’’کُچھ‘‘
مشتمل طویل مدتی عبوری حکومت کے قیام کی گنجائش کیسے نکالی جائے گی؟
KARACHI:
بندوں کو گننے کے بجائے انھیں تولنے کا کوئی نظام لایا جا رہا ہے؟ کیا واقعی جمہوریت پھر خطرے میں ہے؟ یہ تشویش اسلام آباد میں بھی پائی جا رہی ہے۔ کسی سیاست دان سے ملیے'کسی صحافی سے بات کریں یا کسی بیوروکریٹ سے ملاقات ہو جائے سب ایک ہی سرگوشی کرتے ہیں' کچھ ہونے والا ہے۔ یہ ''کچھ'' کب ہو گا؟ کسی کو معلوم نہیں' البتہ جلد ہو گا یہ خواہش یا خوف سب کے دلوں اور ذہنوں میں موجود ہے۔ یہ ''کچھ'' کون کرے گا اور کیسے ہو گا؟ اس کا واضح جواب بھی کسی کے پاس نہیں۔
گزرے ہفتے چوبیس گھنٹے وفاقی دارالحکومت میں قیام کا موقع ملا تو ایک باخبر سے میں نے ان سرگوشیوں کے بارے میں پوچھ ہی لیا' اس نے بھی تصدیق کر دی کہ سب اچھا نہیں ہے۔ یہ باخبر شخص کوئی صحافی تھا' بیوروکریٹ یا سیاست دان؟ اس کے بارے میں استفسار نہ ہی کریں تو بہتر ہے۔ حکمرانوں کا یہ شہر انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کے حوالے سے خود کفیل ہے۔ یہاں افواہ ساز فیکٹریاں دن رات چلتی رہتی ہیں' آپ کو اپنی مرضی کی افواہ یا انفارمیشن مل جاتی ہے۔
عدلیہ اور حکومت کے تعلقات کی کیا نوعیت ہے اس کے بارے میں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ پیپلز پارٹی کا ایک وزیر اعظم گھر بھجوایا جا چکا ہے۔ دوسرے وزیر اعظم کو 25 جولائی تک جواب داخل کرنے کی مہلت دی گئی ہے۔ چیف جسٹس کہہ چکے ہیں پارلیمنٹ نہیں آئین سپریم ہے۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کوئٹہ میں بلوچستان ہائیکورٹ بار سے خطاب میں دو اور بڑی اہم باتیں کہی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے خلاف کوئی اقدام ہوا تو سپریم کورٹ مزاحمت کرے گی اور مجھے بھی گولی لگ سکتی ہے۔ پارلیمنٹ کو کس سے خطرہ ہے یہ انھوں نے نہیں بتایا' یہ بھی وضاحت ہمارے پاس نہیں ہے کہ انھیں خود کس سے خطرہ ہو سکتا ہے۔ امن وامان کی خراب صورتحال پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے خلاف چیف جسٹس کی چارج شیٹ اور ان دونوں باتوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
حکومت اور عدلیہ میں تصادم کی کیفیت ہے اس سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ پبلک میں بے شک ناپ تول کر الفاظ ادا کیے جاتے ہوں نجی محفلوں میں آزادی اظہار کا بھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔ حکومتی نمایندے یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ حکومتوں کا تختہ الٹنے والے اب ایسا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ یہ ان کی غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے۔ جنرل کیانی سے بعض لوگوں کا یہی اختلاف ہے کہ وہ حکومت کے خلاف کوئی ایکشن کیوں نہیں لیتے۔ حکمران اپنی ساری پریشانیوں کا ذمے دار عدلیہ کو قرار دیتے ہیں۔
اسلام آباد میں چلنے والی گرما گرم سازشی تھیوریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بنگلہ دیش ماڈل متعارف کرانا چاہتی ہے۔ عبوری سیٹ اپ کی سربراہی کے لیے بھی کئی نام گردش کر رہے ہیں۔ اسد عمر' عبداللہ ہارون اور حفیظ شیخ مضبوط امیدوار بتائے جاتے ہیں۔ اس فہرست میں جو نیا نام شامل ہوا ہے وہ عاصمہ جہانگیر کا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی مشترکہ امیدوار ہو سکتی ہیں۔ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ نے جب بھی جال بُنا منتخب حکومتیں اس میں پھنس گئیں۔ اس جال میں پھنسانے کے لیے چارے کا کام اس وقت کی اپوزیشن سے لیا جاتا۔ اب وہ ''چارا'' دستیاب نہیں ہے۔ پارلیمنٹ میں نمایندگی تک محدود رہیں تو پاکستان میں ابھی تک ٹو پارٹی سسٹم ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ کی طرح ان دو بڑی پارٹیوں میں سے ایک حکومت میں ہوتی تھی اور دوسری اپوزیشن میں۔
اپوزیشن اسٹیبلشمنٹ کو اپنا کندھا پیش کرتی اور وہ حکومت کو گرا دیتی۔ اس بار صورتحال خاصی مختلف ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اور نواز لیگ کی اپوزیشن میں لاکھ اختلافات سہی دونوں پارٹیاں اسٹیبلشمنٹ کو اپنا کندھا پیش کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال متفقہ چیف الیکشن کمشنر کا انتخاب ہے۔ فخرالدین جی ابراہیم کی شہرت سے سب واقف ہیں۔ وہ کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ فخرو بھائی کو سی ای سی بنا کر دونوں بڑی جماعتوں نے پہلا معرکہ سر کر لیا ہے۔ عبوری سیٹ اپ کے قیام پر بھی ان کا اتفاق ہو گیا تو پھر اسٹیبلشمنٹ کا سارا بنا بنایا کھیل بگڑ جائے گا۔ دونوں طرف سے یہ اشارے بھی مل رہے ہیں کہ جلد الیکشن پر اتفاق ہو سکتا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ تین سال کے لیے عبوری سیٹ اپ کا قیام چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ عبوری سیٹ اپ پر بھی متفق ہو جاتی ہیں تو پھر آئین میں سے اجلے لوگوں پر مشتمل طویل مدتی عبوری حکومت کے قیام کی گنجائش کیسے نکالی جائے گی؟ یہ دس لاکھ ڈالر کا سوال ہے۔ آئین یہ کہتا ہے کہ اگر وقت سے پہلے الیکشن کا اعلان ہوتا ہے تو نوے دن کے لیے عبوری حکومت بنائی جائے گی۔ اگر حکومت اپنی مدت پوری کر لے' اس صورت میں عبوری سیٹ اپ کی میعاد ساٹھ دن ہو گی۔ اسی آئین میں سے ڈھائی تین سال کی عبوری حکومت کی گنجائش کیسے نکالی جا سکتی ہے؟
موجودہ حکومت پر نااہلی' کرپشن اور اداروں کی تباہی سمیت سارے الزامات لگائے جا سکتے ہیں۔ اسے ہٹانے کی خواہش بھی درست ہو سکتی ہے لیکن کیا اس کے لیے جمہوری سسٹم کو ڈی ریل کیا جانا چاہیے؟ اس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اور سسٹم یا سیٹ اپ سب کچھ ٹھیک کر دے گا۔ اس پر غور کرنا چاہیے اگر کسی کے پاس فرصت ہے' ورنہ ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے دونوں طرف تیاریاں مکمل ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ہار ماننے کو تیار نہیں۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ بھی اس کا پوری طرح احساس ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کے تقرر سے انھوں نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ بھی ہار نہیں مانیں گی۔ وقت سے پہلے الیکشن کا اعلان ہونے کے بھی واضح امکانات ہیں۔ بیک چینل بات چیت ہو رہی ہے۔
عبوری وزیر اعظم کے نام پر اتفاق ہو گیا تو یہ دونوں جماعتیں سب سے بڑی رکاوٹ بھی عبور کر لیں گی۔ نواز شریف یہ جانتے ہیں کہ موجودہ حکومت کو کسی اور نے گھر بھجوایا تو ان کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا۔ سسٹم بچانے کے چکروں میں وہ فرینڈلی اپوزیشن کے الزامات برداشت کرتے رہے ہیں۔ اب بھی سسٹم بچانے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوں گے۔ زرداری صاحب کی موجودگی میں الیکشن تسلیم کرنے کا اعلان مولانا فضل الرحمان بھی کر چکے ہیں۔
آج تک اتحادی بھی ساتھ کھڑے ہیں۔ عمران ابھی تک اسٹریٹ پاور شو نہیں کر سکے۔ اور کوئی پارٹی دھماکا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ امریکا بہادر کا کیا موڈ ہے۔ اس فیکٹر کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ کیمرون منٹر نے ایسے ہی نہیں کہا کہ سب امریکا کے حامی ہیں۔ کوئی امریکا کا مخالف ہے تو اسے ثبوت دینا ہو گا۔ مجھے تو کسی سے ایسی امید نہیں۔
حالات آپ کے سامنے ہیں۔ کچھ ہونا ہے تواس ''کچھ'' کو کرنے والوں کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ متوقع ''کچھ'' کی مزاحمت کرنے والوں کو بھی جلدی کرنا ہو گی۔ دیکھتے ہیں بندوں کو گننے کی خواہش والے کامیاب ہوتے ہیں یا تولنے والوں کی امید بر آتی ہے۔