لمحہ فکریہ

قومیں اپنے اوپر مسلط کردہ جنگوں اور مسائل و مصائب میں کس طرح نبرد آزما ہوتی ہیں؟

muqtidakhan@hotmail.com

قومیں اپنے اوپر مسلط کردہ جنگوں اور مسائل و مصائب میں کس طرح نبرد آزما ہوتی ہیں؟ کس طرح کامیابیاں حاصل کرتی ہیں؟ یہ سمجھنے اور جاننے کے لیے ان سیاسی شخصیات کے کردار اور حکمت عملیوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے، جنہوں نے دوراندیشی، بالغ النظری اور معاملہ فہمی کے ذریعے اپنی قوم کو مشکلات سے نکالا ہوتا ہے۔

اپنی مساعی سے تاریخ کا رخ موڑنے کی کوشش کی ہوتی ہے۔ سابق برطانوی وزیر اعظم سرونسٹن چرچل کا شمار بیسویں صدی کے ان چند بڑے عالمی سیاسی اکابرین (Statesmen) میں ہوتا ہے، جنہوں نے اپنی ذہانت اورتدابیر کے ذریعے دوسری عالمی جنگ میں شکست کے دہانے تک پہنچے برطانیہ کو فتح مندی سے ہمکنارکرایا اور جمہوری نظم حکمرانی کو مستحکم کرنے میں نمایاں کردارادا کیا۔

جس روز انھوں نے کابینہ اجلاس کے دوران منصوبہ سازوں اور جرنیلوں سے شہرہ آفاق خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر برطانیہ میں قانون کی حکمرانی ہے اورعدالتیں عام آدمی کو انصاف مہیا کررہی ہیں، توہمیں یقین کرلینا چاہیے کہ برطانیہ کوکوئی قوت شکست سے دوچار نہیں کرسکتی۔

ساتھ ہی انھوں نے اپنے ہم منصب فرانسیسی رہنماکایہ قول دہرایاکہ جنگ اتنا سادہ معاملہ نہیں کہ جرنیلوں کی صوابدید پر چھوڑدیا جائے۔جنگ شروع اورختم کرنے کا فیصلہ بہر حال سیاست دانوں ہی کوکرنا ہوتا ہے۔ اس سے ایک رات قبل کاایک واقعہ برطانوی ریاست میں قانون کی بالادستی اورعدل انصاف کی مضبوط روایت کی روشن مثال ہے۔

واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ چرچل سرکاری رہائش گاہ 10ڈاؤننگ اسٹریٹ کے ڈرائنگ روم میں سگار سلگائے گہری سوچوں میں گم چہل قدمی کررہا ہے۔اس کی بیوی صوفے پر بیٹھی اخبار پڑھ رہی ہے۔ دوسرے صوفے پر بیٹی کتاب کے مطالعے میں مشغول ہے۔کمرے میں مہیب سا سناٹا ہے۔ اچانک چرچل بیوی کی طرف مڑتا ہے اورکہتا ہے کہ کیا وہ اس کے لیے اسپینش آملیٹ تیار کرسکتی ہے۔بیوی جواباً کہتی ہے کہ اسپینش آملیٹ تین انڈوں سے تیار ہوتا ہے۔

کیا وزیر اعظم یہ بھول گئے کہ جنگ کی وجہ سے انڈوں کی راشننگ ہو رہی ہے اورگھر کے ہرفرد کو یومیہ ایک انڈا مل رہا ہے۔ اگر میں اپنے حصے کا انڈا بھی شامل کردوں توبھی آملیٹ نہیں بن سکتا۔ چرچل کی بیٹی جو اس پوری گفتگو سے بے نیازکتاب پڑھنے میں مگن تھی۔ اچانک اٹھتی ہے اور بالائی منزل پر جانے کے لیے سیڑھیاں چڑھنے لگتی ہے۔ پھر اچانک رک کر کہتی ہے کہ میرے حصے کا انڈا بھی ڈیڈی کے لیے آملیٹ میں شامل کر لیں۔ یوں بیگم چرچل اسپینش آملیٹ تیار کر کے دے دیتی ہیں، جسے کھانے کے بعد چرچل ایک بار پھر اگلے دن کی منصوبہ بندی میں محو ہوجاتا ہے۔

اس واقعے سے دو باتیں سامنے آتی ہیں۔ اول، ملک میں ہونے والی راشننگ کا اطلاق صرف عام شہری پر نہیں ہوتا، بلکہ وزیر اعظم اوران کے خاندان پر بھی ہوتا ہے۔ دوئم،سرکاری باورچی اپنی ڈیوٹی سر انجام دینے کے بعد چلا جاتا ہے اور اس کے بعد باورچی خانہ سے متعلق تمام امور خاتون اول خود سرانجام دیتی ہیں۔اب ذرا ایک نظر اپنے ملک کے ایوان وزیر اعظم اور اس کے باورچی خانے کی سرگرمیوں پر بھی ڈال لیں۔ غیر منتخب فوجی آمروں کے چونچلے اپنی جگہ، منتخب وزرائے اعظم بھی خلیجی شہزادوں کی طرح جس انداز میں قومی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لٹاتے ہیں، وہ بھی تاریخ کا ایک اہم اور سیاہ ترین باب ہے۔


اول تو ایوان وزیر اعظم کے رقبہ اورتزئین وآرائش کا 10ڈاؤننگ اسٹریٹ کے مکان سے کوئی تقابل ہی نہیں ہے۔10ڈاؤننگ اسٹریٹ دو بیڈ رومز پرمشتمل مکان ہے،جس کا دروازہ فٹ پاتھ پرکھلتا ہے۔اس مکان میں اس ملک کا وزیر اعظم رہتا ہے، جس ملک کی سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا جب کہ اسلام آباد کے عالیشان ایوان میں اس ملک کا وزیر اعظم رہتا ہے، جوعالمی مالیاتی اداروں کے قرض کے بوجھ تلے بری طرح دبا ہوا ہے۔ جہاں مراعات یافتہ طبقات ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔ جہاں صرف تنخواہ دار مڈل کلاس کے ٹیکسوں اور بیرون ملک پاکستانیوں کی بھیجی گئی رقم سے قومی خزانہ چلتا ہے۔

اس پر شاہانہ طرز زندگی کا یہ عالم ہے کہ اس ایوان کے باورچی خانے میں کوئی دو درجن کے قریب باورچی ملازم ہیں، جو مختلف ڈشیں تیارکرتے ہیں۔ پھر شاہ خرچی کا یہ عالم ہے کہ حکمران استنبول کے کباب کھانے کی خواہش میں اپنے جہاز کا رخ ترکی کی طرف مڑوا لیتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم کے شوہر نامدار کا بیرونی ملک دورے کے دوران جب بھنڈی کھانے کو دل چاہا تو ایک جہاز ان کی یہ فرمائش پوری کرنے کی خاطر دوسرے ملک بھیجا جاتا ۔ان کے علاوہ کئی ایسے واقعات ہیں، جو منتخب حکمرانوں کے شاہانہ طرز حیات اور قومی خزانے کو لٹانے سے متعلق ہیں۔ اگر کسی کو میری بات پر شک ہو تو سابق سفارت کار کرامت اللہ غوری کی سوانح پڑھ لے۔

ایک بار پھر چرچل کی تقریر کی طرف آتے ہیں۔ اپنی تقریر میں اس نے دو باتیں کی تھیں۔اول ، ملک میں اگر قانون کی حکمرانی ہو اور عدالتیں عام آدمی کو انصاف مہیا کر رہی ہوں تو اس قوم کو شکست کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوئم،جنگ شروع اور ختم کرنے کا فیصلہ فوجی جرنیل نہیں بلکہ سیاسی رہنما کرتے ہیں ، لیکن ان دونوں نکات پرگفتگو کرنے سے قبل ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہندوستانی سیاستدانوں کے بارے میں وہ کیا رائے رکھتا تھا ؟ اس کا کہنا تھا کہ ہندوستانی سیاستدان بظاہرمیٹھی زبان بولتے ہیں، مگر اندر سے انتہائی تنگ نظر اور کینہ پرور ہیں۔ کوتاہ بین، مطلبی اور خود پرست ہونے کی وجہ سے ان میںوسیع تر قومی مفادات کو سمجھنے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔

انھی بنیادوں پر وہ ہندوستان کو جلد آزادی دیے جانے اور تقسیم ہند کا مخالف تھا۔ اس کا کہناتھا کہ اگر آزادی کے بعد ہندوستان ان رہنماؤں کے ہھتے چڑھ گیا تو یہ ہوا اور پانی پر بھی ٹیکس لاگو کردیں گے۔ ہندوستانی عوام جنھیں انگریز کے دور میں جو عدل وانصاف اور جینے کا ڈھنگ ملاہے، یہ حکمران اپنی بری حکمرانی کے ذریعے ان کا جینا حرام کردیں گے۔ اگر غیر جانبداری کے ساتھ دیکھا جائے تو اس نے مقامی سیاستدانوں کے بارے میں جو کچھ رائے قائم کی تھی، وہ کچھ غلط تو نہیں تھی۔

دہشت گردی کے حالیہ واقعہ نے حکومتی دعوؤں کی قلعی کھول کر رکھ دی کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے ۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت شدت پسند عناصر کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کے بارے میں شروع ہی سے لیت و لعل سے کام لے رہی تھی۔

اگر16دسمبر2014کا سانحہ رونما نہ ہوتا، تو شاید وہ بھی نہ ہو پاتا جوگزشتہ چند ماہ کے دوران کیا گیا۔اس میں شک نہیں کہ فوج نے قبائلی علاقوں میں اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے ضرب عضب کے ذریعے شدت پسندوں کی کمر توڑنے کی بھرپور کوشش کی۔ لیکن اس پورے عمل میںسویلین حکومت کا کوئی کردار نظر نہیں آیا، نہ وفاقی اور نہ KPK کا۔ اسی طرح اگر پنجاب کی صوبائی حکومت شدت پسندوں کے محفوظ ٹھکانوں اور کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیتی تو معاملات کو کنٹرول کرنا قدرے آسان ہوتا۔

البتہ کراچی میں سندھ کی دونوں مقبول جماعتوں کے خلاف ہونے والی کارروائی میں وفاقی حکومت خاصی سرگرم ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ملک میں ہونے والے کئی اہم قتل ابھی تک معمہ بنے ہوئے ہیں۔ جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وفاقی حکومت کے عزائم کیا ہیں؟ محسوس یہی ہو رہا ہے جیسے 18ویں ترمیم کو طاق پر رکھ دیا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے، جیسے وفاقی حکومت اس آئینی ترمیم سے جان چھڑا کر ملک کو ایک بار پھر ون یونٹ کی طرف دھکیلنے کی خواہشمند ہے جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ چند دنوں سے بعض تجزیہ نگاروں نے 18ویں ترمیم کے خلاف مہم کاآغازکردیا ہے۔

ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی کہ جس ملک ومعاشرے میں قانون کی بالادستی نہیں ہوتی، عوام کو عدالتوں سے بروقت انصاف نہیں ملتا اور جہاں طاقت کے ذریعے عوام کے کمزورطبقات اور کمیونٹیز کو اپنا مطیع بنانے کی کوششیں کی جاتی ہیں، وہاں کبھی دیرپا اور پائیدارامن قائم نہیں ہوتا۔ دوسرے ہمیںچرچل کی یہ بات گرہ سے باندھ لینا چاہیے کہ جس معاشرے میں عدل وانصاف نہیںہوتا،اسے شکست و ریخت سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکتی۔
Load Next Story