نُمائشی قربانی
آپ بھلے دس جانور قربان کرلیں، لیکن اگر آپ کے پڑوس میں کوئی ایک بھی بھوکا سوجائے تو بھلا ایسی قربانی کا کیا فائدہ؟
عید کا دن تھا اور آدھی رات ہونے کو تھی، سیٹھ صاحب ابھی تک ڈرائنگ روم میں بیٹھے مہمانوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
''اب ماشاء اللہ چھ بکرے اور ایک بیل ۔۔۔ قربانی سے فارغ ہوتے ہوتے ہی پانچ بج گئے، کہیں آنے جانے کا تو موقع ہی نہیں ملا''۔ سیٹھ صاحب نے باتوں ہی باتوں میں قربانی کے جانوروں کی اصل تعداد بتاتے ہوئے کہا۔
''وہ تو یہ قصائی بہت ماہر تھا جو اتنی جلدی سب ہوگیا، اس کی جگہ کوئی اور قصائی ہوتا تو شاید رات ہی پڑ جاتی۔ اب تو قصائیوں کے معاوضے بھی آسمان کو چھونے لگے ہیں، میں نے کہا بھائی نوے ہزار کے بجائے پورا لاکھ لے لینا مگر کام ڈھنگ سے کرنا، گوشت بالکل بھی خراب نہیں ہونا چاہیے۔'' اُنہوں نے بڑی صفائی سے قصائی کا معاوضہ بھی بیان کردیا۔
''کاروبارکے جو حالات آجکل چل رہے ہیں وہ تو سب آپ کے سامنے ہی ہے، مشکل سے ہی کچن چلتا ہے۔۔۔ پہلے تو مجھے لگا کہ اس مرتبہ قربانی کرنا بہت مشکل ہوجائے گا مگر جب نیت صاف ہو تو اللہ کوئی نہ کوئی حل نکال ہی دیتا ہے، بس ایک جگہ سے تھوڑی سی پیمنٹ ہوئی اور میں نے فوراََ مویشی منڈی کا رُخ کیا کہ نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ ساڑھے تین لاکھ میں بیل خریدا، ماشاء اللہ پوری منڈی میں سب سے خوبصورت جانور تھا، اور ایک ایک لاکھ کے پانچ بکرے، اور وہ جو سفیدرنگ کا بکرا تھا نہ جس کی کھال پر ''اللہ '' لکھا ہوا تھا ، وہ دو لاکھ میں خریدا تھا۔'' سیٹھ صاحب نے جس مہارت سے قربانی کے جانوروں کی قیمت بیان کی تھی اُس کے لیے وہ داد کے مستحق تھے۔
ہر طرف سے ''ماشاء اللہ، ماشاء اللہ'' کی صدائیں بلند ہوئیں اور سیٹھ صاحب کو ایسے لگا جیسے اُنہیں اُن کی قربانی کا صلہ مل گیا ہو۔ ''بس آپ جیسے دوستوں کی دعائوں سے ہی یہ سب ممکن ہوا، ورنہ میں ناچیز اس قابل کہاں تھا،' ' سیٹھ صاحب کی عاجزی کا تو سارا زمانہ معترف تھا۔
''صاحب جی! میں اب جائوں، رات کافی ہوگئی ہے اور بچے گھر میں اکیلے ہیں۔'' رشیداں کی آواز نے اچانک سب کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔
''ابھی تھوڑی دیر اور ٹھہرجاؤ بہت کام پڑے ہیں کرنے والے، تم نے کونسا دور جانا ہے۔ '' سیٹھ صاحب نے نرمی سے کہا اوربیچاری رشیداں چپ چاپ دوبارہ کام میں لگ گئی۔
''ہماری ملازمہ ہے، وہ جو دو سال پہلے ڈکیتی میں مزاحمت پر ہمارا چوکیدار قتل ہوگیا تھا ناں، یہ اُسی کی بیوہ ہے، میں نے انہیں اپنے بنگلے کے پیچھے ہی کوارٹر بنوا کر دے دیا ہے کہ بیچاری چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ کہاں ٹھوکریں کھاتی پھرے گی۔''
''سیٹھ صاحب! آپ بہت خدا ترس آدمی ہیں، ورنہ آج کے زمانے میں کون کسی کے ساتھ ایسی نیکی کرتا ہے''، سیٹھ صاحب کے ایک دوست نے اُن کی خدا ترسی کو سراہتے ہوئے کہا اور باقی سب نے بھی تائید میں سر ہلا دیا۔
''بھائی، میں نیکی کرکے جتلانے کا قائل نہیں ہوں، یہ تو اچانک تذکرہ چل پڑا تو مجھے بتانا پڑ گیا ۔۔۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی قربانی کی، آجکل تو لوگوں نے قربانی کو بھی بس نمائش ہی بنا لیا ہے، ایک جانور کیا خرید لیا چلے شہر بھر میں ڈھنڈورا پیٹنے۔ اب میں نے آپ کے سامنے ہی ماشاء اللہ سے سات جانور قربان کیے ہیں مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ۔۔۔ ''
''صاحب جی! بچے انتظار کر رہے ہوں گے، میرا چھوٹا بیٹا تو میرے بغیر سوتا بھی نہیں ہے،'' رشیداں نے بے چینی سے کہا، اب کی بار تو اُس نے سیٹھ صاحب کی بات مکمل ہونے کا بھی انتظار نہیں کیا تھا۔
''ٹھیک ہے چلی جاؤ، مگر جانے سے پہلے کھانا ضرور کھا لینا ۔۔۔ پھر شکوہ نہ کرنا کہ سیٹھ صاحب خود تو عید کی خوشیوں میں مگن رہے اور ہم غریبوں کو پوچھا تک نہیں''، اور ایک بار پھر حاضرینِ محفل سیٹھ صاحب کو اُن کی خدا ترسی پر داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔
اپنے کھانے کی کسے پرواہ تھی، وہ اجازت ملتے ہی تیزی سے اپنے کوارٹر کی طرف دوڑ پڑی۔ رشیداں کی بڑی بیٹی جس کی عمر ابھی بمشکل چودہ برس تھی کے سوا باقی چاروں بچے ماں کا انتظار کرتے کرتے سوگئے تھے۔
''اِنہوں نے کچھ کھایا بھی کہ نہیں؟'' رشیداں نے روتے ہوئے پوچھا۔
''کل رات والی دال میں نے پانی ڈال کر دوبارہ گرم کر دی تھی اور روٹیاں بھی پکا دی تھیں۔۔۔ـ'' وہ یہ کہہ کر روتے ہوئے ماں سے لپٹ گئی۔
''وہ پوچھتے رہے کہ امّاں سیٹھ صاحب کے بنگلے سے گوشت لے کر کب آئیں گی ۔۔۔ مگر امّاں! تم آئی ہی نہیں اور وہ بھوکے سو گئے ۔۔۔''
''آپ بھلے دس جانور قربان کرلیں، لیکن اگر آپ کے پڑوس میں کوئی ایک بھی بھوکا سوجائے تو بھلا ایسی قربانی کا کیا فائدہ،'' سیٹھ صاحب کی باتیں جاری تھیں اور دادوتحسین کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔
[poll id="680"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
''اب ماشاء اللہ چھ بکرے اور ایک بیل ۔۔۔ قربانی سے فارغ ہوتے ہوتے ہی پانچ بج گئے، کہیں آنے جانے کا تو موقع ہی نہیں ملا''۔ سیٹھ صاحب نے باتوں ہی باتوں میں قربانی کے جانوروں کی اصل تعداد بتاتے ہوئے کہا۔
''وہ تو یہ قصائی بہت ماہر تھا جو اتنی جلدی سب ہوگیا، اس کی جگہ کوئی اور قصائی ہوتا تو شاید رات ہی پڑ جاتی۔ اب تو قصائیوں کے معاوضے بھی آسمان کو چھونے لگے ہیں، میں نے کہا بھائی نوے ہزار کے بجائے پورا لاکھ لے لینا مگر کام ڈھنگ سے کرنا، گوشت بالکل بھی خراب نہیں ہونا چاہیے۔'' اُنہوں نے بڑی صفائی سے قصائی کا معاوضہ بھی بیان کردیا۔
''کاروبارکے جو حالات آجکل چل رہے ہیں وہ تو سب آپ کے سامنے ہی ہے، مشکل سے ہی کچن چلتا ہے۔۔۔ پہلے تو مجھے لگا کہ اس مرتبہ قربانی کرنا بہت مشکل ہوجائے گا مگر جب نیت صاف ہو تو اللہ کوئی نہ کوئی حل نکال ہی دیتا ہے، بس ایک جگہ سے تھوڑی سی پیمنٹ ہوئی اور میں نے فوراََ مویشی منڈی کا رُخ کیا کہ نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ ساڑھے تین لاکھ میں بیل خریدا، ماشاء اللہ پوری منڈی میں سب سے خوبصورت جانور تھا، اور ایک ایک لاکھ کے پانچ بکرے، اور وہ جو سفیدرنگ کا بکرا تھا نہ جس کی کھال پر ''اللہ '' لکھا ہوا تھا ، وہ دو لاکھ میں خریدا تھا۔'' سیٹھ صاحب نے جس مہارت سے قربانی کے جانوروں کی قیمت بیان کی تھی اُس کے لیے وہ داد کے مستحق تھے۔
ہر طرف سے ''ماشاء اللہ، ماشاء اللہ'' کی صدائیں بلند ہوئیں اور سیٹھ صاحب کو ایسے لگا جیسے اُنہیں اُن کی قربانی کا صلہ مل گیا ہو۔ ''بس آپ جیسے دوستوں کی دعائوں سے ہی یہ سب ممکن ہوا، ورنہ میں ناچیز اس قابل کہاں تھا،' ' سیٹھ صاحب کی عاجزی کا تو سارا زمانہ معترف تھا۔
''صاحب جی! میں اب جائوں، رات کافی ہوگئی ہے اور بچے گھر میں اکیلے ہیں۔'' رشیداں کی آواز نے اچانک سب کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔
''ابھی تھوڑی دیر اور ٹھہرجاؤ بہت کام پڑے ہیں کرنے والے، تم نے کونسا دور جانا ہے۔ '' سیٹھ صاحب نے نرمی سے کہا اوربیچاری رشیداں چپ چاپ دوبارہ کام میں لگ گئی۔
''ہماری ملازمہ ہے، وہ جو دو سال پہلے ڈکیتی میں مزاحمت پر ہمارا چوکیدار قتل ہوگیا تھا ناں، یہ اُسی کی بیوہ ہے، میں نے انہیں اپنے بنگلے کے پیچھے ہی کوارٹر بنوا کر دے دیا ہے کہ بیچاری چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ کہاں ٹھوکریں کھاتی پھرے گی۔''
''سیٹھ صاحب! آپ بہت خدا ترس آدمی ہیں، ورنہ آج کے زمانے میں کون کسی کے ساتھ ایسی نیکی کرتا ہے''، سیٹھ صاحب کے ایک دوست نے اُن کی خدا ترسی کو سراہتے ہوئے کہا اور باقی سب نے بھی تائید میں سر ہلا دیا۔
''بھائی، میں نیکی کرکے جتلانے کا قائل نہیں ہوں، یہ تو اچانک تذکرہ چل پڑا تو مجھے بتانا پڑ گیا ۔۔۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی قربانی کی، آجکل تو لوگوں نے قربانی کو بھی بس نمائش ہی بنا لیا ہے، ایک جانور کیا خرید لیا چلے شہر بھر میں ڈھنڈورا پیٹنے۔ اب میں نے آپ کے سامنے ہی ماشاء اللہ سے سات جانور قربان کیے ہیں مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ۔۔۔ ''
''صاحب جی! بچے انتظار کر رہے ہوں گے، میرا چھوٹا بیٹا تو میرے بغیر سوتا بھی نہیں ہے،'' رشیداں نے بے چینی سے کہا، اب کی بار تو اُس نے سیٹھ صاحب کی بات مکمل ہونے کا بھی انتظار نہیں کیا تھا۔
''ٹھیک ہے چلی جاؤ، مگر جانے سے پہلے کھانا ضرور کھا لینا ۔۔۔ پھر شکوہ نہ کرنا کہ سیٹھ صاحب خود تو عید کی خوشیوں میں مگن رہے اور ہم غریبوں کو پوچھا تک نہیں''، اور ایک بار پھر حاضرینِ محفل سیٹھ صاحب کو اُن کی خدا ترسی پر داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔
اپنے کھانے کی کسے پرواہ تھی، وہ اجازت ملتے ہی تیزی سے اپنے کوارٹر کی طرف دوڑ پڑی۔ رشیداں کی بڑی بیٹی جس کی عمر ابھی بمشکل چودہ برس تھی کے سوا باقی چاروں بچے ماں کا انتظار کرتے کرتے سوگئے تھے۔
''اِنہوں نے کچھ کھایا بھی کہ نہیں؟'' رشیداں نے روتے ہوئے پوچھا۔
''کل رات والی دال میں نے پانی ڈال کر دوبارہ گرم کر دی تھی اور روٹیاں بھی پکا دی تھیں۔۔۔ـ'' وہ یہ کہہ کر روتے ہوئے ماں سے لپٹ گئی۔
''وہ پوچھتے رہے کہ امّاں سیٹھ صاحب کے بنگلے سے گوشت لے کر کب آئیں گی ۔۔۔ مگر امّاں! تم آئی ہی نہیں اور وہ بھوکے سو گئے ۔۔۔''
''آپ بھلے دس جانور قربان کرلیں، لیکن اگر آپ کے پڑوس میں کوئی ایک بھی بھوکا سوجائے تو بھلا ایسی قربانی کا کیا فائدہ،'' سیٹھ صاحب کی باتیں جاری تھیں اور دادوتحسین کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔
[poll id="680"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس