اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت
ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں 12لاکھ طوائفیں موجود ہیں جن کا ذریعہ آمدن آج بھی ناچ گانا ہے
ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں 12لاکھ طوائفیں موجود ہیں جن کا ذریعہ آمدن آج بھی ناچ گانا ہے، اس رپورٹ پر مجھے خاصا تعجب ہوا کہ ان 12لاکھ طوائفوں کا 2، 4کروڑ لوگوں سے تو واسطہ رہتا ہو گا، ان کے بارے میں تو کوئی رپورٹ نہیں ہے نہ انھیں کسی نے رپورٹ کیا ہے اور نہ ہی انھیں کوئی ''نام'' دیا گیا ہے۔ یعنی ناچنے گانے والیوں کو ہم طوائفیں، کوٹھے والیاں اور نا جانے کیا کیا کہتے اور کس کس نام سے پکارتے ہیں مگر جو ان کے جسموں سے کھیلتے اور انھیں اپنی آنکھوں کی تحسین بناتے ہیں انھیں کوئی نام نہیں دیتے۔
اسی طرح ہم اسٹیج ڈرامے میں پرفارم کرنے والوں کو میراثی کہہ کر ان کے فن کی تضحیک ضرور کرتے ہیں مگر انھیں دیکھنے والوں اور ان کے آگے پیسہ لٹانے والوں کو کوئی نام نہیں دیتے۔ ہم کوڑا اُٹھانے والوں کو بڑے انہماک سے ''چُوڑا'' کہہ دیتے ہیں لیکن گند ڈالنے والوں کو کوئی نام نہیں ملتا، یہ معاشرتی تفریق ہی محرومیوں کو جنم دیتی ہے۔
اس معاشرتی نظام کو بگاڑنے کا کوئی ایک ذمے دار نہیں بلکہ ہم سب ذمے دار ہیں۔آپ عیدین پر ہی دیکھ لیں ۔ دنیا بھر میں مذہبی و قومی تہواروں پر حکومتیں پرکشش پیکیجز کا اعلان کرتی ہیں اور کاروباری حضرات بھی عوام کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھتے ہوئے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کر دیتے ہیں لیکن پاکستان میں رمضان ہو یا عیدین یہاں ہر چیز کے بھاؤ دوگنے ہوجاتے ہیں۔ حکومت اور تاجر سبھی ''چھریاں'' تیز کرنے لگ جاتے ہیں، حیرت کی بات یہ ہے کہ جتنی چیز مہنگی ہوگی اتنے ہی خریدار بھی زیادہ ہوں گے۔ ہمارے ملک کے ہر طبقہ کے ''بیوپاری'' بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر عوام کو قیمتیں ''محسوس'' نہیں ہو رہیں تو ہمیں کیا، جتنا منافع مل جائے اتنا ہی کم ہے۔
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر آپ کسی چیز میں دلچسپی کا اظہار ہی نہ کریں تو وہ چیز خود بخود سستی ہو جائے گی مگر ایسا کرے کون؟ حالیہ عیدِ قرباں میں 30 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کا بکرا، 80ہزار روپے سے 10لاکھ روپے تک گائے اور اونٹوں کے ریٹ اس سے بھی زیادہ تھے اور میں حیران ہوں کہ ایک عام تنخواہ دار شخص یہ جانور خرید کیسے سکتا ہے؟ اپنے گلی محلے سے آپ کا گزر ہوا ہو گا تو یقیناََ آپ کو ہر دوسرے گھر میں ''قربانی'' بندھی ہوئی نظر آئی ہوگی۔ کیا غریب، کیا امیر، کیا سفید پوش، کیا سرخ پوش، کیا تاجر، کیا سرکاری ملازم، کیا دکاندار، کیا بینکار، کیا سبزی فروش، الغرض سبھی قربانی جیسے فریضے کو ادا کرنے کی ''استطاعت'' رکھتے ہیں۔
میں حیران اس لیے نہیں ہوں کہ اللہ کی راہ میں زیادہ جانور قربان کیوں کیے جارہے ہیں؟ حالانکہ میں کون ہوتا ہوں قصائیوں و نیم قصائیوں کی دہاڑیاں ''برباد'' کرنے والا۔ میں ورطہ حیرت کی اتھاہ گہرائیوں میں اس لیے ہوں کہ ایک عام تنخواہ دار شخص رزق حلال سے کیسے قربانی کا جانور خرید سکتا ہے؟ مجھے کوئی بتا دے کہ ایک شخص جس کی تنخواہ 50ہزار روپے ماہانہ ہے، اس نے انھی پیسوں میں سے گھر کا کچن چلانا ہے، بچوں کے اسکول کی فیس ادا کرنی ہے۔
دودھ والے کو پیسے دینے ہیں، اپنا روز مرہ کی سواری کا خرچ چلانا ہے وغیرہ اور جب کوئی تہوار آتا ہے جیسے عیدین وغیرہ تو پورے خاندان کے لیے نئے کپڑے، جوتے وغیرہ خریدنے پڑتے ہیں یعنی 50ہزار روپے کا اضافی خرچہ اسے برداشت کرنا پڑتا ہے تو ایسے میں ایک ایماندار آدمی کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ حلال کمائی میں سے 30سے 50 ہزار کا قربانی کا جانور خریدے۔ 50ہزار روپے یا اس سے کم تنخواہ والے کو چھوڑیں، کوئی جج، کوئی بیوروکریٹ یا کوئی مجسٹریٹ جس کی تنخواہ لاکھ روپے بھی ہوگی وہ بتائے اس تنخواہ اور مہنگائی میں کیسے قربانی کا جانور خرید کر سنت ابراہیمیؑ ادا کر سکتا ہے؟
ہمارے حالات تو بقول شاعر یہ ہیں کہ
وہ جن کا شجرِ انا آندھیوں میں بھی نہ گرا
بابِ ہوس کھلا تو ٹکڑوں پہ پل پڑے
میں یہ نہیں کہتا کہ ہر قربانی ہی ''مشکوک'' ہے (خاکم بدہن) لیکن اتنی سوچ ضرور آتی ہے کہ کرپشن یا جھوٹ سے کمایا ہوا پیسا، قربانی کیا کسی بھی نیک و حلال کام میں نہیں لگتا بلکہ اُلٹا گناہ ہوتا ہے۔
یا یوں سمجھ لیجیے کہ کرپشن کے پیسے سے کی گئی نیکی رائیگاں جاتی ہے اور قربانی بھی ایک نیکی و اسلامی فریضہ ہے اگر اس میں کرپشن کا پیسہ لگا تو ایسا کرنا گناہ کبیرہ ہو سکتا ہے۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ ہر قربانی کرپشن کے پیسے سے ہی ہو رہی ہے لیکن ہمیں ''خود احتسابی'' کا عمل شروع کرنا چاہیے، ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 80 فیصد لوگ کسی نہ کسی طرح سے کرپشن میں ملوث ہیں خواہ وہ معمولی قسم کی ہو، اور ان 80فیصد لوگوں میں ہمارا نام بھی کہیں نہ کہیں ہوگا، کیوں کہ ہم بھی اسی سسٹم کا حصہ ہیں اور یہ سسٹم حکومت، عوام، کرپشن اور اداروں کے سرکل سے چل رہا ہے۔
میں نے قربانی کے جانوروں کی قیمتوں کی بات کی، یقین جانیے یہ اس لیے مہنگے ہیں کہ ہر طرف کرپشن کا بازار گرم ہے، کسی سے کپڑا خریدو تو وہ مہنگے داموں دے گا، سلائی کرانے جاؤ وہ منہ مانگے دام وصول کرے گا، یعنی کوئی ایک فرد، ادارہ یا گروہ سسٹم میں نہیں ہے اگر یہی چیزیں سسٹم میں موجود ہوں تو نہ تو کبھی کوئی قربانی کے جانور مہنگے داموں خرید سکتا ہے اور نہ کبھی کوئی قصائی اضافی پیسے وصول کر سکتا ہے، نہ کوئی رمضان میں گھی، کھجوریں، بیسن وغیرہ مہنگا کر سکتا ہے اور نہ بچوں کے گارمنٹس کوئی مہنگا کر سکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ کرپشن کے سرکل کو توڑا جائے، اور یہ سرکل اسی وقت ٹوٹتا ہے جب آپ اس سرکل سے نکل جائیں، اسی طرح آپ کو دیکھ کر کوئی دوسرا بھی نکل جائے۔ لیکن اگر آپ خود ہی پہل نہیں کریں گے اور اس کرپٹ سسٹم میں اپنے آپ کو دھکیل دیں گے اور اس کا حصہ بن جائیں گے تو آپ بھی وہی لکیر کے فقیر ہوں گے۔
اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک ایسا آدمی جو ہمیشہ اعلیٰ نمبروں سے پاس ہوا ہو لیکن اگلی کلاس میں داخلے کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہو تو ایسے میں باپ نے سفارش ڈھونڈی یا رشوت دی اور داخلہ کرا دیا۔ اب جو تعلیم کا یہ دور شروع ہوا ہے جس سے شاندار عمارت وجود میں آنی ہے۔ اس کی بنیاد میں ایک اینٹ سفارش اور رشوت کی لگ گئی۔ اس اینٹ نے اب اپنا اثر دکھانا شروع کیا۔ تعلیم کے بعد ملازمت کے حصول کی باری آئی۔
تو اب کی بار بھی سفارش کی اینٹ اٹھا لی گئی۔ عملی زندگی کے دور کا سنگ بنیاد بھی اس اینٹ کی بدولت رکھ دیا۔ یا پھر رشوت دی۔ جب رشوت دے دی تو سوچا کہ یہ جو روپیہ میں نے دیا ہے۔ یہ واپس بھی تو لینا ہے۔ وہی پیسے کی دوڑ شروع ہوگئی۔ آخر وہ شخص حکومت کے ایک بڑے مرتبے پر جا پہنچا۔ اب ایسے شخص کا کیا وژن ہو گا جو خود کو ''کرپشن کے سرکل'' سے ہی نہ نکال سکا۔ اب تو وہ نئے آنے والوں سے بھی پیسوں کی ڈیمانڈ کرے گا،،، یعنی اس سسٹم نے ایک قابل شخص کو رشوت خور اور نہ جانے کیا کیا بنا دیا۔۔۔!!!
ہماری ''قربانی'' میں رزق حلال کا عنصر ہونا چاہیے، صرف جانور خرید کر دکھاؤے کے لیے اس کی ''بلی'' چڑھا دینے سے اللہ راضی نہیں ہوتا، اور نہ ضمیر ہی مطمئن ہوتا ہے۔
ہم سب نے مل کر اس ملک کے سسٹم کو ٹھیک کرنا ہے۔ 30ہزار روپے والا بھی اپنی تنخواہ کا آدھا حصہ ٹیکسوں کی ادائیگی کی صورت میں حکومت کو ریٹرن کرتا ہے اور ایک بڑا کاروباری شخص جو حقیقتاََ ٹیکس چور ہے وہ بھی اتنا ہی ٹیکس ادا کرتا ہے، چند ہزار افراد کے بجائے اس ملک میں سبھی ٹیکس چور ہیں۔ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کرپشن ایک ایسا مرض ہے جو چھوت کی طرح پھیلتا ہے اور معاشرے کو کھا جاتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس موذی مرض نے ہماری سماجی، سیاسی اور روحانی زندگی کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔
ہمارے حکمران کرپشن کے خلاف تقریریں تو کرتے ہیں لیکن اس کی وجوہات پر بات نہیں کرتے اور نہ ہی اپنی کرپشن کی بات کرتے ہیں۔ پاکستان میں احتساب کاکوئی نظام نہیں ہے اور نہ ہی یہاں چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام موجود ہے، اس کرپشن زدہ معاشرے میں اگر کوئی حقیقی معنوں میں پریشان ہے تو وہ ایمان دار آدمی ہے، ایسے میں دل چاہتا ہے کہ سسٹم میں تبدیلی ضروری ہے اور یہ سسٹم صرف خود احتسابی کے عمل اور ''کرپشن کے سرکل'' کو توڑنے ہی سے ٹھیک ہو سکتا ہے۔ ہمارے حکمران طبقات نے خود احتسابی کی مشق کرنی ہے لہذا لگتا یہی ہے کہ اس شفق پر نئے ستارے ہی جگمگائیں گے، بقول مرزا غالب
زمانہ عہد میں ہے اس کے محوآرائش
بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے