پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال
یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان میں سزائے موت پانے والے قیدیوں کی تعداد دنیا بھر میں شاید سب سے زیادہ ہے۔
اگرچہ سال 2015 بھی قتل وغارت گری، لوٹ مار اور دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے کوئی بہت اچھا سال نہیں کہا جاسکتا تاہم سال 2014 نے تو وطن عزیزکو غم وآلام کے ہجر بیکراں میں غرق کردیا تھا اوراس کا اختتام بھی پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے انسانیت سوز حملے کے ساتھ ہوا تھا جس میں تقریباً 150 قیمتی جانیں ضایع ہوگئی تھیں جن میں غالب اکثریت معصوم اور پیارے پیارے بچوں پر مشتمل تھیں، اس اندوہناک حملے کے نتیجے میں سزائے موت پر عائد پابندی اٹھانی پڑی جو 2008 سے لاگو تھی۔
یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان میں سزائے موت پانے والے قیدیوں کی تعداد دنیا بھر میں شاید سب سے زیادہ ہے۔ دستیاب اعدادوشمار کے مطابق یہ کثیر تعداد 8000 ہے، ان میں سے 231 گزشتہ سال کے اختتام تک اپنے انجام کو پہنچ گئے تھے، اس کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان (NAP) کے تحت فوجی عدالتوں کا قیام بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کے لیے پارلیمان نے 21 ویں آئینی ترمیمی بل کی 6 جنوری کو باقاعدہ منظوری دے دی۔
ہمارے کریمنل جسٹس کے نظام میں بعض خامیاں موجود ہیں جن کی وجہ سے لوگوں کو انصاف کے حصول میں تاخیر ہوجاتی ہے اور انصاف میں تاخیر کو انصاف نہ ملنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ Justice Delayed is Justice Denied یہ بھی ایک فطری امر ہے کہ انصاف میں غیر ضروری تاخیر کی وجہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن کی سالانہ رپورٹ برائے سال 2014 میں اس صورتحال کا نہایت تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔
سال 2014 کے دوران دہشت گردی، فرقہ وارانہ قتل وغارت گری اور اقلیتوں پر حملوں کے واقعات میڈیا پر چھائے رہے، اس سال ملک بھر میں فرقہ وارانہ ہلاکتوں کے 144 واقعات رپورٹ ہوئے۔ مذہبی اقلیتوں پر تشدد کے حوالے سے پنجاب میں کوٹ رادھاکشن کا واقعہ سب سے نمایاں رہا، اس لحاظ سے مذہبی عدم برداشت کا رجحان انتہائی قابل ذکر ہے، یہ صورتحال مذہبی رواداری کی متقاضی ہے جس کا ہمارا دین اسلام اس میں خاص طور پر درس دیتا ہے بقول شاعر:
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
عفو و درگزر ہمارے پیارے دین اسلام کا طرۂ امتیاز رہا ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام عالموں کے لیے باعث رحمت ہیں۔
سال 2014 میڈیا کے لیے بھی بہت ناساز گار تھا۔ اس سال کے دوران 14 صحافی اور میڈیا کارکن جاں بحق ہوئے اور بہت سے زخمی بھی ہوئے جب کہ مختلف لوگوں کو وقتاً فوقتاً قتل کی دھمکیاں بھی دی جاتی رہیں۔
اس سال پاکستان کو میڈیا کے لیے سب سے خطرناک ملک بھی قرار دیا گیا جس سے وطن عزیز کی جگ ہنسائی اور دنیا بھر میں بہت بدنامی بھی ہوئی۔ سیکیورٹی کے اعتبار سے بے یقینی کے حالات، دہشتگردی کے خدشات اور نامساعد اور نا موافق سیاسی اثرات کے باعث میڈیا ہاؤسز کو سیلف سنسر شپ کا سہارا بھی لینا پڑا۔ سیاسی دھرنوں کے کرتا دھرتاؤں نے بھی میڈیا کے عملے کو اپنے تشدد کا نشانہ بنایا اور زدوکوب بھی کیا۔ میڈیا کے غیض وغضب کا ہدف بننے کے لحاظ سے سال 2014 بڑا ہی منحوس سال تھا۔ اس قسم کی ناپسندیدہ کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان کی ساکھ پوری دنیا میں متاثر ہوئی۔
اسی سال کے دوران خیبر پختونخوا میں مسلح تصادم کی کارروائیوں اور آرمی آپریشن کے نتیجے میں کئی لاکھ لوگ بے گھر ہوگئے ۔ شمالی وزیرستان کا علاقہ بھی اسی طرح متاثر ہوا، اس صورتحال نے بین الاقوامی سطح پر بے گھر ہونے والوں کا سنگین انسانی مسئلہ پیدا کردیا، یہ مسئلہ اس وجہ سے مزید پیچیدہ ہوگیا کہ بعض قبائلی عمائدین نے یہ فیصلہ صادرکردیا کہ فوجی کارروائی کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے گھرانوں کی خواتین کو امدادی خوراک جمع کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔
بعض پر تشدد واقعات میں امدادی سامان وصول کرنے والوں کی قطاروں میں شامل خواتین کے ساتھ مار پیٹ بھی کی گئی، افسوس کہ کسی نے یہ احساس بھی نہ کیا کہ ان خواتین میں شامل بیواؤں اور مردوں کے سہارے سے محروم عورتوں پر کیا گزرے گی اور ان کا کون پرسان حال ہوگا؟
اس سال کے دوران دھرنوں اور ریلیوں کی وجہ سے بھی زندگی کے معمولات بہت بری طرح سے متاثر ہوئے اور سیاسی جماعت کے کارکنان اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپوں اور مڈ بھیڑوں کے نتیجے میں بھی جانی اور مالی نقصان ہوا، بین الاقوامی معاہدات اور قوانین کے تحت پر امن مظاہروں میں شرکت رضاکارانہ ہونی چاہیے جب کہ دھرنوں اور ریلیوں میں شرکت کے حوالے سے ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ اس میں کرائے کے لوگوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے تاکہ تعداد میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ظاہر کرکے اس کی اثر پذیری کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاسکے۔
ایچ آر سی پی (HRCP) کی رپورٹ برائے سال 2014 خواتین اور بچوں کے حقوق کی محرومی کے حوالے سے بھی بڑی مایوس کن اور حوصلہ شکن رہی، اس کے علاوہ ماؤں کے عدم تحفظ کے اعتبار سے بھی دنیا کے 178 ممالک میں پاکستان کا نمبر 147 رہا، پاکستان میں زچاؤں کی اموات کی شرح بھی انتہائی تشویشناک ہے کیوں کہ ہمارے ملک میں بچوں کو جنم دینے والی ایک لاکھ ماؤں میں سے 276 زچگی کے دوران ہلاک ہوجاتی ہیں۔
بد قسمتی یہ ہے کہ ہماری 41 فی صد خواتین کو ماہرین زچگی کی سہولت تک میسر نہیں ہے جس کے نتیجے میں بچوں کی پیدائش کے عمل کے دوران ماؤں کی ہلاکت ایک عام سی بات ہے، ہندی زبان میں عورت کو ابلا کہا گیا ہے جس کے معنی ہیں کمزور یا طاقت سے محروم۔ سو ہمارے معاشرے میں بے چاری عورت کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کا طرح طرح سے استحصال کیا جاتا ہے، ہلاکت بنام غیرت، زنا بالجبر، تیزاب پھینکنے اور گھریلو خواتین کے ساتھ مارپیٹ اور حیوانی تشدد کے واقعات میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہی ہورہاہے حالانکہ ہمارا میڈیا مردوں کی جانب سے خواتین پر کی جانے والی زیادتیوں کے خلاف بڑی جرأت مندی کے ساتھ علم احتجاج مسلسل بلند کررہاہے۔
ہمارا صحت کا نظام بھی جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ پست ہے جس کا بنیادی سبب ہماری دقیانوسی شرح اور فرسودگی ہے چنانچہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے کہ سال 2014 میں پاکستان میں پولیوکے 306 کیس رپورٹ ہوئے اور وطن عزیز کو عالمی ادارہ صحت کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں کو بھی جھیلنا پڑا، نہایت افسوس کا مقام ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی ہلاکت میں کمی کا جو ہدف مقرر کیا گیا تھا پاکستان اس کے حصول میں بھی کامیاب نہیں ہوسکا جوکہ بڑی شرمندگی اور سبکی کی بات ہے۔
وطن عزیز کا شمار دنیا کے بڑے خوراک پیدا کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے مگر افسوس صد افسوس کہ ہماری آدھی سے زیادہ آبادی خوراک کے لحاظ سے عدم تحفظ کا شکار ہے۔
صحت ہی نہیں تعلیم کے میدان میں بھی وطن عزیز کی حالت اطمینان بخش نہیں ہے اگرچہ حکومت کی کوشش ہے کہ پانچ تا سولہ سال کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم مہیا کی جائے لیکن پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے جو 5.5 ملین کے لگ بھگ ہے، فرسودہ روایات کی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہمارے معاشرے میں تعلیم کے لحاظ سے ہماری لڑکیوں کے ساتھ انتہائی بے جا اور ظالمانہ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہماری بیٹیوں کی صلاحیتوں کو زنگ لگ رہا ہے حکومت اور میڈیا کو اس سلسلے میں کردار بڑھ چڑھ کر ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوامی شعور کو کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ بیدار کیا جاسکے۔
خوش آیند بات یہ ہے کہ سال 2014 کے دوران ہی پاکستان کی شان ملالہ یوسفزئی نے نوبیل امن انعام بھی حاصل کیا اور Sindh Child Marriage Restraint Act 2013 جیسے قوانین بھی منظور کیے گئے جس کے تحت 18 سال سے کم عمر والے بچوں کی شادی پر پابندی عائد کردی گئی ہے، صوبہ بلوچستان میں گھریلو تشدد کی روک تھام کا قانون مجریہ 2014 بھی اس سال کی انتہائی قابل ذکر پیشرفت ہے۔
یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان میں سزائے موت پانے والے قیدیوں کی تعداد دنیا بھر میں شاید سب سے زیادہ ہے۔ دستیاب اعدادوشمار کے مطابق یہ کثیر تعداد 8000 ہے، ان میں سے 231 گزشتہ سال کے اختتام تک اپنے انجام کو پہنچ گئے تھے، اس کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان (NAP) کے تحت فوجی عدالتوں کا قیام بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کے لیے پارلیمان نے 21 ویں آئینی ترمیمی بل کی 6 جنوری کو باقاعدہ منظوری دے دی۔
ہمارے کریمنل جسٹس کے نظام میں بعض خامیاں موجود ہیں جن کی وجہ سے لوگوں کو انصاف کے حصول میں تاخیر ہوجاتی ہے اور انصاف میں تاخیر کو انصاف نہ ملنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ Justice Delayed is Justice Denied یہ بھی ایک فطری امر ہے کہ انصاف میں غیر ضروری تاخیر کی وجہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن کی سالانہ رپورٹ برائے سال 2014 میں اس صورتحال کا نہایت تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔
سال 2014 کے دوران دہشت گردی، فرقہ وارانہ قتل وغارت گری اور اقلیتوں پر حملوں کے واقعات میڈیا پر چھائے رہے، اس سال ملک بھر میں فرقہ وارانہ ہلاکتوں کے 144 واقعات رپورٹ ہوئے۔ مذہبی اقلیتوں پر تشدد کے حوالے سے پنجاب میں کوٹ رادھاکشن کا واقعہ سب سے نمایاں رہا، اس لحاظ سے مذہبی عدم برداشت کا رجحان انتہائی قابل ذکر ہے، یہ صورتحال مذہبی رواداری کی متقاضی ہے جس کا ہمارا دین اسلام اس میں خاص طور پر درس دیتا ہے بقول شاعر:
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
عفو و درگزر ہمارے پیارے دین اسلام کا طرۂ امتیاز رہا ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام عالموں کے لیے باعث رحمت ہیں۔
سال 2014 میڈیا کے لیے بھی بہت ناساز گار تھا۔ اس سال کے دوران 14 صحافی اور میڈیا کارکن جاں بحق ہوئے اور بہت سے زخمی بھی ہوئے جب کہ مختلف لوگوں کو وقتاً فوقتاً قتل کی دھمکیاں بھی دی جاتی رہیں۔
اس سال پاکستان کو میڈیا کے لیے سب سے خطرناک ملک بھی قرار دیا گیا جس سے وطن عزیز کی جگ ہنسائی اور دنیا بھر میں بہت بدنامی بھی ہوئی۔ سیکیورٹی کے اعتبار سے بے یقینی کے حالات، دہشتگردی کے خدشات اور نامساعد اور نا موافق سیاسی اثرات کے باعث میڈیا ہاؤسز کو سیلف سنسر شپ کا سہارا بھی لینا پڑا۔ سیاسی دھرنوں کے کرتا دھرتاؤں نے بھی میڈیا کے عملے کو اپنے تشدد کا نشانہ بنایا اور زدوکوب بھی کیا۔ میڈیا کے غیض وغضب کا ہدف بننے کے لحاظ سے سال 2014 بڑا ہی منحوس سال تھا۔ اس قسم کی ناپسندیدہ کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان کی ساکھ پوری دنیا میں متاثر ہوئی۔
اسی سال کے دوران خیبر پختونخوا میں مسلح تصادم کی کارروائیوں اور آرمی آپریشن کے نتیجے میں کئی لاکھ لوگ بے گھر ہوگئے ۔ شمالی وزیرستان کا علاقہ بھی اسی طرح متاثر ہوا، اس صورتحال نے بین الاقوامی سطح پر بے گھر ہونے والوں کا سنگین انسانی مسئلہ پیدا کردیا، یہ مسئلہ اس وجہ سے مزید پیچیدہ ہوگیا کہ بعض قبائلی عمائدین نے یہ فیصلہ صادرکردیا کہ فوجی کارروائی کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے گھرانوں کی خواتین کو امدادی خوراک جمع کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔
بعض پر تشدد واقعات میں امدادی سامان وصول کرنے والوں کی قطاروں میں شامل خواتین کے ساتھ مار پیٹ بھی کی گئی، افسوس کہ کسی نے یہ احساس بھی نہ کیا کہ ان خواتین میں شامل بیواؤں اور مردوں کے سہارے سے محروم عورتوں پر کیا گزرے گی اور ان کا کون پرسان حال ہوگا؟
اس سال کے دوران دھرنوں اور ریلیوں کی وجہ سے بھی زندگی کے معمولات بہت بری طرح سے متاثر ہوئے اور سیاسی جماعت کے کارکنان اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپوں اور مڈ بھیڑوں کے نتیجے میں بھی جانی اور مالی نقصان ہوا، بین الاقوامی معاہدات اور قوانین کے تحت پر امن مظاہروں میں شرکت رضاکارانہ ہونی چاہیے جب کہ دھرنوں اور ریلیوں میں شرکت کے حوالے سے ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ اس میں کرائے کے لوگوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے تاکہ تعداد میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ظاہر کرکے اس کی اثر پذیری کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاسکے۔
ایچ آر سی پی (HRCP) کی رپورٹ برائے سال 2014 خواتین اور بچوں کے حقوق کی محرومی کے حوالے سے بھی بڑی مایوس کن اور حوصلہ شکن رہی، اس کے علاوہ ماؤں کے عدم تحفظ کے اعتبار سے بھی دنیا کے 178 ممالک میں پاکستان کا نمبر 147 رہا، پاکستان میں زچاؤں کی اموات کی شرح بھی انتہائی تشویشناک ہے کیوں کہ ہمارے ملک میں بچوں کو جنم دینے والی ایک لاکھ ماؤں میں سے 276 زچگی کے دوران ہلاک ہوجاتی ہیں۔
بد قسمتی یہ ہے کہ ہماری 41 فی صد خواتین کو ماہرین زچگی کی سہولت تک میسر نہیں ہے جس کے نتیجے میں بچوں کی پیدائش کے عمل کے دوران ماؤں کی ہلاکت ایک عام سی بات ہے، ہندی زبان میں عورت کو ابلا کہا گیا ہے جس کے معنی ہیں کمزور یا طاقت سے محروم۔ سو ہمارے معاشرے میں بے چاری عورت کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کا طرح طرح سے استحصال کیا جاتا ہے، ہلاکت بنام غیرت، زنا بالجبر، تیزاب پھینکنے اور گھریلو خواتین کے ساتھ مارپیٹ اور حیوانی تشدد کے واقعات میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہی ہورہاہے حالانکہ ہمارا میڈیا مردوں کی جانب سے خواتین پر کی جانے والی زیادتیوں کے خلاف بڑی جرأت مندی کے ساتھ علم احتجاج مسلسل بلند کررہاہے۔
ہمارا صحت کا نظام بھی جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ پست ہے جس کا بنیادی سبب ہماری دقیانوسی شرح اور فرسودگی ہے چنانچہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے کہ سال 2014 میں پاکستان میں پولیوکے 306 کیس رپورٹ ہوئے اور وطن عزیز کو عالمی ادارہ صحت کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں کو بھی جھیلنا پڑا، نہایت افسوس کا مقام ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی ہلاکت میں کمی کا جو ہدف مقرر کیا گیا تھا پاکستان اس کے حصول میں بھی کامیاب نہیں ہوسکا جوکہ بڑی شرمندگی اور سبکی کی بات ہے۔
وطن عزیز کا شمار دنیا کے بڑے خوراک پیدا کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے مگر افسوس صد افسوس کہ ہماری آدھی سے زیادہ آبادی خوراک کے لحاظ سے عدم تحفظ کا شکار ہے۔
صحت ہی نہیں تعلیم کے میدان میں بھی وطن عزیز کی حالت اطمینان بخش نہیں ہے اگرچہ حکومت کی کوشش ہے کہ پانچ تا سولہ سال کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم مہیا کی جائے لیکن پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے جو 5.5 ملین کے لگ بھگ ہے، فرسودہ روایات کی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہمارے معاشرے میں تعلیم کے لحاظ سے ہماری لڑکیوں کے ساتھ انتہائی بے جا اور ظالمانہ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہماری بیٹیوں کی صلاحیتوں کو زنگ لگ رہا ہے حکومت اور میڈیا کو اس سلسلے میں کردار بڑھ چڑھ کر ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوامی شعور کو کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ بیدار کیا جاسکے۔
خوش آیند بات یہ ہے کہ سال 2014 کے دوران ہی پاکستان کی شان ملالہ یوسفزئی نے نوبیل امن انعام بھی حاصل کیا اور Sindh Child Marriage Restraint Act 2013 جیسے قوانین بھی منظور کیے گئے جس کے تحت 18 سال سے کم عمر والے بچوں کی شادی پر پابندی عائد کردی گئی ہے، صوبہ بلوچستان میں گھریلو تشدد کی روک تھام کا قانون مجریہ 2014 بھی اس سال کی انتہائی قابل ذکر پیشرفت ہے۔