کھال کس کو دیں

رفاہی ادارے اپنے کارکنان کوعوام کی مدد کیلئے سر گرم کرکے، حکومت کا بوجھ کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔


ناصر تیموری September 25, 2015
پولیس اور رینجرز کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ جرائم پیشہ افراد اور کالعدم تنظیموں کے خلاف منظم کارروائی کریں اور ان کو کھالیں جمع کرنے سے روکیں۔ فوٹو:فائل

SIALKOT: یہ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوام کو صحت، تعلیم سمیت بنیادی معیاری سہولیات فراہم کرے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں کرپشن کا دور دورہ ہے۔ حکومت ٹیکس جمع کرنے کے لئے خوب فعال ہوتی ہے لیکن جب عوام کی بنیادی سہولیات کا معاملہ ہوتا ہے تو حکومت غائب نظر آتی ہے۔

بس یہی وجہ ہے کہ رفاہی ادارے اپنے طور پر عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے منظم کاوشیں کرتے ہیں اور عوام و حکومت کے درمیان اس خلاء کو پُر کرتے ہیں۔ رفاہی ادارے اسکول، اسپتال اور بلڈ بینک سمیت کئی اہم ادارے چلاتے ہیں، کم آمدن والے افراد کے لئے میڈیکل کیمپس کا انعقاد کرتے ہیں، مستحقین میں راشن اور مالی امداد سمیت دیگر سہولیات کی فراہمی کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ اس ضمن میں رفاہی اداروں کی آمدن کا بڑا ذریعہ قربانی کی کھالیں ہیں۔

پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق عید الضحیٰ کے موقع پر 12 لاکھ بکرے اور 30 لاکھ گائے ذبح کی جاتی ہیں جن میں سے 25 فیصد قربانی صرف کراچی میں ہوتی ہے۔ کراچی میں گذشتہ سال عید الاضحیٰ کے موقع پر 7 لاکھ جانور ذبح ہوئے۔ ٹینریز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سابق چیئر پرسن فیروز گلزار کے مطابق گزشتہ سال بکرے کی کھال 500 اور گائے کی کھال 4 ہزار روپے تک فروخت ہوئی۔ یوں صرف تین دن میں محض کھالوں کی فروخت سے حاصل آمدن کروڑوں میں جاپہنچتی ہے۔ رفاہی ادارے اپنے کارکنان کو سرگرم کرتے ہیں اور عوام کی امداد کے لئے عید کے موقع پر چلچلاتی دھوپ میں کھالیں جمع کرتے ہیں اور حکومت کا بوجھ کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس موقع پر بعض کالعدم تنظیموں کے لوگ بھی شامل ہوجاتے تھے جن کو روکنا بہرحال حکومت اور رینجرز کی ذمہ داری ہے۔ اس بار سندھ حکومت نے چند دن قبل کھالیں جمع کرنے کے لئے تمام رفاہی اداروں پر کیمپ لگانے کی پابندی عائد کردی۔ اس کے علاوہ ان رفاہی اداروں کو کھالیں جمع کرنے کے لئے کسی قسم کے پوسٹر یا بینر لگانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ ادارے اپنے دفاتر، مساجد اور مدارس کے علاوہ اپنی گاڑیوں پر لاؤڈ اسپیکر یا کوئی جھنڈا بھی استعمال نہیں کرسکتے۔ لاؤڈ اسپیکر یا جھنڈے کی پابندی تو کسی حد تک ٹھیک ہے لیکن سندھ حکومت نے سب سے بڑی پابندی یہ عائد کردی ہے وہ وہ یہ ہے کہ اب رفاہی اداروں کے کارکنان پر گھر گھر رابطہ کرکے کھالیں جمع نہیں کرسکیں گے۔

واضح رہے کہ یہ ان اداروں کا ذکر ہورہا ہے جن کو سندھ حکومت نے کھالیں جمع کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ عام لوگوں کی طرح رفاہی اداروں کے کارکنان کو بھی اپنی عید چلچلاتی دھوپ میں بسر کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے، یہ لوگ اس کام کو نیکی اور اچھا کام سمجھ کر کرتے ہیں تاکہ ضرورت مندوں کی کسی حد تک مدد ممکن ہوسکے جبکہ حکومت ان کے خلاف مشکلات کھڑی کررہی ہے۔



کھالیں جمع کرنے کے موقع پر جرائم پیشہ افراد اور کالعدم تنظیموں کے لوگ بھی سرگرم ہوجاتے ہیں۔ اس ضمن میں پولیس اور رینجرز کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ جرائم پیشہ افراد اور کالعدم تنظیموں کے خلاف منظم کارروائی کریں اور ان کو کھالیں جمع کرنے سے روکیں۔ لیکن سندھ حکومت نے یہاں اپنی کارکردگی دکھانے کے بجائے اُن اداروں کو بھی سخت مشکل میں ڈال دیا جو عوام کو امداد فراہم کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔

اب معاملہ یہ ہے کہ اگر حالات سازگار ہوں اور اسلام کی روشنی کے عین مطابق عوام کی ساری ذمہ داری ریاست اُٹھا رہی ہو تو نہ صرف زکوۃ بلکہ کھالوں کے حصول کی ذمہ داری بھی حکومت وقت پر عائد ہوتی ہے، اور جب ایسا ہوگا تو نہ فلاحی اداروں کو کوئی ضرورت ہے کہ ریاست کے معاملات میں مداخلت کرے اور نہ اُن ادارے کے کارکنان کو کوئی شوق ہے کہ وہ اپنی عید گھر والوں سے دور گزاریں اور نہ لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہوگا۔ مگر جو کام ریاست کو کرنے تھے وہ خود کر نہیں رہی لیکن جو آگے بڑھ کر یہ کام سرانجام دے رہا ہے تو ریاست کو یہ بھی قبول نہیں۔ ہونا تو یہ چائیے تھا کہ جو ادارے شفاف طریقے سے کام کررہے ہیں اُنہیں ریاست سہولیات فراہم کرتی تاکہ عوام کا بھی اُن پر اعتبار بحال ہوتا مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔

لیکن حقیقی معنوں میں یہ حل طلب معاملہ ہے کہ پاکستان میں کھالوں کا حصول کس کی ذمہ داری ہے، اور اگر حکومت یہ ذمہ داری احسن طریقے سے ادا نہیں کررہی تو خدارا جو لوگ یہ کام کررہے ہیں اُنہیں یہ کام کرنے دے، ہاں جو لوگ زبردستی یہ کام کرتے ہیں اُنہیں لازمی طور پر نہ صرف پکڑا جائے بلکہ عوام کے سامنے بھی اُن کا اصل چہرہ لایا جائے تاکہ عوام کو بھی معلوم ہوسکے کہ کون یہ کام ٹھیک طریقے سے سرانجام دے رہا ہے اور کون غلط طریقے سے۔

[poll id="681"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں