ایک تقابلی جائزہ
اگرکسی ریاست کی سمت کا اس کے قیام کےابتدائی ایام میں تعین ہوجائے تو پھر اس کے لیےترقی کی منازل طے کرنا مشکل نہیں رہتا
اگر کسی ریاست کی سمت کا اس کے قیام کے ابتدائی ایام میں تعین ہوجائے تو پھر اس کے لیے ترقی کی منازل طے کرنا مشکل نہیں رہتا۔ اس سلسلے میں ریاست ہائے متحدہ امریکا ایک اہم Case Study ہے۔ یہ ملک جو زیادہ تر تارک الوطن افراد پر مشتمل ہے،جہاں ہر ریاست میں یورپ کے مختلف ممالک کے آکر آباد ہونے والے مختلف النوع اور مختلف النسل لوگ آباد ہوئے اورجن کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنا کٹھن مرحلہ تھا۔ چند صاحب بصیرت اہل دانش کی کاوشوں کے سبب انھیںایک وفاقی دستورکے ذریعے ایک ایسے بندھن میں پرویا،جوایک سپر پاور کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔
ان عظیم ہستیوں میں جارج واشنگٹن سمیت کئی اہم نام شامل ہیں ،لیکن بنجامن فرینکلن ایک منفرد حیثیت کی حامل شخصیت کے مالک تھے۔وہ بیک وقت ایک سیاسی مدبر، سفارتکار، صحافی ، مصنف، سائنسدان اور حقوقِ انسانی کے سرگرم کارکن تھے۔ انھیں بجاطورپر ریاست ہائے متحدہ امریکا کے بانیوں میں شمارکیاجاسکتاہے،کیونکہ انھی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ابتدائی طورپر 13ریاستوں کے نمایندوں نے ایک وفاقی آئین پر دستخط کرکے ایک نئی ریاست کی بنیاد رکھی ۔ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ان کی کوششوں اور کاوشوں کا مطالعہ آج68 برس گذرجانے کے باوجودہمارے معاشرے کے لیے سمت کا تعین کرنے میں معاون ومددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
جس وقت ریاست ہائے متحدہ امریکا کی تشکیل کے لیے کوششیں جاری تھیں، ایسا محسوس ہورہاتھا کہ مختلف ریاستوں سے آئے نمایندگان کسی ایک موقف پر رضا مند ہونے کو تیار نہیں۔ وفاقی ریاست کی تشکیل کا وہ خواب جو اس خطے کے دیدہ وروں نے دیکھا تھا،شاید شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔ ایسے میں 80سالہ جہاندیدہ بینجمن فرینکلن،جو ان دنوں خاصے علیل تھے، اپنی نشست سے اٹھے اور انھوں نے ایک پرجوش مگر مدلل تقریر کی۔ انھوں نے ریاستوں نمایندگان سے سوال کیاکہ کیا کبھی آپ نے اس پہلوپر غورکیا ہے کہ آپ کے سامنے رکھی یہ میز کیسے بنی ہے؟بڑھئی نے کسی ایک تختہ کو نہیں چھیلا ہے۔ بلکہ برابر بٹھانے کے لیے دونوں تختوں کو اس وقت تک چھیلاہے جب تک ان کی سطحیں ہموار ہوکر ایک دوسرے کے ساتھ جڑ نہیں گئیں اور ان کے درمیان کوئی رخنہ باقی نہیں رہا۔ آپ کو بھی اس میز کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ جڑنے کے لیے اپنے بہت سے مطالبات سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ اگرایک آزاد ریاست قائم کرنے کے متمنی ہیں توآپ میں سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ قربان کرناہوگا۔ اس لیے آئیے اس میز کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے ان مطالبات سے ازخود دستبردار ہوجائیں جو وفاق کے قیام کی راہ میں حائل ہیں۔
مسٹر فرینکلن کی اس تقریر کا نمایندگان پر گہر اثرا ہوا اور وہ ایک آئینی مسودے پربالآخر متفق ہوگئے۔ یوں اس دستاویز پر 17ستمبر1787کو دیگر نمایندگان کے علاوہ بینجمن فرینکلن نے بھی دستخط کیے۔ اس آئینی مسودے کی منظوری کے بعد وہ مسلسل صاحب فراش رہنے لگے اور بالآخر آئین کی منظوری کے تین برس بعد اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ ان کی موت کا سوگ نئی اور پرانی دونوں دنیاؤں میں یکساں طور پر منایا گیا۔ان کی کاوشوں کے نتیجے میں تشکیل پانے والا وفاقی آئین،جس میں ابتداً13ریاستیں شامل تھیں،آج50 ریاستوںپر مشتمل ہے۔ سوا دو سو برس سے یہ آئین دنیا کی اس فیڈریشن کی اساسی دستاویزہے، جو گزشتہ 70برس سے عالمی طاقت اور23 برس سے عالمی قوت واحدہ ہے۔
اگر آئین کی منظوری کے بعد سے اب تک کی امریکی تاریخ کا جائزہ لیں تو جو بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے ، وہ یہ ہے کہ وہاںسیاستدانوں اور منصوبہ ساز حلقوں نے کبھی ماورائے آئین اقدامات کی جرأت نہیں کی۔کبھی سرزد ہوجانے والی غلطیوں کی غلط تاویلات یا جوازپیش کرنے کی کوشش نہیں کی۔آئین میں ترمیم واضافے کے لیے ہمیشہ مجاز فورم یعنی پارلیمنٹ کواستعمال کیا۔انتخابات کے لیے ایک صدی قبل جو کلیہ طے کیاگیا، اس پر آج تک عمل ہوتا ہے۔ یعنی ہر Leap Yearکے اکتوبرکے تیسرے ہفتے میں صدارتی انتخابات ہوتے ہیں۔ چھ ہفتے نئے صدرکو وائٹ ہاؤس میںمختلف قومی اور عالمی امور پر بریفنگ اور تربیت دی جاتی ہے۔ جنوری کے تیسرے ہفتے میں نیاصدر حلف اٹھالیتا ہے۔ایک شخص صرف دو مدتوں کے لیے امریکی صدر بن سکتا ہے، تیسری مدت کے لیے نہیں۔
پاکستان میں روز اول سے جمہوریت کشی کی روایت ڈال دی گئی۔معروف سماجی دانشور ڈاکٹر ریاض احمد شیخ کی تحقیق کے مطابق پارلیمانی روایات کے مطابق نوابزادہ لیاقت علی خان ملک کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ لیکن اختیارواقتدار کا اصل سرچشمہ سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی تھے۔ کابینہ کی میٹنگ میں کیے جانے والے فیصلوں کی اس وقت تک کوئی اہمیت نہیں ہوتی تھی، جب تک کہ چوہدری محمد علی اور ان کے پسندیدہ سیکریٹریوں کا ایک ٹولہ ان فیصلوں سے متفق نہ ہوجائے۔اس دور کے بعض واقفان حال لکھتے ہیں کہ اکثر مواقعے پر لیاقت علی خان کو یہ کہتے سنا گیاکہ کابینہ میں کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے چوہدری محمد علی سے پوچھ لو کہ انھیںوہ منصوبہ منظور بھی ہے یا نہیں۔یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس صورتحال سے تنگ آکر انھوں نے دو مرتبہ استعفیٰ بھی دیا۔غالباً یہ صورتحال آج تک جاری ہے۔ بظاہرمیاں نواز شریف ملک کے منتخب وزیر اعظم ہیں، لیکن حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ طاقت کا سرچشمہ کہیں اور ہے۔
اس سلسلے میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے ایک واقعہ نقل کرنا ضروری ہے۔ بھٹو مرحوم لکھتے ہیں کہ PNAکی تحریک اپنے زوروں پر تھی کہ ایک روز رفیع رضا میرے دفتر آئے۔ وہ کچھ گھبرائے ہوئے سے تھے۔ کہنے لگے کہSir, the govt. has turned against us۔میںنے حیرت سے ان کی طرف دیکھا اور کہا کہ رفیع رضا We are the govt. I am your PM and you are my advisor What you are saying?۔ رفیع رضا نے چند لمحموں کی خاموشی کے بعد ہچکچاتے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔No, Sir, the govt is somewhere else۔ بھٹو لکھتے ہیں کہ آج اس کال کوٹھڑی میں مجھے اندازہ ہورہاہے کہ واقعی میرے وزیر اعظم ہونے کے باوجودThe govt. was somewhere else۔
ہمیں محض تنقید کے بجائے اس صورتحال کے پیدا ہونے کے اسباب پر غور کرنا چاہیے۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو سول یا ملٹری اسٹبلشمنٹ کومعاملات اپنے ہاتھوں میں لینے پر مجبورکرتے ہیں؟عرض یہ ہے کہ میں نواز شریف لیاقت علی خان کی طرح ایک شریف انسان ہیں۔ مگر دونوں میں ایک قدر مشترک ہے،وہ یہ کہ نہ لیاقت علی خان میںکوئی گہرا سیاسی ویژن تھا اور نہ میاں صاحب میں ہے۔نہ شہیدملت ملکی معاملات ومسائل کی نزاکتوں کو سمجھتے تھے اور نہ ہی میاں صاحب میں یہ صلاحیت ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ بھی وزرت عظمیٰ پرمحض نمائشی طورپر فائزرہے اور یہ بھی اسی منصب پردکھاوے کے لیے فائز ہیں۔مگر ملکی سلامتی اور بقاء کی خاطراس دور میںبھی مجبوراً فیصلے کہیں اورکیے جارہے تھے یا آج بھی کہیں اورکیے جارہے ہیں۔
اب جہاں تک بھٹو صاحب والامعاملہ ہے تو اس حوالے سے دو باتیں قابل توجہ ہیں۔ اول ،ابتدائی دنوں میں جو روایت پڑگئی تھی، وہ خاصی مضبوط تھی،جس کا فوری ٹوٹنا ممکن نہیں تھا۔حالانکہ بھٹو مرحوم نے اس سلسلے میں خاصی کوششیں کیں۔دوئم، خود بھٹومرحوم سے بھی بعض فاش غلطیاں بھی سرزد ہوئیں۔دوئم، انھوں نے اپنی فطری حلیف جماعتوں نیشنل عوامی پارٹی (NAP)اور جمعیت علمائے اسلام (مفتی محمود)کے ساتھ سیاسی اتحاد بنانے اور اسے مضبوط کرنے کے بجائے اسی اسٹبلشمنٹ پر تکیہ کیا جو تاریخی طورپر سیاسی عمل کوکمزور کرنے کا باعث تھی۔سوئم، بلوچستان میں فوجی آپریشن ایک بہت بڑی سیاسی غلطی تھا، جس نے بھٹو مرحوم کو سیاسی طورپر تنہا کردیا۔ چہارم، بعض مذہبی حلقوں کے دباؤ میں آکر انھوں نے یہ کی کہ کچھ ایسے فیصلے کیے جو جمہوری اقدارسے متصادم تھے۔ اس عمل نے اہل دانش اور متوشش حلقوں میں ان کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
ہمیں جس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے ، وہ یہ ہے کہ پاکستان اور امریکاکے بہت سے معاملات میں خاصی مماثلت پائی جاتی ہے۔امریکا نے ایک وفاقی جمہوری عمل تیار کرکے اس پر سختی کے ساتھ عمل کرکے اپنی ریاست کو دن دونی رات چوگنی ترقی کی راہ پر لگادیا۔ مگر ہم نے ان تمام اصول و ضوابط و فراموش کردیا، جن پر بانی پاکستان متحدہ ہندوستان میں مسلسل اصرار کرتے رہے تھے، یعنی صوبائی خود مختاری اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ۔اگر 1947میں پاکستان کو بھی کوئی بنجامن فرینکلن مل جاتا، جو دستور ساز اسمبلی پراپنی بھاری بھرکم شخصیت کا دباؤ ڈال کر اسے دستور سازی پر مجبور کردیتا تو شاید آج ہم نظم حکمرانی کے اس بحران کا شکار نہ ہوتے جس سے مسلسل گذررہے ہیں۔
ان عظیم ہستیوں میں جارج واشنگٹن سمیت کئی اہم نام شامل ہیں ،لیکن بنجامن فرینکلن ایک منفرد حیثیت کی حامل شخصیت کے مالک تھے۔وہ بیک وقت ایک سیاسی مدبر، سفارتکار، صحافی ، مصنف، سائنسدان اور حقوقِ انسانی کے سرگرم کارکن تھے۔ انھیں بجاطورپر ریاست ہائے متحدہ امریکا کے بانیوں میں شمارکیاجاسکتاہے،کیونکہ انھی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ابتدائی طورپر 13ریاستوں کے نمایندوں نے ایک وفاقی آئین پر دستخط کرکے ایک نئی ریاست کی بنیاد رکھی ۔ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ان کی کوششوں اور کاوشوں کا مطالعہ آج68 برس گذرجانے کے باوجودہمارے معاشرے کے لیے سمت کا تعین کرنے میں معاون ومددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
جس وقت ریاست ہائے متحدہ امریکا کی تشکیل کے لیے کوششیں جاری تھیں، ایسا محسوس ہورہاتھا کہ مختلف ریاستوں سے آئے نمایندگان کسی ایک موقف پر رضا مند ہونے کو تیار نہیں۔ وفاقی ریاست کی تشکیل کا وہ خواب جو اس خطے کے دیدہ وروں نے دیکھا تھا،شاید شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔ ایسے میں 80سالہ جہاندیدہ بینجمن فرینکلن،جو ان دنوں خاصے علیل تھے، اپنی نشست سے اٹھے اور انھوں نے ایک پرجوش مگر مدلل تقریر کی۔ انھوں نے ریاستوں نمایندگان سے سوال کیاکہ کیا کبھی آپ نے اس پہلوپر غورکیا ہے کہ آپ کے سامنے رکھی یہ میز کیسے بنی ہے؟بڑھئی نے کسی ایک تختہ کو نہیں چھیلا ہے۔ بلکہ برابر بٹھانے کے لیے دونوں تختوں کو اس وقت تک چھیلاہے جب تک ان کی سطحیں ہموار ہوکر ایک دوسرے کے ساتھ جڑ نہیں گئیں اور ان کے درمیان کوئی رخنہ باقی نہیں رہا۔ آپ کو بھی اس میز کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ جڑنے کے لیے اپنے بہت سے مطالبات سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ اگرایک آزاد ریاست قائم کرنے کے متمنی ہیں توآپ میں سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ قربان کرناہوگا۔ اس لیے آئیے اس میز کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے ان مطالبات سے ازخود دستبردار ہوجائیں جو وفاق کے قیام کی راہ میں حائل ہیں۔
مسٹر فرینکلن کی اس تقریر کا نمایندگان پر گہر اثرا ہوا اور وہ ایک آئینی مسودے پربالآخر متفق ہوگئے۔ یوں اس دستاویز پر 17ستمبر1787کو دیگر نمایندگان کے علاوہ بینجمن فرینکلن نے بھی دستخط کیے۔ اس آئینی مسودے کی منظوری کے بعد وہ مسلسل صاحب فراش رہنے لگے اور بالآخر آئین کی منظوری کے تین برس بعد اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ ان کی موت کا سوگ نئی اور پرانی دونوں دنیاؤں میں یکساں طور پر منایا گیا۔ان کی کاوشوں کے نتیجے میں تشکیل پانے والا وفاقی آئین،جس میں ابتداً13ریاستیں شامل تھیں،آج50 ریاستوںپر مشتمل ہے۔ سوا دو سو برس سے یہ آئین دنیا کی اس فیڈریشن کی اساسی دستاویزہے، جو گزشتہ 70برس سے عالمی طاقت اور23 برس سے عالمی قوت واحدہ ہے۔
اگر آئین کی منظوری کے بعد سے اب تک کی امریکی تاریخ کا جائزہ لیں تو جو بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے ، وہ یہ ہے کہ وہاںسیاستدانوں اور منصوبہ ساز حلقوں نے کبھی ماورائے آئین اقدامات کی جرأت نہیں کی۔کبھی سرزد ہوجانے والی غلطیوں کی غلط تاویلات یا جوازپیش کرنے کی کوشش نہیں کی۔آئین میں ترمیم واضافے کے لیے ہمیشہ مجاز فورم یعنی پارلیمنٹ کواستعمال کیا۔انتخابات کے لیے ایک صدی قبل جو کلیہ طے کیاگیا، اس پر آج تک عمل ہوتا ہے۔ یعنی ہر Leap Yearکے اکتوبرکے تیسرے ہفتے میں صدارتی انتخابات ہوتے ہیں۔ چھ ہفتے نئے صدرکو وائٹ ہاؤس میںمختلف قومی اور عالمی امور پر بریفنگ اور تربیت دی جاتی ہے۔ جنوری کے تیسرے ہفتے میں نیاصدر حلف اٹھالیتا ہے۔ایک شخص صرف دو مدتوں کے لیے امریکی صدر بن سکتا ہے، تیسری مدت کے لیے نہیں۔
پاکستان میں روز اول سے جمہوریت کشی کی روایت ڈال دی گئی۔معروف سماجی دانشور ڈاکٹر ریاض احمد شیخ کی تحقیق کے مطابق پارلیمانی روایات کے مطابق نوابزادہ لیاقت علی خان ملک کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ لیکن اختیارواقتدار کا اصل سرچشمہ سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی تھے۔ کابینہ کی میٹنگ میں کیے جانے والے فیصلوں کی اس وقت تک کوئی اہمیت نہیں ہوتی تھی، جب تک کہ چوہدری محمد علی اور ان کے پسندیدہ سیکریٹریوں کا ایک ٹولہ ان فیصلوں سے متفق نہ ہوجائے۔اس دور کے بعض واقفان حال لکھتے ہیں کہ اکثر مواقعے پر لیاقت علی خان کو یہ کہتے سنا گیاکہ کابینہ میں کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے چوہدری محمد علی سے پوچھ لو کہ انھیںوہ منصوبہ منظور بھی ہے یا نہیں۔یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس صورتحال سے تنگ آکر انھوں نے دو مرتبہ استعفیٰ بھی دیا۔غالباً یہ صورتحال آج تک جاری ہے۔ بظاہرمیاں نواز شریف ملک کے منتخب وزیر اعظم ہیں، لیکن حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ طاقت کا سرچشمہ کہیں اور ہے۔
اس سلسلے میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے ایک واقعہ نقل کرنا ضروری ہے۔ بھٹو مرحوم لکھتے ہیں کہ PNAکی تحریک اپنے زوروں پر تھی کہ ایک روز رفیع رضا میرے دفتر آئے۔ وہ کچھ گھبرائے ہوئے سے تھے۔ کہنے لگے کہSir, the govt. has turned against us۔میںنے حیرت سے ان کی طرف دیکھا اور کہا کہ رفیع رضا We are the govt. I am your PM and you are my advisor What you are saying?۔ رفیع رضا نے چند لمحموں کی خاموشی کے بعد ہچکچاتے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔No, Sir, the govt is somewhere else۔ بھٹو لکھتے ہیں کہ آج اس کال کوٹھڑی میں مجھے اندازہ ہورہاہے کہ واقعی میرے وزیر اعظم ہونے کے باوجودThe govt. was somewhere else۔
ہمیں محض تنقید کے بجائے اس صورتحال کے پیدا ہونے کے اسباب پر غور کرنا چاہیے۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو سول یا ملٹری اسٹبلشمنٹ کومعاملات اپنے ہاتھوں میں لینے پر مجبورکرتے ہیں؟عرض یہ ہے کہ میں نواز شریف لیاقت علی خان کی طرح ایک شریف انسان ہیں۔ مگر دونوں میں ایک قدر مشترک ہے،وہ یہ کہ نہ لیاقت علی خان میںکوئی گہرا سیاسی ویژن تھا اور نہ میاں صاحب میں ہے۔نہ شہیدملت ملکی معاملات ومسائل کی نزاکتوں کو سمجھتے تھے اور نہ ہی میاں صاحب میں یہ صلاحیت ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ بھی وزرت عظمیٰ پرمحض نمائشی طورپر فائزرہے اور یہ بھی اسی منصب پردکھاوے کے لیے فائز ہیں۔مگر ملکی سلامتی اور بقاء کی خاطراس دور میںبھی مجبوراً فیصلے کہیں اورکیے جارہے تھے یا آج بھی کہیں اورکیے جارہے ہیں۔
اب جہاں تک بھٹو صاحب والامعاملہ ہے تو اس حوالے سے دو باتیں قابل توجہ ہیں۔ اول ،ابتدائی دنوں میں جو روایت پڑگئی تھی، وہ خاصی مضبوط تھی،جس کا فوری ٹوٹنا ممکن نہیں تھا۔حالانکہ بھٹو مرحوم نے اس سلسلے میں خاصی کوششیں کیں۔دوئم، خود بھٹومرحوم سے بھی بعض فاش غلطیاں بھی سرزد ہوئیں۔دوئم، انھوں نے اپنی فطری حلیف جماعتوں نیشنل عوامی پارٹی (NAP)اور جمعیت علمائے اسلام (مفتی محمود)کے ساتھ سیاسی اتحاد بنانے اور اسے مضبوط کرنے کے بجائے اسی اسٹبلشمنٹ پر تکیہ کیا جو تاریخی طورپر سیاسی عمل کوکمزور کرنے کا باعث تھی۔سوئم، بلوچستان میں فوجی آپریشن ایک بہت بڑی سیاسی غلطی تھا، جس نے بھٹو مرحوم کو سیاسی طورپر تنہا کردیا۔ چہارم، بعض مذہبی حلقوں کے دباؤ میں آکر انھوں نے یہ کی کہ کچھ ایسے فیصلے کیے جو جمہوری اقدارسے متصادم تھے۔ اس عمل نے اہل دانش اور متوشش حلقوں میں ان کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
ہمیں جس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے ، وہ یہ ہے کہ پاکستان اور امریکاکے بہت سے معاملات میں خاصی مماثلت پائی جاتی ہے۔امریکا نے ایک وفاقی جمہوری عمل تیار کرکے اس پر سختی کے ساتھ عمل کرکے اپنی ریاست کو دن دونی رات چوگنی ترقی کی راہ پر لگادیا۔ مگر ہم نے ان تمام اصول و ضوابط و فراموش کردیا، جن پر بانی پاکستان متحدہ ہندوستان میں مسلسل اصرار کرتے رہے تھے، یعنی صوبائی خود مختاری اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ۔اگر 1947میں پاکستان کو بھی کوئی بنجامن فرینکلن مل جاتا، جو دستور ساز اسمبلی پراپنی بھاری بھرکم شخصیت کا دباؤ ڈال کر اسے دستور سازی پر مجبور کردیتا تو شاید آج ہم نظم حکمرانی کے اس بحران کا شکار نہ ہوتے جس سے مسلسل گذررہے ہیں۔