شہر قائد کو اپنائیے

پاکستان مسلم لیگ نو از گروپ کے سربراہ میاں نواز شریف سے سیاسی اختلا ف توکیا جا سکتا ہے

mohsin014@hotmail.com

پاکستان مسلم لیگ نو از گروپ کے سربراہ میاں نواز شریف سے سیاسی اختلا ف توکیا جا سکتا ہے مگر ان کی صلاحیتوں سے انکار ممکن نہیں۔ پاکستان کے تمام موجودہ سیاسی رہنماؤں میں سب سے زیادہ مقبول میاں نواز شریف ہیں جنہوں نے اپنے ہر دور حکومت میں بڑے بڑے میگا پروجیکٹ مکمل کیے، موٹروے اور میٹرو بس دونوں ہی ایسے پروجیکٹ ہیں جو مفاد عامہ کے زمرے میں آتے ہیں۔ میاں صاحب اصولوں کی سیاست کے علا وہ کسی کی پگڑی اچھالنا پسند نہیں کرتے نہ ہی کسی کے دباؤ میں آ کر اصولوں سے ہٹتے ہیں۔

پاکستان کے عوا م یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح انھوں نے کراچی میں بدامنی دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے رینجرز کو اختیارات دیے اور دوسرے محکموں کو آزادانہ کام کرنے کی ہد ایت کی، انھیں جتنا خراج تحسین پیش کیا جائے، اتنا کم ہے، لیکن اہل کراچی ان سے یہ امید بھی رکھتے ہیں کہ وہ وفاق کی طرف سے یہاں کے بنیادی مسائل کے حل میں معاونت کریں کیونکہ سندھ انتظامیہ کے سربراہ وزیر اعلیٰ نے اب تک اس طرح کے بڑے اقدامات بوجوہ نہیں کیے جس طرح پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے کیے۔

کراچی کے مختلف علاقوں میں ابھی تک گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، برساتی نالے لبالب بھرے ہوئے ہیں، اب تک کوڑا پھینکنے کا بندوبست نہیں ہوا، تعفن کے بھپکے اٹھتے ہیں، تمام فٹ پاتھوں پر اتنی تجاوزات ہیں کہ پیدل چلنا دشوار ہے۔

دو کروڑ کی آبادی کا شہر ہے نہ کشادہ بسیں ہیں نہ ویگنیں نہ کوئی باوقار ٹرانسپورٹ نظام جو شہر قائد کے شایان شان ہو۔ مناسب تعلیم گاہیں ہیں نہ تفریح گاہیں، کلفٹن کا ساحل میرین آلودگی کا شاہکار بنتا جا رہا ہے، ہاکس بے ویسے کا ویسا ہے، کوئی ترقیاتی منصوبہ نظر نہیں آتا۔ اب تو سفارتی گاڑیاں پیراڈائز پوائنٹ اور ساحلی علاقوں تک رسائی کے لیے آئی سی آئی برج سے جانے والے راستے کا کم ہی انتخاب کرتی ہیں، ہیوی ٹرکس، آئل ٹینکروں، ٹرالروں اور کنٹینروں کا سیلاب ماری پور روڈ کو تباہی اور ٹریفک جام کا عذاب دے گیا ہے، ٹریفک پولیس اہلکار قانون کے مطابق ان ہیوی وہیکلز کو رات دس بجے کے بعد سڑک پر آنے کا پابند نہیں بنا سکے۔

وجہ اس ٹرانسپورٹ مافیا کی مبینہ سرپرستی ہے، جس نے سرکلر ریلوے کے عوامی منصوبہ کو سبوتاژ کر دیا۔ اگر گندگی اور کچرے کے ڈھیر والی میری با ت پر یقین نہ آئے تو کس بھی روز جا کر قا ئد اعظم کے مزار اس کے اطراف ، اور ملحقہ پارک کی حالت زار دیکھ لیں، جہاں کی صفائی ستھرائی اور ہریالی بے مثل تھی لیکن اب وہ معیار صفر ہو گیا ہے جہاں داخلے کے لیے صرف دو روپے لیے جا تے تھے تو وہاں مینٹیننس کا معیار بہت بلند تھا، اب جب کہ دس روپے لیے جاتے ہیں جو کہ غریبوں اور بانی پاکستان سے دلی عقیدت رکھنے والوں پر ظلم کے مترادف ہے کہ وہ اپنے بانی پاکستان قائد اعظم کے مزار پر جانے کا ٹکٹ لیں۔


پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف جہاں بڑے اہم فیصلے ملکی مفاد میں کر رہے ہیں، کاش وہ اس شہر پر بھی توجہ دیں جہاں آپریشن کے بعد سے حالات نسبتاً بہتر ہوئے ہیں۔ جب کہ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ وفاق کی طرف سے اہل کراچی کو کم از کم پانچ ہزار بسوں کا تحفہ دیں اور کراچی کے تمام تھانوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائز کرائیں۔

پولیس ویلفیئر فنڈ میں وفاق بھی حصہ ڈالے کیونکہ کراچی پاکستان کا واحد شہر ہے جو 60/70 فیصد ٹیکس جمع کر کے دیتا ہے جو تقریباً دو ہزار ارب سالانہ بنتا ہے۔ اگر اس شہر کراچی کو قا ئد اعظم محمد علی جناح کا آبائی شہر سمجھتے ہو ئے اسے حقیقی میٹروپولیٹن سٹی قرار دیا جائے اور اس کا درجہ اسلام آباد کے برابر قرار دیا جا ئے تا کہ اس شہر کو پاکستان کا تجا رتی دارالحکومت سمجھا جائے جس طرح سعودی عرب میں ان کا دارالحکومت ریاض ہے مگر جد ہ جہاں پورٹ ہے، اسے تجارتی مرکز کی حیثیت دی ہے۔

ہمارا شہر کراچی نواز شریف کی صلاحیتوں سے مستفیض ہونے کا منتظر ہے۔ یہاں ایسا ماحول بن جائے کہ زندگی رواں دواں رہے۔ ظلم و ستم ختم ہو، ایک دوسرے کی عزت ہو، رواداری ہو، اخوت و بھائی چارہ عام ہو۔ کسی قسم کی ہڑتال کی اجا زت نہ ہو، کیونکہ ایک دن کی ہڑ تال سے کئی ارب روپے کا مالی نقصان ہوتا ہے جب کہ یہاں کے باسیوں کو ذہنی تکلیف بھی اٹھانا ہوتی ہے۔

ایک وقت تھا یہ شہر مثالی تھا۔ امارت و غربت کے درمیان زندگی شاد و آباد تھی۔ نفرتوں کی کوئی فصل لہلہاتی نظر نہیں آتی تھی۔ ہر طرف مروت ، محبت و یکجہتی کا پھیلاؤ تھا۔ سٹرکیں صاف شفاف ہوتی تھیں، تمام تفریح گاہیں صاف ستھری ہوتی تھیں، بسیں اسٹاپ پر ہی رکتی تھیں حتیٰ کہ ہر کنڈیکٹر یونیفارم میں ہوتا تھا۔ یورپی ممالک سے تحفہ میں ملنے والی ڈبل ڈیکر بسیں چلتی تھیں۔

طلبا کو ٹکٹ میں رعایت ملتی تھی۔ پوری رات یہ شہر جگمگاتا تھا۔ آج بھی اس شہر کی تفریح گاہوں کو اگر بیرونی ممالک کو لیز پر دیا جائے تو وہ اس شہر میں بہترین تفریح گاہیں، ہوٹل، فارم ہا ؤسسز بنا سکتے ہیں۔ جہاں سے وہ بھی کمائیں گے اور ہم بھی فا ئدہ اٹھا ئیں گے۔ خوبصورت تفریح گا ہوں پر بجلی کے سولر سٹم لگ سکتے ہیں۔ اس طرح ٹرانسپورٹ کے لیے بھی ترکی، انڈونیشیا، ملا ئشیا جیسے ممالک سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہیں۔ چین سے بجلی کا پورا نطام شراکت پر لیا جا سکتا ہے۔

امید ہے پاکستان کی ہر سیاسی جماعت اس شہر کو اپنائے گی۔ جو بندہ پرور شہر ہے اس کی خدمت بھی ہم سب پر فرض ہے، یہ چھوٹا پاکستان محنت کشوں کا دوست اور مائی باپ ہے۔ دل کا بڑا کشادہ ہے۔ اس شہر کی رونق جس طرح رینجرز اور پولیس کی کاوشوں سے بحال ہو رہی ہے، اہل کراچی اس پر بہت مطمئن اور مسرور نظر آتے ہیں۔
Load Next Story