صوبائی خودسری

صوبہ سندھ میں بھی سڑک بنتی ہے جس پر پنجاب کا موٹروے تو کجا دبئی ایئرپورٹ کا رن وے رشک کرتا ہے


Jabbar Jaffer September 24, 2015

جب انسان کا پیٹ خالی ہوتا ہے تو الجبرا کے مسائل ہوں یا کیمیا کے فارمولے، فلسفے کی گتھیاں ہوں کہ معاشیات کی پیچیدگیاں، سیاست کے رویے ہوں کہ جمہوریت کی روایات، اخلاقیات کے اسباق ہوں کہ الوہیت کے احکامات آخرکار سب کا محور و ملجا دو روکھی روٹیاں رہ جاتی ہیں تا کہ زندگی کا ساز بے آواز ہی سہی، بجتا رہے۔

ایسے میں رائج جمہوریت کی درندگی سی درندگی ہے کہ چند ہزار 3D ٹیکنالوجی (دھن دھونس دھاندلی) کے بل بوتے پر منتخب ہو کر آنے والے خاندانی لٹیرے کروڑوں عوام کے منہ کا نوالہ چھین کر خود دبئی میں ہوتے ہیں اور لوٹ کا مال سوئس بینکوں میں، بچے تعلیم کے لیے لندن میں، بیگم شاپنگ کے لیے سنگاپور میں، خاندان کا علاج امریکا میں۔ جب کہ ملک کے آدھے سے زیادہ عوام خط افلاس کے نیچے کھسک چکے ہیں اور باقی ''تُو چل میں آیا'' کی رفتار سے کھسکتے چلے جا رہے ہیں۔

آخر اس حادثہ وقت کو ''لارا لپا'' جمہوریت کا نام کیوں نہ دیا جائے؟ لارا لپا جمہوریت ایسی جمہوریت کو کہتے ہیں جس میں آزادانہ، منصفانہ، غیر جانبدارانہ انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پارلیمنٹ میں سارے کے سارے وڈیرے جاگیردار اور سرمایہ دار، طرح دار اور طرے دار نظر آتے ہیں ان میں عوام سے تعلق رکھنے والا ایک بھی عزت مآب کنگلا دکھائی نہیں دیتا۔

پچھلے دنوں کراچی میں پینے کے پانی کا قحط پڑ گیا۔ کراچی کے عوام پانی کی بوند بوند کو ترسنے لگے ہزار بارہ سوکا پانی کا ٹینکر پانچ سے سات ہزار کا ہو گیا۔ ان دنوں وزیر بلدیات غیر قانونی شادی ہالوں اور ہائیڈرنٹس کو مسمار کرنے میں مصروف تھے۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ کراچی میں کوئی گھر ایسا نہیں بچا جہاں کم از کم دو ڈاکے نہ پڑے ہوں۔

کوئی فرد ایسا نہیں بچا جس کا پرس اور موبائل بار بار نہ چھینا گیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل چپراسی کی تنخواہ بھی بینک کے توسط سے ملتی ہے۔ اس لیے کراچی والے گھر میں روز مرہ کے اخراجات کے لیے (مثلاً سبزی ترکاری، بسوں کا کرایہ، بچیوں کا جہیز وغیرہ) صرف ڈیڑھ دو ہزار روپے گھر میں رکھتے ہیں۔

قدرت کا کرشمہ دیکھیے کہ سندھ کے ایک وزیر کے گھر سے چھاپے کے دوران روز مرہ اخراجات کے لیے پورے دو ارب روپے پڑے ہوئے ملے۔ سوال یہ ہے کہ جس گھر میں روز مرہ کے اخراجات کے لیے دو ارب روپے پڑے رہتے ہوں اس گھر کا ماہانہ خرچہ کتنے کھرب ہو گا؟ پھر یہ آتا کہاں سے ہو گا؟ ڈالروں سے لدی ہوئی لانچوں اور سپر ماڈلز کی کھیپیں الگ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا صوبائی خودمختاری کرپشن کے لائسنس کا نام ہے؟ یہ تو صوبائی خود سری ہوئی۔

سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ کیا دوسرے صوبوں کے ارباب اختیار دودھ کے دھلے ہیں؟ یہ تو ناممکن ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہاں ترقیاتی کام ہوتے تو ہیں، ٹھیکوں میں ہیر پھیر اور کمیشن کی بندر بانٹ کا الزام بجا لیکن موٹر وے بنتی تو ہے۔ میٹرو بس چلتی تو ہے۔

صوبہ سندھ میں بھی سڑک بنتی ہے جس پر پنجاب کا موٹروے تو کجا دبئی ایئرپورٹ کا رن وے رشک کرتا ہے۔ جس پر F-16 اترنے کی تمنا رکھتا ہے۔ بجلی کے کھمبے تو کجا پچاس پچاس سال پرانے گھنے سایہ دار برگد کے درخت بھی دو رویہ لگائے جا سکتے ہیں۔ میٹریل فرسٹ کلاس، تعمیراتی کام ٹاپ کلاس اور اخراجات سپر کلاس ہوتے ہیں۔

لیکن افسوس کہ دوسرے صوبے سڑک بنا کر کمیشن کھاتے ہیں لیکن سندھ میں سالم سڑک ہی کھا جاتے ہیں۔ قسمت کی ماری اگر بارش میں ٹوٹ پھوٹ سے بچ بھی جائے تو سیلاب میں بہا دی جاتی ہے۔ لیکن آفرین ہے قوم کے غمگساروں پر ہمت نہیں ہارتے دوبارہ کمر کس لیتے ہیں۔ آخر قوم کی خدمت بھی تو کوئی چیز ہے؟

فرض کریں کہ اگر صوبائی حکام کسی بڑی مچھلی پر ہاتھ ڈالتے ہیں اور وفاق اس کو بچانے کے لیے میدان میں آتا ہے تو یہ صوبائی خودمختاری میں مداخلت کہلائے گی، لیکن اگر صوبائی حکام ہی بے قابو مگرمچھوں کی طرح کرپشن کے سمندر میں غوطے مارنے لگیں تو ان کی گردن ناپنے کو صوبائی خودمختاری میں مداخلت کیسے تصور کر لی جائے؟

حقیقت یہ ہے کہ صوبائی خودمختاری آسمان سے گری ضرور لیکن کھجور میں اٹک گئی۔ وفاق سے صوبائی اسمبلی تک پہنچتے تو سب نے دیکھا پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ گراس روٹ لیول کی مقامی حکومتوں یعنی جمہوریت کی نرسری تک نہیں پہنچی کیونکہ صوبائی قانون ساز اسمبلی کے قانون باز ارکان اسمبلی لوکل گورنمنٹ کے بلدیاتی انتخابات ہونے نہیں دیتے تا کہ صوبائی خود مختاری مقامی حکومتوں کے ناظمین کو منتقل (Delegate) نہ کرنا پڑے۔

جو گراس روٹ لیول پر مالی اور انتظامی اختیارات استعمال کرنے والی آخری اتھارٹیز ہو جاتے ہیں۔ خوش خبری یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے غیر معمولی دباؤ سے مجبور ہو کر بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری تو ہو گیا ہے لیکن ان انتخابات کا آخری ووٹ کاسٹ ہونے تک مجھے تو یقین نہیں ہے کہ انتخابات ہو جائیں گے۔

آج کل پاکستان میں ہر طرف ایک شخص کا چرچا عام ہے۔ جو بولتا بہت کم ہے، ہنستا بالکل نہیں، مسکراتا ہوا میں نے نہیں دیکھا۔ البتہ وقفے وقفے سے ٹی وی پر وزیر اعظم کی باتیں غور سے سنتا ہوا، ان کے چہرے کو غور سے دیکھتا ہوا نظر آتا ہے۔

نام میں کیا رکھا ہے اگر دیکھنا ہو تو اس کو وزیرستان سے لے کر کراچی تک دہشت گردی کے خلاف اقدامات میں اور کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنے کے احکامات میں دیکھیں۔ اگر یاد رکھنا ہو تو جب آرمی پبلک اسکول دہشت گرد درندوں کے ہاتھوں معصوم بچوں کے قتل عام کے بعد دوبارہ کھلا تو اس کے مین گیٹ پر کندھوں سے بستے لٹکائے۔ حصول تعلیم کے لیے آنے والے ننھے سورماؤں کو سلیوٹ مارنے کے لیے پاکستان کا وہ واحد چیف تھا جو کھڑا تھا۔ نام میں کیا رکھا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں