درست رہنمائی روشن مستقبل کی کنجی
اگر آج کسی بھی طالب علم سے پوچھا جائےکہ وہ تعلیم کیوں حاصل کررہا ہے؟ تو جواب ہوگا بہتر مستقبل اور شاندارکیریئر کے لیے۔
اگر آج کسی بھی طالب علم سے پوچھا جائے کہ وہ تعلیم کیوں حاصل کر رہا ہے؟ تو جواب ہوگا بہتر مستقبل اور شاندارکیریئر کے لیے۔
اگلا سوال اگر یہ ہو کہ وہ کس شعبے میں اپنا کیریئر بنانا چاہتا ہے تو شاید ہر طالب علم صحیح طور پر اس کا جواب نہ دے پائے۔
ہمارے ہاں اکثر تعلیمی اداروں میں تعلیم تو دی جاتی ہے لیکن سرکاری یا نجی طور پر ایسا کوئی انتظام و اہتمام نہیں ہے کہ نوجوانوں کو کیریئر کے انتخاب کے سلسلے میں صحیح اور بروقت رہنمائی فراہم کی جاسکے۔ اس کمی کے باعث نوجوانوں کی کثیر تعداد فارغ التحصیل ہونے کے بعد ڈگریاں ہاتھ میں لیے ملازمت اورکیریئر کی تلاش میں گھومتی رہتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری اور نجی طور پر ایسے سینٹر اور ادارے قائم کیے جائیں جہاں سے خواہش مند نوجوانوں کو کیریئر بلڈنگ کے سلسلے میں مکمل اور مسلسل رہنمائی مل سکے۔ بیرونی ممالک میں تو اس مقصد کے لیے باقاعدہ کیریئرگائیڈنس کلینکس قائم ہیں۔ کیریئر ڈاکٹر ملاقاتی، حضرات، ضرورت مند طلبا اور والدین کی بھرپور رہنمائی کرتے ہیں۔ امیدواروں کا ذہنی رجحان اور صلاحیتوں کو جانچنے کے لیے مختلف ٹیسٹ بھی کیے جاتے ہیں۔ ان ٹیسٹوں کی بنیاد پر ان کی Career Planning کی جاتی ہے Career Guidance کے فقدان کے باعث ہمارے یہاں بعض شعبوں میں افرادی قوت اورکھپت میں عدم توازن پیدا ہو رہا ہے۔
بے روزگاری اور غیر محفوظ مستقبل کا احساس نوجوانوں میں مایوسی کو جنم دے رہا ہے۔ صحیح وقت پر صحیح Career Planning اور کیریئر Counselling نہ ہونے کے باعث کیفیت یہ ہے کہ جس شعبے میں پہلے ہی بے روزگار ہیں اسی شعبے میں مزید نوجوان ڈگریاں لے کر آرہے ہیں ابھی تازہ مثال اس کی میں یہ دوں پچھلے اتوار ہمارا فارم ہاؤس پر پکنک منانے کا پروگرام بنا مگر میری بھانجی نہیں آئی پوچھا کہ بھئی! کیوں نہیں آئی تو پتہ چلا اتوار والے دن اس کو چھ آپریشن کرنے ہیں ابھی نئی نئی سرجن بنی ہے تو سینئر ڈاکٹر اتوار کو چھٹی کرتے ہیں، تو اس نے موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چھٹی کو چھوڑ کر آپریشن کرنا مناسب سمجھا اگر اس معزز پیشے کا یہ حال ہے تو باقی شعبوں کے کیا حالات ہوں گے جب کہ بعض شعبوں میں امیدوار کم اور اسامیاں زیادہ ہیں اگر نوجوانوں میں کر گزرنے کا جذبہ ہو تو راستے بہت ہیں۔
آپ ٹی وی کی مثال لے لیجیے کئی نامور ڈاکٹر ہوسٹنگ کر رہے ہیں یا ڈراموں میں آرہے ہیں۔ پچھلے دنوں خاندان کے کچھ بچوں سے ملاقات ہوئی پوچھا بھئی! انٹر کے بعد آپ کیا Subject لوگے تو کچھ نے کہا Media Science ۔ میں نے پوچھا تو اس میں ابھی آپ مجھ سے فیض احمد فیض کی غزل کے معنی اور تشریح کیوں پوچھ رہی تھیں اگر یہ Subject میڈیا سے متعلق ہے تو بچوں کو اس کے آگے کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں معلوم کہ آگے ان کا فیوچر کیا ہوگا۔
ہمارا سرمایہ نوجوان ہیں لیکن آج ان کی صلاحیتوں کو صحیح طور پر استعمال نہیں کیا جا رہا اور نہ ہی صحیح سمت میں ان کی رہنمائی کی جا رہی ہے بس ایک اندھی اور روایتی بھیڑ چال ہے جو جاری ہے۔ جس کی کوئی بھی منزل نہیں سوائے وقت اور سرمایہ کے زیاں کے کالجوں میں انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن کے پہلے سال میں داخلے کے وقت بلکہ یونیورسٹی میں بھی داخلوں کے وقت فارم بھرنے سے لے کر مضامین کے انتخاب تک کئی طلبا پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
صحیح اور بروقت رہنمائی نہ ملنے کے باعث جلد بازی میں بعض طلبا غلط مضامین کا انتخاب کرلیتے ہیں جو آگے چل کر ان کے لیے مزید پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔
ہمارے نوجوان بغیر پلاننگ اور رہنمائی کے دوسروں کی تقلید میں کسی بھی شعبے کا انتخاب کرلیتے ہیں۔
اگلا سوال اگر یہ ہو کہ وہ کس شعبے میں اپنا کیریئر بنانا چاہتا ہے تو شاید ہر طالب علم صحیح طور پر اس کا جواب نہ دے پائے۔
ہمارے ہاں اکثر تعلیمی اداروں میں تعلیم تو دی جاتی ہے لیکن سرکاری یا نجی طور پر ایسا کوئی انتظام و اہتمام نہیں ہے کہ نوجوانوں کو کیریئر کے انتخاب کے سلسلے میں صحیح اور بروقت رہنمائی فراہم کی جاسکے۔ اس کمی کے باعث نوجوانوں کی کثیر تعداد فارغ التحصیل ہونے کے بعد ڈگریاں ہاتھ میں لیے ملازمت اورکیریئر کی تلاش میں گھومتی رہتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری اور نجی طور پر ایسے سینٹر اور ادارے قائم کیے جائیں جہاں سے خواہش مند نوجوانوں کو کیریئر بلڈنگ کے سلسلے میں مکمل اور مسلسل رہنمائی مل سکے۔ بیرونی ممالک میں تو اس مقصد کے لیے باقاعدہ کیریئرگائیڈنس کلینکس قائم ہیں۔ کیریئر ڈاکٹر ملاقاتی، حضرات، ضرورت مند طلبا اور والدین کی بھرپور رہنمائی کرتے ہیں۔ امیدواروں کا ذہنی رجحان اور صلاحیتوں کو جانچنے کے لیے مختلف ٹیسٹ بھی کیے جاتے ہیں۔ ان ٹیسٹوں کی بنیاد پر ان کی Career Planning کی جاتی ہے Career Guidance کے فقدان کے باعث ہمارے یہاں بعض شعبوں میں افرادی قوت اورکھپت میں عدم توازن پیدا ہو رہا ہے۔
بے روزگاری اور غیر محفوظ مستقبل کا احساس نوجوانوں میں مایوسی کو جنم دے رہا ہے۔ صحیح وقت پر صحیح Career Planning اور کیریئر Counselling نہ ہونے کے باعث کیفیت یہ ہے کہ جس شعبے میں پہلے ہی بے روزگار ہیں اسی شعبے میں مزید نوجوان ڈگریاں لے کر آرہے ہیں ابھی تازہ مثال اس کی میں یہ دوں پچھلے اتوار ہمارا فارم ہاؤس پر پکنک منانے کا پروگرام بنا مگر میری بھانجی نہیں آئی پوچھا کہ بھئی! کیوں نہیں آئی تو پتہ چلا اتوار والے دن اس کو چھ آپریشن کرنے ہیں ابھی نئی نئی سرجن بنی ہے تو سینئر ڈاکٹر اتوار کو چھٹی کرتے ہیں، تو اس نے موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چھٹی کو چھوڑ کر آپریشن کرنا مناسب سمجھا اگر اس معزز پیشے کا یہ حال ہے تو باقی شعبوں کے کیا حالات ہوں گے جب کہ بعض شعبوں میں امیدوار کم اور اسامیاں زیادہ ہیں اگر نوجوانوں میں کر گزرنے کا جذبہ ہو تو راستے بہت ہیں۔
آپ ٹی وی کی مثال لے لیجیے کئی نامور ڈاکٹر ہوسٹنگ کر رہے ہیں یا ڈراموں میں آرہے ہیں۔ پچھلے دنوں خاندان کے کچھ بچوں سے ملاقات ہوئی پوچھا بھئی! انٹر کے بعد آپ کیا Subject لوگے تو کچھ نے کہا Media Science ۔ میں نے پوچھا تو اس میں ابھی آپ مجھ سے فیض احمد فیض کی غزل کے معنی اور تشریح کیوں پوچھ رہی تھیں اگر یہ Subject میڈیا سے متعلق ہے تو بچوں کو اس کے آگے کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں معلوم کہ آگے ان کا فیوچر کیا ہوگا۔
ہمارا سرمایہ نوجوان ہیں لیکن آج ان کی صلاحیتوں کو صحیح طور پر استعمال نہیں کیا جا رہا اور نہ ہی صحیح سمت میں ان کی رہنمائی کی جا رہی ہے بس ایک اندھی اور روایتی بھیڑ چال ہے جو جاری ہے۔ جس کی کوئی بھی منزل نہیں سوائے وقت اور سرمایہ کے زیاں کے کالجوں میں انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن کے پہلے سال میں داخلے کے وقت بلکہ یونیورسٹی میں بھی داخلوں کے وقت فارم بھرنے سے لے کر مضامین کے انتخاب تک کئی طلبا پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
صحیح اور بروقت رہنمائی نہ ملنے کے باعث جلد بازی میں بعض طلبا غلط مضامین کا انتخاب کرلیتے ہیں جو آگے چل کر ان کے لیے مزید پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔
ہمارے نوجوان بغیر پلاننگ اور رہنمائی کے دوسروں کی تقلید میں کسی بھی شعبے کا انتخاب کرلیتے ہیں۔