ڈاکٹرابواعجازرستم کی علمی اورتبلیغی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی

’’انسان اﷲ تعالیٰ کے جلال اور جمال کا براہ راست متحمل نہیں ہوسکتا‘‘

ڈاکٹر اعجاز کی خدمات جلیلہ کی وجہ سے ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ افوٹو : فائل

پچھلے12 برسوں میں ''ایکسپریس سنڈے میگزین'' سے وابستہ قارئین میں سے کوئی بھی شخص ''ڈاکٹر ابو اعجاز رستم'' کے نام سے ناواقف نہ ہوگا۔ عشق مصطفیﷺ اور فیضان اولیائے کرامؒؒ کو اپنی علمی بصیرت اور تحریر و تصانیف کے ذریعے عوام الناس تک پہنچانے کے لیے ان کی خدمات کو ہمیشہ سراہا جاتا رہے گا۔

سنڈے ایکسپریس میں شایع ہونے والا اولیائے کرامؒ کی سوانح حیات پر مبنی سلسلہ ''پراسرار بندے'' مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچا۔ بالخصوص طریقت و تصوف کے طالبوں کے لیے یہ مضامین معاون کی حیثیت اختیار کر گئے تھے اور لاکھوں وابستگان نے معرفت کے اس چراغ سے روشنی حاصل کی اور اس سلسلے سے فیض یاب ہونے والوں میں، میں بھی شامل ہوں۔ افسوس کہ پچھلے برس ڈاکٹر صاحب دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کر گئے۔ یہ تحریر انہیں خراج تحسین پیش کرنے کی ادنیٰ کاوش ہے۔

''ڈاکٹر ابو اعجاز رستم'' کا اصل نام رستم علی تھا۔ آپ ہارون آباد ضلع بہاول نگر میں 1941میں پیدا ہوئے۔ آپ نے مصر کی جامعہ الازہر سے اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی۔ ڈاکٹر صاحب کی ساری زندگی علم و عرفان اور روحانیت کے اس سفر پر گا مزن رہی کہ جس کی منزل بارگاہ الٰہی اور بارگاہ مصطفی ﷺ میں رسائی اور رضا کا حصول تھی اور سلسلۂ مضامین ''پراسرار بندے'' کی مقبولیت اور وابستگان کی آپ سے عقیدت کام یابی کی سند ہے۔

جناب خان آصف مرحوم اس سلسلے کے پہلے مصنف تھے، جن کی وفات کے بعد یہ سلسلہ ٹوٹ گیا۔ اسی لیے روزنامہ ایکسپریس نے اپنے قارئین کی اس سلسلے میں دل چسپی کو محسوس کرتے ہوئے اسے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور یوں یہ ذمے داری 2004 میں ''ڈاکٹر ابو اعجاز رستم'' کو سونپی گئی۔

ان کی تحریروں سے قارئین کی دل چسپی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ہر ہفتے ان کے مضامین میں ایک نئے موضوع اور ایک نئی صاحب ولایت ہستی کے سوانح حیات کا ذکر ہوتا اور اس طرح ڈاکٹر صاحب نہ صرف برصغیر پاک و ہند بل کہ عالم اسلام کے تقریباً تمام ہی صوفیائے کرام کا تذکرہ اپنے مضامین میں کیا۔ مستند تحقیق، حالات اور واقعات پر مکمل تسلی کرلینے کے بعد آپ حقائق پیش کرتے تھے۔ آپ نے لکھا تھا،''یہ مضامین میرے پاس امانت ہیں جسے حرف بہ حرف سچائی اور خلوص نیت کے ساتھ لوگوں کو منتقل کرنا ہی امانت کا حق ادا کرنا ہے۔''

یہاں ڈاکٹر صاحب کی حکمت سے بھری باتوں میں سے چند کا ذکر کرنا چاہتی ہوں جو یقیناً ہم سب کے لیے مشعل راہ ہیں۔ عشق مصطفی ﷺ اور کاملین کی تلاش کے متعلق آپ نے لکھا:

''شناخت اور تلاش کاملین بہت آسان کام ہے اپنے اردگرد دیکھیں جو ''خیر'' کے ساتھ جڑا ہوا ہے وہی کامل ہے۔ اسی کے ساتھ جُڑ جائیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ یہی تو پتا نہیں کہ ''خیر'' کیا ہے اور ''شر'' کیا ہے تو یاد رکھیں تلاش حق کا سفر خیروشر اور حق و باطل کی تمیز سے شروع ہوتا ہے۔ اس میں بڑی آسانی ہے۔

کلمہ طیبہ کلمہ خیر کلمہ حق ہے۔ مطلب اس کا یہ ہے حکم مبارک اﷲ سبحان و تعالیٰ کا طریقہ محمد الرسول اﷲ ﷺ کا یہ خیر ہے یہ حق ہے اور جو کوئی اس مقصد پر استقامت کے ساتھ قائم ہے وہی کامل ہے اور اگر ایسا کوئی نظر نہیں آتا تو اس مقصد پر خود ہی ڈٹ جائیں۔ آپ خود ہی کامل ہوجائیں گے کسی کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہ بیٹھیں۔''


انھوں نے ایک اور جگہ تحریر کیا،''انسان اﷲ تعالیٰ کے جلال اور جمال کا براہ راست متحمل نہیں ہوسکتا۔ حضور سیدالانبیا ﷺ ہمارے اور ذات باری تعالیٰ کے درمیان رحمت کی چادر ہیں۔ رحمت ربانی میرے جیسے گناہ گاروں پر خرچ بھی ہوتی رہتی ہے اور بڑھتی بھی رہتی ہے۔ اﷲ جل جلالہ کا قانون 'تکریم انسانی' کا قانون ہے۔ شیطان کا مقصد تذلیل و توہین انسانی ہے۔ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کی توہین برداشت نہیں کرتا انسان کو یہ تکریم بھی انسان کامل آقائے کائنات ﷺ کے صدقے میں ملی ہے۔''

''ولی، اولیاء ولایت ایسے الفاظ ہیں جو ہم روزانہ سنتے اور بولتے ہیں ولی کیا ہوتا ہے؟ کار ولایت کیا ہے یہ ہر کوئی اپنے قیاس پر دیکھتا ہے لیکن ہر کسی کے قیاس میں یہ بنیادی تصور موجود ہوتا ہے کہ عالی مقام اور 'پر اسرار بندے' ہوتے ہیں۔ تقویٰ دو چیزوں کا مرکب ہے۔ ایک اﷲ کے قرب کا شوق اور دوسرا اس کی پکڑ کا خوف۔ شوق کا تعلق امربالمعروف سے ہے، خوف کا تعلق نہی عن المنکر سے ہے۔''

ایسی بہت سی پُراثر تحریریں آپ نے لکھیں جن کو پڑھ کر ایک عجب طرح کی روحانی سرخوشی پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ ڈاکٹر ابو اعجاز رستم کی تصانیف میں تعارف انسانیت، حق جہاد کلمہ حق، الصلوۃ المعراج المومنین، مقام النبیؐ و احترام النبیؐ اور مقام النساء فی الاسلام شامل ہیں۔

ستمبر 2012 تک ڈاکٹر صاحب سنڈے ایکسپریس سے وابستہ رہے اور اس سلسلے کے تمام مضامین کو ''پر اسرار بندے'' ہی کے نام سے تین جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب میں جمع کردیا۔ بلاشبہہ یہ ایک اعلیٰ علمی قدم تھا جسے اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ توفیق سے ڈاکٹر صاحب ہی نے اٹھایا اور کتاب کی صورت علم و عرفان سے بھرپور خزانہ روحانیت کے طالب علموں کے لیے وقف کرگئے اور اپنے لیے صدقہ جاریہ کے اسباب چھوڑ گئے۔

ڈاکٹر ابواعجاز رستم اچھے قلم کار ہی نہیں تھے، ان کی شخصیت بھی حسن اخلاق کا پیکر تھی۔ وہ نہ صرف اپنے اہلِ خانہ اور رفقا کے لیے سراپا شفقت تھے، بل کہ ہر وہ انسان جو پہلی مرتبہ آپ سے ملتا وہ دوبارہ ملنے کا اشتیاق رکھتا۔

ڈاکٹر صاحب ظاہری شان و شوکت اور پروٹوکول کے ہر گز قائل نہ تھے۔ ہمیشہ عاجزی اور انکساری کے ساتھ زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے تھے۔

ڈاکٹر صاحب کی ذاتی زندگی کے متعلق مزید جاننے کے لیے آپ کے احباب سے رابطہ کیا تو سب سے قریبی ساتھی ممتاز احمد نے بتایا کہ مجھے پندرہ برس تک ڈاکٹر صاحب کی سنگت کا شرف حاصل رہا ہے۔ مجھے تلاش حق میں کسی راہ نما کی ضرورت تھی میرا ذہن الجھنوں کا شکار تھا اور عجیب و غریب سوالات ہر وقت ذہن میں ابھرتے رہتے تھے۔

ایسے میں ڈاکٹر صاحب کو اﷲ تعالیٰ نے ایک مہربان راہ نما کی طرح میری زندگی میں بھیجا اور پھر جیسے ہر سوال کا جواب ملنے لگا۔ آپ کا اصلاحی طریقہ سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت کے عین مطابق تھا۔ وہ سختی سے عمل کروانے کے قائل نہیں تھے۔

الغرض اﷲ کے انعام یافتہ اور پر اسرار بندوں کا تذکرہ کرتے ڈاکٹر صاحب خود بھی انہی لوگوں کی صف میں کھڑے ہوگئے۔ آپ کی علمی، تحقیقی، تصنیفی، تبلیغی و سماجی خدمات پر آپ کو جس قدر خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔ آپ کی خدمات جلیلہ کی وجہ سے آپ کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اﷲ تعالیٰ ڈاکٹر اعجاز رستم کو جنت الفردوس کی اعلیٰ راحتیں نصیب فرمائے۔
Load Next Story