بینکاری شعبے کی ترقی کے باوجود اے ٹی ایمز کی تعداد انتہائی محدود
مالی سال 2010-11میں ملک بھر میں نصب اے ٹی ایمز کی تعداد 5200 تھی جو 2014-15کے اختتام تک بڑھ کر 9597تک پہنچ چکی ہے
PESHAWAR:
پاکستان میں بینکاری کے شعبے کی ترقی کے باوجود اے ٹی ایم کی تعداد آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے۔
پاکستان کا شمار ایک لاکھ آبادی کے لیے اے ٹی ایمز کی تعداد کے تناسب کے لحاظ سے دنیا کے پسماندہ ملکوں میں کیا جاتا ہے جن میں افغانستان، سوڈان، یوگنڈا، تنزانیہ اور یوگنڈا سمیت دیگر افریقی ممالک شامل ہیں۔ مالی سال 2014-15کے اختتام پر پاکستان میں کام کرنے والے بینکوں اور مالیاتی اداروں کی تعداد 53تک پہنچ چکی ہے جن میں 35کمرشل بینک، 10مائکرو فنانس بینک اور 8ترقیاتی مالیاتی ادارے شامل ہیں۔ پاکستان میں اگرچہ گزشتہ پانچ سال کے دوران اے ٹی ایم کی تعداد میں 85فیصد تک اضافہ ہوا ہے تاہم دنیا کے دیگر ہمعصر معیشتوں اور بڑی آبادیوں کے لحاظ سے اے ٹی ایمز کا تناسب اب بھی بہت کم ہے۔ مالی سال 2010-11میں ملک بھر میں نصب اے ٹی ایمز کی تعداد 5200 تھی جو 2014-15کے اختتام تک بڑھ کر 9597تک پہنچ چکی ہے تاہم آبادی کے تناسب کے لحاظ سے ہر ایک لاکھ کی آبادی کے لیے پاکستان میں 5اے ٹی ایمز دستیاب ہیں۔
اس کے برعکس بنگلہ دیش میں ہر ایک لاکھ کی آبادی کے لیے 6سے زائد اے ٹی ایمز اور بھارت میں 14سے زائد جبکہ ایران میں ہر ایک لاکھ کی آبادی کے لیے 50سے زائد اے ٹی ایمز دستیاب ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں یہ تناسب 100اے ٹی ایمز اور کم آبادی والے ترقی یافتہ ملکوں میں 200سے تک پہنچ چکا ہے۔ پاکستان میں بینکوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود مینوئل برانچوں کی تعداد بھی انتہائی محدود ہے اور 18 کروڑ سے زائد آبادی کے لیے محض 622 مینوئل برانچیں موجود ہیں۔ پاکستان میں مالیاتی خدمات کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے برانچ لیس بینکاری اور الیکٹرونک بینکنگ کو اہمیت دی جارہی ہے یہی وجہ ہے کہ روایتی بینک برانچوں کے مقابلے میں آن لائن برانچوں اور پوائنٹ آف سیلز کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
پاکستان میں ہر ایک لاکھ کی آبادی کے لیے 6آن لائن برانچیں اور 22پوائنٹ آف سیلز مشینیں دستیاب ہیں آن لائن برانچوں کی تعداد 11ہزار 315جبکہ پوائنٹ آف سیلز مشینوں کی تعداد 41ہزار 183تک پہنچ چکی ہے۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران پاکستان میں اے ٹی ایم کے ذریعے کی جانے والی ٹرانزیکشنز کی مالیت میں 167فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مالی سال 2010-11کے دوران 13کروڑ 76لاکھ ٹرانزیکشنز کے ذریعے 1.2ٹریلین روپے کا لین دین کیا گیا جبکہ مالی سال 2014-15کے دوران 11کروڑ 38لاکھ ٹرانزیکشنز کے ذریعے 3.1ٹریلین روپے سے زائد کا لین دین کیا گیا ہے۔
پاکستان میں بینکاری کے شعبے کی ترقی کے باوجود اے ٹی ایم کی تعداد آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے۔
پاکستان کا شمار ایک لاکھ آبادی کے لیے اے ٹی ایمز کی تعداد کے تناسب کے لحاظ سے دنیا کے پسماندہ ملکوں میں کیا جاتا ہے جن میں افغانستان، سوڈان، یوگنڈا، تنزانیہ اور یوگنڈا سمیت دیگر افریقی ممالک شامل ہیں۔ مالی سال 2014-15کے اختتام پر پاکستان میں کام کرنے والے بینکوں اور مالیاتی اداروں کی تعداد 53تک پہنچ چکی ہے جن میں 35کمرشل بینک، 10مائکرو فنانس بینک اور 8ترقیاتی مالیاتی ادارے شامل ہیں۔ پاکستان میں اگرچہ گزشتہ پانچ سال کے دوران اے ٹی ایم کی تعداد میں 85فیصد تک اضافہ ہوا ہے تاہم دنیا کے دیگر ہمعصر معیشتوں اور بڑی آبادیوں کے لحاظ سے اے ٹی ایمز کا تناسب اب بھی بہت کم ہے۔ مالی سال 2010-11میں ملک بھر میں نصب اے ٹی ایمز کی تعداد 5200 تھی جو 2014-15کے اختتام تک بڑھ کر 9597تک پہنچ چکی ہے تاہم آبادی کے تناسب کے لحاظ سے ہر ایک لاکھ کی آبادی کے لیے پاکستان میں 5اے ٹی ایمز دستیاب ہیں۔
اس کے برعکس بنگلہ دیش میں ہر ایک لاکھ کی آبادی کے لیے 6سے زائد اے ٹی ایمز اور بھارت میں 14سے زائد جبکہ ایران میں ہر ایک لاکھ کی آبادی کے لیے 50سے زائد اے ٹی ایمز دستیاب ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں یہ تناسب 100اے ٹی ایمز اور کم آبادی والے ترقی یافتہ ملکوں میں 200سے تک پہنچ چکا ہے۔ پاکستان میں بینکوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود مینوئل برانچوں کی تعداد بھی انتہائی محدود ہے اور 18 کروڑ سے زائد آبادی کے لیے محض 622 مینوئل برانچیں موجود ہیں۔ پاکستان میں مالیاتی خدمات کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے برانچ لیس بینکاری اور الیکٹرونک بینکنگ کو اہمیت دی جارہی ہے یہی وجہ ہے کہ روایتی بینک برانچوں کے مقابلے میں آن لائن برانچوں اور پوائنٹ آف سیلز کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
پاکستان میں ہر ایک لاکھ کی آبادی کے لیے 6آن لائن برانچیں اور 22پوائنٹ آف سیلز مشینیں دستیاب ہیں آن لائن برانچوں کی تعداد 11ہزار 315جبکہ پوائنٹ آف سیلز مشینوں کی تعداد 41ہزار 183تک پہنچ چکی ہے۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران پاکستان میں اے ٹی ایم کے ذریعے کی جانے والی ٹرانزیکشنز کی مالیت میں 167فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مالی سال 2010-11کے دوران 13کروڑ 76لاکھ ٹرانزیکشنز کے ذریعے 1.2ٹریلین روپے کا لین دین کیا گیا جبکہ مالی سال 2014-15کے دوران 11کروڑ 38لاکھ ٹرانزیکشنز کے ذریعے 3.1ٹریلین روپے سے زائد کا لین دین کیا گیا ہے۔