یہ دوراپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے
بحیثیت مسلمان اور پاکستانی ہم کئی قسم کے قومی اورمذہبی تہوار مناتے ہیں
بحیثیت مسلمان اور پاکستانی ہم کئی قسم کے قومی اورمذہبی تہوار مناتے ہیں۔ان قومی و مذہبی تہواروں کا ایک تشخص اور روحانی پس منظر اور ان میں ایک فلسفہ پنہاں ہوتا ہے، لیکن ہم ان تہواروں کی مقصدیت اور روح کو پس پشت ڈال کر اپنی ذاتی سوچ اورخواہشات کو مقدم رکھتے ہوئے یہ قومی ومذہبی تہوار ودیگر ایام مناتے ہیں۔
قومی دنوں، نیوایئر، ویلنٹائن ڈے اوربسنت وغیرہ پر ہمارا جو طرز عمل ہوتا ہے وہ شاید دنیا کی کسی اور قوم اور خطے کے لیے نامانوس، ناقابل قبول بلکہ قابل نفرت ہو۔ ہمارے نوجوان موٹر سائیکلوں کے سائیلنسر نکال کر کیمپوں اور گاڑیوں میں رات گئے تک اونچی آواز میں ریکارڈنگ کرکے، ہلہ گلہ اور دھینگا مشتی کرکے ٹریفک جام کرکے ایسا محسوس کرتے ہیں کہ گویا وہ کوئی بہت بڑی قومی خدمت انجام دے رہے ہوں۔
نیو ایئر اور دیگر تقریبات میں فاتحانہ انداز میں ہوائی فائرنگ کرکے کئی انسانوں کی زندگیوں کے چراغ گل کردیتے ہیں۔ چاہے پتنگوں کی ڈور پھرنے سے بچے، بڑوں کی گردنیں کٹتی رہیں انھیں تو اپنا شوق وجنون پورا کرنا ہوتا ہے۔اس سلسلے میں اکثر مواقعوں پر انھیں حکومت، انتظامیہ، این جی اوز اور طاقتور اور بااختیار لوگوں کی سرپرستی اور اشتراک حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسے خرافات کوکوئی روکنے ٹوکنے کی ہمت بھی نہیں کرپاتا کہ اس کے دامن پر غیر محب وطن یا قدامت پرست ہونے کا الزام نہ آجائے بلکہ وزیر چیلنج کردیتا ہے کہ بسنت منائی جائے گی صدر پتنگ بھی اڑائیں گے کوئی روک سکتا ہے تو روک لے۔
گزشتہ چند سالوں سے خالصتاً مذہبی تہواروں کے حوالے سے جو کچھ کیا جا رہا ہے اور جس کی ترویج کی جا رہی ہے اس کا اسلام یا اس کی روح پروری سے دور کا تعلق بھی نظر نہیں آتا ہے۔ رمضان کے مقدس، روح پرور اور بابرکت مہینے میں ایسے تماشے رچائے اور ڈھونگ اپنائے جاتے ہیں جیسے اسلام کی کوئی نئی تشریح دریافت کرکے بیش قیمت خدمت سر انجام دی جا رہی ہو۔ جس کی مثال دنیا بھر کے مسلمانوں میں کہیں نہیں ملتی ہے جن میں بیوپاریوں کا مال بیچنے کا بڑی سلیقہ مندی سے بندوبست کیا جاتا ہے۔ زرق برق میڈیائی مولویوں، شوبز اور کار خیر میں شہرت رکھنے والی شخصیات کو ایسے پروگراموں میں سند قبولیت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور ان کی شہرت اور عوامی مقبولیت کے لیے عام لوگوں کو بڑی تعداد میں شامل کرکے خوب انعامات و اکرامات سے نوازا جاتا ہے۔
مسلمانوں کی غالب اکثریت ایسے پروگراموں کی مخالفت توکرتی ہے لیکن بڑی تعداد میں انھیں دیکھ کر اپنی عبادات اور رمضان کی اصل روح سے محروم رہ جاتی ہے۔ کیونکہ ایسے ڈھونگ رچانے والے طاقتور، بااختیار اور مال و متاع کے مالک ہوتے ہیں لہٰذا انھیں کوئی روکنے ٹوکنے والا بھی نہیں ہے یہ ایک خطرناک رجحان ہے جو غلط روایت کی بنیاد ڈال رہا ہے۔ سپریم کورٹ کی جواب طلبی پر پیمرا نے اس سلسلے میں میڈیا کو کچھ ہدایات تو جاری کی ہیں دیکھنا یہ ہے کہ یہ ہدایات کس حد تک احاطہ کرتی ہیں اور ان پر کہاں تک عمل ہوتا ہے۔
ملک میں عیدالاضحی منائی گئی۔ قربانی جو سنت ابراہیمی ہے اس میں صبر، شکر، اطاعت وایثار اور رضائے الٰہی کے حصول کا جذبہ اس کی بنیادی روح ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے کعبے کی تعمیرکی اللہ کی کبریائی کے لیے بے خوف وخطر آتش نمرود میں کود گئے، اللہ کے حکم پر ضعیف العمری میں مرادوں سے مانگے اکلوتے بیٹے کی قربانی کا عمل کیا اور سعادت مند بیٹے نے بھی خود کو اللہ کے حکم کے مطابق قربان ہونے کے لیے پیش کرکے اطاعت ربانی کی لازوال مثال رقم کی ،جس کی اتباع میں یہ سنت ابراہیمی تا قیامت تمام مسلمانوں پر واجب کردی گئی۔ ذی الحج کے ابتدائی دس ایام عبادت کے ہوتے ہیں ان دنوں میں عبادت کو جہاد سے زیادہ اہمیت کا عمل قرار دیا گیا ہے۔
حضور اکرمؐ قربانی کا خاص اہتمام کرتے، بھوکے رہتے اور قربانی کے گوشت سے روزہ کھولتے تھے۔ قربانی کے مطابق کہا جاتا ہے کہ اللہ کو قربانی کے جانور کا خون وگوشت نہیں بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ لیکن ہم اجتماعی طور پر قربانی کی اصل روح سے ناآشنا اور غافل ہوتے جا رہے ہیں۔ اس فریضے میں اللہ کی خوشنودی اور قرب کی بجائے خودنمائی، بڑائی، تکبر، دکھاوا، نمود و نمائش اور تفریح طبع کا عنصر غالب آچکا ہے۔ قربانی کا جانور خریدنے کے لیے ہم رشوت ستانی، چور بازاری اور دھوکا دہی اور سب کچھ کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔جانور فروخت کرنے والے ہوں یا جانوروں کا علاج کرنے والے، قصاب ہوں یا چارہ فروش یا پھر پولیس، بھتہ گیر یا کھالیں لینے والے ہر کوئی دھوکا دہی، فریب، مجبوری اور لاعلمی اور خوف کے ذریعے جانور لینے والوں کی جیبوں کو صاف کرنے پر تلا نظر آتا ہے۔
جانوروں کو فروخت کرنے والے بے خبر و لاعلم خریداروں کو عیب دار جانور فروخت کردیتے ہیں، نقلی دانتوں کے جانور فروخت کرنے کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں جنھیں بڑی مہارت سے ایلفی یا اسٹیل وائر کے ذریعے نصب کردیا جاتا ہے۔ جانوروں کو غیر فطری ماحول میں رکھ کر غیر فطری غذاؤں مثلاً بادام، پستہ، کاجو اور مکھن وغیرہ کھلا کر بڑی خطیر رقوم کے عوض فروخت کیا جاتا ہے ان کی خوب تشہیر کی جاتی ہے لوگ جوق در جوق بمعہ اہل و عیال ایسے بڑے جانوروں کو دیکھنے آتے ہیں جہاں پر ان کی نمائش کے لیے لائٹنگ اور دیگر انتظامات کیے جاتے ہیں۔ کراچی کے ایک علاقے میں کئی دن سے بورڈ لگا ہوا تھا کہ Gabbar Coming Soon پھر اس کی آمد سے ایک دن قبل بورڈ لگایا گیا کہ Gabbar Coming at 8:30 AM اس کے علاوہ اس قسم کے بورڈ بھی آویزاں کیے گئے جن پر تحریر تھا ''گبر'' نام سے ولن کام سے ہیرو'' ، تیرا کیا بنے گا کالیا''۔ قربانی کے جانوروں کو غیر فطری ماحول میں چھتوں پر بھی پالا جاتا ہے پھر انھیں تشہیری مہم کے ذریعے کرینوں سے نیچے اتارا جاتا ہے۔
کرین میں بے بسی سے لٹکے ان جانوروں کی پشت پر ان کا رکھوالا سوار ہوکر انھیں نیچے اترواتا ہے۔ عوام میڈیا کے ذریعے ان مناظر کو دیکھ کر محظوظ ہوتے ہیں جانوروں کے نام گبر، مولاجٹ، نوری نتھ، دبنگ اور ایان علی کے ناموں سے منسوب کیے جاتے ہیں کراچی کے بہت سے لوگ سپرہائی وے پر قائم جانوروں کی منڈی میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ گھومنے جاتے ہیں تاکہ وی آئی پی جانوروں کے اسٹالز پر جاکر تشہیری جانوروں کی زیارت کرسکیں ان کے ساتھ اپنی سیلفی بنوالیں۔ گلیوں اور سڑکوں پر جانور باندھ کر وہاں چارپائیاں کرسیاں اور دریاں وغیرہ بچھا کر غیر ضروری طور پر راستہ بند کرکے نہ صرف اہل محلہ کی پریشانی کا اہتمام کیا جاتا ہے بلکہ اس سے ٹریفک میں بھی خلل پڑتا ہے۔
چوری کے کنڈے کی بجلی سے چراغاں کرکے نوجوان اور بچے رات رات بھر جاگ کر قربانی کے جانوروں کی خدمت سے زیادہ ان کی درگت بنانے اور کھیل تماشا لگانے میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ کیا اس زمانہ جاہلیت کی یاد نہیں دلاتا جب خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے سیٹیاں اور تالیاں بجائی جاتی تھیں، قربانی کا گوشت و خون بیت اللہ کی دیواروں پر رگڑا جاتا تھا۔ جانوروں کو اپنے بڑے بزرگوں اور نامور لوگوں کے ناموں سے موسوم کیا جاتا تھا؟ کیا ہم اپنے طرز عمل سے زمانہ جاہلیت کی طرف لوٹ کر اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کے مرتکب نہیں ہو رہے؟ ہمارے لیے تو سیدھا سادہ اور عام فہم حکم ہے کہ اللہ تک تمہاری قربانی کا خون وگوشت نہیں بلکہ صرف تقویٰ پہنچتا ہے۔ تقویٰ کو ہم نے پس پشت ڈال دیا ہے حرام و حلال کا احساس ختم کردیا ہے۔ حکمرانوں سے لے کر فٹ پاتھ پر بیٹھے چھوٹا موٹا کام کرنے والوں تک حق وسچ کو ترک کرکے جھوٹ و فریب اور مکارانہ کارگزاریوں کے ذریعے اپنی کامیابی و فلاح کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔
اسپتالوں میں مریض ایڑیاں رگڑ رگڑکر دم توڑ رہے ہیں لیکن ہڑتالی مسیحا اپنی مراعات میں اضافے کے لیے جگنی کی دھن پر رقص کناں ہیں۔ عدالتوں سے انصاف کے متمنی سائلین اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر جوتیاں گھس رہے ہیں تو دوسری طرف انھیں انصاف کی فراہمی کے ذمے دار وکلا ہڑتال کیے ہوئے بیٹھے ہیں مخیر حضرات کی جانب سے ادا کی گئی زکوٰۃ سے لاکھوں مستحقین کئی ماہ سے صرف اس لیے محروم ہیں کہ حکومت کے پاس بیت المال کی کمیٹیاں بنانے کے لیے وقت ہے نہ اس کا احساس ہے۔
کیا انصاف پسند اور زندہ قوموں کا یہی وطیرہ ہوتا ہے جس کی ہم مستقل رٹ لگائے رکھتے ہیں۔ ریٹائرڈ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے آخری خطاب میں ایک بڑی فکر انگیز بات کہی ہے کہ ''جس قوم کے افراد عدل و انصاف کے قائل نہ ہوں۔ وہ خود جھوٹ بولیں، رشتے دار، عزیز، ہمسائے کا حق ماریں اور یہ برائیاں ساری قوم میں سرائیت کر جائیں تو پھر انصاف کی فراہمی ممکن نہیں اور انصاف کی توقع کرنا، عبث ہے۔ عدل تقویٰ کی بنیاد ہے جہاں عدل ختم ہوجائے وہاں تقویٰ کیسے قائم رہ سکتا ہے؟ کاش ہم اس پہلو پر غور و خوض کرکے اپنے اصلاح احوال کی کوششیں کریں۔
قومی دنوں، نیوایئر، ویلنٹائن ڈے اوربسنت وغیرہ پر ہمارا جو طرز عمل ہوتا ہے وہ شاید دنیا کی کسی اور قوم اور خطے کے لیے نامانوس، ناقابل قبول بلکہ قابل نفرت ہو۔ ہمارے نوجوان موٹر سائیکلوں کے سائیلنسر نکال کر کیمپوں اور گاڑیوں میں رات گئے تک اونچی آواز میں ریکارڈنگ کرکے، ہلہ گلہ اور دھینگا مشتی کرکے ٹریفک جام کرکے ایسا محسوس کرتے ہیں کہ گویا وہ کوئی بہت بڑی قومی خدمت انجام دے رہے ہوں۔
نیو ایئر اور دیگر تقریبات میں فاتحانہ انداز میں ہوائی فائرنگ کرکے کئی انسانوں کی زندگیوں کے چراغ گل کردیتے ہیں۔ چاہے پتنگوں کی ڈور پھرنے سے بچے، بڑوں کی گردنیں کٹتی رہیں انھیں تو اپنا شوق وجنون پورا کرنا ہوتا ہے۔اس سلسلے میں اکثر مواقعوں پر انھیں حکومت، انتظامیہ، این جی اوز اور طاقتور اور بااختیار لوگوں کی سرپرستی اور اشتراک حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسے خرافات کوکوئی روکنے ٹوکنے کی ہمت بھی نہیں کرپاتا کہ اس کے دامن پر غیر محب وطن یا قدامت پرست ہونے کا الزام نہ آجائے بلکہ وزیر چیلنج کردیتا ہے کہ بسنت منائی جائے گی صدر پتنگ بھی اڑائیں گے کوئی روک سکتا ہے تو روک لے۔
گزشتہ چند سالوں سے خالصتاً مذہبی تہواروں کے حوالے سے جو کچھ کیا جا رہا ہے اور جس کی ترویج کی جا رہی ہے اس کا اسلام یا اس کی روح پروری سے دور کا تعلق بھی نظر نہیں آتا ہے۔ رمضان کے مقدس، روح پرور اور بابرکت مہینے میں ایسے تماشے رچائے اور ڈھونگ اپنائے جاتے ہیں جیسے اسلام کی کوئی نئی تشریح دریافت کرکے بیش قیمت خدمت سر انجام دی جا رہی ہو۔ جس کی مثال دنیا بھر کے مسلمانوں میں کہیں نہیں ملتی ہے جن میں بیوپاریوں کا مال بیچنے کا بڑی سلیقہ مندی سے بندوبست کیا جاتا ہے۔ زرق برق میڈیائی مولویوں، شوبز اور کار خیر میں شہرت رکھنے والی شخصیات کو ایسے پروگراموں میں سند قبولیت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور ان کی شہرت اور عوامی مقبولیت کے لیے عام لوگوں کو بڑی تعداد میں شامل کرکے خوب انعامات و اکرامات سے نوازا جاتا ہے۔
مسلمانوں کی غالب اکثریت ایسے پروگراموں کی مخالفت توکرتی ہے لیکن بڑی تعداد میں انھیں دیکھ کر اپنی عبادات اور رمضان کی اصل روح سے محروم رہ جاتی ہے۔ کیونکہ ایسے ڈھونگ رچانے والے طاقتور، بااختیار اور مال و متاع کے مالک ہوتے ہیں لہٰذا انھیں کوئی روکنے ٹوکنے والا بھی نہیں ہے یہ ایک خطرناک رجحان ہے جو غلط روایت کی بنیاد ڈال رہا ہے۔ سپریم کورٹ کی جواب طلبی پر پیمرا نے اس سلسلے میں میڈیا کو کچھ ہدایات تو جاری کی ہیں دیکھنا یہ ہے کہ یہ ہدایات کس حد تک احاطہ کرتی ہیں اور ان پر کہاں تک عمل ہوتا ہے۔
ملک میں عیدالاضحی منائی گئی۔ قربانی جو سنت ابراہیمی ہے اس میں صبر، شکر، اطاعت وایثار اور رضائے الٰہی کے حصول کا جذبہ اس کی بنیادی روح ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے کعبے کی تعمیرکی اللہ کی کبریائی کے لیے بے خوف وخطر آتش نمرود میں کود گئے، اللہ کے حکم پر ضعیف العمری میں مرادوں سے مانگے اکلوتے بیٹے کی قربانی کا عمل کیا اور سعادت مند بیٹے نے بھی خود کو اللہ کے حکم کے مطابق قربان ہونے کے لیے پیش کرکے اطاعت ربانی کی لازوال مثال رقم کی ،جس کی اتباع میں یہ سنت ابراہیمی تا قیامت تمام مسلمانوں پر واجب کردی گئی۔ ذی الحج کے ابتدائی دس ایام عبادت کے ہوتے ہیں ان دنوں میں عبادت کو جہاد سے زیادہ اہمیت کا عمل قرار دیا گیا ہے۔
حضور اکرمؐ قربانی کا خاص اہتمام کرتے، بھوکے رہتے اور قربانی کے گوشت سے روزہ کھولتے تھے۔ قربانی کے مطابق کہا جاتا ہے کہ اللہ کو قربانی کے جانور کا خون وگوشت نہیں بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ لیکن ہم اجتماعی طور پر قربانی کی اصل روح سے ناآشنا اور غافل ہوتے جا رہے ہیں۔ اس فریضے میں اللہ کی خوشنودی اور قرب کی بجائے خودنمائی، بڑائی، تکبر، دکھاوا، نمود و نمائش اور تفریح طبع کا عنصر غالب آچکا ہے۔ قربانی کا جانور خریدنے کے لیے ہم رشوت ستانی، چور بازاری اور دھوکا دہی اور سب کچھ کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔جانور فروخت کرنے والے ہوں یا جانوروں کا علاج کرنے والے، قصاب ہوں یا چارہ فروش یا پھر پولیس، بھتہ گیر یا کھالیں لینے والے ہر کوئی دھوکا دہی، فریب، مجبوری اور لاعلمی اور خوف کے ذریعے جانور لینے والوں کی جیبوں کو صاف کرنے پر تلا نظر آتا ہے۔
جانوروں کو فروخت کرنے والے بے خبر و لاعلم خریداروں کو عیب دار جانور فروخت کردیتے ہیں، نقلی دانتوں کے جانور فروخت کرنے کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں جنھیں بڑی مہارت سے ایلفی یا اسٹیل وائر کے ذریعے نصب کردیا جاتا ہے۔ جانوروں کو غیر فطری ماحول میں رکھ کر غیر فطری غذاؤں مثلاً بادام، پستہ، کاجو اور مکھن وغیرہ کھلا کر بڑی خطیر رقوم کے عوض فروخت کیا جاتا ہے ان کی خوب تشہیر کی جاتی ہے لوگ جوق در جوق بمعہ اہل و عیال ایسے بڑے جانوروں کو دیکھنے آتے ہیں جہاں پر ان کی نمائش کے لیے لائٹنگ اور دیگر انتظامات کیے جاتے ہیں۔ کراچی کے ایک علاقے میں کئی دن سے بورڈ لگا ہوا تھا کہ Gabbar Coming Soon پھر اس کی آمد سے ایک دن قبل بورڈ لگایا گیا کہ Gabbar Coming at 8:30 AM اس کے علاوہ اس قسم کے بورڈ بھی آویزاں کیے گئے جن پر تحریر تھا ''گبر'' نام سے ولن کام سے ہیرو'' ، تیرا کیا بنے گا کالیا''۔ قربانی کے جانوروں کو غیر فطری ماحول میں چھتوں پر بھی پالا جاتا ہے پھر انھیں تشہیری مہم کے ذریعے کرینوں سے نیچے اتارا جاتا ہے۔
کرین میں بے بسی سے لٹکے ان جانوروں کی پشت پر ان کا رکھوالا سوار ہوکر انھیں نیچے اترواتا ہے۔ عوام میڈیا کے ذریعے ان مناظر کو دیکھ کر محظوظ ہوتے ہیں جانوروں کے نام گبر، مولاجٹ، نوری نتھ، دبنگ اور ایان علی کے ناموں سے منسوب کیے جاتے ہیں کراچی کے بہت سے لوگ سپرہائی وے پر قائم جانوروں کی منڈی میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ گھومنے جاتے ہیں تاکہ وی آئی پی جانوروں کے اسٹالز پر جاکر تشہیری جانوروں کی زیارت کرسکیں ان کے ساتھ اپنی سیلفی بنوالیں۔ گلیوں اور سڑکوں پر جانور باندھ کر وہاں چارپائیاں کرسیاں اور دریاں وغیرہ بچھا کر غیر ضروری طور پر راستہ بند کرکے نہ صرف اہل محلہ کی پریشانی کا اہتمام کیا جاتا ہے بلکہ اس سے ٹریفک میں بھی خلل پڑتا ہے۔
چوری کے کنڈے کی بجلی سے چراغاں کرکے نوجوان اور بچے رات رات بھر جاگ کر قربانی کے جانوروں کی خدمت سے زیادہ ان کی درگت بنانے اور کھیل تماشا لگانے میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ کیا اس زمانہ جاہلیت کی یاد نہیں دلاتا جب خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے سیٹیاں اور تالیاں بجائی جاتی تھیں، قربانی کا گوشت و خون بیت اللہ کی دیواروں پر رگڑا جاتا تھا۔ جانوروں کو اپنے بڑے بزرگوں اور نامور لوگوں کے ناموں سے موسوم کیا جاتا تھا؟ کیا ہم اپنے طرز عمل سے زمانہ جاہلیت کی طرف لوٹ کر اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کے مرتکب نہیں ہو رہے؟ ہمارے لیے تو سیدھا سادہ اور عام فہم حکم ہے کہ اللہ تک تمہاری قربانی کا خون وگوشت نہیں بلکہ صرف تقویٰ پہنچتا ہے۔ تقویٰ کو ہم نے پس پشت ڈال دیا ہے حرام و حلال کا احساس ختم کردیا ہے۔ حکمرانوں سے لے کر فٹ پاتھ پر بیٹھے چھوٹا موٹا کام کرنے والوں تک حق وسچ کو ترک کرکے جھوٹ و فریب اور مکارانہ کارگزاریوں کے ذریعے اپنی کامیابی و فلاح کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔
اسپتالوں میں مریض ایڑیاں رگڑ رگڑکر دم توڑ رہے ہیں لیکن ہڑتالی مسیحا اپنی مراعات میں اضافے کے لیے جگنی کی دھن پر رقص کناں ہیں۔ عدالتوں سے انصاف کے متمنی سائلین اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر جوتیاں گھس رہے ہیں تو دوسری طرف انھیں انصاف کی فراہمی کے ذمے دار وکلا ہڑتال کیے ہوئے بیٹھے ہیں مخیر حضرات کی جانب سے ادا کی گئی زکوٰۃ سے لاکھوں مستحقین کئی ماہ سے صرف اس لیے محروم ہیں کہ حکومت کے پاس بیت المال کی کمیٹیاں بنانے کے لیے وقت ہے نہ اس کا احساس ہے۔
کیا انصاف پسند اور زندہ قوموں کا یہی وطیرہ ہوتا ہے جس کی ہم مستقل رٹ لگائے رکھتے ہیں۔ ریٹائرڈ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے آخری خطاب میں ایک بڑی فکر انگیز بات کہی ہے کہ ''جس قوم کے افراد عدل و انصاف کے قائل نہ ہوں۔ وہ خود جھوٹ بولیں، رشتے دار، عزیز، ہمسائے کا حق ماریں اور یہ برائیاں ساری قوم میں سرائیت کر جائیں تو پھر انصاف کی فراہمی ممکن نہیں اور انصاف کی توقع کرنا، عبث ہے۔ عدل تقویٰ کی بنیاد ہے جہاں عدل ختم ہوجائے وہاں تقویٰ کیسے قائم رہ سکتا ہے؟ کاش ہم اس پہلو پر غور و خوض کرکے اپنے اصلاح احوال کی کوششیں کریں۔