پاکستان میں این جی اوز کا کردار

ملک میں غیر ملکی نان گورنمنٹ آرگنائزیشن یعنی این جی اوز کے معاملات کی چھان بین جاری ہے


Shabbir Ahmed Arman September 29, 2015
[email protected]

ملک میں غیر ملکی نان گورنمنٹ آرگنائزیشن یعنی این جی اوز کے معاملات کی چھان بین جاری ہے جو ایک قلیل عرصے سے پاکستان کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہیں، جن کا بظاہر مقصد انسانیت کی فلاح و بہبود ہے مگر بعضوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان اوراس کی اساسیت کے برخلاف کام کررہی ہیں۔ اس ضمن میں حکومت پاکستان جو اقدامات کر رہی ہیں اور جو خبریں ان این جی اوز کے بابت گردش ہیں آیئے ان کا طائرانہ جائزہ لیتے ہیں کہ کیا حقیقت ہے ، کیا فسانہ؟

صورتحال یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان کو 23 غیر ملکی این جی اوز کے معاملات کی تحقیقات اور ان کی رجسٹریشن کے لیے الیکٹرونک سسٹم متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس نظام کے تحت غیر ملکی این جی اوز کی رجسٹریشن کے لیے پہلے مرحلے میں ہی اسکریننگ کی جائے گی۔ یہ سفارشات وزیراعظم کی جانب سے قائم کردہ خصوصی کمیٹی کی جانب سے دی گئی ہیں۔

13 جون کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا تھا کہ پاکستان میں کام کرنیوالی بعض بین الاقوامی این جی اوز کے پیچھے امریکا، اسرائیل اور بھارت ہیں۔ کئی ایسی این جی اوز ہیں جو اپنے ایجنڈے کا تعین کیے بغیرکام کر رہی ہیں۔ میڈیا سے گفتگو میں انھوں نے کہاکہ انٹیلی جنس رپورٹوں کے مطابق بعض این جی اوز ملک کے خلاف کام کررہی ہیں۔ ان کے خلاف کارروائی کریں گے اور اس حوالے سے کوئی سفارش یا دباؤ قبول نہیں ہوگا۔ این جی اوز کے حوالے سے گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان میں مادر پدر آزادی کی پالیسی چل رہی تھی۔ سالہا سال سے ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹوں پرکوئی کارروائی نہیں ہورہی تھی۔ کسی این جی او کا کام اس کے چارٹر کے تحت اگر اسلام آباد میں ہے تو وہ بلوچستان، گلگت بلتستان یا قبائلی علاقوں میں سرگرم عمل تھی۔

کسی این جی اوز کو ملکی مفادات، ثقافت اور اقدار کے خلاف کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کرنیوالی مقامی اور غیر ملکی این جی اوز کے خلاف بھرپور کارروائی کریں گے اور اس سلسلے میں کوئی دباؤ قبول نہیں کریں گے۔ تاہم ملک کے قانون اور صرف اپنے چارٹر کے تحت کام کرنیوالی مقامی اور بین الاقوامی این جی اوز کی سپورٹ کریں گے۔ میرا بین الاقوامی این جی اوز اور ان کی حکومتوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ اچھی این جی اوز کو پاکستان کے قاعدے اور قانون اور ہمارے مفاد کا احترام کرنا ہوگا۔ بعض این جی اوز گنی اور زیمبیا میں رجسٹرڈ ہیں مگر پاکستان میں بلوچستان اور گلگت بلتستان کی صورتحال پر فوکس کررہی ہیں۔

18 اگست2015 کو حکومت نے دستاویزات کے فقدان اور جاسوسی کے خدشات و الزامات کے تحت این جی اوز کا سختی سے نوٹس لیا۔قبل ازین برسلز اور اسلام آباد سے بیک وقت پاکستان کو غیر ملکی این جی اوز کو کام کرنے کے لیے خصوصی سفارشات اور مطالبات پیش کیے گئے جن میں زور دیا گیا کہ انھیں کام کرنے کے لیے آزادانہ ماحول فراہم کیا جائے ، ان ہی دنوں یہ اطلاعات عام ہوئیں کہ وزارت داخلہ نے سیودی چلڈرن نامی این جی اوز کے خلاف مزید کارروائی کرنے سے روک دیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق سیودی چلڈرن پر گیارہ جون کو پابندی اور دفاتر کو سیل کرنے کے بعد این جی اوز کے حکام نے مختلف سیاست دانوں اور بیورو کریٹس سے رابطے کرنا شروع کردیے تھے جس کے بعد وزارت داخلہ کی طرف سے این جی او کے خلاف مزید کارروائی کرنے سے روک دیاگیا۔تاہم بعد ازاں کام کرنے کی اجازت دے دی گئی۔

اقتصادی امور ڈویژن نے یہ بھی انکشاف کیا کہ پاکستان میں 127 غیر ملکی این جی اوز غیر قانونی طور پر کام کررہی ہیں۔ اس حوالے سے فہرست وزارت داخلہ کو بھجوادی گئی ہے۔ دریں اثنا امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے پاکستان میں بین الاقوامی خیراتی اداروں اور این جی اوز کے خلاف کارروائی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہا کہ این جی اوز کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا کام کرنا چاہیے۔

یہ اطلاعات بھی زیرگردش رہیں کہ پاکستان نے تمام موجودہ غیر ملکی این جی اوز کو 6 ماہ تک ملک میں طے شدہ شعبوں میں کام کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے تاہم انھیں 3 ماہ کے اندر اندر از سر نو رجسٹریشن کرانا پڑے گی۔ اے ایف پی کیمطابق دوبارہ رجسٹریشن کے اقدام سے بین الاقوامی این جی اوز کو گرین سگنل ملنے سے پہلے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے جائزے کے عمل سے دوبارہ گزرنا لازمی ہوگا ۔ اس ضمن میں وفاقی حکومت نے غیر ملکی این جی اوز کی رجسٹریشن و مانیٹرنگ سمیت دیگر معاملات کے لیے اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے تیار کردہ قانون کا مسودہ منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس وقت تازہ ترین حقیقت یہ ہے کہ این جی اوز کی رجسٹریشن و مانیٹرنگ کا قانون متعارف کروانے کے لیے مسودہ کافی عرصے سے تیار پڑا ہوا ہے مگر ابھی تک وہ ایکٹ بن کر نافذ العمل نہیں ہوسکا جب کہ نیپال، بنگلہ دیش، روس اور تو اور بھوٹان تک میں آئی این جی اوز کی رجسٹریشن، مانیٹرنگ اور ان کے لیے قواعد و ضوابط کا قانون لاگو ہے۔ مگر پاکستان میں ایک پالیسی کے تحت ان این جی اوز کی رجسٹریشن و مانیٹرنگ ہورہی ہے اور نہ کوئی قانون ہے۔

اس میں کوئی دو رائے اور شک نہیں ہے کہ عالمی دباؤ بہت سخت ہے، یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی زیر صدارت ہونیوالے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں کام کرنیوالی بین الاقوامی این جی اوز چھ ماہ تک متعلقہ حکام کی اجازت سے کام جاری رکھ سکتی ہیں۔ البتہ ان بین الاقوامی این جی اوز کو تین ماہ کے اندر نئی رجسٹریشن کرانا ہوگی اور قانونی دھارے میں آنا ہوگا۔ کسی بھی این جی اوز کو ملکی مفاد کے خلاف کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔یاد رہے کہ سیودی چلڈرن یو ایس اے کی مدد کی وجہ سے 2 مئی 2011 کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن مارا گیا تھا۔ ایکسپریس کے پاس دستیاب دستاویزات کے مطابق جن این جی اوز کے خلاف وزارت داخلہ کی جانب سے حتمی فیصلے کا انتظار ہے ۔

میڈیا کو دستیاب اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ انٹیلی جنس اداروں نے ملک اور آرمی چیف کو رپورٹ کیا تھا کہ کئی انٹرنیشنل این جی اوز ملک میں فساد کا سبب بن رہی ہیں، ان میں سے کئی ایک این جی اوز کے حوالے سے سیکیورٹی اداروں کو شکایت تھیں کہ وہ نہ صرف یہ کہ اقتصادی حوالے سے ملک کے مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہیں بلکہ بلوچستان، کراچی اور صوبہ خیبر پختونخوا میں کام کرنے والی این جی اوز میں سے کئی ایک پر مشکوک سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا بھی الزام تھا۔ ذرایع کے مطابق سابق وزیراعظم شوکت عزیز کی طرف سے ملک میں غیر ملکی اداروں کو کھلی چھوٹ دینے کا معاملہ ختم کردیاجائے گا۔

یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ملک دشمن این جی اوز نئے ناموں سے سرگرم ہونے لگی ہیں ان میں سیودی چلڈرن نے ''دی چلڈرن فرسٹ'' اور ''یو ایس ایڈ'' نے ''دی کری ایٹو'' کی شناخت اختیار کرلی، غیر ملکی ادارے قوانین میں سقم کا فائدہ اٹھارہے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کو دولخت کرنے اور بنگلہ دیش کے قیام میں بھی این جی اوز کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، ایسٹ تیمور کی انڈونیشیا اور سوڈان سے جنوبی سوڈان کی علیحدگی میں بھی این جی اوز ہی کا ہاتھ تھا ہمیں ان پر پوری نظر رکھنا ہوگی اور کسی عالمی قوت کا دباؤ قبول نہیں کرنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں