محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان آخری حصہ
تالیف و تصنیف کے اعتبار سے زاہد ملک نے عرق ریزی سے ایک ایک لفظ کو لکھا ہے۔
HYDERABAD:
زندگی میں کبھی ایسا ہوتا ہے تو کبھی ویسا، اس بار کچھ ایسا ہوا کہ ایک ہی موضوع پر دو کالم ایک ساتھ بھیجنے کی بجائے الگ الگ، بوجہ مجبوری بھیجے گئے۔
لیکن میں سمجھتی ہوں کہ یہ اچھا بھی ہوا اس کی وجہ میں اپنے پچھلے کالم کی کچھ سطور کے حوالے سے دوبارہ لکھ سکتی ہوں اور مزید یہ کہ اتنی اہم اور قابل مطالعہ کتابوں کی وجہ سے ایک بار اور خامہ فرسائی کا موقع میسر آ جائے گا جو میری خواہش بھی تھی۔ ان پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔ زاہد ملک کا یہ بہت بڑا کام ہے جو انھوں نے انجام دیا اور ان حقائق کو نہایت خلوص کے ساتھ تحریر کے قالب میں ڈھال دیا۔ ورنہ بے شمار لوگ اصل حقیقت جانتے ہوئے بھی بہت سی باتوں اور رازوں سے ناواقف ہی رہتے۔
''ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور اسلامی بم'' (پہلا اور دوسرا حصہ) 455 صفحات پر مشتمل ہے ساتھ میں دو صفحے اضافی بھی شامل ہیں ایک پر کتابوں کا اشتہار اور دوسرا سادہ صفحہ ''محسن پاکستان کی ڈی بریفنگ'' (ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی بریفنگ) نامی کتاب میں 276 صفحات جب کہ 4 صفحات پبلشر و صحافی جلیس سلاسل کی آنے والی اور مطبوعہ کتابوں کے اشتہارات سے مزین ہیں۔
تالیف و تصنیف کے اعتبار سے زاہد ملک نے عرق ریزی سے ایک ایک لفظ کو لکھا ہے۔ ان کی تحریروں میں ملک و قوم سے محبت، وطن کے ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر سے عقیدت پنہاں ہے۔ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں، اسلامی فکر نے ان کی تحریروں کو سورج و چاند کی طرح روشن کر دیا ہے اور یہ روشنی دور دور تک پھیل گئی ہے، بے شک اللہ نیتوں کا پھل ضرور دیتا ہے۔
اپنی جان کی پرواہ نہ کرنا اور سچائی کے پرخار راستوں کا تعین کرنا جاں جوکھوں اور بڑی ہمت کا کام ہے۔ جنت کی طرف جانے والا راستہ پرخار اور بڑا کٹھن ہے۔ زاہد ملک نے ایسی ہی کٹھنائیوں کو سہا ہے، وہ جیل کی چار دیواری میں قید کیے گئے، پولیس والوں سے توقع کے مطابق مغلظات بھی سنیں اور ناکردہ گناہوں کی سزا بھی سہی۔ زاہد ملک کو اڈیالہ جیل میں قیدی بنا کر بھیجا گیا بحیثیت قیدی کے جو انھیں نمبر دیا گیا وہ 2627 تھا۔ 13 اگست 1989ء کو زاہد ملک کی گرفتاری عمل میں آئی۔ اس واقعے کو انھوں نے خود بیان کیا ہے کہ کس طرح ان کا نام خطرناک قیدیوں کی لسٹ میں شامل کیا گیا۔
درج بالا سطور اندرونی صفحات پر درج نہیں ہیں لیکن کتاب کے پچھلے صفحے پر داستان الم کا اقتباس نمایاں اور زاہد ملک آہنی سلاخوں کے پیچھے کھڑے نوحہ کناں ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ وقت کے ظالموں نے ہر دور میں ایسا ہی ظلم روا رکھا ہے۔ گزشتہ مضمون میں لفظوں کے ہیر پھیر نے شخصیت کو بدل دیا تھا۔ جس کی تصحیح ضروری تھی۔ یہ بات بھی صفحہ قرطاس پر عیاں ہے کہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو نظربند کیا گیا تھا اور بقول سابق صدر پرویز مشرف کے کہ یہ وقت اور حالات کے جبر کا تقاضا تھا۔
نظربندی کے دوران ڈاکٹر پر مایوسی کا غلبہ رہا، دل و دماغ پر یاسیت طاری رہی کہ یہ قدرتی اور فطری ردعمل تھا ایک عظیم شخص اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والی شخصیت کے ساتھ بدترین سلوک ان کی عزت نفس کو بار بار مجروح کیا گیا، ان کی صاحبزادی عائشہ کو ان سے ملاقات پر پابندی لگا دی گئی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بہن بھائی کو بھی ان سے ملنے کی اجازت نہ تھی۔
جہاں محسن پاکستان کو ان کے اپنے گھر میں نظربند کیا گیا، وہاں دوسرے ایٹمی سائنسدان بھی محفوظ نہ رہ سکے ان کے گھروں پر چھاپے پر چھاپے مارے جانے لگے۔ ڈاکٹر فاروق، بریگیڈیئر تاجور، بریگیڈیئر سجاول، میجر اسلام الحق اور ڈاکٹر نذیر کو گرفتار کر لیا گیا۔
ہے نا کتنے دکھ کی بات، چور، ڈاکو، لٹیرے آزاد گھومیں اور جو ملک کے استحکام کے لیے اپنے شب و روز کا سکون گنوائیں وطن کی ترقی اور حفاظت کے لیے دن رات کام کریں انھیں اس طرح گرفتار کیا جائے، جیسے سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ ہوتی ہے، یہ گرفتاریاں اور نظربندی محض امریکا کی تسکین کے لیے کی گئیں، اگر ایسا ہی تھا تو ان محترم ہستیوں سے نرمی اور محبت کا سلوک کیا جاتا ان کے وقار کو مجروح ہونے سے بچانا بھی حکمرانوں کا فرض تھا کہ انھوں نے بڑا کام کیا تھا اور بڑے کام کرنے والا بڑا انسان بن جاتا ہے لیکن ایسا تو نہ ہوا بلکہ ویسا ہو گیا کہ ڈاکٹر قدیر خان نے اپنی ان غلطیوں کا اعتراف پی ٹی وی پر کیا جو انھوں نے نہیں کی تھیں جو غلطیاں تھیں ہی نہیں۔
یکم فروری اور اتوار کا دن تھا اور پوری قوم بقرعید کی تیاریوں میں مصروف تھی کہ اچانک یہ خبر آئی کہ ڈاکٹر قدیر خان کو وزیر اعظم کے مشیر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اور ان کی نظربندی عمل میں آ گئی ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی برطرفی اور انھیں تحویل میں لیے جانے کی خبر نے قوم کو شدید کرب اور ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیا حکومت کے اس عمل کو ناپسندیدہ اور غیر منصفانہ قرار دیا گیا، ہر شخص رنجیدہ اور حکومت وقت سے متنفر تھا اور اس بات پر حیران کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات کو تسلیم کیسے کر لیا، قوم کا بچہ بچہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی شرافت و لیاقت کا قائل تھا اس بات سے سب واقف تھے کہ یہ ڈرامہ غیر ملکی طاقتوں کی ایما پر کھیلا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر خان بے قصور ہیں۔
لیکن پاکستانی قوم کو ایک دھچکا اور لگنا تھا وہ اس طرح کہ جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان ٹیلی ویژن پر معافی نامہ پڑھتے دکھایا گیا لیکن لوگوں نے دیکھا تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ذہنی دباؤ کا شکار تھے یوں لگتا تھا کہ جیسے کسی نے لکھ کر یہ تحریر دی ہے جسے وہ پڑھنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ زاہد ملک کی مذکورہ کتاب قوم کے ہیرو، محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بارے میں گزرے ہوئے ہر پل کی آگاہی فراہم کرتی ہے۔ ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اعترافی جرم پر اندرونی اور بیرونی شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کس طرح کیا۔ متحدہ مجلس عمل کے قاضی حسین احمد اور پارلیمانی لیڈر مولانا فضل الرحمن نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے جبری اعتراف کروایا گیا ہے۔
صدر پرویز مشرف مستعفی ہو جائیں۔ جماعۃ الدعوۃ کے امیر پروفیسر حافظ سعید نے کہا کہ حکمرانوں نے امریکا کی خوشنودی اور اس کے دباؤ پر ملک کے اہم ترین سائنس دانوں کو کٹہرے میں لا کر ملک کے وقار کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ تحریک انصاف کے لیڈر عمران خان اس وقت بھی سچ بات کہنے سے نہیں چونکے کہ حکمرانوں نے اقتدار بچانے کے لیے ایٹمی پروگرام اور قومی ہیروز کی قربانی دی ہے جو ملکی تاریخ کا ایک المیہ اور سانحہ ہے، ٹیلی ویژن پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا بیان ایک شرمناک ڈرامہ تھا۔
جہاں پاکستانی شخصیات نے ایسے بیانات دیے جس سے قوم کے غم و غصے میں کچھ کمی ضرور آئی وہاں بھارت نے خوشیاں منائیں، پاکستانیوں اور پاکستان کی تذلیل کرنے میں پیش پیش رہے کسی نے کہا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام صندوق میں بند ہونے جا رہا ہے۔ بی جے پی کے جنرل سیکریٹری پرمود مہاجن نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا انجام بھارت کے عوام جلد دیکھیں گے۔
لیکن اسی دشمن ملک کے مولانا احمد شاہ بخاری نے کہا کہ ''ڈاکٹر خان کے خلاف کارروائی امریکا اور اسرائیل کے کہنے پر ہو رہی ہے۔'' بھارتی سائنس دان ڈاکٹر راکیش پرکھا نے کہا کہ ''ایٹمی پروگرام کی وجہ سے پاکستان پر امریکا کا شدید دباؤ ہے جہاں تک میں ڈاکٹر قدیر کو جانتا ہوں کہ وہ کرپٹ انسان نہیں ہیں۔'' ہمارے ملک میں مسلم لیگ کے چوہدری شجاعت نے ڈاکٹر قدیر کی سچائی دیانت داری اور شرافت کا برملا اظہار کیا۔
بے شک اللہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت، ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اگر سنگلاخ چٹانوں پر چلتے ہوئے بہت سارے ماہ و سال گزارے تو کتاب کے مولف و مصنف زاہد ملک نے بھی بے شمار صعوبتیں برداشت کیں بغیر کسی قصور کے دکھ اٹھائے اور بارہا جیل کی چار دیواری میں رہتے ہوئے گریہ و زاری کی کہ انھوں نے وہ دلخراش مناظر دیکھے جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے اس موقعے پر میں جلیس سلاسل کو مبارکباد پیش کرتی ہوں کہ انھوں نے وطن پاک کی بڑی شخصیات کی زندگیوں کے حقائق پر مبنی خوبصورت اور دل آویز کتابیں شایع کیں۔
زندگی میں کبھی ایسا ہوتا ہے تو کبھی ویسا، اس بار کچھ ایسا ہوا کہ ایک ہی موضوع پر دو کالم ایک ساتھ بھیجنے کی بجائے الگ الگ، بوجہ مجبوری بھیجے گئے۔
لیکن میں سمجھتی ہوں کہ یہ اچھا بھی ہوا اس کی وجہ میں اپنے پچھلے کالم کی کچھ سطور کے حوالے سے دوبارہ لکھ سکتی ہوں اور مزید یہ کہ اتنی اہم اور قابل مطالعہ کتابوں کی وجہ سے ایک بار اور خامہ فرسائی کا موقع میسر آ جائے گا جو میری خواہش بھی تھی۔ ان پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔ زاہد ملک کا یہ بہت بڑا کام ہے جو انھوں نے انجام دیا اور ان حقائق کو نہایت خلوص کے ساتھ تحریر کے قالب میں ڈھال دیا۔ ورنہ بے شمار لوگ اصل حقیقت جانتے ہوئے بھی بہت سی باتوں اور رازوں سے ناواقف ہی رہتے۔
''ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور اسلامی بم'' (پہلا اور دوسرا حصہ) 455 صفحات پر مشتمل ہے ساتھ میں دو صفحے اضافی بھی شامل ہیں ایک پر کتابوں کا اشتہار اور دوسرا سادہ صفحہ ''محسن پاکستان کی ڈی بریفنگ'' (ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی بریفنگ) نامی کتاب میں 276 صفحات جب کہ 4 صفحات پبلشر و صحافی جلیس سلاسل کی آنے والی اور مطبوعہ کتابوں کے اشتہارات سے مزین ہیں۔
تالیف و تصنیف کے اعتبار سے زاہد ملک نے عرق ریزی سے ایک ایک لفظ کو لکھا ہے۔ ان کی تحریروں میں ملک و قوم سے محبت، وطن کے ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر سے عقیدت پنہاں ہے۔ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں، اسلامی فکر نے ان کی تحریروں کو سورج و چاند کی طرح روشن کر دیا ہے اور یہ روشنی دور دور تک پھیل گئی ہے، بے شک اللہ نیتوں کا پھل ضرور دیتا ہے۔
اپنی جان کی پرواہ نہ کرنا اور سچائی کے پرخار راستوں کا تعین کرنا جاں جوکھوں اور بڑی ہمت کا کام ہے۔ جنت کی طرف جانے والا راستہ پرخار اور بڑا کٹھن ہے۔ زاہد ملک نے ایسی ہی کٹھنائیوں کو سہا ہے، وہ جیل کی چار دیواری میں قید کیے گئے، پولیس والوں سے توقع کے مطابق مغلظات بھی سنیں اور ناکردہ گناہوں کی سزا بھی سہی۔ زاہد ملک کو اڈیالہ جیل میں قیدی بنا کر بھیجا گیا بحیثیت قیدی کے جو انھیں نمبر دیا گیا وہ 2627 تھا۔ 13 اگست 1989ء کو زاہد ملک کی گرفتاری عمل میں آئی۔ اس واقعے کو انھوں نے خود بیان کیا ہے کہ کس طرح ان کا نام خطرناک قیدیوں کی لسٹ میں شامل کیا گیا۔
درج بالا سطور اندرونی صفحات پر درج نہیں ہیں لیکن کتاب کے پچھلے صفحے پر داستان الم کا اقتباس نمایاں اور زاہد ملک آہنی سلاخوں کے پیچھے کھڑے نوحہ کناں ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ وقت کے ظالموں نے ہر دور میں ایسا ہی ظلم روا رکھا ہے۔ گزشتہ مضمون میں لفظوں کے ہیر پھیر نے شخصیت کو بدل دیا تھا۔ جس کی تصحیح ضروری تھی۔ یہ بات بھی صفحہ قرطاس پر عیاں ہے کہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو نظربند کیا گیا تھا اور بقول سابق صدر پرویز مشرف کے کہ یہ وقت اور حالات کے جبر کا تقاضا تھا۔
نظربندی کے دوران ڈاکٹر پر مایوسی کا غلبہ رہا، دل و دماغ پر یاسیت طاری رہی کہ یہ قدرتی اور فطری ردعمل تھا ایک عظیم شخص اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والی شخصیت کے ساتھ بدترین سلوک ان کی عزت نفس کو بار بار مجروح کیا گیا، ان کی صاحبزادی عائشہ کو ان سے ملاقات پر پابندی لگا دی گئی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بہن بھائی کو بھی ان سے ملنے کی اجازت نہ تھی۔
جہاں محسن پاکستان کو ان کے اپنے گھر میں نظربند کیا گیا، وہاں دوسرے ایٹمی سائنسدان بھی محفوظ نہ رہ سکے ان کے گھروں پر چھاپے پر چھاپے مارے جانے لگے۔ ڈاکٹر فاروق، بریگیڈیئر تاجور، بریگیڈیئر سجاول، میجر اسلام الحق اور ڈاکٹر نذیر کو گرفتار کر لیا گیا۔
ہے نا کتنے دکھ کی بات، چور، ڈاکو، لٹیرے آزاد گھومیں اور جو ملک کے استحکام کے لیے اپنے شب و روز کا سکون گنوائیں وطن کی ترقی اور حفاظت کے لیے دن رات کام کریں انھیں اس طرح گرفتار کیا جائے، جیسے سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ ہوتی ہے، یہ گرفتاریاں اور نظربندی محض امریکا کی تسکین کے لیے کی گئیں، اگر ایسا ہی تھا تو ان محترم ہستیوں سے نرمی اور محبت کا سلوک کیا جاتا ان کے وقار کو مجروح ہونے سے بچانا بھی حکمرانوں کا فرض تھا کہ انھوں نے بڑا کام کیا تھا اور بڑے کام کرنے والا بڑا انسان بن جاتا ہے لیکن ایسا تو نہ ہوا بلکہ ویسا ہو گیا کہ ڈاکٹر قدیر خان نے اپنی ان غلطیوں کا اعتراف پی ٹی وی پر کیا جو انھوں نے نہیں کی تھیں جو غلطیاں تھیں ہی نہیں۔
یکم فروری اور اتوار کا دن تھا اور پوری قوم بقرعید کی تیاریوں میں مصروف تھی کہ اچانک یہ خبر آئی کہ ڈاکٹر قدیر خان کو وزیر اعظم کے مشیر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اور ان کی نظربندی عمل میں آ گئی ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی برطرفی اور انھیں تحویل میں لیے جانے کی خبر نے قوم کو شدید کرب اور ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیا حکومت کے اس عمل کو ناپسندیدہ اور غیر منصفانہ قرار دیا گیا، ہر شخص رنجیدہ اور حکومت وقت سے متنفر تھا اور اس بات پر حیران کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات کو تسلیم کیسے کر لیا، قوم کا بچہ بچہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی شرافت و لیاقت کا قائل تھا اس بات سے سب واقف تھے کہ یہ ڈرامہ غیر ملکی طاقتوں کی ایما پر کھیلا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر خان بے قصور ہیں۔
لیکن پاکستانی قوم کو ایک دھچکا اور لگنا تھا وہ اس طرح کہ جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان ٹیلی ویژن پر معافی نامہ پڑھتے دکھایا گیا لیکن لوگوں نے دیکھا تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ذہنی دباؤ کا شکار تھے یوں لگتا تھا کہ جیسے کسی نے لکھ کر یہ تحریر دی ہے جسے وہ پڑھنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ زاہد ملک کی مذکورہ کتاب قوم کے ہیرو، محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بارے میں گزرے ہوئے ہر پل کی آگاہی فراہم کرتی ہے۔ ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اعترافی جرم پر اندرونی اور بیرونی شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کس طرح کیا۔ متحدہ مجلس عمل کے قاضی حسین احمد اور پارلیمانی لیڈر مولانا فضل الرحمن نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے جبری اعتراف کروایا گیا ہے۔
صدر پرویز مشرف مستعفی ہو جائیں۔ جماعۃ الدعوۃ کے امیر پروفیسر حافظ سعید نے کہا کہ حکمرانوں نے امریکا کی خوشنودی اور اس کے دباؤ پر ملک کے اہم ترین سائنس دانوں کو کٹہرے میں لا کر ملک کے وقار کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ تحریک انصاف کے لیڈر عمران خان اس وقت بھی سچ بات کہنے سے نہیں چونکے کہ حکمرانوں نے اقتدار بچانے کے لیے ایٹمی پروگرام اور قومی ہیروز کی قربانی دی ہے جو ملکی تاریخ کا ایک المیہ اور سانحہ ہے، ٹیلی ویژن پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا بیان ایک شرمناک ڈرامہ تھا۔
جہاں پاکستانی شخصیات نے ایسے بیانات دیے جس سے قوم کے غم و غصے میں کچھ کمی ضرور آئی وہاں بھارت نے خوشیاں منائیں، پاکستانیوں اور پاکستان کی تذلیل کرنے میں پیش پیش رہے کسی نے کہا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام صندوق میں بند ہونے جا رہا ہے۔ بی جے پی کے جنرل سیکریٹری پرمود مہاجن نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا انجام بھارت کے عوام جلد دیکھیں گے۔
لیکن اسی دشمن ملک کے مولانا احمد شاہ بخاری نے کہا کہ ''ڈاکٹر خان کے خلاف کارروائی امریکا اور اسرائیل کے کہنے پر ہو رہی ہے۔'' بھارتی سائنس دان ڈاکٹر راکیش پرکھا نے کہا کہ ''ایٹمی پروگرام کی وجہ سے پاکستان پر امریکا کا شدید دباؤ ہے جہاں تک میں ڈاکٹر قدیر کو جانتا ہوں کہ وہ کرپٹ انسان نہیں ہیں۔'' ہمارے ملک میں مسلم لیگ کے چوہدری شجاعت نے ڈاکٹر قدیر کی سچائی دیانت داری اور شرافت کا برملا اظہار کیا۔
بے شک اللہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت، ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اگر سنگلاخ چٹانوں پر چلتے ہوئے بہت سارے ماہ و سال گزارے تو کتاب کے مولف و مصنف زاہد ملک نے بھی بے شمار صعوبتیں برداشت کیں بغیر کسی قصور کے دکھ اٹھائے اور بارہا جیل کی چار دیواری میں رہتے ہوئے گریہ و زاری کی کہ انھوں نے وہ دلخراش مناظر دیکھے جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے اس موقعے پر میں جلیس سلاسل کو مبارکباد پیش کرتی ہوں کہ انھوں نے وطن پاک کی بڑی شخصیات کی زندگیوں کے حقائق پر مبنی خوبصورت اور دل آویز کتابیں شایع کیں۔