میاں صاحب سب کو ایک لاٹھی سے نہ ہانکیں…

پہلا برس گزرا تو لوگوں کی نظر میں ان کے اسکول کے بچے نمایاں نظر آنے لگے

Shireenhaider65@hotmail.com

عبداللہ صاحب شہر میں ہی پیدا ہوئے، وہیں پلے بڑھے اور تعلیم حاصل کی، گورنمنٹ کالج لاہور سے اپنا بی اے اور ایم اے کر کے انھوں نے برن ہال کالج ایبٹ آباد میں اپنی پہلی ملازمت کی۔ لگ بھگ تین چار سال کی ملازمت کے بعد انھوں نے پاکستان نیوی کے شعبہء تعلیم میں شمولیت اختیار کی، چند برس کی ملازمت کے دوران ان کے ذہن میں ایک انوکھا خیال آیا اور انھوں نے گجرات کے ایک نواحی گاؤں میں جو کہ ان کا آبائی گاؤں تھا، وہاں پر ایک نجی اسکول کا آغاز کیا جو کہ اس علاقے کا اپنی نوعیت اور اپنے پائے کا پہلا اسکول تھا۔ پہلا سال انھوں نے فقط ساٹھ طلباء و طالبات کے ساتھ گزارا، اس علاقے میں آج سے پندرہ برس قبل دو سو روپے کی فیس کو بہت زیادہ سمجھا جاتا تھا اور یہی ایک وجہ ان کے اسکول میں طالب علموں کی قلیل تعداد رہی۔

پہلا برس گزرا تو لوگوں کی نظر میں ان کے اسکول کے بچے نمایاں نظر آنے لگے، گاؤں کی گلیوں میں چلتے اور کھیلتے ہوئے بچے ہوں ، کسی کے ہاں کسی تقریب میں شرکت کرتے ہوئے ، کسی بزرگ کے پاس بیٹھے ہوئے یا کسی سے بات کرتے ہوئے، لوگوں کو نظر آنے لگا کہ یہ بچہ عبداللہ صاحب کے اسکول میں پڑھتا ہے۔ جو تصور عبداللہ صاحب کے ذہن میں تھا وہ ایک پیکر میں ڈھل چکا تھا، انھوں نے خود کو اس مٹی کا مقروض سمجھا جہاں سے ان کے آباؤ اجداد کا خمیر اٹھا تھا اور یہ قرض اپنے گاؤں کی مٹی کو لوٹانے کے لیے ہی انھوں نے اپنے اس خواب کو تعبیر بخشی تھی۔

چند برسوںمیں جب ان کے اسکول کی نویں اور دسویں جماعتیں بورڈ کے امتحانات میں سے شاندار نتائج لائیں تو لوگوں کو اندازہ ہو ا کہ ان کے بچوں کو کس قدر بہترین رہنمائی مل رہی تھی۔ وہ اسکول کسی بھی طور شہر کے کسی بہترین نجی ادارے سے کم نہ تھا، ان میں بھی وہی کتب پڑھائی جا رہی تھیں جو شہروں کے بہترین انگلش میڈیم تعلیمی اداروں میں پڑھائی جاتی ہیں اور اس کے علاوہ سب سے اہم ان کے لیے ان بچوں کی کردار سازی اور ان کی شخصیت کی بہترین پرداخت تھی۔ صاف ستھرے یونیفارم میں ، تمیز سے بات کرتے اور شان سے چلتے ہوئے بچے ، والدین کے لیے باعث فخر بنتے گئے اور پندرہ سال کے اس عرصے میں انھوں نے وہ چراغ جلائے ہیں کہ جن کی لو اس وقت ملک کے چپے چپے میں پھیلی ہوئی ہے۔

مگر میں نے عبداللہ صاحب کو اس وقت اتنا پریشان دیکھا ہے کہ ا س سے قبل کٹھن سے کٹھن حالات میں بھی نہیں دیکھا ہو گا۔ اس وقت بھی نہیں جب شہر کا عیش و آرام چھوڑ کر وہ ہر روز اپنے گھر سے چھتیس کلومیٹر کا سفر کر کے، سردی ہو یا گرمی، دھند ہو یا بارش، ہر روز صبح وقت پر اسکول پہنچتے ہیں، امتحانات کے دنوں میں بچوں کو اسکول کے بعد اضافی وقت بھی دیتے ہیں، گھر والوں سے اس بات کے طعنے بھی سنتے ہیں کہ ان کے لیے سب کچھ اسکول ہی ہے۔ درست ہے کہ ان کے لیے سب کچھ اسکول ہی ہے مگر ایسا بھی نہیں کہ وہ اس اسکول کو کسی فلاحی ادارے کی طرح چلا رہے ہیں، یہ اسکول ہی ان کے گھر کو بھی چلاتا ہے مگر صرف اتنا کہ ان کے گھر کا ماہانہ خرچہ نکل آتا ہے اور ان کے والدین سمیت گھر کے آٹھ نفوس اپنے گھر کی گاڑی کھینچ رہے ہیں۔ انھوں نے اپنا مسئلہ مجھے تفصیل سے بتایا تا کہ میں اس پر لکھوں اور وزیر اعلی پنجاب تک یہ اطلاع پہنچے کہ انھیںایسے قوانین اور آرڈنینس جاری کرتے ہوئے سب کو ایک لاٹھی سے نہیں ہانکنا چاہیے۔

ان کے اسکول کی عمارت کا مالک اس عمارت کا سالانہ دس فیصد کرایہ بڑھاتا ہے اور ان کے اسکول کے اساتذہ کی تنخواہ کی سالانہ انکریمنٹ بھی پانچ سے دس فیصد ہے، اسکول کے اساتذہ ماہانہ نو ہزار سے لے کر تیرہ ہزار تک تنخواہیں لیتے ہیں ، اسکول میں بچوں کی ماہانہ فیس پندرہ سال میں دو سو سے بڑھ کر کچھ جماعتوں کی بارہ سو اور کچھ کی پندرہ سو تک پہنچی ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ مختلف اہلیت کے حامل اساتذہ کی ماہانہ تنخواہ اوسطاً آٹھ بچوں کی ایک ماہ کی فیس کے برابر ہے... آپ نے غیر کسی تفصیلی جائزے کے ایک آرڈنینس جاری کر کے ''تمام'' پرائیویٹ اسکولوںکے لیے یکساں قانون فوری طور پر نافذ کر دیا ہے۔ کیا آپ اس ایک اسکول کا مقابلہ ان اسکولوں سے کر سکتے ہیں جو اس وقت ہر بڑے چھوٹے شہر میں اپنے اسکولوں کی دو دو تین تین سو برانچیں کھولے ہوئے ہیں یا ان اسکولوں سے جن کے بارے میں ہر روز ٹیلی وژن پر دکھایا جا رہا ہے ، جہاں ایک نرسری کلاس کے بچے کی ماہانہ فیس پندرہ سے بیس ہزار روپے ہے، وہاں نرسری کی ٹیچر کو بیس سے چوبیس ہزار روپے ماہانہ پر رکھا جاتا ہے، یہ رقم اس جماعت کے سوا بچے کی ماہانہ فیس کے برابر ہے۔


ان اسکولوں میں کئی ایسی قسم کے فنڈز لیے جاتے ہیں جن کی کوئی تک ہی نہیں بنتی، بچوں کے والدین کا ایسے اسکولوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا اور احتجاج کرنا کوئی معنی رکھتا ہے... آپ نجی تعلیم کے اداروں میں سے ایسی گندی مچھلیوں کو چن کر نکالیں جنہوں نے تعلیم کو قطعی کاروبار بنا رکھا ہے انھیں چیک کریں، آپ تمام اداروں کے لیے ایک جیسے آرڈنینس کی منظوری کیسے دے سکتے ہیں؟ فیس میں سالانہ اضافہ اس روز افزوں مہنگائی کے دور میں ناگزیر ہے کیونکہ اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں مگر آپ حد بندی کریں کہ کتنی رقم سالانہ فیس کی مد میں بڑھائی جا سکتی ہے اور زیادہ سے زیادہ فیس کی حد مقرر کریں ۔

عبداللہ صاحب کے اسکول کی ایک مثال ہے، اس اسکول کا لگ بھگ ایک ایکڑ کا کیمپس ہے اور اس کے اخراجات بھی اسی طرح ہیں، وہ عموما دو سال کے بعد فیس بڑھاتے ہیں اور اس کی شرح بھی بہت کم ہوتی ہے... ان کے اسکول میں شہداء کے بچوں، یتیموں اور حافظ قرآن بچوں کو بالکل مفت تعلیم دی جاتی ہے اور ان کی کتب کے اخراجات بھی اسکول اٹھاتا ہے۔ اس برس انھوں نے کوئی فیس نہیں بڑھائی اس لیے ان کے لیے زندگی کی گاڑی کھینچنا مشکل ہو رہا ہے اور اب آپ کہہ رہے ہیں کہ ان جیسے اسکولوں والے سالانہ کیا گیا دو تین سو روپیہ فی طالب علم کا اضافہ بھی واپس لے لیں اور یہی نہیں، وصول کی گئی فیس بھی واپس کریں اور آیندہ برس بھی فیس نہ بڑھائیں !! کیا آپ ان پرائیویٹ اداروں کو سبسڈی دے رہے ہیں؟؟ ان کے اسکول کی طرح اس ملک میں لاکھوں اسکول ہیں جو ان مشہور زمانہ برانڈڈ اسکولوں کے متوازی چل رہے ہیں اور پسماندہ علاقوںمیں بچوں کو گورنمنٹ کے اسکولوں کی نسبت معیاری تعلیم مہیا کر رہے ہیں ، ان اسکولوں میں تعلیم کا کاروبار نہیں کیا جاتا مگر ان اسکولوں کے لیے مسائل آپ نے کھڑے کر دیے ہیں کہ انھیں چلایا کیسے جائے۔

پہلے آپ نے حفاظتی اقدامات کو بہتر بنانے کے حکم کے وقت بھی اس جیسے نجی تعلیمی اداروں کے لیے انتہائی مشکل حالات پیدا کر دیے تھے جو کہ ملک کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں ہیں، ان اداروں کے لیے اس نوعیت کے حفاظتی اقدامات کی ضرورت بھی نہ تھی کیونکہ ان میں عوام پڑھتے ہیں نہ کہ خواص کے بچے... مگر آپ کے احکامات کی لاٹھی سب کو ایک جیسا ہانکتی ہے ... اسکولوں کی بیرونی دیواریں بلند کروانا ، جنھیں ان کے مالکوں نے بلند کروا کر دینے سے انکار کر دیا تھا، سیکیورٹی کیمرے اور سیکیورٹی گیٹوں کی تنصیب اور اب اسلحہ رکھنا لازمی قرار دے کر آپ نے ایک کے بعد دوسرے مسائل کا انبار لگا رکھا ہے، اس پر یہ حالیہ فیصلے ان لوگوں کے لیے کئی مشکلات لے کر آئے ہیں اور انھیں کچھ سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں... ایسا نہ ہو کہ دلوں میں علم کی لو پھیلانے کا جذبہ لیے عبداللہ صاحب جیسے لوگ بد دل ہو جائیں ۔

بڑے شہروں میں انتظامیہ کی ناک کے نیچے رہائشی علاقوں میں ایک ایک کنال کی کوٹھیوںمیں چپے چپے پر نام نہاد تعلیمی ادارے کھلے ہوئے ہیں جن میں بچوں کو چوزوں کی طرح ٹھونسا ہوا ہوتا ہے حتی کہ بڑے شہروں میں یونیورسٹیاں بھی ایک ایک فلیٹ میں بنی ہوئی ہیں، ان یونیورسٹیوں میں لاکھوں روپے فی سمسٹر کے حساب سے فیسیں وصول کی جاتی ہیں۔ اگر آپ نے واقعی کچھ کرنا ہے تو رہائشی علاقوں میں ان رہائشی عمارتوںمیں بنی ہوئی ڈربہ نما یونیورسٹیوں ، کالجوں اور اسکولوں کے خلاف آپریشن کریک ڈاؤن کریں اور آرڈنینس لاگو کریں کہ ہر تعلیمی ادارہ کم از کم فی طالب علم ایک مربع گز کی عمارت اور اتنا ہی کھیل کا میدان کا حامل کیمپس رکھتا ہو ، ا س سے کم پر کوئی اسکول چلانے کی اجازت نہ دی جائے۔ تعلیم کے نام پر دھبہ یہ تعلیمی ادارے والدین سے بھی فیسیں بٹورتے ہیں اور فی بچہ فیس کی رقوم اوراساتذہ کی تنخواہوں کی مد میں ان این جی اوز سے وصولی کر کے اپنی جیبیں بھرتے ہیں اور ملک میں نظام تعلیم کو بدنام کرتے ہیں۔

دفتروں میں بیٹھ کر قوانین بنانے والوں کی بجائے شعبے سے متعلقہ لوگوں سے کہیں کہ ائیر کنڈیشنڈ دفاتر سے نکلیں اور تعلیمی اداروں کو چیک کریں، ہر شہر ، قصبے اور دیہات میں اسکولوں کی کارکردگی کا جائزہ لیں اور اس کے مطابق قوانین بنائیں۔ آ پ کا کام لوگوں کے مسائل کو سمجھنا اور ان کا حل تلاش کرنا ہے نہ کہ چند لوگوں کی غلطیوں کی سزا کے طور پر سب کو رگید دینا۔
Load Next Story