ایک آنجہانی سینما کی یاد میں
پچھلے ہفتے ( اکیس ستمبر ) میرے پسندیدہ نشاط سینما کی تیسری خاموش برسی تھی۔
لاہور:
پچھلے ہفتے ( اکیس ستمبر ) میرے پسندیدہ نشاط سینما کی تیسری خاموش برسی تھی۔دو ہزار بارہ میں جب یو ٹیوب پر ایک اشتعال انگیز فلم کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں موجود کچھ شر پسند نشاط سینما پر آتش گیر مواد پھینک رہے تھے تو انھیں کسی نے نہ بتایا کہ یہ سینما نہیں کراچی کی تاریخ کا ایک قیمتی وزیٹنگ کارڈ ہے۔ یو ٹیوب پر چلنے والی فلم کے غصے میں پشاور کے چھ اور کراچی کے ایک سینما کو نذرِ آتش کردینا ایسا ہی تھا جیسے کمہار پے بس نہ چلے تو گدھے کے کان اینٹھ دو یا'' ڈگیا کھوتے توں تے غصہ کمہیار تے''
نشاط سینما کا ڈھانچہ آج بھی ایم اے جناح روڈ پر ایستادہ ہے۔ وہ کسے یہ کہانی سنائے کہ اس کی پیدائش تقسیم سے پہلے ہوئی اور اس کا نام کرشنا سینما رکھا گیا جب کہ اس کی جڑواں بہن رادھا ( سینما ) سڑک پار سے بھائی کو تکتی رہتی۔
تقسیم کے بعد جب کرشنا اور رادھا کے والدین بھارت چلے گئے تو نئے مسلمان مالکوں نے رادھا کو ناز اور کرشنا کو نشاط کا نام دے دیا۔پچیس دسمبر انیس سو سینتالیس کو محترمہ فاطمہ جناح نے نشاط سینما کا افتتاح کیا اور فلم '' ڈولی '' بھی دیکھی ( انیس سو باسٹھ میں محترمہ نے اداکار محمد علی کی پہلی فلم '' چراغ جلتا رہا '' کا پریمئر شو بھی ڈائریکٹر فضل کریم فضلی کے ہمراہ یہیںدیکھا )۔نشاط سینما نہیں بہت کچھ تھا ۔ یہاں سب سے پہلے فلیٹ اسکرین ٹیکناولوجی متعارف ہوئی۔پہلی سینما اسکوپ اسکرین اور پہلا ڈجیٹل سراؤنڈ ساؤنڈ سسٹم یہاں نصب ہوا۔چنانچہ کراچی کے تماشائیوں کی پہلی کوشش یہ ہوتی کہ کسی طرح نشاط کا ٹکٹ مل جائے۔ انگریزی فلموں کے ٹکٹ بھی اسی طرح بلیک ہوتے جیسے اردو کے۔ سونے کاایک دانت چمکائے چھ چھ فٹ کے مکرانی بلوچ پلاسٹک کا پائپ لہراتے بار بار ٹوٹتی لائن سیدھی کراتے رہتے۔ وقت بدلا تو نہ ویسے دیوانے تماشائی رہے اور نہ وہ سنہری دانت والے بلوچ۔
نشاط کی سڑک پار براجمان فلمی بہن ناز زیادہ سیانی نکلی اور اس نے بدلے وقت میں خود کو شاپنگ پلازہ میں ڈھال لیا مگر نشاط بدستور اپنی فلمی کمٹمنٹ پر قائم رہا اور بالاخر اکیس ستمبر دو ہزار بارہ کو جان دے دی۔
پاکستان فلم انڈسٹری کی کہانی بھی نشاط سے ملتی جلتی ہے مگر انڈسٹری زیادہ سخت جان نکلی کیونکہ اس نے تیس برس کے اچھے دن بھی دیکھ رکھے تھے۔ستر کی دھائی تک یہ فلم انڈسٹری کم اور کہکشاں زیادہ تھی۔اس کہکشاں سے ہزاروں گھروں کا چولہا جلتا تھا۔یہ کہکشاں نہ ہوتی تو نثار بزمی ، سہیل رانا ، ایم اشرف ، رشید عطرے ، بابا چشتی ، خواجہ خورشید انور ، ماسٹر عبداللہ ، روبن گھوش ، تنویر نقوی ، کلیم عثمانی ، سیف الدین سیف ، نور جہاں ، مہدی حسن ، احمد رشدی ، رونا لیلی ، مالا ، ناہید اختر ، روبینہ بدر ، سنتوش کمار ، محمد علی ، وحید مراد ، ندیم ، شاہد ، لالہ سدھیر ، اسلم پرویز ، آغا طالش ، سلطان راہی ، مصطفیٰ قریشی ، بدر منیر ، رنگیلا ، منور ظریف ، لہری ، صبیحہ ، مسرت نذیر ، زیبا ، شمیم آرا ، شبنم ، رانی ، آسیہ ، فردوس ، نیلو ، سنگیتا ، بابرہ شریف ، انجمن ، شوکت حسین رضوی ، ضیا سرحدی ، سعید رضوی ، نذرالسلام ، ریاض شاہد ، حسن طارق ، ایس سلیمان ، پرویز ملک ، شباب کیرانوی ، لقمان ، حسن عسکری ، جے سی آنند ، آغا جی اے گل ، الیاس رشیدی وغیرہ وغیرہ کو کون جانتا اور یہ اپنا جینئیس کہاں دکھاتے پھرتے۔
جو حجام زیادہ فلمی رسالے خریدتا اس کی دکان پر گاہکوں کا زیادہ رش ہوتا۔اداکارائیں پرستاروں کے ہجوم سے بچنے کے لیے برقعہ پہن کر ہی شاپنگ کے لیے نکل پاتیں۔اخبارات میں ہر ہفتے دو ہفتے بعد خبر چھپتی کہ فلانے قصبے میں ایک دل برداشتہ عاشق نے خودکشی کرلی۔اس کی جیب سے فلاں اداکارہ کی تصویر برآمد ہوئی۔ فلمی اسکینڈلز آج کل کے کرپشن اسکینڈلز سے زیادہ چٹپٹے تھے۔
سنسر بورڈ میں بھی پروفیشنلز کا تناسب نسبتاً زیادہ تھا۔جب حسن طارق کی فلم تہذیب کو سنسر بورڈ پریویو کر رہا تھا تو ایک سرکاری افلاطون یہ کوڑی لایا کہ'' لگا ہے مصر کا بازار دیکھو نئی تہذیب کے آثار دیکھو '' والے گانے میں سے مصر کا نام نکالا جائے کیونکہ انور سادات کی حکومت سے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔اس پر کسی نے فقرہ چست کیا کہ تعلقات خراب ہوں نہ ہوں مگر آپ ہمارا دماغ ضرور خراب کر دیں گے۔ اگلے پریویو میں سرکاری افلاطون نے شرکت سے معذرت کرلی اور باقی ارکان نے سکھ کا سانس لیا۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا دھچکا تو فلمی صنعت برداشت کر گئی مگر اگلا دھچکا نہ سہہ سکی۔جب ضیا الحق نے حکومت سنبھالی تو اس وقت تک پاکستان کے طول و عرض میں ساڑھے سات سو کے لگ بھگ سینما اسکرینز تھے۔صرف کراچی میں ہی سینما اسکرینز کی تعداد سو سے زائد تھی۔پھر یہ وقت بھی آیا کہ کراچی میں صرف دس قابلِ ذکر اسکرینز بچے۔ باقی کو مارکیٹیں کھا گئیں۔ ہر سال سو سے اوپر اردو ، پنجابی ، پشتو اور سندھی فلمیں بن رہی تھیں جب کہ ہالی وڈ کی ایکشن فلموں کی بھی مسلسل مانگ تھی۔ جب ضیا حکومت نے بھٹو صاحب سے جسمانی نجات پالی اور سیاست کو گھنگرو باندھ دیے تو توجہ کا اگلا مرکز دیگر سماجی برائیاں بنیں۔رومانٹک فلموں پر سنسر زیادہ سخت ہوگیا ، انٹرٹینمنٹ ٹیکس بڑھا دیا گیا مگر وڈیو پائریسی سے درگذر ہونے لگا۔چنانچہ انیس سو انہتر میں اگر اٹھانوے فلمیں بنیں تو اگلے برس اٹھاون اور سن دو ہزار میں بس دو۔۔
انیس سو انہتر میں مولا جٹ کی ریلیز سے فلم انڈسٹری گنڈاسہ دور میں داخل ہوگئی۔رومانس کے مقابلے میں تشدد ضیا رجیم کے لیے زیادہ قابلِ قبول تھا لہذا نرم و نازک فلمی کہانی کو بڑک کھا گئی اور مردانہ پنجابی اور گرم پشتو فلموں کی تعداد بڑھتی اور روایتی اردو فلم گھٹتی چلی گئی۔ پشتو فلموں کی مارکیٹ کو بہت بڑا سہارا افغان پناہ گزینوں نے دیا اور پھر پشتو انڈسٹری نے پنجابی فلموں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔آخر ایک اکیلا شان شاہد اور سید نور پنجابی فلموں کا کتنا بوجھ اٹھاتا؟
نئی صدی کے شروع میں اکا دکا فلموں کی ریلیز سے یہ تو معلوم ہوتا تھا کہ زندگی کی رمق باقی ہے مگر یہ گمان کسی کو بھی نہ تھا کہ بالی وڈ کے جگرناٹ کے آگے پاکستانی فلمی صنعت کے مردے میں صور پھونکا جا سکے گا۔سن دو ہزار ایک میں ایک اچھی پیش رفت یہ ہوئی کہ کراچی میں بین الاقوامی کارا فلم فیسٹیول ہونے لگا تاکہ پاکستان کے فلمی ماضی سے بیگانہ نئی نسل کو فلمسازی و فلم بینی کی طرف راغب کیا جاسکے۔ مگر یہ فیسٹیول بھی مالی بحران اور عمومی سماجی اکتاہٹ کے سبب زندگی کی سات بہاریں ہی دیکھ سکا۔مقامی سوتے خشک ہونے لگے تو پاکستانی ٹیلنٹ ممبئی میں قدر پانے لگا۔آغاز نصرت فتح علی خان سے ہوا اور بات راحت فتح علی خاں ، عاطف اسلم اور علی ظفر سے ہوتی ہواتی میرا تک پہنچ گئی۔
اور پھر ایک دن کرنا خدا کا یہ ہوا کہ اچانک مقامی فلمی صنعت کو کمک وہاں سے ملی جہاں سے کوئی امید نہ تھی۔مشرف حکومت نے اپنے تمام تر لبرل پن کے باوجود فلمی صنعت کی بحالی پر کوئی توجہ نہیں دی البتہ میڈیا کے گھوڑے کو ریاستی تانگے کے جوئے سے رہائی دے دی۔چنانچہ میڈیا ہاؤسز نے ٹی وی سیریلز میں سرمایہ کاری کرتے کرتے اچانک کچھ پیسہ کمرشل فلم سازی کی حوصلہ افزائی پر بھی لگانا شروع کردیا۔اب تو ماشااللہ فوج کا محکمہ تعلقاتِ عامہ بھی سیریلز اور کمرشل فلموں میں سرمایہ کاری کررہا ہے۔
پچھلے بیس برس میں پاکستان میں بھلے فلم سازی کا قحط رہا ہو لیکن نئی تکنیک و ٹیکنالوجی میں دلچسپی کے سبب ایک ٹیلنٹ پول بہرحال پنپتا رہا۔چنانچہ دو ہزار سات میں پرانے پاکستانی سینما کے جسد سے جدید سیمنا کی روح نے '' خدا کے لیے '' کی شکل میں انگڑائی لی۔اور آج حالت یہ ہے کہ صرف نو برس کے دوران دو پاکستانی کمرشل فلموں ( زندہ بھاگ اور مور ) نے آسکر کی نامزدگی حاصل کی بلکہ بین الاقوامی سطح پر ریلیز کا مزہ بھی پہلی بار چکھا۔اس وقت ایک پوری کی پوری نئی نسل نئے پاکستانی سینما سے جڑ چکی ہے۔
اگرچہ سینما کا ٹکٹ غریب آدمی کی دسترس سے نکل چکا اور جدید ملٹی اسکرینز مہنگے سینماؤں میں متوسط طبقے کا بول بالا ہے لیکن جس رفتار سے فلمی صنعت زوال پذیر ہوئی اس سے دگنی رفتار سے بحال ہونے کے لیے ہاتھ پاؤں بھی مار رہی ہے۔توقع ہے کہ دو ہزار بیس تک بہت سے شہروں اور قصبات میں مزید سو سے زائد جدید اسکرینز تعمیر ہوجائیں گی۔ پھر سے کوئی شہابِ ثاقب نہ ٹکرایا تو اگلے پانچ برس میں سیاست کا مستقبل تو معلوم نہیں البتہ فلم کا مستقبل یقیناً روشن لگتا ہے۔شک ہو تو '' منٹو'' جا کے دیکھ لیں۔
مگر نشاط سینما کب بحال ہوگا ؟