سچے سروں کے ساتھ کھلواڑ نہ کیا جائے

آج میرے کالم کا تعلق ان بھولے بسرے نغموں سے ہے جو بہت سی نئی آوازوں کے ساتھ منظر عام پر آ رہے ہیں


یونس ہمدم September 24, 2015
[email protected]

آج میرے کالم کا تعلق ان بھولے بسرے نغموں سے ہے جو بہت سی نئی آوازوں کے ساتھ منظر عام پر آ رہے ہیں، ان گیتوں کو مغربی سازوں سے ہم آہنگ کر کے بڑے ماڈرن انداز میں پیش کیا جا رہا ہے، یہ ایسے گیت ہوتے ہیں جو اپنے زمانے میں بڑے مقبول تھے، مجھے اکثر گیت سن کر ماضی کا ٹیلی ویژن پر پیش کیا گیا ایک مشہور پروگرام ''سلور جوبلی'' یاد آ جاتا ہے۔

جس نے اپنے دور میں موسیقی کی دنیا میں ایک دھوم مچا دی تھی اور اس پروگرام کے ذریعے پرانے گیتوں کو پھر سے ایک نئی زندگی ملی تھی اور یہ نامور رائٹر انور مقصود کی ایک قابل قدر کاوش تھی۔ اس پروگرام کی خوبی یہ تھی کہ پرانے گیتوں کی میلوڈی کو اس کے اصلی حسن کے ساتھ برقرار رکھا جاتا تھا۔ اس پروگرام کے ذریعے تین بہنیں بنجمن سسٹرز موسیقی کی دنیا میں بڑی مشہور ہوئی تھیں، سلور جوبلی کے پروگرام میں یہ لڑکیاں پہلی بار بڑے سریلے انداز سے آئی تھیں اور اس پروگرام نے پرانے گیتوں کی دل میں اتر جانے والی دھنوں کو آگے بڑھایا تھا اور نئی نسل کو ان کے سریلے احساس سے روشناس کرایا تھا جب کہ آجکل پرانے گیتوں کو اپنی من مانی کے ساتھ اس طرح استعمال کیا جا رہا ہے کہ ان کی میلوڈی کے حسن کو گہنایا جا رہا ہے۔

پرانے گیتوں کی دلنشیں دھنوں کے ساتھ بڑی چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے ''سلور جوبلی'' کے مشہور پروگرام سے ایک اور نوخیز آواز منظر عام پر آئی تھی اور یہ آواز آج کے نامور جواں سال گلوکار سجاد علی کی تھی۔ سجاد علی نے بڑی کم سنی میں میڈم نورجہاں کے سامنے ان کا ایک خوبصورت اور مقبول ترین گیت ٹریبیوٹ کے طور پر پیش کیا تھا۔ وہ گیت فلم ''موسیقار'' کا تھا اور موسیقار رشید عطرے نے اس گیت کو نیم کلاسیکل انداز میں ترتیب دیا تھا۔ گیت کے بول تھے:

تم جگ جگ جیو مہاراج رے
ہم توری نگریا میں آئے

اس وقت سجاد علی کی عمر ایسی نہ تھی کہ وہ میڈم نورجہاں کا کلاسیکل انداز کا گانا اس کے سارے لوازمات کے ساتھ گاتا مگر جب اس نے وہ گیت گایا تو تمام سامعین کو حیرت زدہ کر دیا۔ وہ اپنی کمسنی کے باوجود حساس گیت کی تمام خاص جگہوں اور مُرکیوں کو بڑی خوبی سے ادا کر رہا تھا، میڈم نور جہاں ایک ٹک اسے دیکھے جا رہی تھیں اور اس کی سریلی آواز سے محظوظ ہو رہی تھیں۔

سجاد علی کا فن آج بھی خوب جادو جگا رہا ہے آج اس کی آواز کے چرچے پاکستان میں بھی ہیں اور ہندوستان میں بھی بلکہ اس کے گائے ہوئے گیتوں کو ہندوستان کے گلوکار بھی بڑے فخر سے گاتے ہیں اور بعض موسیقاروں نے اس کے گیتوں سے فائدہ بھی اٹھایا ہے۔ اب جس نے بھی پرانے گیتوں کو نئے انداز سے گانے کا بیڑا تو اٹھایا ہے مگر بعض مقبول ترین گیتوں کا بیڑہ غرق بھی کیا جا رہا ہے۔ ان کی میلوڈی کو بگاڑا جا رہا ہے۔

ان کے سُروں کے حسن کو ماند کیا جا رہا ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال تھر (راجستھان) کی بے مثال گلوکارہ کا گایا ہوا ماضی کا ایک مشہور لوک گیت ہے جو پچھلے دنوں مجھے سننے کا موقع ملا اور میں وہ گیت سن کر تھر تھر کانپنے لگا جس نئے گلوکار نے وہ گیت گایا تھا وہ اس گیت کو اس طرح گا رہا تھا جیسے کوئی قصائی اپنی کُند چھری سے کسی معصوم جانور کو ذبح کرتا ہے۔ مائی بھاگی کا وہ گیت کھڑی نیم کے نیچے ایک ایسا گیت ہے جس میں وطن کی مٹی کے ساتھ پھولوں کی خوشبو، چڑیوں کی چہکار محسوس ہوتی ہے۔ مگر ایک نئے گلوکار نے اس گیت کو چیخ و پکار کے پیکر میں لپیٹ دیا ہے۔

مائی بھاگی کی گائیکی کا ایک الگ انداز تھا ایک جداگانہ حسن تھا۔ اس گیت کو اس سے پہلے بھی ٹریبیوٹ کے طور پر ٹینا ثانی نے گایا ہے۔ مائی سونی، صنم ماروی اور رجب فقیر نے بھی گایا ہے مگر اس گیت کی میلوڈی کو سب نے برقرار رکھا ہے۔ کسی نے بھی اس گیت کے ساتھ کوئی کھلواڑ نہیں کیا ہے۔ وطن کی مٹی سے جڑے ہوئے گیتوں کو گاتے ہوئے ہر گلوکار کو اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ یہ پرانے گیت اپنا ایک خوبصورت پیکر رکھتے ہیں۔ اس پیکر کو داغدار نہ کیا جائے۔

اب میں ایک قوالی کے کی طرف آتا ہوں۔ بظاہر نئے گلوکار نے بھی غلام فرید صابری کو ٹریبیوٹ پیش کیا ہے مگر یہ ٹریبیوٹ اس قوالی کے شایان شان بالکل نہیں ہے۔ غلام فرید صابری ساری دنیا میں اپنی قوالیوں کی وجہ سے مشہور تھے اور آج بھی ہیں ۔ ان کی قوالیوں میں جہاں سُروں کا رچاؤ ہے وہاں مُرکیوں کا حسن بھی دلوں کو مسحور کر دیتا ہے۔

ان کی آواز کی گھن گرج بھی سُروں کے اتار چڑھاؤ کو نکھارتی تھی اور ان کی یہ تمام قوالیاں اپنے صوفیانہ رنگ کے ساتھ ساری دنیا میں پسند کی جاتی ہیں۔ غلام فرید صابری کی مشہور قوالیاں 'بھر دو جھولی، میرا کوئی نہیں ہے تیرے سوا' اور خاص طور پر ''تاجدار حرم'' نے قوالی کی دنیا میں ایک تاریخ رقم کی ہے۔ اس قوالی کو گانے کے لیے کسی پاپ سنگر کو اپنی آواز استعمال نہیں کرنی چاہیے تھی جب کہ وہ اہل نہ ہو۔ مہدی حسن جیسے لیجنڈ گلوکار بھی غلام فرید صابری کی آواز اور ان کی قوالیوں کے دیوانے تھے اور ان دونوں بھائیوں کی سریلی آواز کے مداح تھے۔

غلام فرید صابری اور مقبول صابری نے ''تاجدار حرم'' قوالی میں سُروں کے جو دریا بہائے ہیں مُرکیوں کی جو آبشاریں لٹائی ہیں اس کی مثال بس وہ خود تھے اور ''تاجدار حرم'' کو جس طریقے سے سوز و گداز کی صورت میں جس طرح غلام فرید صابری نے گایا ہے، اس گائیکی کو کوئی بھی آج کا گلوکار چُھو بھی نہیں سکتا۔ ٹریبیوٹ پیش کرنے کے لیے بھی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی بھی گلوکار یہ قوالی گا کر اسے پھر سے زندہ تو کیا کرے گا ہاں اس قوالی کا ملیا میٹ کر دے گا۔کوئی بھی آج کا پاپ سنگر اس قوالی کو گانے کا متحمل ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ قوالی صرف صابری برادران کی آواز میں ہی کانوں کو بھلی لگتی ہے اور یہ صوفیانہ گائیکی روح کی تازگی کا باعث بنتی ہے۔ اگر آیندہ کوئی بھی پاپ سنگر صوفیانہ کلام کو اپنی آواز دے کر یہ سمجھے گا کہ اس طرح برسوں سے سنی جانے والی قوالیاں اور کافیاں اپنا کوئی تاثر اجاگر کریں گی تو یہ نوجوان گلوکاروں کی محض خام خیالی ہے۔

بے شمار پرانے لوک گیت صوفیانہ رنگ لیے ہوئے کافیاں اور قوالیاں ہیں جو اپنی ایک الگ دلکشی رکھتی ہیں۔ خدارا! نئی نسل کے پاپ سنگر یا نئے گلوکار تھوڑے سے پیسوں اور تھوڑی سی وقتی شہرت کے لیے سدا بہار گیتوں ان کی مدھر موسیقی، جاندار میلوڈی اور سچے سُروں کے ساتھ جدیدیت کے نام پر کھلواڑ نہ کریں تو فن موسیقی پر ان کا احسان عظیم ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔