خبر رسانیاں
بے وقوف بنانے والوں کا کاروبار وہیں پھلتا پھولتا ہے جہاں بے وقوف بننے والے موجود ہوتے ہیں۔
لاہور:
جب نیا نیا فیس بک متعارف ہوا تو عام آدمی کو اظہاریے کا ایک موقع میسر آیا تو اس نے روایتی میڈیا پر بھرپور گرفت کی اور خبر سے لے کر تجزیے تک پڑنے والی دانشورانہ و غیر دانش ورانہ ڈنڈیوں کو خوب آشکار کیا، صرف یہی نہیں عوام کی اکثریت کے اظہاریے تک یہ بات بھی موجود ہے کہ قوم کے اخلاق اور قدروں کو تباہ کرنے میں الیکٹرانک میڈیا کا بڑا ہاتھ ہے اور آج یہ وقت آیا ہے کہ انہی عام آدمیوں میں سے چند نے سماجی خبر رسانی کے ایسے طریقے دریافت کیے کہ روایتی میڈیا بھی پناہ مانگنے لگا ہے۔
ویسے جدید دنیا کا سب سے زیادہ طاقتور اور منافع بخش ادارہ خبر رساں میڈیا کا ہے جس میں روایتی میڈیا بھی آتا ہے اور اب سوشل میڈیا بھی- لیکن ایک بات مشترک ہے کہ دونوں عوام و خواص کے کمزور پہلوؤں کے سہارے نہ صرف ان پر حکومت کرتے ہیں بلکہ کماتے بھی ہیں- جیسے ایک بے روزگار نے سالوں، دفتروں اور اداروں کے دھکے کھائے لیکن نوکری نہ ملی، تنگ آ کر کہیں سے 30 لاکھ ایک ماہ کے وعدے پر ادھار پکڑا اور ایک اخبار جاری کیا، اس کی مفت ترسیل کی جاتی، 25 ویں دن مزید ایک دن کی اشاعت کے لیے رقم بچ رہی تھی تو اس نے اخبار میں ایک اشتہار شائع کیا جس میں لکھا،
صبح اخبار تھڑوں اور ناشتے کی میزوں پر پہنچا توعام لوگوں نے اندازے لگانا شروع کر دئیے کہ یہ شہر کا کون سا معزز ہو سکتا ہے، تو دوسری طرف ہر معززِ شہر میں تھرتھلی مچ گئی، ہر ایک کی تجوریوں میں بلیک منی ہو تو خبر نے ہر ایک معزز شہری کا سکھ چین ہی چھننا تھا، اخبار کے چیف ایڈیٹر کا فون مسلسل بجنے لگا، کالز کرنے والے معززین شہر تھے جو اپنی اپنی ادا سے منت سماجت کر کے اپنے اسکینڈل کو چھپنے سے روکنا چاہتے تھے، یوں کسی سے ڈیڑھ کروڑ پر معاملہ طے ہوا تو کسی سے 5 کروڑ پر، شام تک چیف ایڈیٹر کے ذاتی بینک اکاؤنٹ میں 25 کروڑ کی رقم جمع ہو چکی تھی-
سوشل میڈیا پر بھی خبر رساں فیس بک صفحے اور ان سے منسلک ویب سائٹس اپنے قارئین کی سادہ لوحی کا فائدہ اٹھاتے دکھائی دیتے ہیں، شہہ سرخیوں میں اس قدر سسپنس کہ سسپنس ڈائجسٹ بھی ان کے سامنے نومولود لگتا ہے، قربانی کے گوشت کے ساتھ ''خطرناک وارننگ جاری'' کی جا رہی ہے، پہلے لمحے تو لگتا ہے جیسے بکرے اور بھیڑ کی کھال والے جانور بکنا شروع نہ ہوگئے ہوں جن کو ذبح کریں تو اندر سے گدھے کا گوشت نکلے، لیکن شُکر اندر لکھا تھا قربانی کے گوشت کو فوراً پکانے سے گریز کریں- صبح سے رات گئے تک لاکھوں لوگوں کو بے وقوف بنانے والے یہ ایڈیٹر بھی سونے سے پہلے ڈالرز گن کے ہی سوتے ہیں-
ویسے دیکھا جائے تو ان بیچاروں کا کیا قصور ہے، بے روزگاری اور کم آمدنی کے ماروں کو دفتر یا گھر کے میز پر بیٹھے بٹھائے اچھا خاصا روزگار مل جائے تو اس سے اچھی بات بھلا ان کے لیے کیا ہو سکتی ہے- رہا کال کرنے والے خواص اور سسپنس سے بھری سرخیوں میں خبر تلاش کرنے والوں کا معاملہ تو بے وقوف بنانے والوں کا کاروبار وہیں پھلتا پھولتا ہے جہاں بے وقوف بننے والے موجود ہوتے ہیں، ورنہ گنجوں کے شہر میں کب کسی نے کنگھے بکتے دیکھے ہیں۔
[poll id="678"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
جب نیا نیا فیس بک متعارف ہوا تو عام آدمی کو اظہاریے کا ایک موقع میسر آیا تو اس نے روایتی میڈیا پر بھرپور گرفت کی اور خبر سے لے کر تجزیے تک پڑنے والی دانشورانہ و غیر دانش ورانہ ڈنڈیوں کو خوب آشکار کیا، صرف یہی نہیں عوام کی اکثریت کے اظہاریے تک یہ بات بھی موجود ہے کہ قوم کے اخلاق اور قدروں کو تباہ کرنے میں الیکٹرانک میڈیا کا بڑا ہاتھ ہے اور آج یہ وقت آیا ہے کہ انہی عام آدمیوں میں سے چند نے سماجی خبر رسانی کے ایسے طریقے دریافت کیے کہ روایتی میڈیا بھی پناہ مانگنے لگا ہے۔
ویسے جدید دنیا کا سب سے زیادہ طاقتور اور منافع بخش ادارہ خبر رساں میڈیا کا ہے جس میں روایتی میڈیا بھی آتا ہے اور اب سوشل میڈیا بھی- لیکن ایک بات مشترک ہے کہ دونوں عوام و خواص کے کمزور پہلوؤں کے سہارے نہ صرف ان پر حکومت کرتے ہیں بلکہ کماتے بھی ہیں- جیسے ایک بے روزگار نے سالوں، دفتروں اور اداروں کے دھکے کھائے لیکن نوکری نہ ملی، تنگ آ کر کہیں سے 30 لاکھ ایک ماہ کے وعدے پر ادھار پکڑا اور ایک اخبار جاری کیا، اس کی مفت ترسیل کی جاتی، 25 ویں دن مزید ایک دن کی اشاعت کے لیے رقم بچ رہی تھی تو اس نے اخبار میں ایک اشتہار شائع کیا جس میں لکھا،
''شہر کی ایک معزز شخصیت کا اسکینڈل ہمارے اخبار نے پکڑ لیا، بھاری جرمانے اور گرفتاری کا خدشہ، تفصیلات کل کے شمارے میں''
صبح اخبار تھڑوں اور ناشتے کی میزوں پر پہنچا توعام لوگوں نے اندازے لگانا شروع کر دئیے کہ یہ شہر کا کون سا معزز ہو سکتا ہے، تو دوسری طرف ہر معززِ شہر میں تھرتھلی مچ گئی، ہر ایک کی تجوریوں میں بلیک منی ہو تو خبر نے ہر ایک معزز شہری کا سکھ چین ہی چھننا تھا، اخبار کے چیف ایڈیٹر کا فون مسلسل بجنے لگا، کالز کرنے والے معززین شہر تھے جو اپنی اپنی ادا سے منت سماجت کر کے اپنے اسکینڈل کو چھپنے سے روکنا چاہتے تھے، یوں کسی سے ڈیڑھ کروڑ پر معاملہ طے ہوا تو کسی سے 5 کروڑ پر، شام تک چیف ایڈیٹر کے ذاتی بینک اکاؤنٹ میں 25 کروڑ کی رقم جمع ہو چکی تھی-
سوشل میڈیا پر بھی خبر رساں فیس بک صفحے اور ان سے منسلک ویب سائٹس اپنے قارئین کی سادہ لوحی کا فائدہ اٹھاتے دکھائی دیتے ہیں، شہہ سرخیوں میں اس قدر سسپنس کہ سسپنس ڈائجسٹ بھی ان کے سامنے نومولود لگتا ہے، قربانی کے گوشت کے ساتھ ''خطرناک وارننگ جاری'' کی جا رہی ہے، پہلے لمحے تو لگتا ہے جیسے بکرے اور بھیڑ کی کھال والے جانور بکنا شروع نہ ہوگئے ہوں جن کو ذبح کریں تو اندر سے گدھے کا گوشت نکلے، لیکن شُکر اندر لکھا تھا قربانی کے گوشت کو فوراً پکانے سے گریز کریں- صبح سے رات گئے تک لاکھوں لوگوں کو بے وقوف بنانے والے یہ ایڈیٹر بھی سونے سے پہلے ڈالرز گن کے ہی سوتے ہیں-
ویسے دیکھا جائے تو ان بیچاروں کا کیا قصور ہے، بے روزگاری اور کم آمدنی کے ماروں کو دفتر یا گھر کے میز پر بیٹھے بٹھائے اچھا خاصا روزگار مل جائے تو اس سے اچھی بات بھلا ان کے لیے کیا ہو سکتی ہے- رہا کال کرنے والے خواص اور سسپنس سے بھری سرخیوں میں خبر تلاش کرنے والوں کا معاملہ تو بے وقوف بنانے والوں کا کاروبار وہیں پھلتا پھولتا ہے جہاں بے وقوف بننے والے موجود ہوتے ہیں، ورنہ گنجوں کے شہر میں کب کسی نے کنگھے بکتے دیکھے ہیں۔
[poll id="678"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس