ہم جہاں ہیں وہاں تہذیب نہیں پل سکتی
عید کے روز باہر کی دنیا یوں سنسان نظر آتی ہے جیسے شہر میں کوئی رہتا ہی نہ ہو
اس بار بھی عید آئی اور آ کر چلی گئی! وہی اُکتاہٹ، وہی خالی پن، وہی بوجھل طبیعت، جس میں اس بار کچھ مزید اضافہ ہوا،بالکل ویسے ہی جیسے گھریلو اخراجات اور یاروں کی خرافات ہر آئے سال دگنا ہوجاتی ہیں۔ اب وہ عیدیں کہاں، جو ہم عہدِ طفولیت اور لڑکپن میں کھا، ہنڈا چکے ہیں، اب تو محض ایک رسمِ دُنیا رہ گئی ہے جسے نباہنے کا سلیقہ بھی لوگوں کو نہیں رہا۔ وقت اتنی تیزی سے بدلا ہے کہ زندگی کے خدوخال ہی درہم برہم ہوگئے ہیں۔ مشینی روش اور میکانکی سوچ نے انسانی معاشرت کو بے حسی اور خود غرضی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے، ہرکوئی ہنگامۂ حیات میں اس طرح گم ہے کہ اسے اپنے آس پاس کھڑے رشتوں کی خبر تک نہیں۔
ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے جب لوگ دیہاتوں اور شہروں میں عید کو ایک اجتماعی عوامی تہوار کے طور پر مناتے تھے، گلیوں اور بازاروں میں میلے سجا کرتے تھے، ہر طرف گہماگہمی اور جشن کا سماں ہوتا تھا، لوگ اپنے عزیزواقارب، یاروں دوستوں ،حتیٰ کہ اجنبیوں کو بھی عید ملتے تھے تو ان کی گرمجوشی دیدنی ہوتی تھی، گفتگو میں اپنائیت، ہمدردی اور خلوص کی جھلک نمایاں ہوتی تھی، ملنے ملانے کے لیے لوگوں کے گھروں میں جانا مذہبی فریضہ سمجھا جاتا تھا، مگر آج یہ حالت ہے کہ لوگ مسجدوں میں بھی ایک دوسرے سے گلے ملنے سے کتراتے ہیں،نمازِ عید کا سلام کیا پھیرا کہ اک دوجے سے منہ ہی پھیر لیا اور اپنے اپنے گھروں میں جا گھسے۔
عید کے روز باہر کی دنیا یوں سنسان نظر آتی ہے جیسے شہر میں کوئی رہتا ہی نہ ہو،باہر تو باہر گھروں کے اندر بھی لوگ اتنی خاموشی سے عید کا دن نکالتے ہیں کہ پڑوسیوں کو بھی معلوم نہیں پڑتا، آج کل لوگ عید مناتے کہاں ہیں گزارتے ہیں، اور عملی طور پرتو عیدویسے بھی ایک دن تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے، وہ بھی صرف سہ پہرتک،اس کے بعد تو اس کی رعنائیاں یوں ماند پڑجاتی ہیں جیسے ڈوبتے سورج کی لالی!ٹروُ مروُ یعنی عید دوئم اور سوئم کی اہمیت تو تقریباً ختم ہوکر ہی رہ گئی ہے، دیکھا جائے تو عید کا اصل مفہوم ہی فوت ہو گیاہے۔ ہم عید کیوں مناتے ہیں اور کس نیت کے تحت مناتے ہیں ہمیں تو اس سے بھی سروکار نہیں رہا، ہاں اتنا ضرور یاد ہے کہ عید آئی ہے، نئے نئے ملبوسات زیب تن کرو، کھٹے، میٹھے، نمکین کھانے پکاؤ اور کھا پی کر جشن مناؤ اور بس!
عیدالفطر کا دن جسم وروح کے احتساب اور مال واسباب کے فطرے سے یادگار ہے تو عیدالاضحی ایک عظیم قربانی کی یاد تازہ کرنے کا دن ہے مگر ترقی کی دوڑ نے مسلمانوں کو اسقدر متاثر کیا ہے کہ وہ ان ایام کو صرف ہلے گُلے سے تعبیر کرتے ہیں اور میٹھی عید ہویا نمکین، کسی کے دل میں مٹھاس رہ گئی ہے نہ کرارہ پن! بے حسی کا یہ عالم ہے کہ کوئی خلوصِ دل سے کسی کو گلے مل کر خوش نہیں ہوتا۔کسی کی کیا بات کریں ہمارا تو خود کا یہ حال ہے کہ نمازِ عید پڑھ کر ایک رسمی سی آؤ بھگت کے بعد خواب گاہ کا دروازہ اندر سے بڑھایا اور تکیے میں منہ ٹھونس کر اوندھے بل یوں پڑے کہ جب آنکھ کھلی تو پتہ چلا کہ منہ کا ذائقہ باسی ہوچکا ہے اور زلفِ عید کی خوشبو ہوا سے محو ہوچکی ہے،عیدِ قربان پر ہمیں گھر سے باہر نکلنا اس لیے بھی پسند نہیں کہ گوشت اور لہو کی بیزار سی مہک سانسوں میں ایک ایسی متلی طاری کردیتی ہے جس سے دماغ سُندھ ہوجاتا ہے، پھر جابہ جا ہُمکتی غلاظتیں تو سانسوں اور نظروں کو روح سے کھینچ کر رکھ دیتی ہیں۔
ہم پاکستانیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان ہونے کے ناطے ہمیںیہ تو اچھی طرح ذہن نشین ہے کہ قربانی کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے مگر ہم یہ بات بالکل ہی فراموش کرچکے ہیں کہ صفائی بھی نصف ایمان ہے اور یہ کہ جب تک ہم کامل صفائی کا ضابطہ نہیں اپنائیں گے ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا، اور جب تک ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوگا ہم مسلمان کہلانے کے ہرگز مستحق نہیں ہونگے۔ عام حالات میں توہم بڑی نفاست کا مظاہرہ کرتے ہیں، ہر چیز میں مین میخ نکالتے ہیں اور صفائی کا پہاڑہ پڑھتے نہیں تھکتے کیونکہ اس سے ہماری نجی صحت وطبیعت کا تعلق ہوتا ہے مگر معاملہ جب دوسروں سے متعلق ہوتو ہم ساری اخلاقیات بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور ایسی ایسی غلاظت کا مظاہرہ کرتے ہیں جس سے ہمارے گردونواح کا ماحول بیمار ہوجاتا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہرسال عیدالاضحی پر آٹھ سے دس کروڑ جانوروں کی قربانی ہوتی ہے، اتنی کثیر تعداد میں جانور سال بھر میں بھی ذبح نہیں ہوتے جتنے اس عید کے تین دنوں میں ہوتے ہیں، کھیتوں کھلیانوں، سڑکوں، گلیوں اور کھلے پلاٹوں میں لوگ ایک مذہبی جذبے کے تحت قربانی کے جانور ذبح کرتے ہیں اور گوشت بنوا کر گھروں کو لے جاتے ہیں مگر بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ذبیحوں کی آلائشیں وہیں چھوڑ جاتے ہیں جو کئی کئی دنوں تک وہیں سڑاند مارتی رہتی ہیں، ان میں پڑنے والا بیکٹیریا مکھیوں اور دیگر حشرات کے سہارے پھلوں، سبزیوں، برتنوں اوردوسرے کئی ذرایع سے علاقہ مکینوں کے گھروں تک رسائی حاصل کرلیتا ہے اور ہیضہ، اسہال، معدے، جلد اور سانس کی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ ان آلائشوں سے جو تعفن اور بدبو پھیلتی ہے اس سے جلد،سانس، گلے، سینے اور آنکھوں کی انفیکشن عام سی بات ہے، گھروں کے سامنے اور دائیں بائیں پڑی آلائشیںشہر کے مکینوں اور راہ چلتے لوگوں پر سانس کا قافیہ تنگ کر دیتی ہیں،کئی لوگوں نے تویہ بھی معمول بنالیا ہے کہ وہ قربانی کرتے ہی جانوروں کی غلاظتیں اٹھا کر گندے نالوں اور گٹروں میں پھینک دیتے ہیں جس سے ماحول ومنظر اور بھی قبیح وکریہہ ہوجاتا ہے اور اس سے وبائی امراض کو بھی مہمیز ملتی ہے۔
بحیثیت مجموعی پاکستانی قوم کی بودوباش کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں صفائی کا پہلو ناقابلِ بیان ہے۔ ہمارے گھروں، گلی کوچوں اور بازاروں میں گندگی کے ڈھیروں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم اندر سے کتنے غلیظ ہیں! کسی آدمی کی نفاست کا پیمانہ دیکھنا ہوتو اس کے کچن اور غسل خانے کی صفائی پر ایک نظر ڈال لیجیے آپ کو اس کی نفاست کا اندازہ ہو جائے گا۔ وہ لوگ کچن کیا صاف کرینگے جو کھانا بناتے اور کھاتے وقت ہاتھ تک نہیں دھوتے؟ وہ لوگ غسل خانے کیا صاف رکھیں گے جو ہفتوں مہینوں تک خود غسل نہیں کرتے؟ معاف کیجئے گا! ہمارا یہ خیال سب کے لیے نہیں ہے مگر اکثریت توہم میں ویسی ہی ہے جو ہم نے بیان کی ہے۔ ہمارے ہاں غلیظوں کی بھی بہت سی قسمیں ہیں۔ ایک غلیظ تو وہ ہیں جو تن من اور گھر بار سے ہر لحاظ سے گندے ہیں، یعنی نہ تو انھیں خود کی صفائی کا کچھ خیال ہے نہ اہل وعیال کی نفاست کا، ان کے گھروں میں بھی کوڑا کرکٹ پڑا رہتا ہے اور دروازوں پر بھی۔
دوسری قسم غلیظوں کی وہ ہے جو اپنے گھروں کی صفائی کا بیحد خیال رکھتے ہیں اور اپنے گھروں کی گندگی اکٹھی کر کے پڑوسیوں کے دروازوں پر پھینک دیتے ہیں یا پھر گھر کے آس پاس کوئی لاوارث گوشہ تلاش کر لیتے ہیں جس میں باقی محلے داروں کو بھی رُوڑی بنانے کاموقع مل جاتا ہے۔ تیسری قسم غلیظوں کی وہ ہے جو مہنگے مہنگے سوٹ پہنے لگژری گاڑیوں میں بیٹھ کر بازاروں کا رُخ کرتے ہیں اور گاڑیوں میں بیٹھے بیٹھے آدھا شہر کھا جاتے ہیں اور ہڈیاں، چھلکے، خالی ڈبے اور بوتلیں کھڑی اور چلتی گاڑیوں سے باہر پھینکتے رہتے ہیں، یہ کام وہ ثواب سمجھ کر کرتے ہیں اور گھر واپس پہنچنے تک پوش علاقوں کی خوبصورت سڑکوں، پارکوں اور ہوٹلوں کی پارکنگز وغیرہ پر اپنی بے مثال تہذیب کے نقوش چھوڑ جاتے ہیں، یہ انھی لوگوں کے رشتہ دار ہیں جو بسوں، ویگنوں اور تانگوں پر بیٹھ کر مونگ پھلی، کیلے اور گنڈیریاں کھاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہم لوگ مہذب کب ہونگے؟ ہمیں تہذیب کون سکھائے گا؟ ہم انسان کب بنیں گے؟ ہماری جان ذلت سے کب چھوٹے گی؟ اور، ہمیں عظمت کب نصیب ہوگی؟ آج ہم غربت اور امارت کے دوکناروں پر زندگی گزار رہے ہیں مگر امیر وغریب دونوں کی معاشرت و ذہنیت میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں۔ آخر اس معاشرے کی تربیت کون کریگا؟ وہ تربیت گاہیں کہاں ہیں جہاں انسان بننے کے لیے اس وحشی سماج کو بھیجا جائے؟ بدقسمتی سے اب تو اربابِ نشاط کے بالاخانے بھی اُجڑچکے ہیں جہاں تربیت لینے کے لیے ہم اپنی بگڑی نسلوں کو بھیج سکیں۔ ہم کیسے سدھریں گے کہ اصل غلاظت تو ہمارے ذہنوں میں ہے۔ عیدالاضحی پر جوگندگی ہمارے گھروں کے باہر جا بہ جا گلتی سڑتی اور ہواؤں کو مسموم کرتی نظر آتی ہیں وہ قربانی کے جانوروں کی نہیں بلکہ وہ تہذیب کی گندگی ہے جو ہمارے اذہان میں بھری پڑی ہے۔بقولِ ساحر:
نورِ سرمایہ سے ہے روئے تمدن کی جلا
ہم جہاں ہیں وہاں تہذیب نہیں پل سکتی
مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی
لیکن ان تلخ مباحث سے بھلا کیا حاصل
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے
میرے اجداد نے تہذیب نہ سیکھی ہوگی
میرے ماحول میں انسان نہ رہتے ہوں گے
محوِ حیرت ہیں کہ کب جانے وہ دور آئے گا
جب ہمیں زیست کے ادوار پرکھنے ہوں گے
اپنی ذلت کی قسم غیر کی عظمت کی قسم
ہم کو تعظیم کے معیار پرکھنے ہوں گے
صفائی بظاہرتو ایک معاشرتی المیہ نظر آتاہے مگر اصل میںیہ ایک انفرادی مسئلہ ہے۔اس خوفناک اجتماعی ذہنیت نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ کسی بھی صوبائی حکومت نے اس کے سدِباب کے لیے باقاعدہ کوئی قانون سازی نہیں کی، نہ ہی مرکز نے اس تناظر میں کسی قسم کی آگاہی مہم کا کوئی اہتمام کیا ہے۔ لاہور میں ہر گلی کے نکڑ پر کوڑادان بھی رکھے گئے ہیں اور ہرسڑک پر سویپریونٹ بھی کام کررہے ہیں تاہم اس کے باوجود بھی کہیں صفائی نظر نہیں آتی، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عوام میں صفائی کے بارے میں آگاہی کا شدید فقدان ہے۔ عوام میں اس بات کا شعور تک نہیں کہ ہمارے اردگرد کی ستھرائی ہمیں لاکھوں کروڑوں خطرناک بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہے۔ ہمیں یہ کام بچوں کی تربیت سے شروع کرنا ہوگا، اسکولوں اور کالجوں تک اس مہم کو پھیلانا ہو گا تاکہ بچوں کو بھی آگاہی ہوکہ صفائی معاشرے کے لیے کتنا اہم پہلو ہے۔
تمام شہریوں کو چاہیے کہ انفرادی طور پر اپنی اپنی ذمے داریاں نبھائیں تاکہ ہم ایک صحتمند ماحول میں سانس لے سکیں۔ لوگوں کو جسمانی صفائی کے ساتھ ساتھ دماغی نفاست کی بھی اشد ضرورت ہے۔ صفائی نہ صرف اپنے لیے ضروری ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی اتنی ہی ضروری ہے۔ جو لوگ گندگی میں سانس لینے کے عادی ہوچکے ہیں ان تک یہ پیغام پہنچانا ہوگا کہ وہ معاشرے کا اَٹوٹ اَنگ ہیں اور اگر وہ مکدّر ماحول پر ردعمل نہیں دکھائیں گے تو ان کے ساتھ ساتھ ان کے ہمسائے اور ناطے دار بھی آہستہ آہستہ اسی بے حسی میں مبتلا ہوتے جائینگے، جیسا کہ وہ ہو چکے ہیں۔ صرف قربانی کردینا ہی ہماری ذمے داری نہیں بلکہ قربانی کی غیرضروری باقیات کو صحیح طریقے سے تلف کرنا بھی ہماری ذمے داری ہے۔ قانون ایک پابندی کا نام ہے اور سزا اس قانون پر عمل کروانے کا ہتھیار ہے مگر ہمارے معاشرے میں یہ دونوں چیزیں ناپید ہیں۔
معاشرے میں گندگی پھیلانے کو مذہبی اور اخلاقی جرم کے ساتھ ساتھ قومی جرم بھی قرار دیا جانا ضروری ہے جس کے لیے باقاعدہ سخت سزائیں اور بھاری جرمانے لاگو ہونے چاہئیں۔ ان تمام مصائب سے جان بخشی کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ ہر ضلع میں یونین کونسل لیول پر مذبح خانے تعمیر کرے اور ہر صاحبِ نصاب کا نام رجسٹر کرکے اسے مناسب فیس کے عوض ایک رسید جاری کرے جسے وہ مذبح خانے میں دکھاکر اپنا قربانی کا پیکیج وصول کر سکے، اس طرح شہری بیوپاریوں اور قصابوں کے ہاتھوں لٹنے سے بھی بچ جائینگے اور ملک آلائشوں سے بھی پاک ہوجائے گا۔