قانون کے ذریعے پُرامن تبدیلی لائی جاسکتی ہے چیف جسٹس

ریاست آئین میں رہ کر عسکری تنظیموں کیخلاف کارروائی کرے، آئین شکنی کی وجہ سے تشدد اور لاقانونیت کی فضا قائم ہوئی


Numainda Express/staff Reporter October 21, 2012
لاہور:چیف جسٹس افتخار چوہدری بھارتی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کو سوینئرپیش کررہے ہیں۔ فوٹو: آئی این پی

KARACHI: چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ قانون کے ذریعے پر امن تبدیلی لائی جاسکتی ہے کسی کو اسلحہ اٹھانے کی اجازت نہیں دیں گے۔

ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، روزانہ لوگ قتل ہو رہے ہیں، تبدیلی قانون کے ذریعے ہی لائی جاسکتی ہے، اداروںکو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ وکلا نے ثابت کیا ہے کہ پرامن جدوجہد سے بھی تبدیلی ممکن ہے، وہ ہفتے کو کراچی رجسٹری میں سپریم کورٹ میں وکالت کیلیے انرول ہونے والے وکلا سے خطاب کررہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ دہشت گردی جیسے چیلنج سے بھی قانون کی عملداری کے ذریعے ہی نمٹا جا سکتا ہے۔ ملزمان کو عدالتوں میں پیش کیا جائے تاکہ قانونی طریقے سے انھیں سزا دی جائے، اس سلسلے میں وکلا کا کردار اہم ہے اگر وکلا نہ ہوں تو بہت سے مسائل پیچیدگی اختیار کرسکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ قانون کی بالادستی کیلیے وکلا نے مزاحمت کی اور غیرآئینی اقدامات کے خلاف جدوجہد کی جس سے ملک میں مثبت تبدیلی آئی۔ وکلاء نے ثابت کردیا کہ تبدیلی قانون کے ذریعے اور پرامن طریقے سے آسکتی ہے۔ نئے وکلاء پر بھی نئی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور یہ ذمے داری اہم ہے کہ ایک طرف وہ اپنے مؤکل کی وکالت کرتے ہیں دوسری جانب وہ عدالت کی معاونت کرتے ہیں۔ آپ نے تبدیلی کے لیے انتہائی محنت کی اور دن رات ایک کردیا جس کی وجہ سے ملک کی تاریخ تبدیل ہوئی، قائد اعظم علی جناح سمیت بانیان پاکستان نے سخت محنت وجدجہد کے بعد پاکستان کی بنیاد رکھی اور اب ان کے نظریات کی حفاظت کرنا آپ کی ذمے داری ہے۔

قبل ازیں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ہفتے کو باتھ آئی لینڈ میں ججز لاج کا افتتاح کیا۔ افتتاحی تقریب میں سپریم کورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے ججوں اور وکلاء کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ ایک ایسا ادارہ جس کی ذمے داری انصاف فراہم کرنا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ اسے ایسا ماحول فراہم کیا جائے جس میں پرسکون طریقے سے سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے کے مواقع دستیاب ہوں۔

انھوں نے کہا کہ ماضی میں کراچی رجسٹری میں بڑے بینچ اس لیے تشکیل نہیں دیے جاسکتے تھے کہ ججوں کے لیے مناسب رہائشی سہولتیں نہیں تھیں، ججز بھی چاہیں تو ہوٹلوں میں رہ سکتے ہیں لیکن انھیں سوچ بچار اور مطالعے کے لیے مخصوص ماحول چاہیے، اس لیے ججز لاج کی تعمیر سے انصاف کی فراہمی میں بہتری پیدا ہوگی۔ انھوں نے لاج کی تعمیر کے لیے حکومت سندھ کی مالی و فنی معاونت پر اس کے کردار کو سراہتے ہوئے تقریب میں موجود چیف سیکریٹری سندھ سے کہا کہ وہ ان کی طرف سے وزیر اعلی سندھ کو شکریے کا پیغام پہنچادیں۔

بلڈنگ کمیٹی کے سربراہ جسٹس انورظہیر جمالی نے اپنے خطاب میں بتایا کہ ججز لاج کی تعمیر پر دو کروڑ 38 لاکھ 59 ہزار روپے لاگت آئی ہے، سپریم کورٹ کے اسٹاف کیلیے بھی 6کوارٹرز تعمیر کیے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں لاہور میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام بین الاقوامی کانفرنس''قانون کی حکمرانی کے ذریعے قیام امن'' سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ریاست کو آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے عسکری تنظیموں کیخلاف کارروائی کرنی چاہیے، ماضی میں مسلسل آئین توڑنے اور قانون کی حکمرانی سے انحراف نے ہمیں بھٹکا دیا۔ اسی وجہ سے تشدداور لاقانونیت کی فضا قائم ہوئی۔

ملک میں قانون کے ذریعے امن کا قیام اہم ضرورت ہے،آئین اور قانون کی حکمرانی کے بغیر قوم ترقی نہیں کرسکتی، جس معاشرے میں قانون کی بالادستی ہو وہاں دہشتگردی کے واقعات نہیں ہوتے اور جہاں قانون کی حکمرانی نہ ہو وہاں لوگ تشدد اور تباہی کا راستہ اپنا لیتے ہیں۔ 1971کے ناخوشگوار واقعے کو بھی آئین کی تحلیل سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ موجودہ انتہا پسندی، فرقہ وارانہ اورنسلی فسادات بھی اسی وجہ سے رونما ہو رہے ہیں۔ اگر پاکستان آج ایسے حالات کا سامنا کررہا ہے جہاں امن سہانا خواب ہی لگتا ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ ہم اس غمزدہ ریاست کا حصہ خود ہی نہیں بنے بلکہ ہم ماضی میں کیے گئے گناہوں کی قیمت چکا رہے ہیں۔

یہ ایک ناگوار حقیقت ہے کہ عرصہ دراز سے ہم نے آئین کیساتھ وہ برتائو نہیں کیا جس کا وہ حق دار تھا۔ وہ قومیں جو آئین کی تکریم کرتی ہیں اور اسے حقیقی طور پر رائج کرتی ہیں وہ چیلنجوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے اور تنازعات کا تصفیہ کرنے میں کامیاب رہتی ہیں، محققین مشترکہ طور پر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آئین توڑنے اور قانون کی حکمرانی سے انحراف نے ہمیں بھٹکا دیا اور قانون کی حکمرانی کو پاکستان میں نابود کیا جس کی وجہ سے یہاں تشدد اور لاقانونیت کی فضا قائم ہوئی۔آئی این پی کے مطابق انھوں نے کہا کہ یہی وہ حالات ہیں جنھوں نے ہمیں عرصہ دراز تک اذیت میں مبتلا رکھا۔

1971ء کے نا خوشگوار واقعے کو بھی ہم 1956ء اور 1962ء کے آئین کی تحلیل سے الگ نہیں کر سکتے اور اِسی طرح موجودہ فرقہ وارانہ تخر یب کاری ، انتہا پسندی اور نسلی فسادات جن کا ہمیں گزشتہ دہائی سے سامنا ہے، کوبھی 1977 اور پھر 1999ء میں 1973ء کے آئین کی تباہی سے مکمل طور پر غیر منسلک نہیںکر سکتے۔اِسی طرح آئینی شقوں سے اور بہت سے انحرافات جو آج بھی جاری ہیں، نے بھی قومی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکائے۔

انھوں نے کہا کہ تنازعات میں الجھے ہوئے لوگوں کے مابین حقیقی امن مصالحانہ تصفیہ کی بدولت ہی قائم کیا جا سکتاہے اور یہ تصفیہ تبھی قابل قبول ہوگاجب انھیں یہ یقین دہانی کروائی گئی ہو کہ تصفیہ قانونی طریقے سے بروئے کار لایا جارہا ہے۔ تاریخ ہمیں سبق دیتی ہے کہ جیسے ہی آئین کو غیر موثر یا کالعدم قراردیا جاتا ہے تو تنازعات کا حل مشکل ہوجاتا ہے اور ایسا اس وقت ہوتا ہے جب طاقتیں اسے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں اور یہ زیادہ تباہ کن ہے۔

اگر آئین اور قانون کی پاسداری انکی بنیادی روح کے مطابق کی جائے تو تخریب کاری کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی اور مسائل کا بھی حل نکل آتا ہے، موجودہ عدلیہ قانون کی حکمرانی کے قیام اور کرپشن کوختم کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے تاکہ ایک شفاف فضا تشکیل دی جاسکے جہاں سرمایہ کاری بڑھے اور سرمایہ کار کو مکمل اعتبارہو، عدلیہ نے نہ صرف حکومت کے مشکوک معاہدوں سے اربوں روپے برآمد کروائے بلکہ بہترین اسلوب حکمرانی، شفاف پالیسیوں اور معاشی سرگرمیوں کی واضح ہدایات بھی جاری کیں۔ انھوں نے کہا کہ جب آپ قانون کی خاطر کھڑے ہونگے تو قانون بھی آپ کو مایوس نہیں کریگا۔

قانون قربانیاں مانگتا ہے اور معاشرے کے کسی دوسرے شعبے سے بڑھ کر ججوں اور وکلاء کو یہ قربانیاں دینی پڑیں گی۔آئی این پی کے مطابق انکا کہنا تھا کہ اللہ کے قوانین سے انحراف بدامنی کی بڑی وجہ ہے' افراد اداروں سے زیادہ طاقتور ہوں تو بدامنی جنم لیتی ہے' ریاستوں اور اداروں میں ہم آہنگی کیلیے امن ضروری ہے' پاکستان اور بھارت کو ایک جیسے مسائل کا سامنا ہے' قانون کی حکمرانی کے بغیر دونوں ممالک میں امن کاحصول ممکن نہیں۔ صدر سپریم کورٹ بار یاسین آزاد نے اصغر خان کیس کے فیصلہ پر چیف جسٹس کو خراج تحسین پیش کیا۔ کانفرنس میں ہائیکورٹس کے جج صاحبان اور مختلف ممالک کے مندوبین نے بھی شرکت کی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں