سگریٹ نوشی دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے، یورپ کا ہر شخص 11 لیٹر شراب سالانہ پی جاتا ہے جب کہ 30 فیصد یورپی باشندے سگریٹ نوشی کے عادی ہیں، ان دونوں اسباب کے علاوہ موٹاپے پن نے بھی یورپی لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور 59 فیصد یورپی موٹاپے سے پریشان ہیں اور ان کی تعداد امریکی موٹوں سے کچھ ہی کم ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر اسٹین کا کہنا ہے کہ یورپ کے لوگوں کو اپنے لائف اسٹائل کو تبدیل کرنا چاہیے اگر ایسا نہ کیا گیا تو آئندہ نسلیں کم زندگی پائیں گی۔ ان کاکہنا تھاکہ اگرایسا ہوا تو یہ آئندہ نسلوں کے لے انتہائی افسوسناک ہوگا۔ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ اس سب کے باوجود ہالینڈ، یونان، اٹلی، روس بلغاریہ میں سگریٹ نوشی میں واضح کمی ہوئی ہے تاہم موٹاپے کے شکار لوگوں کی تعداد 3 گنا بڑھ گئی ہے اور یہ اور بھی خطرناک ہے اس لیے اگر اسے نہ روکا گیا تو 2050 تک 50 فیصد برطانوی باشندے موٹاپے کا شکار ہوجائیں گے۔
Load Next Story