پاکستان چلانا ہے تو اسے درجن بھر صوبوں میں تقسیم کرنا ہوگا جاوید ہاشمی
جنرل اقتدار میں آکر صفائی کرتے ہیں، سیاست دان خود کو مضبوط کرنے میں لگ جاتے ہیں، جاوید ہاشمی
حقیقی جمہوریت کے علمبردار مخدوم جاوید ہاشمی مدینتہ الاولیاء (ملتان) کے نواحی علاقے مخدوم رشید میں جولائی 1949ء میں پیدا ہوئے۔ ان کا شجرہ نسب مذہبی شخصیت مخدوم عبدالرشید حقانیؒ سے ملتا ہے اور مخدوم جاوید ہاشمی ان کے دربار کے سجادہ نشین ہیں۔ وہ ابتدائی تعلیم کے بعد 1970ء کے اواخر میں جامعہ پنجاب سے متعلق ہوئے، جہاں سے انہوں نے سیاسیات اور فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کیں۔
سینئر سیاست دان نے عملی سیاست کا آغاز بھی جامعہ پنجاب میں طلبہ تنظیم سے کیا اور یہیں سے عوامی اور مزاحمتی سیاست کا آغاز کرتے ہوئے بنگلہ دیش نامنظور تحریک میں شمولیت کرکے شہرت حاصل کی۔ وہ 1977ء میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف چلنے والی پاکستان قومی اتحاد کی تحریک میں پیش پیش رہے۔
اس موقع پر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں برطانیہ میں ہائی کمشنر بنانے کی پیش کش کی، جو انہوں نے اپنے مزاج کے عین مطابق ٹھکرا دی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد اس وقت کے سابق فوجی صدر جنرل (ریٹائرڈ) ضیاء الحق کی کابینہ میں جاوید ہاشمی وزیر بھی رہے، تاہم بعدازاں وہ وزیر بننے کے اقدام پر افسوس کا اظہار کرتے رہے۔ 1977ء میں جاوید ہاشمی لاہور سے قومی اتحاد کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے امیدوار بنے، لیکن قومی اتحاد نے انتخابات کا ہی بائیکاٹ کر دیا۔ بزرگ سیاست دان نے کچھ عرصہ ایئر مارشل (ریٹائرڈ) اصغر خان کی جماعت تحریکِ استقلال میں گزارا اور بعد میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔
انہوں نے انتخابی سیاست کا آغاز 1985ء میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات سے کیا اور رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوگئے۔ بعدازاں وہ 1990ء، 1993ء اور 1997ء میں بھی قومی اسمبلی پہنچنے میں کامیاب رہے۔ اس دوران وہ نواز حکومت میں دو بار وزیر بنے۔ 12 اکتوبر 1999ء میں جنرل (ر) مشرف نے نواز حکومت کا تختہ الٹا تو انہوں نے بھرپور مزاحمت کی، جس کا خمیازہ انہیں تقریباً 6 سال (مشرف دور) جیل میں گزار کر بھگتنا پڑا۔ اکتوبر 2003ء میں انہیں بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا گیا، جس میں انہیں قید کی سزا سنائی گئی، تاہم اس فیصلہ پر تمام اپوزیشن جماعتوں نے تاسف کا اظہار کیا۔
اس ضمن میں جاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ مجھے واقعہ کارگل پر کمیشن بنانے کے مطالبے پر جیل ہوئی۔ وہ دوران قید 2002ء کے عام انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے ملتان اور لاہور سے کھڑے ہوئے تاہم ملتان میں وہ اپنے روایتی حریف شاہ محمود قریشی سے ہار گئے، جبکہ لاہور سے رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوگئے۔ اسیری کے دوران انہوں نے دو کتابیں ''ہاں! میں باغی ہوں'' ''تختہ دار کے سائے تلے'' بھی لکھیں۔ اگست 2007ء میں انہیں سپریم کورٹ سے ضمانت ملی تو 3 نومبر 2007ء کو سابق صدر پرویز مشرف کے ''ہنگامی حالت'' کے اعلان کے بعد وہ پھر گرفتار ہو گئے۔
2008ء کے عام انتخابات میں انہیں ن لیگ نے چار نشستوں سے الیکشن لڑایا تو انہوں نے تین میں میدان مار لیا۔ بعدازاں پارٹی پالیسیوں سے اختلافات پر دسمبر 2011ء میں انہوں نے مسلم لیگ نواز سے دو عشروں سے زائد عرصہ پر محیط رشتہ توڑ کر پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی۔ جاوید ہاشمی پر جولائی 2010ء میں فالج کا شدید حملہ ہوا تاہم قدرت نے انہیں صحتیابی عطا فرمائی۔ 2013ء کا الیکشن انہوں نے پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے لڑا اور ساتویں بار کامیاب ہو کر قومی اسمبلی پہنچ گئے۔ پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کے وقت انہوں نے چیئرمین تحریک انصاف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''آپ نے ایک باغی کو پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی ہے اور اگر آپ نے اپنے منشور کے مطابق کام نہ کیا تو سب سے پہلے میری بغاوت کا سامنا کرنا پڑے گا۔''
سابق رہنما پی ٹی آئی نے گزشتہ برس اکتوبر 2014ء میں تحریک انصاف کے دھرنے کی حکمت عملی سے نالاں ہو کر نہ صرف پارٹی سے فاصلے بڑھا لئے بلکہ اسمبلی رکنیت سے بھی مستعفی ہو گئے۔ مخدوم جاوید ہاشمی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ پاکستانی سیاست کے واحد سیاست دان ہیں، جو ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں (ن لیگ، پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی) میں سے دو کے صدر رہ چکے ہیں۔ ملک، قوم اور جمہوریت کے لئے تقریباً 33 بار جیل کی ہوا کھانے والے بزرگ سیاست دان سے ''ایکسپریس'' نے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا، جو نذر قارئین ہے۔
ایکسپریس: سیاست کے میدان میں آپ نے4 عشروں سے زائد وقت گزار دیا، تو اتنے وسیع تجربے کی روشنی میں فرمائیں کہ ملکی سیاست کا مستقبل کیا ہے، کیا یہ اسی طرح جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی رہے گی اور متوسط طبقے کو کبھی نمائندگی کا حق نہیں ملے گا؟
جاویدہاشمی:دیکھیں! جہاں تک میرے سیاسی کیریئر کی وسعت کا تعلق ہے تو میں 1967ء میں سابق صدر ایوب سے ملا، ظاہر ہے ان تک پہنچنے سے پہلے بھی مجھے چار پانچ سال لگے ہوں گے، تو یوں اس سے آپ میری سیاست کے عرصے کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ دوسری بات ملکی سیاست کے مستقبل کی تو پاکستان کی سیاست، خطے میںموجود دیگر ممالک یعنی بھارت اور چین وغیرہ سے مختلف ہے۔ یہاں ہم نے ایک نیا ملک بنایا، جس کے لئے تحریک چلائی گئی، اور یہ تحریک1947ء،1948ء تک تو عوام کی رہی، اس وقت ہماری فوج بھی نہیں تھی، صرف دو تین کرنل ہمارے تھے، سیاسی جماعتیں بھی نہیں تھیں۔
اُس وقت صرف بیورو کریسی ایک طاقت ور طبقہ تھا۔ پاکستان جب بنا تو پہلے دو تین سال سیاست دانوں کو حکومت ملی لیکن بعد میں بیوروکریسی نے ٹیک اوور کر لیا اور ان کے بعد فوج آ گئی، وزیر دفاع جنرل ایوب بن گئے، پھر یوں یہ سلسلہ چل پڑا۔ تو ایسے حالات میں ہم متوسط طبقے کی سیاست کی بات کریں تو مجھے یہ کہتے ہوئے شرمندگی ہو رہی ہے کہ متوسط طبقے کی سیاست کا پاکستان میں دور دور تک کوئی چانس نہیں ہے۔
بدقسمتی! سے ہماری سیاست کا حال یہ ہے کہ یہاں کوئی کاروباری شخص حکومت سنبھالے یا جنرل وہ فیوڈل(جاگیردار) بن جاتا ہے۔ جاگیرداری صرف زمینوں کا مالک ہونے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک سوچ ہے، جو پورے ملک میں غلبہ پا چکی ہے۔ مجھے بھی اچھا ڈرائینگ روم، اچھا گھر بنانا پڑا، جو کہ میں نہیں چاہتا، کیوں کہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو لوگ ووٹ بھی نہیں دیتے۔ یوں یہ ایک فضا بن چکی ہے، جس کے سامنے ہم نے ہتھیار گرا دیئے ہیں اور پھر ہم کہیں کہ یہ کلچر بدل جائے تو اس میں میرے پاس سوائے شرمندگے کے اور کچھ نہیں۔
ایکسپریس: وزیراعظم میاں نواز شریف کے ساتھ آپ کا محض سیاسی تعلق نہیں بلکہ ان کے پورے خاندان کے ساتھ احترام کا نہایت قریبی تعلق رہا۔ اس کے باوجود نواز لیگ سے دوری ہو گئی، حالانکہ جہاں اتنا قریبی تعلق ہوتا ہے، وہاں چھوٹی موٹی باتیں نظر انداز بھی کرنا پڑتی ہیں۔ پھر پارٹی چھوڑنے کے فیصلے پر عملدرآمد سے قبل خواجہ سعد رفیق نے آپ کو اپنے گھر بلایا جہاں ان کی اہلیہ کے علاوہ بیگم کلثوم نواز بھی موجود تھیں، لیکن آپ اپنے فیصلے پر قائم رہے۔
جاوید ہاشمی: بلاشبہ میاں نواز شریف کے ساتھ میرے تعلقات 1976-77سے ہیں، لیکن پارٹی چھوڑنے والی جو بات ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہاں میرے لئے ایسی فضا بنا دی گئی تھی کہ میں پارٹی میں کوئی کردار ادا نہیں کر پا رہا تھا اور یہ سب کچھ مجھ پر فالج کا حملہ ہونے سے پہلے ہی شروع ہو گیا تھا۔ اور ان سب باتوں کا ان کو بھی احساس تھا۔ تو اس وقت مجھے اپنی کم مائیگی کا شدید احساس ہوا کہ مجھ سے میری صلاحیتوں کے مطابق کام نہیں لیا جا رہا۔
مسلم لیگ ایک مضبوط جماعت بن چکی تھی اور اس کے پاس اقتدار بھی آچکا تھا، لیکن میرا جو خواب یا سوچ تھی وہ یہ تھی کہ ایک جماعت متوسط طبقے کی ہونی چاہیے، جو مجھے اس وقت تحریک انصاف نظر آئی، جسے لوگوں کی طرف سے بھرپور پذیرائی ملی، پھر یہ کہ عمران خان دیگر پارٹی قائدین سے بہت ساری چیزوں میں بہتر ہے، جو قیادت کی ذمہ داریاں اچھے طریقے سے نبھا سکتے ہیں۔
میں عمران خان کو زیادہ نہیں جانتا تھا، لیکن میں یہ سمجھتا تھا کہ ایک پارٹی اگر میری صلاحیتوں سے استفادہ نہیں کر رہی تو ایک متوسط طبقے کی جو پارٹی ہے اور وہ نوجوانون کی امنگوں کی ترجمان بھی نظر آتی ہے اور اچھی اپوزیشن بھی کر سکتی ہے، یہ نہیں کہ صرف اقتدار ہی چاہیں، میں نے تو کبھی ایسا سوچا بھی نہیں تھاکیوں کہ میں تو پہلے ہی اقتدار چھوڑ کر آیا تھا۔ تو یوں میں سمجھتا تھا کہ جب یہ پارٹی بن جائے گی تو حقیقی طور پر ٹو پارٹی سسٹم آ جائے گا۔
میں تاریخ کے اس موڑ پر کھڑا تھا جہاں پیپلزپارٹی، اپنے طرز حکومت کی وجہ سے متحرک پارٹی نہیں رہی تھی تو ایسے میں صرف ایک ہی پارٹی کی حکومت رہے تو میں اس کے حق میں نہیں تھا۔ میں نواز شریف کی عزت کرتا تھا، میں نے کہا کہ وہ میرے لیڈر تھے، ہیں، مگر تحریک انصاف کی صورت میں ٹو پارٹی سسٹم کا ہونا ضروری تھا۔ تو اس وقت عمران خان کوشش کر رہا تھا، میں نے سوچا کہ اس کے کیا مقاصد ہو سکتے ہیں؟ یہی ناں کہ ملک کے اندر نوجوانوں کی نمائندہ ایک مضبوط جماعت موجود ہو، جو اگر اپوزیشن میں ہو تو حکومت پر نظر رکھے اور اقتدار میں آئے تو عملی طور پر کوئی تبدیلی لائیں۔
ایکسپریس:مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میں ''مفاہمت'' کا پاکستان کو کوئی فائدہ بھی ہوا؟ پھر اس مفاہمت کے نتیجے میں ن لیگ اور پی پی میں سے کون سی جماعت خسارے میں رہی؟
جاویدہاشمی:نہیں! مفاہمت سے تو کسی کو خسارہ ہوتا ہی نہیں۔ اگر آپ یہ مفاہمت اس لئے کریں کہ اپنے آپ کو بچانا ہے تو یہ خودغرضی ہو گی، جس میں پھر نقصان بھی ہوگا۔ لیکن جب آپ ملک کو آگے لے جانے کے لئے مفاہمت کرتے ہیں، تو یہ ہمارے بہت ضروری ہے۔ کیوں کہ یہ کوئی کبڈی یا کرکٹ کا کھیل نہیں، ملک کا سوال ہے۔
یہ تو اس لئے ہے کہ اگر کوئی اچھا کام کر رہا ہے تو اس کو آپ سپورٹ کریں۔ لہذا میں تو اس مفاہمت کو بہتر سمجھتا ہوں۔ میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ یہاں تو مفاہمت کا یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ مل کر لوٹنا ہے یا خود کو بچانا ہے، حالاں کہ یہ تو مفاہمت نہیں ہے بلکہ مفاہمت تو ملک کو آگے لے جانے کے لئے ہوتی ہے، چاہے اس میں میرا نقصان ہی ہو جائے، لیکن میرے خیال میں یہ جماعتیں بلوغت کی اس سطح تک نہیں پہنچ سکیں۔
ایکسپریس: نواز شریف اور عمران خان کو آپ نے بڑے قریب سے دیکھا۔ ایک محب وطن کی حیثیت سے فرمائیں کہ وطن عزیز کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کی بہتر صلاحیت کس میں ہے؟
جاویدہاشمی: دونوں کی اپنی اپنی خوبیاں ہیں۔ نواز شریف سرد و گرم چشیدہ ہیں، تیسری بار وزیراعظم منتخب ہو چکے ہیں اور اس کے بعد میں کہوں کہ وہ مکمل سیاست دان ہو گئے ہیں تو یہ میں نہیں کہہ سکتا۔ دوسری طرف عمران خان میں بے انتہا خوبیاں ہیں، لیکن ان کے اندر ایک کھلنڈرا پن ہے، ان کی سوچوں کے زاویے وہی ہیں، وہ ملک کو بھی ایسے ہی دیکھتے ہیں، جیسے کرکٹ کو لیا جاتا، چھکا مارنا، وکٹ لینا، امپائر کی انگلی اٹھنا وغیرہ۔
ایکسپریس:مستقبل میں اپنی سیاست کے بارے میں آپ نے کیا فیصلہ کیا؟ ن لیگ میں شمولیت کا باقاعدہ اعلان کب کر رہے ہیں؟
جاویدہاشمی:میری عمر کا تقاضا ہے کہ میں سوچ کر فیصلہ کروں اور اس میں آپشنز بھی محدود ہیں۔ یہ تو طے ہے کہ میں نے پارٹی جوائن کرنی ہے، میں نے سیاست کرنی ہے۔
میرے پاس اپنی پارٹی بنانے کا بھی آپشن موجود ہے، جس کی کچھ وجوہات ہیں۔ میں شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ اس ملک کو دس، گیارہ، بارہ، تیرہ صوبوں میں تقسیم کر دیا جائے، کیوں کہ اس کے بغیر ملک چلتا نہیں ہے۔ دنیا میں پنجاب جیسا بڑا صوبہ نہیں، ایک بہار ہے، مگر وہ بھی تقسیم ہو رہا ہے۔ یہاں کے لوگوں کی بھی آواز ہے کہ صوبے بنائے جائیں اور ایسے ایشوز کی بنیاد پر میں اپنی پارٹی بنانے کا بھی سوچ سکتا ہوں۔ لیکن جہاں تک موجودہ حالات کا تعلق ہے، تو مسلم لیگ مجھ سے کبھی دور نہیں رہی۔ میں نے تحریک انصافمیں شمولیت کے وقت بھی کہا تھا کہ یہ میری وصیت ہے کہ مجھ مسلم لیگ کے پرچم میں دفنایا جائے۔
ایکسپریس: متحدہ مسلم لیگ کے لئے کی جانے والی کوششوں کے بارے میں کیا کہیں گے؟ ابھی گزشتہ دنوں پھر چوہدری شجاعت، حامد ناصر چٹھہ، غوث علی شاہ، دوست محمد کھوسہ وغیرہ کا اجلاس منعقد ہوا ہے۔
جاویدہاشمی: میں ان کے بارے میں بہت زیادہ نہیں جانتا لیکن میں عرض کروں کہ جہاں تک مسلم لیگ کا تعلق ہے، تو جس کا دل چاہتا ہے مسلم لیگ بنا لیتا ہے۔ آج میں مسلم لیگ ج بنا لوں لیکن کل مجھے سیکرٹری جنرل کے لئے کوئی بندہ بھی نہ ملے، تو اس طریقے سے پارٹی بنانا مشکل نہیں ہے، اسے چلانا مشکل ہے۔
ایکسپریس: کیا اس وقت مملکت پاکستان Soft Coup کے زیر اثر چل رہی ہے؟
جاویدہاشمی: دیکھیں! ملک کے اندر جو حالات و واقعات ہو رہے ہیں، جیسے کرپشن اور دہشتگردی ہے۔ کراچی انسانی گوشت کی سب سے بڑی منڈی بن چکا ہے، جہاں روزانہ سینکڑوں افراد مارے جا رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو وہاں رینجرز کا آنا اور ان کے اقدامات قابل قبول ہیں۔ کیوں کہ سیاسی قوتیں کمزور ہو گئی ہیں۔
آج کسی ایک قوت کا ملک سنبھالنا مشکل ہے اور یہ کسی کے بس میں بھی نہیں ہے۔ چاروں ستونوں میں سے کسی ایک نے بھی اگر حکومت سنبھالی تو ملک اسی روز بے قابو ہو جائے گا۔ خواہ نواز شریف چاہے کہ اس کی باتیں ایسی سنی جائیں جیسے شاہِ ایران کی سنی جاتی تھیں یا عسکری قوتیں کہیں کہ ان کی باتیں ایسے سنی جائیں جیسے ایوب، ضیاء الحق اور مشرف کی سنی جاتی تھی، یہ ممکن نہیں۔ بہت سارے تجربات سے گزرنے کے بعد اب جو تجربہ ہو رہا ہے، وہ زیادہ بہتر ہے کہ اپنی حدود کے اندر رہتے ہوئے مشاورت کے ذریعے کام کئے جائیں، تو اس لئے یہ حکومت نواز شریف کی ہے نہ راحیل شریف کی۔
پہلی دفعہ پاکستان کے اصل مسائل کو حل کرنے کا قابل عمل ایجنڈا وقت کے ساتھ ترتیب پا رہا ہے، لیکن اگر اس کے توازن میں خرابی آئی تو پاکستان کے مسائل بہت زیادہ بڑھ جائیں گے۔ اس لئے یہ حکومت کسی ایک کی نہیں، سب کی ہے اور سب کے لئے ہونی چاہیے۔ لیکن کسی ایک قوت کو مقررہ حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ اس وقت ملک میں مل جل کر کام ہو رہا اور یہی اس وقت پاکستان کی ضرورت ہے، کوئی ایک ستون تنہا حکومت نہیں کر سکتا۔ احتساب بھی ضروری ہے لیکن احتساب صرف سیاست دانوں کا نہیں ہونا چاہیے، جیسے آج کل ہو رہا ہے۔
ایکسپریس: حالیہ ضمنی الیکشن میں ایک آزاد امیدوار کے ہاتھوں آپ کی شکست کی کیا وجوہات ہیں؟ اس شکست میں بھی آپ نے اسٹیبلیشمنٹ کے چند افراد کا خصوصی طور پر ذکر کیا۔
جاویدہاشمی: میں نے جمہوریت کے فروغ کے لئے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا، لیکن سب سے پہلے سیاسی جماعتوں نے ہی میرے ساتھ تعاون نہیں کیا۔ پیپلزپارٹی نے اپنا امیدوار کھڑا کر دیا اور مولانا فضل الرحمن نے ان کی حمایت کر دی، جماعت اسلامی غیرجانبدار ہو گئی، مسلم لیگ ن نے تقریباً 22 روز کسی فیصلے تک پہنچنے میں لگا دیئے کہ اپنا امیدوار لانا ہے یا کسی کی حمایت کرنا ہے۔ تو میں تو صرف پولنگ بوتھ کی عزت کے لئے یہ سب کچھ کر رہا تھا۔
دوسرا اسٹیبلیشمنٹ کے حوالے سے میں بہت واضح باتیں کر چکا ہوں، جس کے میرے پاس ثبوت بھی موجود ہیں اور جب ضرورت پڑے گی تو وہ میں پیش کر دوں گا۔ میں نے تو یہ سب کچھ اس لئے برداشت کیا کہ جمہوریت اور پارلیمنٹ چلتی رہے، میں کسی کا دشمن نہیں۔ پھر میں ہارنے کے باوجود اگلے روز اسمبلی گیا اور گیلری میں بیٹھ کر ساری کارروائی دیکھی۔ میری اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ بھی کوئی دشمنی نہیں ہے،میں سمجھتا ہوں ان سے غلطیاں ہو جاتی ہیں، ابھی انہوں نے کراچی میں غلطی کی، جو نبیل گبول کو مستعفی کروا کر الیکشن لڑوایا کہ ہم ایم کیو ایم کو ہرا دیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دیکھیں! آج تک ہم کہتے تھے کہ ایم کیوایم کی ایک سیٹ بھی درست نہیں ہے، وہ ٹھپے لگا کر آتے ہیں۔ اب الیکشن ہو گیا تو ایم کیو ایم پھر زندہ ہو گئی کہ فوج کی موجودگی میں بھی انہیں ووٹ ملے ہیں اور اب ہم بھی مانتے ہیں کہ وہ جیت جاتے ہیں۔ اس لئے اسٹیبلیشمنٹ کو چاہیے کہ سیاست، سیاستدانوں پر چھوڑ دے۔ سیاسی کام ان اداروں کا نہیں ہے۔
ایکسپریس:کرپشن کے خلاف جاری کارروائیوں کے ضمن میں بتائیں کہ کیا کرپشن صرف سندھ میں ہو رہی ہے؟
جاویدہاشمی: دیکھیں! جہاں تک سندھ میں کرپشن کے خلاف کارروائی کی بات ہے، تو یہ ایسے نہیں ہے۔ پرویز مشرف جب آئے تھے تو انہوں نے سارا احتساب صرف پنجاب کی قیادت کا کیا، لیکن بعد میں ان سے صلح کر لی، وہ سب پاک صاف ہو گئے۔ جب تک مشرف سیاست میں نہیں آئے تھے، تو ان کا مقام بحیثیت جرنیل بہت بڑا تھا، لیکن جیسے ہی انہوں نے لانڈری لگا کر سیاہ کپڑوں کو سفید بنایا تو اس عمل کے دوران جو کالک تھی، وہ ان کے چہرے پر لگتی گئی۔ دوسرا یہ کارروائیاں ابھی شروع ہوئی ہیں، ابھی یہ آگے تک جائیں گی۔ دیکھیں! یہ سب کچھ یوں نہیں ہوتا، ان کا ایک بیک گراؤنڈ ہوتا ہے۔
اب میں جو دھرنے کے حوالے سے بات کرتا ہوں تو اس میں میرا کیا کردار تھا، ظاہر ہے یہ ایک دن کی بات نہیں تھی۔ عمران خان مجھے کہتا تھا کہ ''مارشل لاء نہیں لگے گا، یہ میری گارنٹی ہے۔سپریم کورٹ کے ذریعے الیکشن ہوں گے اور ہم آ جائیں گے۔'' میں نے کہا کہ ''یہ ایسا کیک نہیں جو ہم کھائیں گے، اور ایسی بھی کوئی بات نہیں کہ آپ کیلئے ساری تیاری کی جا رہی ہے(Things are not so simple) ہمارے ہاں فوراً مارشل لاء لگ جاتا ہے، نہ لگانا چاہیں تب بھی لگ جائے گا، کیوں کہ حالات ہی ایسے پیدا کر دیئے جاتے ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ مارشل لاء لگانے والے بددیانت اور ملک دشمن ہوں۔ ہم حالات ہی ایسے پیدا کر دیتے ہیں کہ کوئی آ جاتا ہے اور باقی لوگ ان کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ ہم ایسے اقدامات کریں گے کہ نواز شریف سرنڈر کر جائے اور دوبارہ الیکشن ہوں، بصورت دیگر اس کھیل میں ہم بھی ساتھ سرنڈر کرنے جا رہے ہیں، تم اب ایک لیڈر ہو، جو آسانی سے نہیں بنا جا سکتا، اگر یہ کام ہو گیا تو پھر تم بھی کہیں نظر نہیں آؤ گے۔'' میں آپ سے یہ عرض کر رہا ہوں کہ راحیل شریف ایک دیانتدار آدمی ہے، اس نے پہلے بھی مارشل لاء سے بچایا اور وہ پھر بھی بچائے گا، لیکن اگر حالات ایسے کر دیئے جائیں کہ وہ مجبور ہو جائیں تو کیا کیا جائے؟ اور جب یہ سیاست میں آتے ہیں، تو پھر وہ لانڈری لگا کر سیاہی دھوئیں گے۔ دوسری طرف جب سویلین حکومت میں آتے ہیں، تو وہ ملک کو مستحکم اور مضبوط بنانے کے بجائے خود کو مضبوط بنانے لگ جاتے ہیں۔
ایکسپریس:دھرنے سے قبل 12 اگست کو آپ ناراض ہو کر ملتان آ گئے، لیکن پھر 13 اگست کو دوبارہ واپس چلے گئے، حالاں کہ آپ کو پتہ چل گیا تھا کہ دھرنا ایک سازش ہے؟ صبح آپ نے کہا کہ میں دوپہر کو اہم انکشافات کروں گا، لیکن نہیں کئے، اگر آپ اسی روز یہ سب کچھ بیان کر دیتے تو شائد پھر 126 روز کا دھرنا بھی نہ ہوتا؟
جاویدہاشمی: بات یہ ہے کہ دھرنا صرف ایک روز کا فیصلہ نہیں تھا، اس کے پیچھے ایک سال کی کشمکش تھی، کیوں کہ عمران خان دھرنا دینا چاہتے تھے، جس میں کچھ ان کے حمایتی اور کچھ مخالف تھے اور مجھ سمیت 95 فیصد پارٹی اس فیصلے کے خلاف تھی، صرف تین چار لوگ حمایتی تھے، حالاں کہ ان میں منتخب ہونے کی صلاحیت تھی نہ پارٹی میں ان کو پذیرائی حاصل تھی، جیسے جہانگیر ترین وغیرہ۔ دھرنے کے دوران جب میں یہاں (ملتان) آیا تو مجھے منانے کے لئے آنے والوں کو میں نے کہا کہ عمران خان وہاں بیان دیں کہ ہم ٹیکنوکریٹس کی حکومت نہیں چاہتے۔
عمران خان نے یہ بیان دے دیا تو پھر مجھے کیوں نہیں واپس جانا چاہیے تھا؟ پھر پوری پارٹی نے فیصلہ کیا کہ ہم ڈی چوک سے آگے نہیں جائیں گے، لیکن پھر یہ چل پڑے تو مجھے عمران خان نے ایک سائیڈ پر بلا کر کہا کہ ہمیں آگے جانا پڑے گا، میں نے کہا عمران خان کس لئے، عقل ماری گئی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ دیکھیں بات یہ ہے کہ بندے تو ہمارے پاس ہیں نہیں، بندے تو قادری صاحب کے پاس ہیں۔ میں نے کہا کہ کمانڈر انچیف نے جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ پورے کرنے کی جب یقین دہائی کروا دی ہے، تو پھر ہم کیوں آگے جائیں؟ لیکن وہ نہیں مانے۔ تو پارٹی کے اندر یہ سب کچھ چل رہا تھا، لیکن اب میں روز اپنی پارٹی کی باتیں اس کے اندر رہ کر تو نہیں کر سکتا تھا۔
ایکسپریس:حق بات کہنے اور پھر اس پر قائم رہنے کا آپ نے ہمیشہ دعویٰ کیا لیکن توہین رسالت (Blasphemy) کے قانون میں ترمیم کی مخالفت(نواز حکومت کے پہلے دور میں) اور گزشتہ برس اسمبلی میں میاں نواز شریف کے حق میں دیئے بیانات کیوں واپس لینے پڑے؟
جاویدہاشمی:توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کے حوالے سے دیئے بیان کو واپس لیا نہ کوئی معذرت کی۔ یہ کوئی ملکی ایشو ہی نہیں تھا، یہ تو صرف یہاں ملتان کے کچھ علماء کا لوکل ایشو تھا اور پھر بعد میں ان علماء نے بھی مجھے بلا کر سب کے سامنے کہا کہ یہ ہمارے قائد ہیں، یہ جیسے کہیں گے ویسا ہی ہم کریں گے۔
بس یہ ایک غلط فہمی تھی، جو ختم ہو گئی۔ دوسرا جو آپ نے میاں نواز شریف کے حوالے سے بات کی تو اس کا جواب یہ ہے کہ میں اس وقت جس پارٹی میں تھا، میں نے اس کو سامنے رکھنا تھا، میرا کام پارٹی میں ہیجانی کیفیت کو بڑھانا نہیں بلکہ کم کرنا تھا۔ عمران خان نے مجھے کہا کہ آپ کو بالکل بھی تردید کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ہمارے لڑکے سوشل میڈیا پر بھڑکے ہوئے ہیں، دو تین روز میں یہ سب ختم ہو جائے گا۔ میں نے جواب دیا کہ نہیں مجھے اپنے نوجوانوں کو تسلی دینی ہے۔
ایکسپریس:آپ نے ہمیشہ سیاست اور مذہب کو جوڑنے کی مخالفت کی لیکن گزشتہ سے پیوستہ عام انتخابات میں آپ نے جب پنڈی سے شیخ رشید کے مقابل الیکشن لڑا تو آپ جلسوں میں لال مسجد کے واقعہ کا ذکر کرکے ووٹ مانگتے رہے، کیوں کہ شیخ رشید اس وقت وفاقی وزیر تھے جب لال مسجد کا واقعہ پیش آیا۔ کیا کہیں گے؟
جاویدہاشمی: میں تو مذہب کو سیاست کا حصہ سمجھتا ہوں، میں تو علامہ اقبال کا قائل ہوں کہ ''جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی'' ہماری سیاست ہمارے دین کے مطابق ہونی چاہیے کیوں کہ یہ شدت پسندی نہیں سکھاتا۔ الیکشن کی جو آپ نے بات کی تو شائد آپ کو علم نہیں ہے کہ اس وقت لال مسجد کے مولوی شیخ رشید کا ساتھ دے رہے تھے۔ ہاں تقریریں ہم ہزار کرتے ہیں، جس میں میرا ایک سٹائل ہے، ورنہ لال مسجد کے مولویوں نے شیخ رشید کو ووٹ دینے کا فتوی دیدیا تھا، اس کے باوجود مجھے 74 ہزار ووٹ ملے اور شیخ رشید کو صرف 13 ہزار ووٹ ملے۔
ایکسپریس:پاکستان سے فرار طالبان قیادت بشمول ملا فضل اللہ، دولت اسلامیہ (داعش) کے ساتھ مل گئی ہے(شائد آئندہ چند دنوں میں اس کی کھلی تصدیق بھی ہو جائے) کیا ہم اس نئے چیلنج کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں؟
جاویدہاشمی: دیکھیں! یہاں یہ معاملہ ہے کہ ہماری اسٹیبلیشمنٹ نے قوم کی تھوڑی سی ہمدردیاں ان کے ساتھ کر دی تھیں، کھلے عام موٹروے پر چندہ اکٹھا کیا جاتا تھا۔ تاہم اب بنیادی پالیسی تبدیل ہو چکی ہے کہ داعش یا طالبان لوگوں کو امن نہیں دے سکے۔ اور جہاں تک بات پاکستان کی ہے تو یہ کوئی اتنا کمزور ملک نہیں ہے کہ ان کا مقابلہ نہ کر سکے۔
ایکسپریس:کیا خطے میں امن برقرار رکھنے کے لئے بھارت سے تنازعات کو زیر التواء رکھنا درست پالیسی ہے؟
جاویدہاشمی: نہیں یہ درست تو نہیں ہے، لیکن بھارت ہمارا صرف نظریاتی ہی نہیں، ہر اعتبار اور لحاظ سے دشمن ہے، جو ہر طرح سے ہمیں نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ اسے پاکستان کی چھوٹی سی کامیابی بھی برداشت نہیں ہوتی۔ اب جو پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا ہے، جس میں آئندہ دنوں میں مزید تیزی آئے گی۔
وہ اسے برداشت نہیں۔ پھر اکنامک کوریڈور ہمارے مستقبل کا معاملہ ہے، یہ ہمارے لئے بہت اہم اور فائدہ مند ہے، لیکن اگر ہم اس کی حفاظت نہ کر سکے تو نقصان بھی بڑا ہوگا۔ اکنامک کوریڈور مسئلہ کشمیر کی طرح پاکستان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اور اس کی مخالفت صرف بھارت ہی نہیں دیگر ممالک بھی کر رہے ہیں۔ پھر اکنامک کوریڈور اس قدر اہمیت اختیار کر چکا ہے کہ اس میں مجھے کشمیر کی آزادی بھی پنہاں لگتی ہے،کیوں کہ یہ کوریڈور کہاں سے آ رہا ہے، وہ کہتے ہیں کہ گلگت متنازع علاقہ ہے، آپ یہاں سے اسے نہیں گزار سکتے۔
پسندیدہ شخصیت محمد علی جناح، کتاب مقدمہ ابن خلدون اور کھلاڑی عمران خان
ویسے تو ہر کتاب اچھی ہوتی ہے، لیکن مجھے مقدمہ ابن خلدون سب سے زیادہ پسند ہے۔ میں نویں جماعت میں تھا، جب میں نے اسے پڑھا۔ اس میں ابن خلدون نے قوموں کو جینے کا سلیقہ سکھایا ہے۔ سیاسی اعتبار سے شخصیت کی میری پسندیدگی بالکل واضح ہے کہ میں محمد علی جناح کو بہت پسند کرتا ہوں۔ ہمارے دور میں سب سے زیادہ کھیلا اور پسند کیا جانے والا کھیل تو ہاکی تھی، لیکن میں نے ہاکی کے ساتھ کرکٹ، فٹ بال اور والی بال بھی کھیلی ہے۔
اسی وجہ سے میں وزیر کھیل بھی رہ چکا ہوں۔ ویسے مجھے وہ کھیل بہت زیادہ پسند ہے، جس میں ہمارا مقابلہ بھارت سے ہو، تاہم مجموعی طور پر اب میرا پسندیدہ کھیل کرکٹ اور کھلاڑی عمران خان ہیں۔
موسیقی کے بغیر تو ہم رہ نہیں سکتے، میں تقریباً ہر قسم کا میوزک سن لیتا ہوں تاہم جہاں تک بات پسندیدگی کی ہے تو صوفیانہ کلام میں شوق سے سنتا ہوں۔ گلوکاروں میں سب سے زیادہ عطاء اللہ نیازی بھاتا ہے۔ فلمیں میں نے بہت دیکھی ہیں اور میں سمجھتا ہوں جاوید ہاشمی کو بنانے میں فلم کا بھی بڑا حصہ ہے، لیکن میں فلمیں صرف پاکستان کی دیکھا کرتا تھا، مگر اب جب ٹی وی آن کرتے ہیں تو زبردستی انڈیا کی فلم بھی دِکھ جاتی ہے۔ پسندیدہ فلم کا نام تو اب یاد نہیں، مگر مزاحیہ فلمیں زیادہ پسند تھیں۔ کمال، محمد علی اور زیبا پسندیدہ اداکار تھے۔
سینئر سیاست دان نے عملی سیاست کا آغاز بھی جامعہ پنجاب میں طلبہ تنظیم سے کیا اور یہیں سے عوامی اور مزاحمتی سیاست کا آغاز کرتے ہوئے بنگلہ دیش نامنظور تحریک میں شمولیت کرکے شہرت حاصل کی۔ وہ 1977ء میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف چلنے والی پاکستان قومی اتحاد کی تحریک میں پیش پیش رہے۔
اس موقع پر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں برطانیہ میں ہائی کمشنر بنانے کی پیش کش کی، جو انہوں نے اپنے مزاج کے عین مطابق ٹھکرا دی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد اس وقت کے سابق فوجی صدر جنرل (ریٹائرڈ) ضیاء الحق کی کابینہ میں جاوید ہاشمی وزیر بھی رہے، تاہم بعدازاں وہ وزیر بننے کے اقدام پر افسوس کا اظہار کرتے رہے۔ 1977ء میں جاوید ہاشمی لاہور سے قومی اتحاد کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے امیدوار بنے، لیکن قومی اتحاد نے انتخابات کا ہی بائیکاٹ کر دیا۔ بزرگ سیاست دان نے کچھ عرصہ ایئر مارشل (ریٹائرڈ) اصغر خان کی جماعت تحریکِ استقلال میں گزارا اور بعد میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔
انہوں نے انتخابی سیاست کا آغاز 1985ء میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات سے کیا اور رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوگئے۔ بعدازاں وہ 1990ء، 1993ء اور 1997ء میں بھی قومی اسمبلی پہنچنے میں کامیاب رہے۔ اس دوران وہ نواز حکومت میں دو بار وزیر بنے۔ 12 اکتوبر 1999ء میں جنرل (ر) مشرف نے نواز حکومت کا تختہ الٹا تو انہوں نے بھرپور مزاحمت کی، جس کا خمیازہ انہیں تقریباً 6 سال (مشرف دور) جیل میں گزار کر بھگتنا پڑا۔ اکتوبر 2003ء میں انہیں بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا گیا، جس میں انہیں قید کی سزا سنائی گئی، تاہم اس فیصلہ پر تمام اپوزیشن جماعتوں نے تاسف کا اظہار کیا۔
اس ضمن میں جاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ مجھے واقعہ کارگل پر کمیشن بنانے کے مطالبے پر جیل ہوئی۔ وہ دوران قید 2002ء کے عام انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے ملتان اور لاہور سے کھڑے ہوئے تاہم ملتان میں وہ اپنے روایتی حریف شاہ محمود قریشی سے ہار گئے، جبکہ لاہور سے رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوگئے۔ اسیری کے دوران انہوں نے دو کتابیں ''ہاں! میں باغی ہوں'' ''تختہ دار کے سائے تلے'' بھی لکھیں۔ اگست 2007ء میں انہیں سپریم کورٹ سے ضمانت ملی تو 3 نومبر 2007ء کو سابق صدر پرویز مشرف کے ''ہنگامی حالت'' کے اعلان کے بعد وہ پھر گرفتار ہو گئے۔
2008ء کے عام انتخابات میں انہیں ن لیگ نے چار نشستوں سے الیکشن لڑایا تو انہوں نے تین میں میدان مار لیا۔ بعدازاں پارٹی پالیسیوں سے اختلافات پر دسمبر 2011ء میں انہوں نے مسلم لیگ نواز سے دو عشروں سے زائد عرصہ پر محیط رشتہ توڑ کر پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی۔ جاوید ہاشمی پر جولائی 2010ء میں فالج کا شدید حملہ ہوا تاہم قدرت نے انہیں صحتیابی عطا فرمائی۔ 2013ء کا الیکشن انہوں نے پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے لڑا اور ساتویں بار کامیاب ہو کر قومی اسمبلی پہنچ گئے۔ پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کے وقت انہوں نے چیئرمین تحریک انصاف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''آپ نے ایک باغی کو پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی ہے اور اگر آپ نے اپنے منشور کے مطابق کام نہ کیا تو سب سے پہلے میری بغاوت کا سامنا کرنا پڑے گا۔''
سابق رہنما پی ٹی آئی نے گزشتہ برس اکتوبر 2014ء میں تحریک انصاف کے دھرنے کی حکمت عملی سے نالاں ہو کر نہ صرف پارٹی سے فاصلے بڑھا لئے بلکہ اسمبلی رکنیت سے بھی مستعفی ہو گئے۔ مخدوم جاوید ہاشمی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ پاکستانی سیاست کے واحد سیاست دان ہیں، جو ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں (ن لیگ، پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی) میں سے دو کے صدر رہ چکے ہیں۔ ملک، قوم اور جمہوریت کے لئے تقریباً 33 بار جیل کی ہوا کھانے والے بزرگ سیاست دان سے ''ایکسپریس'' نے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا، جو نذر قارئین ہے۔
ایکسپریس: سیاست کے میدان میں آپ نے4 عشروں سے زائد وقت گزار دیا، تو اتنے وسیع تجربے کی روشنی میں فرمائیں کہ ملکی سیاست کا مستقبل کیا ہے، کیا یہ اسی طرح جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی رہے گی اور متوسط طبقے کو کبھی نمائندگی کا حق نہیں ملے گا؟
جاویدہاشمی:دیکھیں! جہاں تک میرے سیاسی کیریئر کی وسعت کا تعلق ہے تو میں 1967ء میں سابق صدر ایوب سے ملا، ظاہر ہے ان تک پہنچنے سے پہلے بھی مجھے چار پانچ سال لگے ہوں گے، تو یوں اس سے آپ میری سیاست کے عرصے کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ دوسری بات ملکی سیاست کے مستقبل کی تو پاکستان کی سیاست، خطے میںموجود دیگر ممالک یعنی بھارت اور چین وغیرہ سے مختلف ہے۔ یہاں ہم نے ایک نیا ملک بنایا، جس کے لئے تحریک چلائی گئی، اور یہ تحریک1947ء،1948ء تک تو عوام کی رہی، اس وقت ہماری فوج بھی نہیں تھی، صرف دو تین کرنل ہمارے تھے، سیاسی جماعتیں بھی نہیں تھیں۔
اُس وقت صرف بیورو کریسی ایک طاقت ور طبقہ تھا۔ پاکستان جب بنا تو پہلے دو تین سال سیاست دانوں کو حکومت ملی لیکن بعد میں بیوروکریسی نے ٹیک اوور کر لیا اور ان کے بعد فوج آ گئی، وزیر دفاع جنرل ایوب بن گئے، پھر یوں یہ سلسلہ چل پڑا۔ تو ایسے حالات میں ہم متوسط طبقے کی سیاست کی بات کریں تو مجھے یہ کہتے ہوئے شرمندگی ہو رہی ہے کہ متوسط طبقے کی سیاست کا پاکستان میں دور دور تک کوئی چانس نہیں ہے۔
بدقسمتی! سے ہماری سیاست کا حال یہ ہے کہ یہاں کوئی کاروباری شخص حکومت سنبھالے یا جنرل وہ فیوڈل(جاگیردار) بن جاتا ہے۔ جاگیرداری صرف زمینوں کا مالک ہونے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک سوچ ہے، جو پورے ملک میں غلبہ پا چکی ہے۔ مجھے بھی اچھا ڈرائینگ روم، اچھا گھر بنانا پڑا، جو کہ میں نہیں چاہتا، کیوں کہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو لوگ ووٹ بھی نہیں دیتے۔ یوں یہ ایک فضا بن چکی ہے، جس کے سامنے ہم نے ہتھیار گرا دیئے ہیں اور پھر ہم کہیں کہ یہ کلچر بدل جائے تو اس میں میرے پاس سوائے شرمندگے کے اور کچھ نہیں۔
ایکسپریس: وزیراعظم میاں نواز شریف کے ساتھ آپ کا محض سیاسی تعلق نہیں بلکہ ان کے پورے خاندان کے ساتھ احترام کا نہایت قریبی تعلق رہا۔ اس کے باوجود نواز لیگ سے دوری ہو گئی، حالانکہ جہاں اتنا قریبی تعلق ہوتا ہے، وہاں چھوٹی موٹی باتیں نظر انداز بھی کرنا پڑتی ہیں۔ پھر پارٹی چھوڑنے کے فیصلے پر عملدرآمد سے قبل خواجہ سعد رفیق نے آپ کو اپنے گھر بلایا جہاں ان کی اہلیہ کے علاوہ بیگم کلثوم نواز بھی موجود تھیں، لیکن آپ اپنے فیصلے پر قائم رہے۔
جاوید ہاشمی: بلاشبہ میاں نواز شریف کے ساتھ میرے تعلقات 1976-77سے ہیں، لیکن پارٹی چھوڑنے والی جو بات ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہاں میرے لئے ایسی فضا بنا دی گئی تھی کہ میں پارٹی میں کوئی کردار ادا نہیں کر پا رہا تھا اور یہ سب کچھ مجھ پر فالج کا حملہ ہونے سے پہلے ہی شروع ہو گیا تھا۔ اور ان سب باتوں کا ان کو بھی احساس تھا۔ تو اس وقت مجھے اپنی کم مائیگی کا شدید احساس ہوا کہ مجھ سے میری صلاحیتوں کے مطابق کام نہیں لیا جا رہا۔
مسلم لیگ ایک مضبوط جماعت بن چکی تھی اور اس کے پاس اقتدار بھی آچکا تھا، لیکن میرا جو خواب یا سوچ تھی وہ یہ تھی کہ ایک جماعت متوسط طبقے کی ہونی چاہیے، جو مجھے اس وقت تحریک انصاف نظر آئی، جسے لوگوں کی طرف سے بھرپور پذیرائی ملی، پھر یہ کہ عمران خان دیگر پارٹی قائدین سے بہت ساری چیزوں میں بہتر ہے، جو قیادت کی ذمہ داریاں اچھے طریقے سے نبھا سکتے ہیں۔
میں عمران خان کو زیادہ نہیں جانتا تھا، لیکن میں یہ سمجھتا تھا کہ ایک پارٹی اگر میری صلاحیتوں سے استفادہ نہیں کر رہی تو ایک متوسط طبقے کی جو پارٹی ہے اور وہ نوجوانون کی امنگوں کی ترجمان بھی نظر آتی ہے اور اچھی اپوزیشن بھی کر سکتی ہے، یہ نہیں کہ صرف اقتدار ہی چاہیں، میں نے تو کبھی ایسا سوچا بھی نہیں تھاکیوں کہ میں تو پہلے ہی اقتدار چھوڑ کر آیا تھا۔ تو یوں میں سمجھتا تھا کہ جب یہ پارٹی بن جائے گی تو حقیقی طور پر ٹو پارٹی سسٹم آ جائے گا۔
میں تاریخ کے اس موڑ پر کھڑا تھا جہاں پیپلزپارٹی، اپنے طرز حکومت کی وجہ سے متحرک پارٹی نہیں رہی تھی تو ایسے میں صرف ایک ہی پارٹی کی حکومت رہے تو میں اس کے حق میں نہیں تھا۔ میں نواز شریف کی عزت کرتا تھا، میں نے کہا کہ وہ میرے لیڈر تھے، ہیں، مگر تحریک انصاف کی صورت میں ٹو پارٹی سسٹم کا ہونا ضروری تھا۔ تو اس وقت عمران خان کوشش کر رہا تھا، میں نے سوچا کہ اس کے کیا مقاصد ہو سکتے ہیں؟ یہی ناں کہ ملک کے اندر نوجوانوں کی نمائندہ ایک مضبوط جماعت موجود ہو، جو اگر اپوزیشن میں ہو تو حکومت پر نظر رکھے اور اقتدار میں آئے تو عملی طور پر کوئی تبدیلی لائیں۔
ایکسپریس:مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میں ''مفاہمت'' کا پاکستان کو کوئی فائدہ بھی ہوا؟ پھر اس مفاہمت کے نتیجے میں ن لیگ اور پی پی میں سے کون سی جماعت خسارے میں رہی؟
جاویدہاشمی:نہیں! مفاہمت سے تو کسی کو خسارہ ہوتا ہی نہیں۔ اگر آپ یہ مفاہمت اس لئے کریں کہ اپنے آپ کو بچانا ہے تو یہ خودغرضی ہو گی، جس میں پھر نقصان بھی ہوگا۔ لیکن جب آپ ملک کو آگے لے جانے کے لئے مفاہمت کرتے ہیں، تو یہ ہمارے بہت ضروری ہے۔ کیوں کہ یہ کوئی کبڈی یا کرکٹ کا کھیل نہیں، ملک کا سوال ہے۔
یہ تو اس لئے ہے کہ اگر کوئی اچھا کام کر رہا ہے تو اس کو آپ سپورٹ کریں۔ لہذا میں تو اس مفاہمت کو بہتر سمجھتا ہوں۔ میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ یہاں تو مفاہمت کا یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ مل کر لوٹنا ہے یا خود کو بچانا ہے، حالاں کہ یہ تو مفاہمت نہیں ہے بلکہ مفاہمت تو ملک کو آگے لے جانے کے لئے ہوتی ہے، چاہے اس میں میرا نقصان ہی ہو جائے، لیکن میرے خیال میں یہ جماعتیں بلوغت کی اس سطح تک نہیں پہنچ سکیں۔
ایکسپریس: نواز شریف اور عمران خان کو آپ نے بڑے قریب سے دیکھا۔ ایک محب وطن کی حیثیت سے فرمائیں کہ وطن عزیز کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کی بہتر صلاحیت کس میں ہے؟
جاویدہاشمی: دونوں کی اپنی اپنی خوبیاں ہیں۔ نواز شریف سرد و گرم چشیدہ ہیں، تیسری بار وزیراعظم منتخب ہو چکے ہیں اور اس کے بعد میں کہوں کہ وہ مکمل سیاست دان ہو گئے ہیں تو یہ میں نہیں کہہ سکتا۔ دوسری طرف عمران خان میں بے انتہا خوبیاں ہیں، لیکن ان کے اندر ایک کھلنڈرا پن ہے، ان کی سوچوں کے زاویے وہی ہیں، وہ ملک کو بھی ایسے ہی دیکھتے ہیں، جیسے کرکٹ کو لیا جاتا، چھکا مارنا، وکٹ لینا، امپائر کی انگلی اٹھنا وغیرہ۔
ایکسپریس:مستقبل میں اپنی سیاست کے بارے میں آپ نے کیا فیصلہ کیا؟ ن لیگ میں شمولیت کا باقاعدہ اعلان کب کر رہے ہیں؟
جاویدہاشمی:میری عمر کا تقاضا ہے کہ میں سوچ کر فیصلہ کروں اور اس میں آپشنز بھی محدود ہیں۔ یہ تو طے ہے کہ میں نے پارٹی جوائن کرنی ہے، میں نے سیاست کرنی ہے۔
میرے پاس اپنی پارٹی بنانے کا بھی آپشن موجود ہے، جس کی کچھ وجوہات ہیں۔ میں شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ اس ملک کو دس، گیارہ، بارہ، تیرہ صوبوں میں تقسیم کر دیا جائے، کیوں کہ اس کے بغیر ملک چلتا نہیں ہے۔ دنیا میں پنجاب جیسا بڑا صوبہ نہیں، ایک بہار ہے، مگر وہ بھی تقسیم ہو رہا ہے۔ یہاں کے لوگوں کی بھی آواز ہے کہ صوبے بنائے جائیں اور ایسے ایشوز کی بنیاد پر میں اپنی پارٹی بنانے کا بھی سوچ سکتا ہوں۔ لیکن جہاں تک موجودہ حالات کا تعلق ہے، تو مسلم لیگ مجھ سے کبھی دور نہیں رہی۔ میں نے تحریک انصافمیں شمولیت کے وقت بھی کہا تھا کہ یہ میری وصیت ہے کہ مجھ مسلم لیگ کے پرچم میں دفنایا جائے۔
ایکسپریس: متحدہ مسلم لیگ کے لئے کی جانے والی کوششوں کے بارے میں کیا کہیں گے؟ ابھی گزشتہ دنوں پھر چوہدری شجاعت، حامد ناصر چٹھہ، غوث علی شاہ، دوست محمد کھوسہ وغیرہ کا اجلاس منعقد ہوا ہے۔
جاویدہاشمی: میں ان کے بارے میں بہت زیادہ نہیں جانتا لیکن میں عرض کروں کہ جہاں تک مسلم لیگ کا تعلق ہے، تو جس کا دل چاہتا ہے مسلم لیگ بنا لیتا ہے۔ آج میں مسلم لیگ ج بنا لوں لیکن کل مجھے سیکرٹری جنرل کے لئے کوئی بندہ بھی نہ ملے، تو اس طریقے سے پارٹی بنانا مشکل نہیں ہے، اسے چلانا مشکل ہے۔
ایکسپریس: کیا اس وقت مملکت پاکستان Soft Coup کے زیر اثر چل رہی ہے؟
جاویدہاشمی: دیکھیں! ملک کے اندر جو حالات و واقعات ہو رہے ہیں، جیسے کرپشن اور دہشتگردی ہے۔ کراچی انسانی گوشت کی سب سے بڑی منڈی بن چکا ہے، جہاں روزانہ سینکڑوں افراد مارے جا رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو وہاں رینجرز کا آنا اور ان کے اقدامات قابل قبول ہیں۔ کیوں کہ سیاسی قوتیں کمزور ہو گئی ہیں۔
آج کسی ایک قوت کا ملک سنبھالنا مشکل ہے اور یہ کسی کے بس میں بھی نہیں ہے۔ چاروں ستونوں میں سے کسی ایک نے بھی اگر حکومت سنبھالی تو ملک اسی روز بے قابو ہو جائے گا۔ خواہ نواز شریف چاہے کہ اس کی باتیں ایسی سنی جائیں جیسے شاہِ ایران کی سنی جاتی تھیں یا عسکری قوتیں کہیں کہ ان کی باتیں ایسے سنی جائیں جیسے ایوب، ضیاء الحق اور مشرف کی سنی جاتی تھی، یہ ممکن نہیں۔ بہت سارے تجربات سے گزرنے کے بعد اب جو تجربہ ہو رہا ہے، وہ زیادہ بہتر ہے کہ اپنی حدود کے اندر رہتے ہوئے مشاورت کے ذریعے کام کئے جائیں، تو اس لئے یہ حکومت نواز شریف کی ہے نہ راحیل شریف کی۔
پہلی دفعہ پاکستان کے اصل مسائل کو حل کرنے کا قابل عمل ایجنڈا وقت کے ساتھ ترتیب پا رہا ہے، لیکن اگر اس کے توازن میں خرابی آئی تو پاکستان کے مسائل بہت زیادہ بڑھ جائیں گے۔ اس لئے یہ حکومت کسی ایک کی نہیں، سب کی ہے اور سب کے لئے ہونی چاہیے۔ لیکن کسی ایک قوت کو مقررہ حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ اس وقت ملک میں مل جل کر کام ہو رہا اور یہی اس وقت پاکستان کی ضرورت ہے، کوئی ایک ستون تنہا حکومت نہیں کر سکتا۔ احتساب بھی ضروری ہے لیکن احتساب صرف سیاست دانوں کا نہیں ہونا چاہیے، جیسے آج کل ہو رہا ہے۔
ایکسپریس: حالیہ ضمنی الیکشن میں ایک آزاد امیدوار کے ہاتھوں آپ کی شکست کی کیا وجوہات ہیں؟ اس شکست میں بھی آپ نے اسٹیبلیشمنٹ کے چند افراد کا خصوصی طور پر ذکر کیا۔
جاویدہاشمی: میں نے جمہوریت کے فروغ کے لئے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا، لیکن سب سے پہلے سیاسی جماعتوں نے ہی میرے ساتھ تعاون نہیں کیا۔ پیپلزپارٹی نے اپنا امیدوار کھڑا کر دیا اور مولانا فضل الرحمن نے ان کی حمایت کر دی، جماعت اسلامی غیرجانبدار ہو گئی، مسلم لیگ ن نے تقریباً 22 روز کسی فیصلے تک پہنچنے میں لگا دیئے کہ اپنا امیدوار لانا ہے یا کسی کی حمایت کرنا ہے۔ تو میں تو صرف پولنگ بوتھ کی عزت کے لئے یہ سب کچھ کر رہا تھا۔
دوسرا اسٹیبلیشمنٹ کے حوالے سے میں بہت واضح باتیں کر چکا ہوں، جس کے میرے پاس ثبوت بھی موجود ہیں اور جب ضرورت پڑے گی تو وہ میں پیش کر دوں گا۔ میں نے تو یہ سب کچھ اس لئے برداشت کیا کہ جمہوریت اور پارلیمنٹ چلتی رہے، میں کسی کا دشمن نہیں۔ پھر میں ہارنے کے باوجود اگلے روز اسمبلی گیا اور گیلری میں بیٹھ کر ساری کارروائی دیکھی۔ میری اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ بھی کوئی دشمنی نہیں ہے،میں سمجھتا ہوں ان سے غلطیاں ہو جاتی ہیں، ابھی انہوں نے کراچی میں غلطی کی، جو نبیل گبول کو مستعفی کروا کر الیکشن لڑوایا کہ ہم ایم کیو ایم کو ہرا دیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دیکھیں! آج تک ہم کہتے تھے کہ ایم کیوایم کی ایک سیٹ بھی درست نہیں ہے، وہ ٹھپے لگا کر آتے ہیں۔ اب الیکشن ہو گیا تو ایم کیو ایم پھر زندہ ہو گئی کہ فوج کی موجودگی میں بھی انہیں ووٹ ملے ہیں اور اب ہم بھی مانتے ہیں کہ وہ جیت جاتے ہیں۔ اس لئے اسٹیبلیشمنٹ کو چاہیے کہ سیاست، سیاستدانوں پر چھوڑ دے۔ سیاسی کام ان اداروں کا نہیں ہے۔
ایکسپریس:کرپشن کے خلاف جاری کارروائیوں کے ضمن میں بتائیں کہ کیا کرپشن صرف سندھ میں ہو رہی ہے؟
جاویدہاشمی: دیکھیں! جہاں تک سندھ میں کرپشن کے خلاف کارروائی کی بات ہے، تو یہ ایسے نہیں ہے۔ پرویز مشرف جب آئے تھے تو انہوں نے سارا احتساب صرف پنجاب کی قیادت کا کیا، لیکن بعد میں ان سے صلح کر لی، وہ سب پاک صاف ہو گئے۔ جب تک مشرف سیاست میں نہیں آئے تھے، تو ان کا مقام بحیثیت جرنیل بہت بڑا تھا، لیکن جیسے ہی انہوں نے لانڈری لگا کر سیاہ کپڑوں کو سفید بنایا تو اس عمل کے دوران جو کالک تھی، وہ ان کے چہرے پر لگتی گئی۔ دوسرا یہ کارروائیاں ابھی شروع ہوئی ہیں، ابھی یہ آگے تک جائیں گی۔ دیکھیں! یہ سب کچھ یوں نہیں ہوتا، ان کا ایک بیک گراؤنڈ ہوتا ہے۔
اب میں جو دھرنے کے حوالے سے بات کرتا ہوں تو اس میں میرا کیا کردار تھا، ظاہر ہے یہ ایک دن کی بات نہیں تھی۔ عمران خان مجھے کہتا تھا کہ ''مارشل لاء نہیں لگے گا، یہ میری گارنٹی ہے۔سپریم کورٹ کے ذریعے الیکشن ہوں گے اور ہم آ جائیں گے۔'' میں نے کہا کہ ''یہ ایسا کیک نہیں جو ہم کھائیں گے، اور ایسی بھی کوئی بات نہیں کہ آپ کیلئے ساری تیاری کی جا رہی ہے(Things are not so simple) ہمارے ہاں فوراً مارشل لاء لگ جاتا ہے، نہ لگانا چاہیں تب بھی لگ جائے گا، کیوں کہ حالات ہی ایسے پیدا کر دیئے جاتے ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ مارشل لاء لگانے والے بددیانت اور ملک دشمن ہوں۔ ہم حالات ہی ایسے پیدا کر دیتے ہیں کہ کوئی آ جاتا ہے اور باقی لوگ ان کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ ہم ایسے اقدامات کریں گے کہ نواز شریف سرنڈر کر جائے اور دوبارہ الیکشن ہوں، بصورت دیگر اس کھیل میں ہم بھی ساتھ سرنڈر کرنے جا رہے ہیں، تم اب ایک لیڈر ہو، جو آسانی سے نہیں بنا جا سکتا، اگر یہ کام ہو گیا تو پھر تم بھی کہیں نظر نہیں آؤ گے۔'' میں آپ سے یہ عرض کر رہا ہوں کہ راحیل شریف ایک دیانتدار آدمی ہے، اس نے پہلے بھی مارشل لاء سے بچایا اور وہ پھر بھی بچائے گا، لیکن اگر حالات ایسے کر دیئے جائیں کہ وہ مجبور ہو جائیں تو کیا کیا جائے؟ اور جب یہ سیاست میں آتے ہیں، تو پھر وہ لانڈری لگا کر سیاہی دھوئیں گے۔ دوسری طرف جب سویلین حکومت میں آتے ہیں، تو وہ ملک کو مستحکم اور مضبوط بنانے کے بجائے خود کو مضبوط بنانے لگ جاتے ہیں۔
ایکسپریس:دھرنے سے قبل 12 اگست کو آپ ناراض ہو کر ملتان آ گئے، لیکن پھر 13 اگست کو دوبارہ واپس چلے گئے، حالاں کہ آپ کو پتہ چل گیا تھا کہ دھرنا ایک سازش ہے؟ صبح آپ نے کہا کہ میں دوپہر کو اہم انکشافات کروں گا، لیکن نہیں کئے، اگر آپ اسی روز یہ سب کچھ بیان کر دیتے تو شائد پھر 126 روز کا دھرنا بھی نہ ہوتا؟
جاویدہاشمی: بات یہ ہے کہ دھرنا صرف ایک روز کا فیصلہ نہیں تھا، اس کے پیچھے ایک سال کی کشمکش تھی، کیوں کہ عمران خان دھرنا دینا چاہتے تھے، جس میں کچھ ان کے حمایتی اور کچھ مخالف تھے اور مجھ سمیت 95 فیصد پارٹی اس فیصلے کے خلاف تھی، صرف تین چار لوگ حمایتی تھے، حالاں کہ ان میں منتخب ہونے کی صلاحیت تھی نہ پارٹی میں ان کو پذیرائی حاصل تھی، جیسے جہانگیر ترین وغیرہ۔ دھرنے کے دوران جب میں یہاں (ملتان) آیا تو مجھے منانے کے لئے آنے والوں کو میں نے کہا کہ عمران خان وہاں بیان دیں کہ ہم ٹیکنوکریٹس کی حکومت نہیں چاہتے۔
عمران خان نے یہ بیان دے دیا تو پھر مجھے کیوں نہیں واپس جانا چاہیے تھا؟ پھر پوری پارٹی نے فیصلہ کیا کہ ہم ڈی چوک سے آگے نہیں جائیں گے، لیکن پھر یہ چل پڑے تو مجھے عمران خان نے ایک سائیڈ پر بلا کر کہا کہ ہمیں آگے جانا پڑے گا، میں نے کہا عمران خان کس لئے، عقل ماری گئی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ دیکھیں بات یہ ہے کہ بندے تو ہمارے پاس ہیں نہیں، بندے تو قادری صاحب کے پاس ہیں۔ میں نے کہا کہ کمانڈر انچیف نے جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ پورے کرنے کی جب یقین دہائی کروا دی ہے، تو پھر ہم کیوں آگے جائیں؟ لیکن وہ نہیں مانے۔ تو پارٹی کے اندر یہ سب کچھ چل رہا تھا، لیکن اب میں روز اپنی پارٹی کی باتیں اس کے اندر رہ کر تو نہیں کر سکتا تھا۔
ایکسپریس:حق بات کہنے اور پھر اس پر قائم رہنے کا آپ نے ہمیشہ دعویٰ کیا لیکن توہین رسالت (Blasphemy) کے قانون میں ترمیم کی مخالفت(نواز حکومت کے پہلے دور میں) اور گزشتہ برس اسمبلی میں میاں نواز شریف کے حق میں دیئے بیانات کیوں واپس لینے پڑے؟
جاویدہاشمی:توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کے حوالے سے دیئے بیان کو واپس لیا نہ کوئی معذرت کی۔ یہ کوئی ملکی ایشو ہی نہیں تھا، یہ تو صرف یہاں ملتان کے کچھ علماء کا لوکل ایشو تھا اور پھر بعد میں ان علماء نے بھی مجھے بلا کر سب کے سامنے کہا کہ یہ ہمارے قائد ہیں، یہ جیسے کہیں گے ویسا ہی ہم کریں گے۔
بس یہ ایک غلط فہمی تھی، جو ختم ہو گئی۔ دوسرا جو آپ نے میاں نواز شریف کے حوالے سے بات کی تو اس کا جواب یہ ہے کہ میں اس وقت جس پارٹی میں تھا، میں نے اس کو سامنے رکھنا تھا، میرا کام پارٹی میں ہیجانی کیفیت کو بڑھانا نہیں بلکہ کم کرنا تھا۔ عمران خان نے مجھے کہا کہ آپ کو بالکل بھی تردید کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ہمارے لڑکے سوشل میڈیا پر بھڑکے ہوئے ہیں، دو تین روز میں یہ سب ختم ہو جائے گا۔ میں نے جواب دیا کہ نہیں مجھے اپنے نوجوانوں کو تسلی دینی ہے۔
ایکسپریس:آپ نے ہمیشہ سیاست اور مذہب کو جوڑنے کی مخالفت کی لیکن گزشتہ سے پیوستہ عام انتخابات میں آپ نے جب پنڈی سے شیخ رشید کے مقابل الیکشن لڑا تو آپ جلسوں میں لال مسجد کے واقعہ کا ذکر کرکے ووٹ مانگتے رہے، کیوں کہ شیخ رشید اس وقت وفاقی وزیر تھے جب لال مسجد کا واقعہ پیش آیا۔ کیا کہیں گے؟
جاویدہاشمی: میں تو مذہب کو سیاست کا حصہ سمجھتا ہوں، میں تو علامہ اقبال کا قائل ہوں کہ ''جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی'' ہماری سیاست ہمارے دین کے مطابق ہونی چاہیے کیوں کہ یہ شدت پسندی نہیں سکھاتا۔ الیکشن کی جو آپ نے بات کی تو شائد آپ کو علم نہیں ہے کہ اس وقت لال مسجد کے مولوی شیخ رشید کا ساتھ دے رہے تھے۔ ہاں تقریریں ہم ہزار کرتے ہیں، جس میں میرا ایک سٹائل ہے، ورنہ لال مسجد کے مولویوں نے شیخ رشید کو ووٹ دینے کا فتوی دیدیا تھا، اس کے باوجود مجھے 74 ہزار ووٹ ملے اور شیخ رشید کو صرف 13 ہزار ووٹ ملے۔
ایکسپریس:پاکستان سے فرار طالبان قیادت بشمول ملا فضل اللہ، دولت اسلامیہ (داعش) کے ساتھ مل گئی ہے(شائد آئندہ چند دنوں میں اس کی کھلی تصدیق بھی ہو جائے) کیا ہم اس نئے چیلنج کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں؟
جاویدہاشمی: دیکھیں! یہاں یہ معاملہ ہے کہ ہماری اسٹیبلیشمنٹ نے قوم کی تھوڑی سی ہمدردیاں ان کے ساتھ کر دی تھیں، کھلے عام موٹروے پر چندہ اکٹھا کیا جاتا تھا۔ تاہم اب بنیادی پالیسی تبدیل ہو چکی ہے کہ داعش یا طالبان لوگوں کو امن نہیں دے سکے۔ اور جہاں تک بات پاکستان کی ہے تو یہ کوئی اتنا کمزور ملک نہیں ہے کہ ان کا مقابلہ نہ کر سکے۔
ایکسپریس:کیا خطے میں امن برقرار رکھنے کے لئے بھارت سے تنازعات کو زیر التواء رکھنا درست پالیسی ہے؟
جاویدہاشمی: نہیں یہ درست تو نہیں ہے، لیکن بھارت ہمارا صرف نظریاتی ہی نہیں، ہر اعتبار اور لحاظ سے دشمن ہے، جو ہر طرح سے ہمیں نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ اسے پاکستان کی چھوٹی سی کامیابی بھی برداشت نہیں ہوتی۔ اب جو پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا ہے، جس میں آئندہ دنوں میں مزید تیزی آئے گی۔
وہ اسے برداشت نہیں۔ پھر اکنامک کوریڈور ہمارے مستقبل کا معاملہ ہے، یہ ہمارے لئے بہت اہم اور فائدہ مند ہے، لیکن اگر ہم اس کی حفاظت نہ کر سکے تو نقصان بھی بڑا ہوگا۔ اکنامک کوریڈور مسئلہ کشمیر کی طرح پاکستان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اور اس کی مخالفت صرف بھارت ہی نہیں دیگر ممالک بھی کر رہے ہیں۔ پھر اکنامک کوریڈور اس قدر اہمیت اختیار کر چکا ہے کہ اس میں مجھے کشمیر کی آزادی بھی پنہاں لگتی ہے،کیوں کہ یہ کوریڈور کہاں سے آ رہا ہے، وہ کہتے ہیں کہ گلگت متنازع علاقہ ہے، آپ یہاں سے اسے نہیں گزار سکتے۔
پسندیدہ شخصیت محمد علی جناح، کتاب مقدمہ ابن خلدون اور کھلاڑی عمران خان
ویسے تو ہر کتاب اچھی ہوتی ہے، لیکن مجھے مقدمہ ابن خلدون سب سے زیادہ پسند ہے۔ میں نویں جماعت میں تھا، جب میں نے اسے پڑھا۔ اس میں ابن خلدون نے قوموں کو جینے کا سلیقہ سکھایا ہے۔ سیاسی اعتبار سے شخصیت کی میری پسندیدگی بالکل واضح ہے کہ میں محمد علی جناح کو بہت پسند کرتا ہوں۔ ہمارے دور میں سب سے زیادہ کھیلا اور پسند کیا جانے والا کھیل تو ہاکی تھی، لیکن میں نے ہاکی کے ساتھ کرکٹ، فٹ بال اور والی بال بھی کھیلی ہے۔
اسی وجہ سے میں وزیر کھیل بھی رہ چکا ہوں۔ ویسے مجھے وہ کھیل بہت زیادہ پسند ہے، جس میں ہمارا مقابلہ بھارت سے ہو، تاہم مجموعی طور پر اب میرا پسندیدہ کھیل کرکٹ اور کھلاڑی عمران خان ہیں۔
موسیقی کے بغیر تو ہم رہ نہیں سکتے، میں تقریباً ہر قسم کا میوزک سن لیتا ہوں تاہم جہاں تک بات پسندیدگی کی ہے تو صوفیانہ کلام میں شوق سے سنتا ہوں۔ گلوکاروں میں سب سے زیادہ عطاء اللہ نیازی بھاتا ہے۔ فلمیں میں نے بہت دیکھی ہیں اور میں سمجھتا ہوں جاوید ہاشمی کو بنانے میں فلم کا بھی بڑا حصہ ہے، لیکن میں فلمیں صرف پاکستان کی دیکھا کرتا تھا، مگر اب جب ٹی وی آن کرتے ہیں تو زبردستی انڈیا کی فلم بھی دِکھ جاتی ہے۔ پسندیدہ فلم کا نام تو اب یاد نہیں، مگر مزاحیہ فلمیں زیادہ پسند تھیں۔ کمال، محمد علی اور زیبا پسندیدہ اداکار تھے۔