یقین کیجئے اپنی خود اعتمادی پر
یقین، خود اعتمادی ایسی خوبیاں ہیں جو آپ کی کامیابی کی ضامن ہیں۔
یہ سفارت خانہ اسلامی جمہوریہ ایران، لاہور کا منظر ہے۔ ویزہ کے لیے آنے والوں کی ایک لمبی لائن ہے، دھوپ کی شدت اپنا آپ دکھا رہی ہے، میں بھی پسینے سے شرابور لائن میں کھڑا ہوں۔ میرے بعد کھڑا شخص بار بار کہے جار ہا ہے۔
اور اس شخص کی مسلسل یہ گردان سن کر اور اس قدر مایوسی کو دیکھ کر میرا صبر کا پیمانہ لبریز ہو ہی ہوگیا۔ بھائی صاحب اگر آپ بُرا نہ مانیں، تو میں کچھ کہوں؟ کہو یار چلو باتوں باتوں میں کچھ وقت گزر جائے گا۔ شاید آج اپنی باری بھی آجائے۔ اس نے جواب دیا۔
بھائی آپ بڑے عجیب شخص ہیں، اس لیے میں جو کچھ کہنے جا رہا ہوں وہ بھی عجیب ہی ہوگا، آپ نے بتایا ہے کہ آپ ہر روز صبح 5 بجے اُٹھتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں، کاغذات پکڑتے ہیں اور لاہور کے لیے نکل آتے ہیں۔ 8 سے 9 بجے تک آپ یہاں پہنچتے ہیں۔ سارا دن شدید گرمی میں آپ لائن میں کھڑے ہوتے ہیں اور یہ کہتے رہتے ہیں کہ مجھے علم ہے انہوں نے مجھے ویزہ نہیں دینا، شام کو گھر چلے جاتے ہیں۔ صبح گھر سے نکلتے ہوئے ماں پوچھتی ہے، بیٹے کچھ کام بنا کہ نہیں؟
تو آپ کہتے ہیں، ماں بس آج کام ہو جائے گا۔ وہ میری باتیں سنتا جارہا تھا، اور اُس کے چہرے کا رنگ بدلتا جارہا تھا۔ میں نے اپنی بات آگے بڑھائی، اگر آپ کو یقین ہے کہ آپ کو ویزہ نہیں ملنا تو پھر روز 5 بجے کیوں اُٹھتے ہیں؟ سارا سارا دن اِن لائنوں میں کیوں اذیت اٹھاتے ہیں؟
میں ابھی اُس سے مزید کچھ بات کرتا، مگر میری باری آگئی اور میں اسے سوچوں میں غلطاں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔
خود اعتمادی کی جب بھی بات آتی ہے مجھے میرے ایک پروفیسر صاحب یاد آتے ہیں جنہوں نے اپنے زمانہِ طالب علمی کا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ، میرا ایم اے انگریزی کا نتیجہ آیا تو میرا دوست بھاگتا ہوا میرے پاس آیا، اور آکر خبر دی کہ اس سال رزلٹ بہت بُرا رہا ہے۔ پوری کلاس میں سے صرف 2 طالب علم پاس ہوئے ہیں۔ میں نے پوچھا، دوسرا کون ہے؟ میرے دوست نے کہا تم نے دوسرے کا ہی کیوں پوچھا ؟ یہ کیوں نہیں پوچھا کہ پہلا کامیاب ہونے والا کون ہے؟ میں نے کہا، میرے دوست اگر تم آ کر یہ کہتے کہ اس سال صرف ایک ہی طالب علم پاس ہوا ہے تو، میں کہتا وہ طالب علم میں ہی ہوں۔ اس لیے میں نے پوچھا کہ دوسرے نمبر پر کون ہے۔ کیونکہ پہلے نمبر پر تو میں ہوں۔ میرا دوست میری بات سن کر حیران رہ گیا۔ جب انسان کو اپنی ذات پر اعتماد ہو اور اُس نے محنت کرنے میں بھی کوئی کسر نا چھوڑی ہو تو پھر، خدا اُس کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دیتا۔ کامیابی ضرور اُس کے قدم چومتی ہے۔اکثر میں یہی سوچتا ہوں کہ کشتیاں یونہی نہیں جلائی جاتیں، ایسا کرنے کے لیے طارق بن زیاد جیسا یقین چاہیے۔
زندگی کے سفر پہ گامزن اُس ایک مسافر کی طرح جسے گھر پہنچنے میں دیر ہوگئی اور جب وہ دریا کنارے پہنچا تو معلوم ہوا کہ ملاح گھروں کو جاچکے ہیں وہ بڑا پریشان ہوا کہ اب گھر کیسے پہنچے؟ دریا کنارے ایک چھوٹی سی مسجد تھی جہاں بیٹھے مولوی صاحب ''اللہ! اللہ! کر رہے تھے۔ وہ مسافر مولوی صاحب کے پاس گیا اور اپنی پریشانی کا تذکرہ کیا۔ مولوی صاحب نے کہا، بیٹا اللہ پر یقین ہے نا؟ جی مولوی صاحب اللہ پر یقین تو بالکل ہے۔ تو پھر مشکل کس بات کی ہے؟ اللہ کا نام لو اور پانی پر چلنا شروع کر دو کچھ نہیں ہوگا۔ اُس شخص نے اللہ کا نام لیا اور پانی پر چلنا شروع کر دیا اور وہ واقعی ہی پانی پر چلتے ہوئے دریا پار کرگیا۔ اب مولوی صاحب کو بھی گھر جانا تھا اُنہوں نے بھی دریا پار کرنا تھا لیکن وہ کس طرح جائیں سمجھ نہیں آرہا، وہ شخص بڑا حیران ہوا اور کہنے لگا! مولوی صاحب، آپ نے ہی تو بتا یا ہے کہ اللہ کا نام لو او ر دریا پار کرجاؤ، آپ کے کہے پر عمل کرتے ہوئے میں نے دریا پار کیا اور اب آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ دریا کیسے پار کرنا ہے۔ اللہ کا نام لیں اور چلنا شروع کردیں۔ دریا پار ہوجائے گا۔ مولوی صاحب نے کہا، نہیں میں ڈوب جاؤں گا۔
جب اُس شخص نے یہ الفاظ سنے تو اُس نے یہ جملہ کہہ کر چل دیا کہ،
تو یاد رکھئے، یقین، خود اعتمادی ایسی خوبیاں ہیں جو آپ کی کامیابی کی ضامن ہیں۔ دنیا میں آپ کو جتنی بھی عظمت کی مثالیں ملتی ہیں اُن کے پسِ منظر میں جو طاقت نظر آتی ہے وہ ''یقین'' ہی ہے۔
[poll id="689"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
''مجھے معلوم ہے انہوں نے مجھے ویزہ نہیں دینا''
اور اس شخص کی مسلسل یہ گردان سن کر اور اس قدر مایوسی کو دیکھ کر میرا صبر کا پیمانہ لبریز ہو ہی ہوگیا۔ بھائی صاحب اگر آپ بُرا نہ مانیں، تو میں کچھ کہوں؟ کہو یار چلو باتوں باتوں میں کچھ وقت گزر جائے گا۔ شاید آج اپنی باری بھی آجائے۔ اس نے جواب دیا۔
بھائی آپ بڑے عجیب شخص ہیں، اس لیے میں جو کچھ کہنے جا رہا ہوں وہ بھی عجیب ہی ہوگا، آپ نے بتایا ہے کہ آپ ہر روز صبح 5 بجے اُٹھتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں، کاغذات پکڑتے ہیں اور لاہور کے لیے نکل آتے ہیں۔ 8 سے 9 بجے تک آپ یہاں پہنچتے ہیں۔ سارا دن شدید گرمی میں آپ لائن میں کھڑے ہوتے ہیں اور یہ کہتے رہتے ہیں کہ مجھے علم ہے انہوں نے مجھے ویزہ نہیں دینا، شام کو گھر چلے جاتے ہیں۔ صبح گھر سے نکلتے ہوئے ماں پوچھتی ہے، بیٹے کچھ کام بنا کہ نہیں؟
تو آپ کہتے ہیں، ماں بس آج کام ہو جائے گا۔ وہ میری باتیں سنتا جارہا تھا، اور اُس کے چہرے کا رنگ بدلتا جارہا تھا۔ میں نے اپنی بات آگے بڑھائی، اگر آپ کو یقین ہے کہ آپ کو ویزہ نہیں ملنا تو پھر روز 5 بجے کیوں اُٹھتے ہیں؟ سارا سارا دن اِن لائنوں میں کیوں اذیت اٹھاتے ہیں؟
''اگر زندگی میں کچھ چاہیے تو خود پر اعتماد کرنا سیکھو میرے دوست اگر خود پر یقین نہیں تو کوئی اور کام کرو کل سے لائن میں کھڑے نہ ہونا''۔
میں ابھی اُس سے مزید کچھ بات کرتا، مگر میری باری آگئی اور میں اسے سوچوں میں غلطاں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔
خود اعتمادی کی جب بھی بات آتی ہے مجھے میرے ایک پروفیسر صاحب یاد آتے ہیں جنہوں نے اپنے زمانہِ طالب علمی کا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ، میرا ایم اے انگریزی کا نتیجہ آیا تو میرا دوست بھاگتا ہوا میرے پاس آیا، اور آکر خبر دی کہ اس سال رزلٹ بہت بُرا رہا ہے۔ پوری کلاس میں سے صرف 2 طالب علم پاس ہوئے ہیں۔ میں نے پوچھا، دوسرا کون ہے؟ میرے دوست نے کہا تم نے دوسرے کا ہی کیوں پوچھا ؟ یہ کیوں نہیں پوچھا کہ پہلا کامیاب ہونے والا کون ہے؟ میں نے کہا، میرے دوست اگر تم آ کر یہ کہتے کہ اس سال صرف ایک ہی طالب علم پاس ہوا ہے تو، میں کہتا وہ طالب علم میں ہی ہوں۔ اس لیے میں نے پوچھا کہ دوسرے نمبر پر کون ہے۔ کیونکہ پہلے نمبر پر تو میں ہوں۔ میرا دوست میری بات سن کر حیران رہ گیا۔ جب انسان کو اپنی ذات پر اعتماد ہو اور اُس نے محنت کرنے میں بھی کوئی کسر نا چھوڑی ہو تو پھر، خدا اُس کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دیتا۔ کامیابی ضرور اُس کے قدم چومتی ہے۔اکثر میں یہی سوچتا ہوں کہ کشتیاں یونہی نہیں جلائی جاتیں، ایسا کرنے کے لیے طارق بن زیاد جیسا یقین چاہیے۔
زندگی کے سفر پہ گامزن اُس ایک مسافر کی طرح جسے گھر پہنچنے میں دیر ہوگئی اور جب وہ دریا کنارے پہنچا تو معلوم ہوا کہ ملاح گھروں کو جاچکے ہیں وہ بڑا پریشان ہوا کہ اب گھر کیسے پہنچے؟ دریا کنارے ایک چھوٹی سی مسجد تھی جہاں بیٹھے مولوی صاحب ''اللہ! اللہ! کر رہے تھے۔ وہ مسافر مولوی صاحب کے پاس گیا اور اپنی پریشانی کا تذکرہ کیا۔ مولوی صاحب نے کہا، بیٹا اللہ پر یقین ہے نا؟ جی مولوی صاحب اللہ پر یقین تو بالکل ہے۔ تو پھر مشکل کس بات کی ہے؟ اللہ کا نام لو اور پانی پر چلنا شروع کر دو کچھ نہیں ہوگا۔ اُس شخص نے اللہ کا نام لیا اور پانی پر چلنا شروع کر دیا اور وہ واقعی ہی پانی پر چلتے ہوئے دریا پار کرگیا۔ اب مولوی صاحب کو بھی گھر جانا تھا اُنہوں نے بھی دریا پار کرنا تھا لیکن وہ کس طرح جائیں سمجھ نہیں آرہا، وہ شخص بڑا حیران ہوا اور کہنے لگا! مولوی صاحب، آپ نے ہی تو بتا یا ہے کہ اللہ کا نام لو او ر دریا پار کرجاؤ، آپ کے کہے پر عمل کرتے ہوئے میں نے دریا پار کیا اور اب آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ دریا کیسے پار کرنا ہے۔ اللہ کا نام لیں اور چلنا شروع کردیں۔ دریا پار ہوجائے گا۔ مولوی صاحب نے کہا، نہیں میں ڈوب جاؤں گا۔
جب اُس شخص نے یہ الفاظ سنے تو اُس نے یہ جملہ کہہ کر چل دیا کہ،
آپ واقعی ڈوب جائیں گے مولوی صاحب! وہ اس لیے کہ آپ کے پاس علم تو ہے مگر آپ یقین جیسی دولت سے محروم ہیں۔
تو یاد رکھئے، یقین، خود اعتمادی ایسی خوبیاں ہیں جو آپ کی کامیابی کی ضامن ہیں۔ دنیا میں آپ کو جتنی بھی عظمت کی مثالیں ملتی ہیں اُن کے پسِ منظر میں جو طاقت نظر آتی ہے وہ ''یقین'' ہی ہے۔
[poll id="689"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس