ہمارا ملک کس طرف جارہا ہے… سید اسد اﷲ

کوئی آسمان سے فرشتے تو نہیں آئیں گے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور وہ (فرشتے) سارا کام کردیں گے

ہر شہری موجودہ ملکی حالات جان کر،سن کر اور پڑھ کر متفکر ہے۔ تمام بڑے بڑے سیاسی لیڈران بھی عوام کو اِن حالات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں اور مسلسل کر بھی رہے ہیں۔ یقینا اِن تمام باتوں کا تذکرہ حکمرانوں کے ایوانوں میں بھی ہوتا ہوگا۔ یہی نہیں بلکہ میڈیا کے ذریعے بیرونِ ملک بھی اِن حالات کا تجزیہ ہوتا ہوگا۔

تبصرے ہوتے ہوں گے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملکی معاملات و حالات کا حکمرانوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا، بلکہ وہ تو عوام اور ملک کے خستہ حالات پر نظر رکھنے کے بجائے اپنے دورِ حکومت کی طوالت اور مضبوطی کی طرف زیادہ توجہ کیے ہوئے ہیں، کیونکہ اب عام انتخابات کا سامنا بھی ہے اور دیگر مخالفین کی طرف سے شدید تنقید اور الزامات کا سامنا بھی۔ اب تو یہ ہو رہا ہے تمام سیاسی لیڈر ایک دوسرے پر الزامات در الزامات اورکیچڑ اُچھالنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے ہیں، نہ عوام کی فکر نہ ملکی مسائل کی طرف توجہ۔ خدا ہی خیر کرے۔ نہ معلوم اِن لوگوں نے ملک کو کس ڈگر پر ڈال دیا ہے۔

ملک کا جہاز مسائل کے سمندر میں ہچکولے کھا رہا ہے مگر ناخدا ہے کہ اِسے منجدھار سے نکالنے کی ترکیب ہی نہیں کر رہا۔ شاید یہ سمجھ رہا ہے کہ جب سمندر کی موجیں تھک ہار کر بیٹھ جائیں گی تو جہاز خود بخود صحیح سمت میں چلا جائے گا۔ نہیں نہیں ایسا نہیں ہے۔ ناخدا کو خود اِسے اِن موجوں کے تھپیڑوں سے نکالنا ہوگا، ورنہ یہ موجوں کا زور صرف ناخدا ہی کو نہیں ڈبوئے گا بلکہ پورے جہاز کو بشمول اِن تمام سواروں کے ڈبو دے گا۔ کس قدر بھیانک منظر ہے۔ یہ تو صرف اِس جہاز کے سوار ہی دیکھ اور سمجھ سکتے ہیں۔ کیا اِن ناخدائوں کو یہ سمجھ نہیں آرہا۔ یقینا آرہا ہوگا، بس صرف احساس کی ضرورت ہے۔

ملک وقوم کو کس طرف لے جایا جارہا ہے۔ اِن سب حالات کے ذمے دار صرف حکمراں ہی نہیں ہیں بلکہ حزب اختلاف بھی ہے جن کا کام صرف اور صرف تنقید برائے تنقید ہے، کوئی مثبت تنقید نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے حزب اقتدار اورحزب اختلاف میں کھچائو، تنائو کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔ اس طرح تمام معاملات، وسائل سلجھنے کے بجائے بگڑتے جاتے ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ہر طرف سے (حزب اقتدار و حزب اختلاف) یہی نعرے بلند ہورہے ہیں کہ ''ملک نہایت خطرناک دوراہے پر کھڑا ہے۔''

یہ بھی تو سوچا جائے کہ اِس ملک کو اس دوراہے پر لاکھڑا کرنے کا ذمے دار کون ہے۔ جواب تو صاف ظاہر ہے کہ ''حکمراں طبقہ'' ہی اِس کا ذمے دار ہے (چاہے ماضی کے حکمراں ہوں یا موجودہ حکمراں ہوں) سارا ملبہ ''فوجی حکمرانوں'' پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہوا جاسکتا۔ ''سیاسی حکمرانوں'' نے بھی اپنے اپنے دورِ حکومتوں میں کیا کیا۔ یہ تو کوئی سوچنے کو تیار ہی نہیں۔ جب ماضی کے حکمراں موجودہ حکمرانوں سے پوچھتے ہیں کہ ''یہ تم کیا کررہے ہو؟'' تو جواب یہ ملتا ہے، ''جو تم کررہے تھے وہی ہم کررہے ہیں۔'' اور جب موجودہ حکمراں، ماضی کے حکمرانوں سے پوچھتے ہیں ''تم نے کیا کیا تھا'' تو جواب ملتا ہے، ''اب تم جو کررہے ہو، وہی ہم کر رہے تھے۔''


یہ مختصر سا جائزہ ہے ''ماضی و حال'' کے حکمرانوں کا۔ اُدھر عوام کا یہ حال ہے کہ ماضی کے حکمرانوں کا حال دیکھتے ہیں تو اُن سے بُرا حال موجودہ حکمرانوں کا دِکھائی دیتا ہے۔ ''ہے عزتِ نفس مخدوش تو جان و مال بھی نہیں محفوظ۔''ماضی کے فوجی حکمرانوں کا دور ختم ہوا تو جمہوری حکمرانوں کا دور بحال ہوا جس کی بنیاد ''ججز کی جمہوریت بحالی تحریک'' بنی۔ ''جمہوری حکمراں'' انصاف طلب کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ کوئی یہ نہیں سوچ رہا ہے کہ عوام کا حال اور اُن کے ''مسائل'' کا کیا ہوا؟ عوام کے اطراف تو مہنگائی، بیروزگاری، غربت، خودکشیاں، اغوا برائے تاوان، خودکُش حملے، ٹارگٹ کلنگ کے سانپ اپنے اپنے پھن پھیلائے ڈس رہے ہیں۔

عوام بے حال ہیں، اِن موذی سانپوں سے بچنے کی تدابیر کررہے ہیں مگر اِن سانپوں کا گھیرا اس قدر تنگ ہوگیا ہے کہ عوام کا اِن سے چھٹکارا مشکل ہوگیا ہے۔ کون ہے اِن سانپوں کو مارنے والا۔ روئے زمین پر تو کوئی نظر نہیں آرہا ہے۔ مارنے والا تو سب سے بڑا ہے۔ اس لیے عوام کی نظریں اُسی پر ہیں، اُن کے ہاتھ اُسی کے حضور پھیلے ہوئے ہیں۔کوئی یہ نہ بھولے کہ وہ بزرگ ہستی صرف حشرات الارض کو مارنے والی نہیں، وہ انسان (اشرف المخلوقات) کو بھی مارنے اور جلانے والا ہے۔

بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، موجودہ مسائل تو اپنی جگہ لیکن دوسری جانب قدرتی آفات (سیلاب، زلزلے، برفانی تودے گرنا وغیرہ) اور دنیاوی بلائیں (خودکُش حملے، ڈرون حملے، دہشت گردی، قتل و غارت گری، لوٹ مار وغیرہ) بھی مشکلات میں اضافہ اور مسائل کو گمبھیر کیے جارہے ہیں۔ جن سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں اور اگر ہیں تو بھی اُن وسائل کو بروئے کار نہیں لایا جاتا ہے، وقتی اقدامات پر اکتفا کرلیا جاتا ہے۔ یہ وقتی اقدامات صرف وقتی ہی ہوتے ہیں، دیرپا یا مستحکم تو نہیں ہوتے۔ اس لیے بڑی سوچ بچار اور انتھک محنت کی ضرورت ہے جو کہ کہیں ہوتی نظر نہیں آرہی۔ آخر کون اس پہلو کی جانب توجہ کرے گا، کون اصلاح احوال کرے گا۔ ارے بھائی ہم ہی کو سب کچھ کرنا ہے۔

کوئی آسمان سے فرشتے تو نہیں آئیں گے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور وہ (فرشتے) سارا کام کردیں گے یا تمام مسائل پلک جھپکتے ہی حل کردیں گے۔ صرف ہوائی باتیں کرنے یا جھوٹے وعدے وعید کرنے سے کام نہیں بنے گا، اس کے لیے جانفشانی، دل جوئی، یکجہتی، خلوصِ نیت اور عوام کے مفادات کو سامنے رکھ کر عملی طور پر کام کرنا ہوگا۔ جب ہی تو عوام آپ کے ساتھ ہوں گے، آپ کی حوصلہ افزائی کریں گے، حالات کو سُدھارنے میں آپ سے تعاون کریں گے، لیکن شرط صرف یہی ہے کہ آپ پہلے قوم کی فلاح و بہبود، اُن کی تعلیم، صحت، روزگار، اشیائے خورونوش کی ارزاں فراہمی اور دیگر سماجی و معاشرتی سہولیات کی طرف تو توجہ دیں۔ اگر قوم کو ریلیف نہیں ملے گا تو نہ عوام آپ کا ساتھ دیں گے نہ ہی آپ کے سخت گیر اقدامات کی حمایت کریں گے، بلکہ عوام میں ایک ہیجانی کیفیت ہوگی، جیسا کہ آج کل ہر آنے والے دن کے ساتھ ہڑتالیں، جلسے جلوس، ریلیاں، جگہ جگہ احتجاج ہی احتجاج ہوتے نظر آرہے ہیں۔

لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ''وقت کم۔ مقابلہ سخت''، ''اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت''۔ ملک کی داستان نہ صرف ''درد بھری ہے'' بلکہ ''تلخیوں سے بھری ہے'' جو بھی سُنے گا، اُس کا دل جلے گا۔ سینے میں انتقام کی آگ بھڑک اُٹھے گی اور یہ وہی مرحلہ ہے جہاں آدمی مارنے، مرنے اور خودکشیوں کے علاوہ کچھ نہیں سوچتا۔ پھر یہاں آگ اور خون اور اندھیروں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

ملک کے اِن حالات کو دیکھ کر بھی عوام اِس امید و آس میں ہیں کہ وہ وقت ضرور آئے گا کہ بھڑکتی آگ ایک نہ ایک دن بیٹھ جائے گی۔ بس یوں کہیے کہ انسان کو امید پر قائم رہنا چاہیے۔ حالات کے مدوجزر سے گھبرا کر ''ناامید'' نہیں ہونا چاہیے۔ ناامیدی تو کفر ہے، اسی لیے یہ قوم امید پر قائم رہتے ہوئے جی رہی ہے۔
Load Next Story