افغان حکام ہوش سے کام لیں

حقیقت یہ ہے کہ بڈھ بیر سانحہ میں ملوث عناصر کی افغانستان میں موجودگی کا یقین کرنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں


Editorial September 23, 2015
افغان حکومت اپنے لاکھوں پناہ گزینوں کو پاکستان سے واپس بلالے جو پاکستانی معیشت پر بوجھ بن چکے ہیں، فوٹو : فائل

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ سانحہ بڈھ بیر میں ملوث 14 دہشتگرد مارے گئے اور 5 حملہ آوروں کی شناخت ہوئی جب کہ 9کی شناخت ہوسکی نہ ہی ریکارڈ ملا، اس کا مطلب ہے وہ غیرملکی ہیں، دہشتگرد جہاں ٹھہرے تھے اس کا بھی پتہ چل گیا ہے، ہم جانتے ہیں ماسٹر مائنڈ کا تعلق افغانستان سے تھا۔ وہ منگل کو ماتحت اداروں کے سربراہان کے اجلاس کی صدارت کے بعد میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔

وفاقی وزیر داخلہ کی طرف سے حالیہ دنوں میں افغان حکومت کو دیا جانے والا یہ اپنی نوعیت کا اگرچہ واضح ، غیر مبہم ، دوٹوک اور انتہائی سخت رد عمل ہے تاہم افغان صدر اشرف غنی کے پاکستان سے خیر سگالی پر مبنی جذبات ، خطے میں دہشت گردی کے انسداد اور عسکری و سیاسی سطح پر افغانستان سے پاکستان کی غیر مشروط دوستی اور تعاون کے عہد و پیمان کو ملحوظ خاطر رکھا گیا، جیسا کہ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کے ساتھ شواہد شیئر کیے جائیں گے۔

توقع ہے افغانستان کسی اور کی زبان نہیں بولے گا اور ذمے داری کا مظاہرہ کریگا۔ حقیقت یہ ہے کہ بڈھ بیر سانحہ میں ملوث عناصر کی افغانستان میں موجودگی کا یقین کرنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں، تحریک طالبان پاکستان سمیت لاتعداد غیر ملکی دہشت گرد، جہادی عناصر اور کالعدم تنظیموں کے سرکردہ افراد افغان حکومت کی مہمان نوازی کے مزے لوٹ رہے ہیں جب کہ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کے لیے مختلف گروپوں کی مالی امداد بھی کی جا رہی ہے۔

پاکستان کو مطلوب کئی بھگوڑے کمانڈر اس وقت افغانستان میں نہ صرف روپوش ہیں بلکہ وہاں بیٹھ کر پاکستان مخالف سرگرمیوں کو ہوا دے رہے ہیں جب کہ بڈھ بیر واقعہ کے ٹھوس شواہد کے سلسلہ میں وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ دہشتگرد گروپ کو افغانستان سے ہی آپریٹ کیا جارہا تھا ۔

یہ الزام نہیں حقیقت ہے کہ جن طالبان کمانڈروں اور رہنماؤں کو پاکستان حوالے کرنے کی درخواست کرچکا ہے اسے افغان حکام نے کبھی در خور اعتنا نہیں سمجھا ۔ افغان حکومت سے ملا فضل اللہ کی حوالگی کا مطالبہ کیا گیا مگر کوئی جواب نہیں ملا، پاک افغان بارڈر پر دراندازی روکنے کا مستقل حل باڑ ہے لیکن پشتون خاندان دونوں اطراف بٹے ہوئے ہیں، افغانستان بارڈر مینجمنٹ کو اپنے حق میں بہتر نہیں سمجھتا۔ پھر اس کا آخرکیا مطلب لیا جائے کہ افغانستان پاکستان کے حالات خراب کرنے میں خاموش دلچسپی رکھتا ہے ۔ حالانکہ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف افغانستان کے خیر سگالی دورے کر کے اور تحریری معاہدوں کی شکل میں اس بات کا یقین دلاچکے ہیں کہ افغانستان کا دشمن پاکستان کا دشمن ہے۔

ایسی خیرسگالی کا جواب بڈھ بیر سانحہ کی شکل میں ملنا ایک المیہ ہے۔ وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ افغانستان کا نہ ہم نے قرضہ دینا ہے نہ ہی ہم خائف ہیں نہ اسے جوابدہ ہیں، غیر ضروری بدگمانی افغانستان کی طرف سے ہے، ہم افغانستان کی بہتری چاہتے ہیں، معاہدہ کے مطابق سفارتی اور عسکری ذرایع سے معاملات اٹھائے جانے چاہئیں ۔ ان معروضات میں تلخی ہے مگر حقائق اس سے زیادہ تلخ ہوتے جارہے ہیں۔ دہشتگردی ایک عفریت ہے جس کا مقابلہ پاکستان اور افغانستان نے مل کر کرنا ہے۔

وزیر داخلہ سے برطانوی وزیر ٹوبیاس مارٹن ایل وڈ نے بھی ملاقات کی۔ ملاقات میں برطانوی ہائی کمشنر فلپ بارٹن بھی موجود تھے۔ ملاقات میں پاک برطانیہ تعلقات، دوطرفہ تعاون، دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ اور خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ آپریشن ضربِ عضب اپنے اہداف حاصل کرتے ہوئے کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ دہشتگردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عالمی سطح پر ان کے مالی وسائل کا خاتمہ اور مالی اعانت کرنے والے عناصرکا سدباب کیا جائے، پاکستان برطانیہ کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے، مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان ہمہ جہتی تعاون کو فروغ دینے کا جذبہ قابلِ اطمینان ہے۔

اصل مسئلہ یہ بھی ہے کہ افغانستان کو کثیر جہتی داخلی سماجی مسائل کا سامنا ہے،ایک تجزیہ کار کے مطابق دنیا میں افغانستان کی 80فیصد افیونی ضرورت کی روک تھام میں امریکا بھی ناکامی سے دوچار رہا اور ان کی افیون کی کاشت اور پیداوار روکنے کے لیے 7 ارب ڈالر بھی ضایع ہوگئے۔

دہشت گردی خطے کا درد سر ہے، افغان قیادت پاکستان کو در پیش چیلنجوں میں ساتھ دے اور بے جا الزام تراشی اور دہشتگردوں کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ لے اسی میں اس کا مفاد ہے، گزشتہ دنوں افغان صدر اشرف غنی نے وزیراعظم کو فون کر کے کہا کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی،اہل پاکستان کو اس بیان سے دلی خوشی ہوئی تاہم علاقے میں امن و ترقی کا ٹاسک اعصاب شکن ہے۔

افغان عوام کو بھی جنگ کی تباہ کاریوں سے بچانا چاہیے۔ افغان حکومت اپنے لاکھوں پناہ گزینوں کو پاکستان سے واپس بلالے جو پاکستانی معیشت پر بوجھ بن چکے ہیں جب کہ جرائم پیش عناصر نے افغان بستیوں اور کیمپوں کی آڑ میں سٹریٹ کرائمز کو تشویش ناک بنا دیا ہے۔ اب جب کہ افغانستان داخلی استحکام کے دعوے کر رہا ہے اس لیے امید کی جانی چاہیے کہ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کے انخلا کے لیے افغان حکومت جلد پیکج کا اعلان کریگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں