شمالی وزیرستان آپریشن کیلئے دبائو نہیں ڈال رہے گراسمین حنا ربانی جنرل کیانی سے ملاقاتیں
تعلقات دوبارہ ٹریک پرآگئے،مل کرالقاعدہ کوختم کرسکتے ہیں،ملالہ پرحملے سے امریکیوںکوبھی صدمہ ہوا،انٹرویو
پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکاکے نمائندہ خصوصی مارک گراسمین نے کہا ہے کہ ان کا دورہ شمالی وزیرستان میں ملٹری آپریشن کیلیے پاکستان پر دبائو ڈالنے کیلیے نہیں ہے۔
میری آمد کا مقصد پاکستانی حکام کیساتھ گزشتہ کئی مہینوں سے جاری مذاکرات آگے بڑھانا ہے۔سرکاری ٹی وی کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کا فیصلہ حکومت پاکستان کو کرنا ہے۔ اے ایف پی کے مطابق امریکی ایلچی نے ڈرون حملوں کے معاملے پر بات کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ یہ میرے لئے بات چیت کا ٹاپک نہیں ، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ پاکستانی اور امریکی اکٹھے ہوکر خطے میں القاعدہ کا خاتمہ کرسکتے ہیں اور یہ ایک بڑی مشترکہ اسٹرٹیجک کوشش ہوگی اور مجھے امید ہے کہ یہ بہت جلد ہوگا۔
امریکی ایلچی نے کہا کہ گزشتہ سال سے موازنہ کرتے ہوئے پاکستان اور امریکاکے تعلقات دوبارہ ٹریک پرآگئے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ممالک دہشت گردی کا شکارہیں،دہشت گردی ایک لعنت ہے ، اس کے خلاف مل کر لڑناہوگا۔ ثنا نیوز کے مطابق گراسمین نے کہا کہ امریکاشمالی وزیرستان میں آپریشن کیلیے پاکستان پر دبائو نہیں ڈال رہا، پاکستان اور امریکاافغانستان میں امن واستحکام اور سلامتی کیلیے کوشاں ہیں ، معاشرے کو دہشت گردی سے پاک کرنے کیلیے تعلیم کے فروغ کی ضرورت ہے ، ملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملے سے امریکی عوام کوبھی گہراصدمہ پہنچاہے، ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستانی عوام دہشت گردی اورانتہا پسندی سے کس حد تک متاثر ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ امن واستحکام کیلیے پاکستان افغانستان اور ایساف افواج کے درمیان بہتر تعاون ضروری ہے،کسی بھی ملک کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے جیسا کہ پاکستانی پارلیمنٹ نے اپنی گائیڈ لائن میں کہا ہے، 2014ء میں افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کے بعد پاکستان اورافغانستان فیصلے خود کریں گے، دس سال پہلے کی نسبت آج کا افغانستان بہتر ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکاکے تعلقات آگے بڑھ رہے ہیں اور آگے بڑھنے کا راستہ باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات قائم کرنا ہے، 20 فیصد پاکستانی مصنوعات امریکا برآمد ہو رہی ہیں ، ہمیں سول سوسائٹی،معیشت سمیت دیگر دوسرے شعبوں میں اچھے تعلقات قائم کرنے چاہئیں۔
قبل ازیں مارک گراسمین ہفتے کے روز دوروزہ دورہ پر اسلام آباد پہنچے تو اپنی آمدکے فوراً وزیر خارجہ حناربانی کھر سے ملاقات کی اور دوطرفہ تعلقات اور خطے میں سلامتی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا ۔ دونوں رہنمائوں نے افغانستان کی تازہ ترین صورتحال کا بھی جائزہ لیا اور وہاں استحکام کیلیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ۔ وزیر خارجہ حناربانی کھر نے انھیں ڈرون حملوں پر پاکستان کے تحفظات سے آگاہ کیا اورپاک امریکاوسیع البنیاد تعلقات کی اہمیت واضح کی۔مارک گراسمین نے پاکستان کے ساتھ باہمی مفاد اور احترام پر مبنی طویل مدتی تعلقات برقراررکھنے کے امریکی عزم کا اعادہ کیا ۔
وزیرخارجہ اورامریکی نمائندہ خصوصی نے قانون نافذ کرنے اوردہشت گردی کے خاتمے کے بارے میں ورکنگ گروپ کی پیشرفت پر اطمینان ظاہر کیا جس کا اجلاس حال ہی میں واشنگٹن میں ہوا تھا، انھوںنے توقع ظاہر کی کہ معیشت ، مالیات ، توانائی اورپانی کے بارے میں ورکنگ گروپوں کے اجلاس بھی جلد ہوںگے، دوطرفہ دفاعی مشاورت کے گروپ کا اجلاس اس سال دسمبر کے پہلے ہفتے ہوگا۔آئی این پی کے مطابق حناربانی کھرنے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کیلیے پرعزم ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان نے دیں۔ مارک گراسمین نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے بھی ملاقات کی ۔
عسکری ذرائع کے مطابق جی ایچ کیو میں ہونے والی اس ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امورکے علاوہ افغانستان میں امن و استحکام سمیت پاک افغان بارڈرکی صورتحال ، افغانستان سے عسکریت پسندوں کے حملوں اور دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ پر بھی بات چیت ہوئی اس کے علاوہ دوطرفہ فوجی تعاون اور انٹیلی جنس شیئرنگ کے معاملات پر بھی بات کی گئی۔ مارک گراسمین صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم راجاپرویز اشرف سے بھی ملاقات کریںگے۔ امریکی سفارتخانے کے ترجمان ریان ہیرس نے بتایا ہے کہ گراسمین کے دورے کا مقصد پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت سے ملاقات کرکے باہمی دلچسپی کے تمام امور پر بات کرنا ہے۔
میری آمد کا مقصد پاکستانی حکام کیساتھ گزشتہ کئی مہینوں سے جاری مذاکرات آگے بڑھانا ہے۔سرکاری ٹی وی کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کا فیصلہ حکومت پاکستان کو کرنا ہے۔ اے ایف پی کے مطابق امریکی ایلچی نے ڈرون حملوں کے معاملے پر بات کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ یہ میرے لئے بات چیت کا ٹاپک نہیں ، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ پاکستانی اور امریکی اکٹھے ہوکر خطے میں القاعدہ کا خاتمہ کرسکتے ہیں اور یہ ایک بڑی مشترکہ اسٹرٹیجک کوشش ہوگی اور مجھے امید ہے کہ یہ بہت جلد ہوگا۔
امریکی ایلچی نے کہا کہ گزشتہ سال سے موازنہ کرتے ہوئے پاکستان اور امریکاکے تعلقات دوبارہ ٹریک پرآگئے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ممالک دہشت گردی کا شکارہیں،دہشت گردی ایک لعنت ہے ، اس کے خلاف مل کر لڑناہوگا۔ ثنا نیوز کے مطابق گراسمین نے کہا کہ امریکاشمالی وزیرستان میں آپریشن کیلیے پاکستان پر دبائو نہیں ڈال رہا، پاکستان اور امریکاافغانستان میں امن واستحکام اور سلامتی کیلیے کوشاں ہیں ، معاشرے کو دہشت گردی سے پاک کرنے کیلیے تعلیم کے فروغ کی ضرورت ہے ، ملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملے سے امریکی عوام کوبھی گہراصدمہ پہنچاہے، ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستانی عوام دہشت گردی اورانتہا پسندی سے کس حد تک متاثر ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ امن واستحکام کیلیے پاکستان افغانستان اور ایساف افواج کے درمیان بہتر تعاون ضروری ہے،کسی بھی ملک کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے جیسا کہ پاکستانی پارلیمنٹ نے اپنی گائیڈ لائن میں کہا ہے، 2014ء میں افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کے بعد پاکستان اورافغانستان فیصلے خود کریں گے، دس سال پہلے کی نسبت آج کا افغانستان بہتر ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکاکے تعلقات آگے بڑھ رہے ہیں اور آگے بڑھنے کا راستہ باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات قائم کرنا ہے، 20 فیصد پاکستانی مصنوعات امریکا برآمد ہو رہی ہیں ، ہمیں سول سوسائٹی،معیشت سمیت دیگر دوسرے شعبوں میں اچھے تعلقات قائم کرنے چاہئیں۔
قبل ازیں مارک گراسمین ہفتے کے روز دوروزہ دورہ پر اسلام آباد پہنچے تو اپنی آمدکے فوراً وزیر خارجہ حناربانی کھر سے ملاقات کی اور دوطرفہ تعلقات اور خطے میں سلامتی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا ۔ دونوں رہنمائوں نے افغانستان کی تازہ ترین صورتحال کا بھی جائزہ لیا اور وہاں استحکام کیلیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ۔ وزیر خارجہ حناربانی کھر نے انھیں ڈرون حملوں پر پاکستان کے تحفظات سے آگاہ کیا اورپاک امریکاوسیع البنیاد تعلقات کی اہمیت واضح کی۔مارک گراسمین نے پاکستان کے ساتھ باہمی مفاد اور احترام پر مبنی طویل مدتی تعلقات برقراررکھنے کے امریکی عزم کا اعادہ کیا ۔
وزیرخارجہ اورامریکی نمائندہ خصوصی نے قانون نافذ کرنے اوردہشت گردی کے خاتمے کے بارے میں ورکنگ گروپ کی پیشرفت پر اطمینان ظاہر کیا جس کا اجلاس حال ہی میں واشنگٹن میں ہوا تھا، انھوںنے توقع ظاہر کی کہ معیشت ، مالیات ، توانائی اورپانی کے بارے میں ورکنگ گروپوں کے اجلاس بھی جلد ہوںگے، دوطرفہ دفاعی مشاورت کے گروپ کا اجلاس اس سال دسمبر کے پہلے ہفتے ہوگا۔آئی این پی کے مطابق حناربانی کھرنے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کیلیے پرعزم ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان نے دیں۔ مارک گراسمین نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے بھی ملاقات کی ۔
عسکری ذرائع کے مطابق جی ایچ کیو میں ہونے والی اس ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امورکے علاوہ افغانستان میں امن و استحکام سمیت پاک افغان بارڈرکی صورتحال ، افغانستان سے عسکریت پسندوں کے حملوں اور دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ پر بھی بات چیت ہوئی اس کے علاوہ دوطرفہ فوجی تعاون اور انٹیلی جنس شیئرنگ کے معاملات پر بھی بات کی گئی۔ مارک گراسمین صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم راجاپرویز اشرف سے بھی ملاقات کریںگے۔ امریکی سفارتخانے کے ترجمان ریان ہیرس نے بتایا ہے کہ گراسمین کے دورے کا مقصد پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت سے ملاقات کرکے باہمی دلچسپی کے تمام امور پر بات کرنا ہے۔