’’روبیضہ‘‘
ہم اس دور میں زندہ ہیں جس پر جھوٹ کا غلبہ اور کذب کی حکمرانی ہے
یوں تو تاریخ تعصبات، ذاتی مفادات اور مطلق العنان حکمرانوں کے زیر اثر تحریر کیا جانے والا وہ قصوں، کہانیوں کا مجموعہ ہے جس میں سچ تلاش کرنا ایسے ہی ہے جیسے اندھیرے کمرے میں سیاہ پتھر پر کالی چیونٹی کو ڈھونڈنا۔ ہر کسی کو تاریخ کے افسانوں میں اپنی مرضی کا سچ مل جائے گا اور وہ اس افسانے کو حق اور سچ مان کر اپنی محبت اور نفرت میں اضافہ کرتا پھرے گا۔ اس سب کے باوجود اگر کسی نے سچ ڈھونڈنا ہو، حقیقت سے آگاہ ہونا ہو تو تعصبات کو ذہن سے جھٹک کر خالصتاً سچ جاننے کی نیت سے مطالعہ کرے تو ایک بات طے ہے کہ سچ ملے یا نہ ملے اسے جھوٹ کا مکمل ادراک ضرور ہوجاتا ہے۔ وہ صرف تاریخ مرتب کرنے والے کے مقام، مرتبے، حیثیت، خاندان اور عقیدے کو جان لے اور عقل کی کسوٹی پر رکھ کر اس کے تحریر کردہ واقعات کو جانچے تو جھوٹ، ملاوٹ اور من گھڑت افسانہ طرازی کھل کر سامنے آجائے گی۔
یہ تو گزشتہ ادوار کی تحریر کردہ تاریخ کی بات ہے' جسے صدیاں بیت گئیں اور اس کا جھوٹ آج تک عام آدمی کی زبان پر جاری ہے۔ نہ عام آدمی کو یہ مہلت میسر ہے کہ تحقیق کے کام پر نکلے اور نہ ہی اس تک یہ سہولت موجود ہے کہ تمام تاریخیں اس کے سامنے ہوں۔ اسے جو مسجد کا مولوی، امام بارگاہ کا ذاکر، اسکول کا استاد، محلے کا نیم خواندہ دانشور، سیاست دان یا کالم نگار بتا دیتا ہے وہ اس پر یقین کرلیتا ہے۔ موجودہ دور کا عام آدمی تو سخت مشکل میں ہے۔ وہ اس دور میں زندہ ہے جس میں صرف اور صرف جھوٹ کی بادشاہی ہے اور کذب کا غلبہ ہے۔ یہ دور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث کے مصداق اور آپ کی پیش گوئی کے عین مطابق ہے۔ آپ نے فرمایا ''حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا '' دجال کے خروج سے پہلے چند سال دھوکا و فریب کے ہوں گے۔ سچے کا جھوٹا بنایا جائے گا اور جھوٹے کو سچا بنایا جائے گا۔ خیانت کرنے والے کو امانت دار بنا دیا جائے گا اور امانت دار خیانت کرنے والا قرار دیا جائے گا اور ان میں روبیضہ بات کریں گے۔ پوچھا گیا روبیضہ کون؟ فرمایا گھٹیا (فاسق و فاجر) لوگ۔ وہ لوگوں کے اہم معاملات پر بولا کریں گے۔ (مسند احمد 1332، مسند ابی یعلی 3715، السنن الواردۃ فی الفتن)
ہم اس دور میں زندہ ہیں جس پر جھوٹ کا غلبہ اور کذب کی حکمرانی ہے۔ یہ دور میڈیا کادور ہے۔ کیا کسی سچے کو جھوٹا، جھوٹے کو سچا، امانت دار کو خائن اور خائن کو امانت دار ثابت کرنا میڈیا کے بائیں ہاتھ کا کھیل نہیں۔ کیا دنیا بھر میں لوگوں کے اہم معاملات پر روبیضہ فاسق و فاجر لوگ روز گفتگو نہیںکرتے، تجزیہ نہیں پیش کرتے، کیا کوئی سنجیدہ، صاحب کردار، صاحب علم شخص آج کے میڈیا میں باوقار ہے۔ دنیا کا تمام میڈیا جس چکاچوند میں لوگوں کی آنکھیں چندھیائے ہوئے ہے۔ اس کا ایک ہی مقصد ہے کہ اپنی مرضی کا سچ، مرضی کا کلچر اور مرضی کی اطلاع لوگوںتک پہنچے جس سے ایک خاص مقصد کے مطابق نفرت اور محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو۔
میڈیا ایک تاریخ مرتب کررہا ہے جو گزشتہ تاریخوں سے زیادہ متعصب، جھوٹی اور ناقابل اعتبار ہے۔ لیکن کس خوبصورتی سے وہ اپنے جھوٹ کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ لوگوں کو وہی اصل حقیقت اور سچ محسوس ہوتا ہے۔ چونکہ موجودہ میڈیا نے اپنے اس جھوٹ کو سچ بناکر پوری دنیا پر جنگ، قتل و غارت، بے سکونی اور موت مسلط کی ہے، اس لیے وہ اصل سچ، اصل حقیقت اور صحیح تصویر پیش کرنے والے کو اس قدرمطعون اور قابل نفرت بنادیتا ہے کہ لوگ اصل سچ پر یقین ہی نہیں کرتے۔ جھوٹا کا یہ کاروبار پہلی جنگ عظیم میں تیز رفتاری سے آگے بڑھا، دوسری جنگ عظیم میں اسے اس قدر عروج حاصل ہوا کہ ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم برسانے کے بعد دو امریکی صحافی وہاں کا دورہ کرتے ہیں اور واشنگٹن پوسٹ میں رپورٹ شایع ہوتی ہے کہ دونوں شہروں کی آبادی میں کوئی تابکاری اثرات نہیں پائے گئے۔ ہٹلر کے وزیر گوئبلز کا قول مشہور ہوتا ہے کہ اتنا جھوٹ بولو کہ سچ محسوس ہو۔ لیکن جوں جوں اس میڈیا کو عروج اور ترقی ملتی گئی 'دھوکے اور فراڈ کا ماحول مزید مستحکم ہوتا گیا۔
میڈیا کی اس متعصب اور جھوٹی تاریخ نویسی کا سب سے بڑا شکار موجودہ دور کا افغانستان، طالبان اور ملا محمد عمر ہے۔ جوں جوں انسان ان کی حقیقت جاننے کی کوشش کرتا ہے دنیا بھر میں پھیلایا گیا جھوٹ واضح ہوتا چلا جاتا ہے۔گزشتہ دنوں افغانستان میں پاکستان کے سفیر ایاز وزیر نے میرے پروگرام ''متبادل'' میں ایک واقعہ سنایا کہ میں وزارت خارجہ میں تعینات تھا تو طالبان کے وزیر خارجہ عبدالوکیل متوکل مجھ سے ملنے آئے۔ اتنے میں کابل میں پاکستانی سفارت خانے سے فون آیا کہ پاکستانی سفارتی عملے کے دو ارکان کو اس وجہ سے چیک پوسٹ پر روکا گیا ہے کہ ان کی داڑھی نہیں۔ ایاز وزیر نے عبدالوکیل متوکل سے کہا' تو انھوں نے فوراً کابل کے طالبان کے انچارج سے گفتگو کی کہ ایسا کوئی حکم نہ ملا محمد عمر نے دیا ہے اور نہ کسی اور قیادت کی جانب سے ایسا ہے' تو پھر یہ سب کیا ہے۔ جس نے بھی یہ حرکت کی ہے اسے گرفتار کرو اور سفارت خانے کے حملے کو عزت و احترام سے چھوڑ کر آؤ اور معافی بھی مانگو۔
اس سچ کے سامنے آنے کے بعد بھی کیا اس جھوٹ کا اثر ختم ہوسکتا ہے جو گزشتہ بیس سال سے پھیلایا جارہا ہے۔ میڈیا کی اسی چکا چوند میں ایک صحافی عابد اللہ جان 2001ء سے سچ کی تلاش میں سرگرداں ہے اور اسے کتابوں کی شکل میں تحریر کررہا ہے۔ اس نے نائن الیون سے چند ماہ قبل افغانستان میں گزارے جہاں اس نے اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری سے انٹرویو کیے لیکن کسی اخبار میں انھیں شایع کرنے کی جرأت نہ ہوسکی۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پیدا ہونے اور نشوونما پانے والے اس صحافی نے اب تک چھ کتابیں تحریر کی ہیں۔ اس وقت اس کی آخری کتاب کا ترجمہ ''افغانستان آخری صلیبی جنگ کا نقطۂ آغاز'' میرے سامنے ہے جسے مکتبہ خدام القرآن لاہور نے شایع کیا ہے۔ یہ حیران کن انکشافات سے بھری ہوئی ایک کتاب ہے جس میں اس نے تمام حوالے مغربی میڈیا میں شایع ہونے والی اطلاعات کے دیے ہیں جنھیں جان بوجھ کر دبا دیا گیا تاکہ طالبان کا ایک مسخ شدہ چہرہ دنیا کو دکھا کر ان پر جنگ مسلط ہو۔
ہم سب کے لیے یہ سچ حیران کن ہوگا کیونکہ ہم جھوٹے پراپیگنڈے کے عادی ہوچکے ہیں۔ وہ لکھتا ہے '' جس کو بھی طالبان کا صحیح علم ہے وہ جانتا ہے کہ طالبان دور میں سماجی بہبود کی وزارتیں بدخشانی فارسی خواں اقلیت کے ہاتھ میں تھیں، پکتیا ایک پختون اکثریتی صوبہ ہے اس کا گورنر بدخشانی فارسی خوان تھا۔ اسی نسلی اقلیت کو فوج کی انفنٹری ڈویژن کی ذمے داری تھی جس میں شیعوں پر مشتمل ڈویژن بھی تھی جو سنیوں کے شانہ بشانہ طالبان مخالفوں سے لڑتی تھی۔ اس نے اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے حوالے دیے اور بتایا کہ کابل یونیورسٹی میں خواتین کی کلاسیں 1999ء میں شروع کی گئیںتھیں۔ قندھار،ہرات اور جلال آباد میں خواتین نرسز کے اسکول کھولے گئے۔ ان کے دور میں خواتین تمام اسپتالوں میں کام کرتی تھیں۔ دنیا بھر کے ڈاکٹرز اور اقوام متحدہ نے ان کی تمام امداد بند کردی تھی کیونکہ ان کا مطالبہ تھا کہ مخلوط تعلیم نافذ کرو۔ پہلی دفعہ 8 مارچ 2000ء کو کابل میں خواتین کا عالمی دنیا منایا گیا جس میں سات سو خواتین جمع ہوئیں وہاں وائس چانسلر نے تقریر میں کہا کہ ہمارے پاس خواتین کی تعلیم کے مسئلے کا حل تو ہے لیکن اس مسئلے کا کوئی حل نہیں کہ دنیا ہم سے مخلوط تعلیم کا نفاذ چاہتی ہے۔
وہ لکھتا ہے اور تمام مغربی حوالوں سے لکھتا ہے کہ ''باہم متصادم گروہوں کو غیر مسلح کرنے کے علاوہ طالبان نے عصمت دری، لوٹ مار، ڈکیتی اور قتل و غارت جیسے جرائم کا کامیابی سے خاتمہ کیا۔ سب سے بڑی بات افغانستان میں قانون کی حکمرانی تھی۔ اس کے نزدیک طالبان کے جرائم میں سرفہرست موجودہ عالمی نظام سے آزادی، دوسرا ایک کامیاب اسلامی ریاست کا قیام،تیسرا تیل کی صنعت سے وابستہ افراد کے اثرو رسوخ سے انکار، چوتھا کارپوریٹ میڈیا کے مقابل میں میڈیا کا فقدان' اہم ترین جرائم تھے۔ کتاب انکشافات کا مجموعہ ہے اور یہ انکشافات عابد اللہ جان نے مغربی میڈیا کی رپورٹوں سے اکٹھے کیے ہیں۔ وہ انکشاف جنھیں میڈیا کی چکا چوند نے چھپا دیا تھا۔ وہ سچ جو بکھرا ہوا تھا اسے اکٹھا کیا گیا ہے۔ ورنہ میڈیا تو دنیا بھر میں ان لوگوں کے کنٹرول میں ہے جو سروںکی فصلیں کاٹ کر ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے ہیں اور اس مقصد کے لیے ان کے پاس پتلیوں کی طرح رقص کرتے دانشوروں، تجزیہ نگاروں، ادیبوں، شاعروں اور مؤرخوں کی کمی نہیںہے۔ ایسے لوگ تاریخ کے ہر دور میں میسر رہے ہیں۔ ''روبیضہ'' جن کے ہاتھ میں اہم معاملات پر گفتگو کرنے کا لائسنس میڈیا نے عطا کیا ہے۔