انتہاپسندی کے خلاف جنگ

کچھ عرصہ قبل تک ہماری سیاسی اشرافیہ میں یہ بات زیربحث رہتی تھی کہ ہماری ریاست دہشت گردوں کے سامنے بے بس ہے


سلمان عابد September 24, 2015
[email protected]

پاکستان کی سیاسی اشرافیہ, سیاسی فریقین اور سابق دفاعی تجزیہ نگاروں میں فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کا مسئلہ زیر بحث ہے ۔ ایک طبقہ بڑی شدت کے ساتھ ان کی مدت ملازمت میں توسیع کا حامی ہے ، جب کہ دوسرا طبقہ کہہ رہا ہے کہ بطور پروفیشنل آرمی چیف جنرل راحیل شریف کسی بھی قسم کی توسیع کے حامی نہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جنرل راحیل شریف نے بطور آرمی چیف سابق آرمی چیفس کے مقابلے میں زیادہ شہرت حاصل کی ہے ۔ اس کی وجہ دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے اور اسے ختم کرنے میں ان کے عزم اور مضبوط ارادوں کا بڑا تعلق ہے۔

کچھ عرصہ قبل تک ہماری سیاسی اشرافیہ میں یہ بات زیربحث رہتی تھی کہ ہماری ریاست دہشت گردوں کے سامنے بے بس ہے ۔ یہ ہی وجہ تھی کہ ریاست کے مقابلے میں غیر ریاستی عناصر ایک بڑی طاقت حاصل کرچکے تھے ۔

اس عمل نے لوگوں میں ایک بڑی مایوسی پیدا کی اور ان کو لگا کہ ہم دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کی کوئی صلاحیت نہیں رکھتے ۔دہشت گرد اپنی طاقت اور بندوق کی بنیاد پر ریاست سمیت سب پر اپنا ایجنڈا مسلط کرکے اپنی طاقت کا ہمیں احساس دلاتے رہتے تھے ۔ لیکن جنرل راحیل شریف نے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خاتمہ میں قوم سمیت تمام اداروں میں مقابلہ کرنے کی ایک نئی طاقت فراہم کی ۔لوگوں کو اب محسوس ہوتا ہے کہ واقعی ہم دہشت گردی اور انتہا پسندی کا نہ صرف مقابلہ کرسکتے ہیں بلکہ اس کو ختم کرسکتے ہیں ۔

جنرل راحیل شریف نے صرف داخلی ہی نہیںبلکہ خارجی محاذ پر بھی دہشت گردی , انتہا پسندی اور غیر ملکی مداخلت کے تناظر میں بھی خوب جنگ لڑی ہے ۔ ماضی میں ہم پر بین الاقوامی سطح پر بطور ریاست دہشت گردوں کی مدد اور سرپرستی کا الزام تھا ، باالخصوص بھارت, افغانستان , ایران , امریکا اور برطانیہ کی جانب سے تواتر سے ان الزامات کا ہم سامنا کرتے رہے ہیں ۔ لیکن جس انداز سے ہماری عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں ایک نئی جہت ڈالی ہے اس کی کامیابی کا اعتراف اب عالمی سطح پر بھی کیا جا رہا ہے جس کا کریڈٹ جنرل راحیل شریف کو جاتا ہے۔

پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے جب 20نکاتی قومی ایکشن پلان ترتیب دیا تو اس وقت خیال تھا کہ اس پر عملدرآمد کیسے ممکن ہوگا ۔ اس پلان کے تحت جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی دہشت گردوں اور انتہا پسند قوتوں کو ایک واضح پیغام کی صورت میں ملا ہے کہ اب ان کو ہر صورت میں یا پسپائی اختیار کرنی ہے یا ختم ہونا ہے ۔

اس تناظر میں دو بڑی بحثیں سامنے آئی ہیں ۔ اول دہشت گردی اور انتہا پسندی کی جنگ مختصر جنگ نہیں , یہ طویل جنگ ہے اور کئی برسوں تک اس جنگ کا ہمیں سامنا کرنا پڑے گا ۔دوئم یہ جنگ محض انتظامی طاقت کی بنیاد پر نہیں جیتی جا سکے گی بلکہ اس کو ایک بڑی سیاسی سیاسی حمایت و عمل بھی درکار ہے ۔

ایک خدشہ بھی بہت سے لوگوں میں موجود ہے کہ اگر موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اپنی مدت پوری کرنے کے بعد اگلے برس رخصت ہوتے ہیں تو اس جنگ کا کیا مستقبل ہے ۔ عمومی طور پر اداروں میں افراد کا آنا جانا معمول کی کارروائی کا حصہ ہوتا ہے لیکن بعض اوقات ہم ادارہ جاتی عمل کے مقابلے میں افراد کے درمیان کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ ایشیائی سیاست میں افراد کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے اور ہم افراد پر بہت زیادہ انحصار کرکے اپنی توقعات اور خواہشات کو ان سے وابستہ کرتے ہیں ۔

یہ ہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ پاکستان میں جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حامی ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ اگر ان کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں ہوتی تو اس سے جنگ متاثر ہوگی ۔ حکمران اور حزب اختلاف کی سیاسی قیادت بھی جنرل راحیل شریف کی حامی ہے ۔البتہ بعض سیاسی جماعتیں جو اس وقت اقتدار کی سیاست میں ہیں،کرپشن کے خلاف کارروائی پر جنرل راحیل شریف کی سیاسی قوتوںکے مقابلے میں بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف ہیں ۔ اگرچہ وہ اس کا کھل کر اظہار نہیں کرتیں ۔

جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کی یہ بحث قبل ازوقت چھڑگئی ہے ۔اس بحث نے ثابت کیا ہے کہ مختلف فریقین کے درمیان کچھ تو ہے جس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اس بحث کا کیا مقصد ہے اور ہم اس سے کیا نتائج نکالنا چاہتے ہیں ۔

بنیادی طور پر جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ وزیر اعظم اور حکومت نے کرنا ہے ۔ بہتر ہوتا کہ اس بحث کو عوامی بحث کا موضوع نہیں ہونا چاہیے تھا ۔ لیکن کچھ لوگ اس بحث کو بنیاد بنا کر اپنی اپنی سیاست بھی کرنا چاہتے ہیں ۔ بعض سیاسی قوتیں سمجھتی ہیں کہ جنرل راحیل شریف کی حالیہ مقبولیت نے ملک کے سیاسی محاذ پر بھی ان کا اثر و نفوذ بڑھا دیا ہے ۔

بعض دبے لفظوں میں سیاسی عمل میں مداخلت کا سوال بھی اٹھاتے ہیں ۔ان کے بقول اگر مدت ملازمت میں توسیع ہوتی ہے تو اس سے جنرل راحیل شریف عسکری اور سیاسی دونوں محاذوں پر فیصلہ کن حیثیت اختیار کرجائیں گے جو حالیہ جمہوری حکمران سیٹ اپ کے لیے کوئی بہت اچھا شگون نہیں ہوگا ۔

بنیادی طور پر جب ایک سیاسی خلا ہوتا ہے تو اس کا اظہار ہمیں مختلف طریقوں سے دیکھنے کو ملتا ہے۔ عمومی طور پر پاپولر سیاست کی کمانڈ سیاسی قیادت کے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی قیادت کی نبض بھی عوامی سیاست اور لوگوں کے مفادات کے ساتھ جڑی ہونی چاہیے ۔

لیکن جب ایسا نہیں ہوتا تو لوگ عمومی طور پر سیاسی قیادت کے مقابلے میں دوسروں کو مسیحا سمجھنا شروع کردیتے ہیں ۔اس لیے سیاسی قوتیں جن معاملات پر خوف زدہ ہیں اس کا علاج بھی خود ان کو اپنے داخلی مسائل کے ساتھ تلاش کرنا ہوگا۔قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کے بقول جنرل راحیل شریف کسی بھی طور پر اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے خواہش مند نہیں اور ان کی مقبولیت سے کسی کو خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے ۔ یہ فیصلہ محض جنرل راحیل شریف کا نہیں بلکہ پوری سیاسی و عسکری کمانڈ کا ہوتا ہے ۔ کس کی کہاں ضرورت ہے اورکب تک ضرورت ہے یہ فیصلہ فرد واحد کی صورت میں نہیں بلکہ مشاورتی عمل کے ساتھ جڑا ہوتا ہے ۔

اس لیے اس وقت جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کو بنیاد بنا کر ہمیں سیاست کرنے کے بجائے دو معاملات پر زیادہ توجہ دینی چاہیے ۔

اول دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان زیادہ ہم آہنگی ہو, مشترکہ حکمت عملی ہو ۔ دوئم سیاسی اور عسکری اداروں کے درمیان اس رجحان کی بھی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے کہ کوئی ایک دوسرے پر سیاسی برتری حاصل کرنے کا خواہش مند ہے ۔دراصل سیاسی قیادت جس طریقے سے کراچی آپریشن سمیت دہشت گردی کی جنگ میں کنفیوژ نظر آتی ہے , اس کا خاتمہ ہونا چاہیے ۔لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا اور معاملات تضاد میں آگے بڑھتے ہیں تو لوگ سیاسی قوتوں کے مقابلے میں دوسری قوت کی طرف دیکھنا شروع کردیتے ہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں