دال میں کچھ کالا تو نہیں
اس ایکشن پلان کو فوج اور قومی سلامتی کے دوسرے اداروں کی بھی بھرپور حمایت اور تائید حاصل تھی
آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، دہشت گردوں نے پشاور کے علاقے بڈھ بیر میں قائم پاک فضائیہ کے ایئربیس پر حملہ کر دیا، حملے میں پاک فوج کے 3 جوان اور 16 نمازی جان سے گئے
۔ یہ ابھی کل کی بات لگتی ہے جب گزشتہ برس دہشت گردوں نے 16 دسمبر کو پشاور ہی میں واقع آرمی پبلک اسکول پر حملہ کر کے 132 معصوم بچوں کو نشانہ بنایا تھا۔ دہشت گردی کی اس کارروائی نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا، حکومت نے دیگر قومی سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے تلخ مگر درست فیصلے کیے، قومی ایکشن پلان ترتیب دیا گیا۔
اس ایکشن پلان کو فوج اور قومی سلامتی کے دوسرے اداروں کی بھی بھرپور حمایت اور تائید حاصل تھی، اس ایکشن پلان پر عملدرآمد کو یقینی بنانے اور مانیٹر کرنے کے لیے پندرہ سے زائد ورکنگ گروپس بھی بنائے گئے تھے جن کا کام اس سلسلے میں ہونے والی پیشرفت سے وزیر ِاعظم کو باقاعدگی سے آگاہ رکھنا تھا۔
سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے بعد ترتیب دیے گئے اس ایکشن پلان کے بیس نکات میں سے ایک عدالتوں سے موت کی سزا پانے والے مجرموں کو پھانسی دینا بھی تھا، جن کی تعداد آٹھ ہزار کے قریب تھی اور ایکشن پلان کے بعد سے اب تک صرف دو ڈھائی سو مجرموں کو پھانسی دی جا سکی، اگر پھانسیوں کی سزا کی رفتار یہی رہتی ہے تو ایکشن پلان کے اس حصے پر مکمل عملدرآمد کے لیے پچیس سے تیس سال کا عرصہ درکار ہو گا۔
اسی طرح دہشت گردوں کو جلد از جلد سزائیں دلوانے کے لیے دو سال کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیا گیا اور قومی ایکشن پلان کے تحت فوجی عدالتیں قائم بھی کر دی گئیں مگر ان عدالتوں نے اب تک کیا قابل ذکر کام کیا ابھی تک منظرعام پر نہیں آ سکا۔
قومی ادارے نیکٹا کو بھی مؤثر طور پر فعال کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، نیکٹا جسے قومی ایکشن پلان کا محور قرار دیا گیا تھا اور اس ادارے کے فعال ہونے سے پورے ملک میں دہشت گردی کے خلاف ہونے والی کارروائیوں میں باہم ربط، تعاون اور اطلاعات کی بہم رسانی کو یقینی بنانا تھا، مگر یہ ادارہ آج تک فعال نہ ہو سکا، نیکٹا کو فعال کرنے کے لیے 2 ارب روپے درکار تھے جس میں سے صرف 10 کروڑ روپے ادا کیے جا سکے، نیکٹا میں کوئی ممبر تعینات ہوا، نہ ڈی جی، 206 اسامیوں پر صرف 50 لوگ کام کر رہے ہیں، وزیر اعظم نیکٹا بورڈ کے سربراہ ہیں مگر آج تک بورڈ کا کوئی اجلاس نہیں بلایا گیا۔
ملک کو مرحلہ وار ناجائز اسلحے سے پاک کرنے کا جو فیصلہ کیا گیا تھا، اس پر عملدرآمد بھی سست روی کا شکار رہا۔ مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے شایع ہونے والے مواد، سی ڈیز، اخبارات اور رسالوں پر پابندی عائد کی گئی تھی مگر اس پر فقط اتنا ہی قابو پایا جا سکا کہ جو کام سرعام ہوتا تھا اب چھپ کر کیا جاتا ہے۔ دہشت گرد تنظیموں کو فراہم کیے جانے والے فنڈز کا سراغ لگانا اور رقوم فراہم کرنے کے تمام ذرایع کو بند کرنے کے لیے اقدام اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور یہ کام ایف آئی اے کے اینٹی ٹیرر فنانسنگ یونٹ کو سونپا گیا تھا لیکن اس یونٹ میں کوئی تعیناتی نہ ہو سکی۔
کالعدم تنظیموں کو نام یا جگہ بدل کر کام کرنے سے روکنا اہم قرار دیا گیا تھا، مگر کالعدم تنظیمیں مختلف ناموں سے آج بھی سرگرم عمل ہیں، کھلے عام جلسے، جلوس، اعلانات، اشتہارات، تقریریں روکنے میں حکومت کامیاب نہیں ہو سکی بلکہ سانحہ آرمی پبلک اسکول کی سرعام حمایت کرنے والوں کے خلاف بھی خاموشی کی تاکید کے سوا اور کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لیے ایک الگ فورس کا قیام عمل میں لایا جانا تھا مگر یہ کام بھی ابھی تک کہیں نظر نہیں آیا۔ اقلیتوں کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات کیے جانے تھے اس سلسلے میں بھی کوئی قانون سازی سامنے نہیں آئی۔ مدارس کی رجسٹریشن کے عمل کو یقینی بنانا اس پلان میں شامل تھا جب کہ مدرسہ اصلاحات کا نفاذ بھی کیا جانا تھا، مگر کوئی مدرسہ رجسٹرڈ ہوا اور نہ ہی نصاب میں تبدیلی سمیت کوئی اصلاحات دیکھنے میں آئیں۔
نیشنل ایکشن پلان کے تحت افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے بھی فوری اقدامات کیے جانے تھے، اس کام کے لیے پچیس جولائی 2015ء کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی، پھر 'واپسی' کے لفظ کو 'رجسٹریشن' میں بدل دیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ رجسٹریشن بھی دسمبر تک کے لیے موخر کر دی گئی۔
ابھی دسمبر آنے میں کئی ماہ باقی تھے، کہ ''اقوام متحدہ کی درخواست پر'' افغان مہاجرین کو قیام میں مزید دو سال کی مہلت دینے پر غور ہونے لگا، رہا رجسٹریشن کا عمل تو اس کی رفتار بھی بس ایسی ہی رہی جیسے پھانسیوں کی سزا پر عملدرآمد کی، البتہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے قومی ایکشن پلان پر عمل کرتے ہوئے6 ماہ میں 2 لاکھ سے زائد افراد کے پاکستانی شناختی کارڈ بلاک کیے۔
ایک لاکھ افراد کے شناختی کارڈوں کو مشکوک، 29 ہزار سے زائد کو ایلین کا درجہ دے کر منسوخ کیا گیا، کسی اتھارٹی نے نادرا سے یہ نہیں پوچھا کہ صرف کراچی شہر جہاں پچاس لاکھ کے قریب غیر ملکی یا غیر قانونی تارکین وطن آباد ہیں، پندرہ لاکھ سے زائد غیرملکیوں نے اپنی ولدیتوں، زبانوں یا قومیتوں کی تبدیلی سے جو کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ حاصل کر رکھے ہیں، ان میں سے کتنے منسوخ کیے گئے؟ اور اگر نو ماہ کے دوران انتیس ہزار لوگوں کو غیر ملکی قرار دیا گیا ہے، تو پورے پچاس لاکھ کو غیر ملکی قرار دینے کے لیے کل کتنا عرصہ درکار ہو گا؟ کیا اس وقت تک یہ لوگ اس دنیا میں رہیں گی جن کی رجسٹریشن کا عمل کیا جانا ہے؟ کیا ان کی اگلی نسلوں کی رجسٹریشن آپ کے بس میں ہو گی؟۔
ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی کے ذرایع مواصلات یکسر تباہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا، موبائل سموں کی صدیق کا عمل اگرچہ مکمل کر دیا گیا اور غیرقانونی سمز بند کر دی گئیں لیکن سائبر کرائمز روکنے کے لیے قانون سازی نہیں کی گئی، انٹرنیٹ پر آج بھی دہشت گرد اور انتہاپسند بلاخوف پیغام رسانی، منصوبہ بندی اور زہر اگلنے میں مصروف ہیں۔
پاکستانی فوج ضرب عضب میں مصروف تھی، صوبائی حکومتوں کو اندرونی طور پر دہشت گردوں کا صفایا کرنا تھا، صوبائی حکومتوں کے پاس وسائل کیا تھے جو وہ کچھ کرتے، ہاں البتہ رینجرز کی مدد سے دہشت گردوں کے خلاف کراچی میں جاری آپریشن جو آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رکھنا تھا، کسی نہ کسی رفتار سے اب تک جاری ہے۔ نفرت انگیز تقاریر، لٹریچر اور لاؤڈ اسپیکر کا غیر قانونی استعمال روکنے سمیت مشتبہ افراد کی نگرانی جیسے نکات پر عملدرآمد اگرچہ پنجاب کے کچھ شہروں میں ضرور دیکھنے میں آیا ہے مگر مجموعی طور پر یہ عمل بھی سست روی ہی کا شکارہے۔
نیشنل ایکشن پلان سے متعلق سپریم کورٹ اپنے ریمارکس میں اسے قوم سے مذاق قرار دے چکی ہے، جب کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی اعتراف کر چکے ہیں کہ جس تیز رفتاری کے ساتھ قومی ایکشن پلان پر عمل کیا جانا چاہیے تھا نہیں ہو سکا بلکہ پلان کے تمام نکات میں سے صرف پانچ پر عمل ہوا جو فوج سے متعلق ہیں۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اگر ایکشن پلان پر عمل نہیں کرنا تھا تو پھر اس کی ضرورت ہی کیا تھی؟ کیا ملکی قوانین میں یہ سب کچھ پہلے سے موجود نہیں تھا؟ کیا فوج سے متعلق صرف پانچ نکات پر ہی عملدرآمد کے لیے یہ سب کچھ کیا گیا تھا؟
ہمیں تسلیم کرنا ہو گا کہ ملکی قوانین پر عملدرآمد نہ کرایا جانا ہی اصل مسئلہ ہے، جس کے لیے حب الوطنی شرط ہے، مگر افسوس کہ پاک سرزمین کو سرائے بنا دیا گیا ہے، جس کا جی چاہا، کسی بھی ملک سے اٹھ چلا آیا، جو حکومت میں آیا اپنا کاروبار چمکایا، مال بنایا اور بھاگتا بنا، حکومت کو احساس تو نہ عوام کو پرواہ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت قوم کو حقائق سے آگہی کی بھی ضرورت ہے، تا کہ وہ اس ملک معاملات میں خود کو شریک سمجھتے ہوئے اسے اپنا جانیں، اس کے ذرے ذرے کو اپنی ملکیت اور یہاں کے بسنے والوں کو اپنے گھر کا فرد سمجھیں۔
خدارا اس قوم کو حقائق سے آگاہ کر دیجیے، حکومت کو جو جو مجبوریاں ہیں وہ قوم کو بتا دی جائیں، یہ کام حکمران اور اسٹیبلشمنٹ اگر خود نہیں کر سکتے تو بتانے والوں پر تو کم از کم پابندیاں نہ لگائیں۔ اگر ہم تاج برطانیہ کی رعایا ہیں تو واضح کیا جائے، اگر ہم امریکا کی کالونی ہیں تو بھی پتہ ہونا چاہیے۔ صرف اتنی وضاحت ہی کافی نہیں ہے کہ امریکا طاقتور ملک ہے، ہم اس لیے اس سے ڈرتے اور جو وہ کہتا ہے کرتے ہیں۔ یقینا اس میں قرضوں کا عمل دخل بھی ہے۔
اور کچھ 'دال میں کالا' بھی، ورنہ امریکا کو ایبٹ آباد آپریشن کی جرات کیسے ہو سکتی تھی؟ کیا اتحادی امریکا یونہی مفت میں سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ آور ہو کر ہمارے بتیس جوانوں کو شہید کرنے کی جرات کر سکتا تھا؟ اور پھر وہ کون سے عوامل تھے جنہوں نے سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے وقت اپنے جوانوں کو جوابی کارروائی سے روک دیا تھا؟ اسی طرح ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے پیچھے کون سی طاقتیں کارفرما تھیں، یہ باتیں اگر قوم کے سامنے آ جائیں اور ذمے داروں کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا جائے تو ہمارے عوام، اسٹیبلشمنٹ اور حکومت سب میں ملک کے لیے سچی محبت اسی طرح جاگ جائے گی جیسے آسٹریلوی، برطانوی اور امریکیوں میں اپنے اپنے وطنوں کے لیے ہے۔