پیرس… ایک قبر اور ایک تصویر
پیرس میں دوسرے روز صبح ناشتے پر غالب اقبال (سفیرِ پاکستان) نے پوچھا’’آج کہاں کا ارادہ ہے؟
پیرس میں دوسرے روز صبح ناشتے پر غالب اقبال (سفیرِ پاکستان) نے پوچھا''آج کہاں کا ارادہ ہے؟''میں نے کہا ''آج کے ٹارگٹ ہیںیک قبر اور ایک تصویر''!۔ فرانس میں بہت لوگوں سے مختلف موقعوں پر پوچھاکہ ''پچھلے پانچ سو سالوں میں فرانس کاسب سے بڑا آدمی کون تھا؟'' سب کا ایک ہی جواب تھا،نپولین۔ نپولین بونا پارٹ ایک اولولعزم جرنیل اور ایک عظیم مدّبرتھا، جدید فرانس پر جس کے انمٹ نقوش ہیں، اسی لیے اس کے نام سے یہاں ہر شخص واقف ہے ۔
نپولین سولہ سال کی عمر میں فوج میں بھرتی ہوکر ملٹری اکیڈیمی چلا گیا وہاں سے تربیّت مکمل کی تو انقلاب کی تحریک شروع ہوچکی تھی۔وہ فوج سے چھٹی لے کر انقلابی تحریک میں شامل ہوگیا۔ انقلابِ فرانس کے دوران وہ بڑی تیزی سے ترقّی کے زینے طے کرتا ہوا بریگیڈیئر جنرل کے عہدے تک پہنچ گیا۔ 1795میںبادشاہ کے حامیوں کی ایک بڑی بغاوت ناکام بنانے کے صلے میں اسے میجر جنرل بنادیا گیا۔ 1799میںنپولین نے فرانس کی انقلابی حکومت کو ہٹا کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔
اقتدار ملتے ہی وہ پورے یورپ پر قابض ہونے کے خواب دیکھنے لگا۔ وہ غیرمعمولی صلاحیتوں کا مالک، انتہائی بلند حوصلہ، صاحبِ تدبیر اور جنگی منصوبہ ساز تھا۔ اس نے آسٹریا سمیت کئی سلطنتوں کو شکست دیکر اپنی سلطنت کو وسعت دی۔ 1804 میں کیتھیڈرل آف نوٹرے ڈم کی پُر شِکوہ عمارت (جسکی بلندی کو میں ایک روزپہلے چھُو آیا تھا) میں ایک شاندار تقریب میں شہنشاہ کا ٹائیٹل اختیار کیا۔ جنگِ اہرام میں مصر کے مملوک حکمرانوں کو شکست دی مگربرطانیہ کی برتر بحریہ کے ہاتھوں شکست کھائی مگر ہمت نہیں ہاری اور اسی سال اس نے آسٹریا اور روس کو شکست دیکر رومن ایمپائر کا خاتمہ کردیا۔ نپولین کے ہاں مایوسی اور ناامیدی کا داخلہ بند تھا وہ کبھی شکست سے بددل نہیں ہوا۔
1812 کی گرمیوں میں اس نے چھ لاکھ فوج کے ساتھ روس پر حملہ کردیا۔ ماسکو کے محاصرے کے دوران ہی حملہ آور فوج کو سرد موسم نے آلیا، موسم کی شدّت کے ہاتھوں اسے ناکام لوٹنا پڑا اور چھ لاکھ میں سے صرف ایک لاکھ فوج کو زندہ بجا کر واپس لاسکا۔ 1813میں وہ پھر یورپ سے پنجہ آزما ہوا اور مارچ 1814میں ایک بہت بڑی جنگ (Battle of Nations)میں روس، جرمنی، آسٹریا اور سویڈن کی اتحادی افواج نے فرانسیسی فوج کو شکست دیکر پیرس پر قبضہ کرلیا۔
نپولین کو اٹلی کے ایک جزیرے البا میں نظر بند کردیا گیا مگر کچھ ہی عرصے بعد وہ وہاں سے فرار ہوگیا اور ایک ہزار جانثاروں کے ہمراہ فرانس پہنچا جہاں اس کا ہیرو اور نجات دھندہ کے طور پر استقبال ہوا، اس کی عدم موجودگی میں بننے والا بادشاہ لوئیسxviiiبھاگ گیا اور شہنشاہیت کا تاج پھر نپولین کے سر پر سج گیا۔ جون 1815 میں اس نے بیلجئم کو روند ڈالابرطانوی اور جرمن افواج نے مزاحمت کی جرمن افواج نے شکست کھائی، مگر برسلز کے قریب واٹرلو کے مقام پر برطانیہ اور جرمنی کی مشترکہ افواج نے نپولین کو شکست دے دی۔۔۔ اور اسے گرفتار کرکے ایک دوردراز جزیرے ہیلینا میں نظر بند کردیا گیااور وہیں وہ زندگی کی بازی ہار گیا۔
1840 میں اس کی میّت پیرس لائی گئی اورانولید میں اس کی قبر تعمیر کی گئی راقم سیکڑوںسیاّحوں کے ساتھ جس کے سامنے کھڑا تھا اور اس کی بے مثال ہمّت اور پہاڑوں کی طرح مضبوط ارادے کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔یہ صحیح ہے کہ نپولین کی پسندیدہ جگہ میدانِ جنگ تھی مگروہ ایک مدّبر اور ریفارمر بھی تھا۔اس نے قانونی اور تعلیمی شعبوں میں بڑی دوررس اصلاحات کیں اس کی قانونی اصلاحات Napoleonic Codeکے نام سے ابھی تک نافذ ہیں۔ انولید سے باہر نکلے تو چمکتی دھوپ میں چہکتی ہوئی ایک گوری کہنے لگی "I hope you must be enjoying the lovely sunny day" میں نے کہا "ناں بی بی ناں! گرمی توں چَلّے تے اَسی ایتھے آئے ساں " (نہیں بی بی! دھوپ اور گرمی سے بچنے کے لیے تو ہم یہاں آئے تھے)۔
میرا اگلا ٹھکانہ مشہور میوزیم Louvre ( لُوو) تھا جہاںپہنچا تو نوّے فیصد سیّاح ایک ہی سیکشن اور ایک ہی گیلری کیطرف رواں دواں تھے۔ جہاں دیوار پر ایک خاتون کا پورٹریٹ آویزاں ہے وہ آدھے جسم کا پورٹریٹ ۔جو آج سے پانچ سو سال پہلے ایک اطالوی آرٹسٹ لیونارڈوونسی نے چار سال کی محنت اور ریاضت سے بنایا تھا۔ یورپ کی بڑی آرٹ گیلریوں میں خواتین کے زیادہ تر پورٹریٹ اور میورول برہنہ ہیں جب کہ یہ تصویر برہنگی سے پاک ہے مگر دنیا کے تمام نامور آرٹسٹوں کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے بہتر پینٹنگ آج تک تخلیق نہیں ہوئی۔
اس تصویر کو اور بھی کئی اعزاز حاصل ہیں کہ اسے دیکھنے کے لیے دنیا بھر کے سب سے زیادہ سیّاح آتے ہیں۔ یہ وہ پینٹنگ ہے جس پر دنیا کی مختلف زبانوں میں سب سے زیادہ مضامین اور گیت لکھے گئے۔ اور یہی وہ تصویر ہے جس کی سب سے زیادہ نقّالی کی گئی ہے۔ یہ فلورنس (اٹلی) کے رہائشی اورریشم کے خوشحال تاجر فرانسسکو جیوکونڈو کی بیوی لیزا گیرار ڈینی کی تصویر ہے جس کی سب سے نمایاںخوبی پراسراریت ہے۔
اس کی پراسرار مسکراہٹ!! فرانسسکو اپنے دوسرے بیٹے آندریا کی پیدائش پر یہ تصویر اپنے نئے گھر میں آویزاں کرنا چاہتا تھا۔لیونارڈو کے کئی ہمعصروں کا خیال ہے کہ اس نے پورٹریٹ بنانے کا آغاز 1503میں کیا تھا ۔ اس پر چار سال تک کام کیا مگر پھر بھی تصویر مکمل نہ ہوئی تو لیونارڈو نے اسے چھوڑ دیا۔ 1516میں فرانس کے بادشاہ فرانکوٹیس اوّل نے لیونارڈو کو اپنے محل میں پینٹنگز بنانے کے لیے مدعو کیا، تو مصوّریہ پینٹنگ بھی ساتھ ہی لے گیا اور اس پر باقیماندہ کام فرانس جاکر کیا۔
لیونارڈو کے انتقال کے بعد اس کی بہت سی پینٹنگز اس کے شاگرد سالائی کے حصّے میں آئیں ۔ بادشاہ نے اس سے یہ پینٹنگ خرید لی اور اسے اپنے محل میں آویزاں کیا جہاں وہ لوئیس xivکے زمانے تک شاہی محل کی زینت بنی رہی اس کے بعد آنے والے بادشاہ نے یہ پینٹنگ قصرِ وارسیلز میں منتقل کردی۔ انقلابِ فرانس کے بعد یہ پینٹنگ مشہور عجائب گھر Louvre(لُوو) میں منتقل کردی گئی۔ اس سے پہلے یہ کچھ عرصے کے لیے شہنشاہِ فرانس نپولین بوناپارٹ کے بیڈروم کا حصّہ بھی رہی۔ جنگوں کے دوران حفاظتی نقطہء نظر سے اس تصویر کو مختلف جگہوں پر رکھا گیا۔
21اگست1911 کو یہ پینٹنگ چوری ہوگئی جسکا الزام فرانس کے مشہور شاعر جوئی لالے اپا لینئرپر لگا۔ شہرہ ء آفاق مصوّر پکاسو کو بھی پولیس نے اس مقدّمے میں دھرلیا۔جوئی اور پکاسو کچھ عرصہ زیرِ تفتیش رہے مگر پھر (غالباً کچھ دے دلاکر) وہ پولیس کی حراست سے آزاد ہوئے۔ بعد میں پولیس نے چوری کا یہ کیس ڈھونڈنکالا ۔ میوزیم ہی کے ایک ملازم ونسینرو پیروگیا نے یہ تصویر اس خیا ل سے چرائی تھی کہ یہ اٹلی کی ملکیت ہے اس لیے یہ اٹلی ہی کے میوزیم میں ہونی چاہیے۔
پیروگیاگرفتار ہو امگر اس کی حُبّ الوطنی کے باعث اٹلی میں اس کی بہت تعریف وتحسین ہوئی اس لیے اسے صرف چھ مہینے کی قید کے بعد رہا کردیا گیااور مونا لیزا کی تصویر دوبارہ پیرس کے میوزیم لُوو میں آویزاں کردی گئی ۔ راقم مونالیزا کی مشہور ِعالم تصویرکے سامنے کھڑ ا تھااور اس بے مثل فن پارے کو بار بار دیکھ کر ذہن میں مشرق کے بے مثل شاعر کے الفاظ گھومنے لگے کہ
نقش ہیں سب نا تمام خونِ جگر کے بغیر
نَغمہ ہے سودائے خا م خونِ جگر کے بغیر
اس دوران فون پر بار بار گھنٹی بجتی رہی اور غالب یاد کراتا رہا کہ ''آپکا میزبان ہوٹل میںکافی دیر سے انتظار کررہا ہے ـ''۔ لُوو کی گیلریوں میں کھوجانے کے باعث میں لیٹ ہوچکا تھا اس لیے بھاگم بھاگ سفیر صاحب کی رہائش گاہ پر پہنچا،جلدی سے غُسل کیااورغالب اقبال کی معیّت میںہوٹل پہنچے جہاں محمود بھٹی نے بڑی گرم جوشی سے ہمارا خیرمقدم کیا۔ محمود بھٹی کئی سال پہلے جی سی لاہور چھوڑ کر باہر چلا گیا تھا۔آج وہ یورپ میں پاکستان کا کامیاب ترین بزنس مین ہے۔
جس نے فیشن ڈیزائننگ کی دنیا میں تہلکہ مچادیا اور چوٹی کے برینڈز کو مات دے دی چھیالیس ملکوں میں اس کے برینڈز کا میابی سے چل رہے ہیں اس کی Sucess story پر فرانس میں فلمیں بن چکی ہیں۔ فرانس کے مقتدر ترین افراد اس کے ذاتی دوست ہیں۔ ہمارے ملک کا ہر حکمران پیرس میں محمود بھٹی کے گھر جاتا ہے اور اس کی میزبانی سے لطف اندوز ہوتا ہے۔
محمود بھٹی سے میں نے دوباتیں کیں۔ ایک سوال تھا اور ایک مشورہ۔ اپنی کامیابی کے راز کے بارے میںسوال کا جواب دیتے ہوئے اس نے کہا ''میں اتنا غریب تھا کہ داتا صاحب سے روٹی کھاتا تھا مگر میں نے ہمت نہیں ہاری ،بے پناہ محنت کی اور مسلسل کررہا ہوں۔ بارش ہو یاطوفان میں صبح چھ بجے اپنے دفتر میں ضرور پہنچتا ہوں''۔ میں نے کہا ''مجھے نہ آپکی دولت سے غرض ہے اورنہ آپکی میزبانی سے لطف اندوز ہونے کا شوق''۔ کہنے لگا ''وہ تو میں اچھی طرح جانتا ہوں''۔
میں نے کہا ''برسوں پہلے جس ملک کا پاسپورٹ لے کر آپ تلاشِ رزق کے لیے نکلے تھے اس کا احسان کبھی نہ بھولنا۔۔آپ کی دولت اور آپکے تعلقات پر آپ کے ملک پاکستان کا بھی حق ہے'' ۔اس نے واضح طور پر کہا '' مجھے اس کا پوری طرح احساس ہے ۔ آج جو کچھ ہوں اﷲکے فضل وکرم اور ملک کی وجہ سے ہوں ''۔ یورپ میں امیر ترین پاکستانی کے جواب نے مجھے مسّرت لبریز کردیا۔