گرم ہوتا ہوا سیاسی ماحول
اُدھر پاکستان پیپلز پارٹی بھی شکست و ریخت کے مراحل سے خود کو باہر نکالنے کی جستجو میں سرگرداں ہے
جوں جوں لاہور اور لودھراں کے ضمنی اور سندھ و پنجاب میں بلدیاتی الیکشن قریب آتے جا رہے ہیں ملک کے اندر سیاسی ماحول گرم ہوتا جا رہا ہے۔ اُدھر گیلپ پاکستان اور پلس کنسلٹنٹ کے حالیہ سروے نے جس میں لاہور کے حلقہ 122 اور 125 میں مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن قدرے مضبوط دکھائی گئی ہے نے خان صاحب کو کچھ زیادہ ہی مضطرب اور بے چین کر دیا ہے۔
اُنہیں خطرہ نظر آ رہا ہے کہ اگر اِن میں سے کسی بھی حلقے میں اُن کی پارٹی کو شکست ہوتی ہے تو گزشتہ سال سے اُٹھائے جانے والے اُن کے دھاندلی والے موقف کو بڑا دھچکا پہنچے گا اور جو اُن کے لیے عوام کے سامنے خجالت اور شرمندگی کا باعث بنے گا۔ لہذا وہ اِس معرکے کو ہر حال اور ہر قیمت میں جیتنا چاہتے ہیں اور جس کے لیے وہ بذاتِ خود انتخابی مہم چلانے پر بضد اور مصر ہیں۔ حلقہ 122 میں اُن کی جانب سے جس اُمیدوار کو نامزد کیا گیا ہے اُس کی دیانتداری اور ایمانداری پر خود اُن کی پارٹی کے اندر بھی مختلف آراء موجود ہیں۔
علیم خان کو پارٹی کے سب سے معزز رکن جسٹس وجیہہ الدین صاحب نے بھی تحریکِ انصاف کی داخلی انتخابات میں مبینہ بدعنوانیوں کے سبب کارروائی کرنے کا حکم صادر کیا تھا، جسے خان صاحب نے یکسر مسترد اور نظر انداز کر کے اُنہیں حلقہ 122 میں نامزد کر کے اُن پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار کر دیا ہے۔ اب اِن حالات میں جسٹس وجیہہ الدین جیسے باکردار اور اُصول پسند شخص کے لیے اپنے فیصلے سے واپس ہونا یقینا ناممکن اور مشکل معلوم ہوتا ہے۔
وہ اگر جوں کا توں پارٹی میں رہتے ہوئے خان صاحب کی مرضی و منشاء کے آگے سرینڈر کر جاتے ہیں تو یہ اُن کی اعلیٰ و ارفع شخصیت کی توہین کے مترادف ہو گا یا پھر وہ اعلانِ بغاوت بلند کر کے خود کو مخدوم جاوید ہاشمی کی صف میں کھڑا کر کے باغی کہلوانا پسند کرتے ہیں یہ اُن کی اگلی حکمتِ عملی پر منحصر ہے۔ فی الحال وہ حلقہ 122 کے انتخابی معرکے کے نتائج تک خاموشی ہی اختیار کرنے کو ترجیح دیے ہوئے ہیں۔ اگر علیم خان جیت جاتے ہیں تو وہ شاید اِسی خاموشی پر اکتفا کرتے ہوئے خان صاحب سے سمجھوتہ کر لیں گے بصورتِ دیگر اِس رہنما کی شکست پر وہ اپنے اُصولی موقف پرمزید کھل کر رائے دینے کی پوزیشن میں ہونگے۔
خان صاحب الیکشن کمیشن کے اِس نوٹیفیکشن پر جس میں ممبرانِ پارلیمنٹ پر انتخابی مہم چلانے پر پابندی لگا دی گئی ہے اِس لیے برہم ہیں کیونکہ یہ اُن کی ساری سیاسی مہم جوئی کی زندگی اور موت کا معاملہ بن گیا ہے۔ الیکشن2013ء میں ہونے والی انتظامی خامیوں اور غلطیوں کو جسے وہ دھاندلی کا نام دیتے ہیں صرف اِسی حلقے میں جیت کر ہی یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ وہ درست اور صحیح کہتے تھے ورنہ ہار جانے کی صورت میں مسلم لیگ (ن) کے موقف کو مزید تقویت ملے گی اور خان صاحب کے لیے اگلے دو تین برس سیاست کرنا مشکل ہو جائے گا۔
وہ جس جارحانہ اور محاذ آرائی کی سیاست پر عمل پیرا ہیں اِس حلقے میں جیت کر ہی وہ اِسے مزید آگے بڑھا پائیں گے اور شاید اِ سی مقصد کے حصول کے لیے وہ الیکشن کمیشن پر دو طرف سے حملہ آور ہونے جا رہے ہیں۔ ایک اُس نوٹیفکیشن کے خلاف ورزی کرتے ہوئے ہر قیمت پر علیم خان کے لیے انتخابی مہم چلا کر اور دوسرا الیکشن کمیشن کے ممبران کے استعفیٰ کے لیے 4 اکتوبر کو اسلام آباد میں ایک زبر دست جلسہ کر کے اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کرنا ہے۔
اگلے لائحہ عمل کو ابھی تک اِس لیے افشاء نہیں کیا گیا ہے کیونکہ وہ خود سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے ممبران کا استعفیٰ کا مطالبہ اُسی طرح غیر آئینی اور غیرقانونی ہے جس طرح وہ دھرنے والے دنوں میں وزیرِ اعظم کے استعفیٰ کے مطالبے کو اپنا جمہوری حق سمجھ بیٹھے تھے۔
اِن ممبران کے استعفے کے لیے ہمارے دستور میں مکمل طریقہ کار درج ہے جس سے ہٹ کر کوئی بھی طریقہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہی کہلائے گا۔ اب وہ 4 اکتوبر کو لاہور میں اپنی سیاسی پوزیشن دیکھ کر ہی کوئی فیصلہ کر پائیں گے کہ اُنہیں اِن ممبران کے استعفے کا بہانہ کر کے ضمنی انتخابات سمیت صوبہ سندھ اور پنجاب میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن سے فرار اختیار کرنا ہے یا پھر اِن ہی ممبران کے رہتے ہوئے عوامی عدالت میں جا کر اپنی مقبولیت کا اندازہ لگانا ہے۔
اُدھر پاکستان پیپلز پارٹی بھی شکست و ریخت کے مراحل سے خود کو باہر نکالنے کی جستجو میں سرگرداں ہے۔ اُسے ایک طرف عوام کی جانب سے انتہائی بے رخی اور عدم پذیرائی کا سامنا ہے اور دوسری جانب اپنے سابقہ کرتوتوں کی وجہ سے احتسابی گرفت کا ڈر اور خوف۔ ابھی تو اُس کی چند چھوٹے چھوٹے کارندوں پر ضربِ عضب کی ہلکی سی چوٹ پڑی ہے اور انتہائی بد حواسی اور پریشانی کے عالم میں اُس کے رہنما کبھی ملک کے معتبر اداروں کو اپنی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں اور کبھی حکومت ِ وقت کو دھمکا اور للکار رہے ہوتے ہیں۔
اُنہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اُن کا ووٹر اُن سے مایوس اور نااُمید ہو کر تحریکِ انصاف کی طرف متوجہ ہو چکا ہے لیکن وہ پھر بھی مسلم لیگ (ن) ہی کو اپنا حریف اور دشمن قرار دیتے ہوئے اُس کے خلاف صف آرا ہونے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ ویسے تو اُن کی اولین کوشش یہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اگلے بلدیاتی انتخابات سے فرار اختیار کیا جائے کیونکہ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات نوشتہ دیوار بن کر اُنہیں اِس معرکے میں اُترنے سے ہراساں کیے ہوئے ہے اور وہ شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ آیا اِن انتخابات میں حصہ لیا جائے یا پھر تحریکِ انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر سیٹ ایڈجسمنٹ کی جائے۔
تنِ تنہا تو وہ اپنی ساکھ بہتر بنانے کی پوزیشن میں قطعا ًنہیں ہیں۔ اِس مقصد کے لیے گرچہ وہ تحریک ِ انصاف سے ڈیل کرنے کا سوچ بچار کر رہی ہے مگر خان صاحب کے لیے یہ بہت مشکل ہو گا کہ وہ ایک ایسی پارٹی سے انتخابی سمجھوتہ اور مک مکا کر لیں جسے وہ کرپشن اور مالی بد عنوانی اور نون لیگ کے ساتھ مک مکا کا الزام دیکر اپنی ساری سیاست چمکاتے رہے ہیں۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) تمام کٹھن اور مشکل حالات کے باوجود اپنے اقتدار کے تقریباً ڈھائی سال گزار لینے کے بعد بھی اپنی سابقہ پوزیشن برقرار رکھے ہوئے ہے۔ دراصل خان صاحب کی سیاست جس میں وہ صرف میاں صاحب ہی کو اپنی تنقید کا نشانہ بنارہے ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت مستحکم کرنے کا سبب بنتی رہی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ملک میں اب صرف دو ہی سیاسی قوتیں موجود ہیں ایک مسلم لیگ (ن) اور ایک اُس کی مخالف قوت۔ اب اِس مخالف گروہ میں کون کون شامل ہوتا ہے اور اُن کا ووٹ بینک کیا کیا گل کھلاتا ہے یہ آنے والے دنوں میں معلوم ہو جائے گا لیکن فی الحال زمینی حقائق اِس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ تحریکِ انصاف اپنے ایک کمزور اُمیدوار کی وجہ سے حلقہ 122 میں شدید مشکلات سے دوچار ہے اور خان صاحب اِس صورتِ حال سے انتہائی مضطرب اور پریشان ہیں۔
اُن کا بس نہیں چل رہا کہ وہ با نفسِ نفیس خود میدان میں اتر کر ساری انتخابی مہم اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی وہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کی کھلم کھلا خلاف ورزی کا عندیہ دیتے ہیں تو کبھی مسلم لیگ کی پری پول دھاندلی کا شور مچا کر قبل از وقت ہی اپنی شکست کا اعتراف کر رہے ہوتے ہیں۔ سیاسی ماحول میں تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی گرما گرمی خطرناک حالات کی نشاندہی کر رہی ہے۔ یہ خطرناک حالات شاید پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف دونوں ہی کو سوٹ کرتے ہیں۔
تحریک انصاف تو شروع ہی سے اِس پالیسی پر عمل پیرا ہے کہ ملک میں کسی نہ کسی طرح ایسے حالا ت پیدا کر دیے جائیں کہ میاں صاحب حکومت کرنے کے قابل نہ رہیں اور وہ اپنی ڈیڑھ سالہ مہم جوئی میں سرخرو ہو جائے، جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی عوام میں اپنی بڑھتی ہوئی ناقدری اور حالیہ احتسابی عمل سے بچنے کے لیے کسی بھی ایسے ابتر حالات کی یقینا خواہش مند ہو گی ۔
جس میں افراتفری اور عدم استحکام کی وجہ سے مجوزہ بلدیاتی الیکشن ممکن نہ ہو پائیں اور وہ موجودہ کشمکش اور اضطرابی کیفیت سے باہر نکل کر خود کو مظلوم اور بے گناہ ثابت کرتی پھرے۔ دونوں فریق اپنی اِن خواہشات کے سبب ایک دوسرے سے ذہنی طور پر مکمل ہم آہنگ اور ہم سخن ہیں لیکن بس دیکھنا یہ ہے کہ آیندہ آنے والے حالات اُن کی خواہشوں کو قالب میں ڈھالنے کا سبب بنتے ہیں بھی یا نہیں یا پھر کسی غیبی سمت سے آنیوالی کوئی شٹ اپ کال اُن کے سارے ارمانوں کا خون کر کے رکھ دے گی۔
اُنہیں خطرہ نظر آ رہا ہے کہ اگر اِن میں سے کسی بھی حلقے میں اُن کی پارٹی کو شکست ہوتی ہے تو گزشتہ سال سے اُٹھائے جانے والے اُن کے دھاندلی والے موقف کو بڑا دھچکا پہنچے گا اور جو اُن کے لیے عوام کے سامنے خجالت اور شرمندگی کا باعث بنے گا۔ لہذا وہ اِس معرکے کو ہر حال اور ہر قیمت میں جیتنا چاہتے ہیں اور جس کے لیے وہ بذاتِ خود انتخابی مہم چلانے پر بضد اور مصر ہیں۔ حلقہ 122 میں اُن کی جانب سے جس اُمیدوار کو نامزد کیا گیا ہے اُس کی دیانتداری اور ایمانداری پر خود اُن کی پارٹی کے اندر بھی مختلف آراء موجود ہیں۔
علیم خان کو پارٹی کے سب سے معزز رکن جسٹس وجیہہ الدین صاحب نے بھی تحریکِ انصاف کی داخلی انتخابات میں مبینہ بدعنوانیوں کے سبب کارروائی کرنے کا حکم صادر کیا تھا، جسے خان صاحب نے یکسر مسترد اور نظر انداز کر کے اُنہیں حلقہ 122 میں نامزد کر کے اُن پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار کر دیا ہے۔ اب اِن حالات میں جسٹس وجیہہ الدین جیسے باکردار اور اُصول پسند شخص کے لیے اپنے فیصلے سے واپس ہونا یقینا ناممکن اور مشکل معلوم ہوتا ہے۔
وہ اگر جوں کا توں پارٹی میں رہتے ہوئے خان صاحب کی مرضی و منشاء کے آگے سرینڈر کر جاتے ہیں تو یہ اُن کی اعلیٰ و ارفع شخصیت کی توہین کے مترادف ہو گا یا پھر وہ اعلانِ بغاوت بلند کر کے خود کو مخدوم جاوید ہاشمی کی صف میں کھڑا کر کے باغی کہلوانا پسند کرتے ہیں یہ اُن کی اگلی حکمتِ عملی پر منحصر ہے۔ فی الحال وہ حلقہ 122 کے انتخابی معرکے کے نتائج تک خاموشی ہی اختیار کرنے کو ترجیح دیے ہوئے ہیں۔ اگر علیم خان جیت جاتے ہیں تو وہ شاید اِسی خاموشی پر اکتفا کرتے ہوئے خان صاحب سے سمجھوتہ کر لیں گے بصورتِ دیگر اِس رہنما کی شکست پر وہ اپنے اُصولی موقف پرمزید کھل کر رائے دینے کی پوزیشن میں ہونگے۔
خان صاحب الیکشن کمیشن کے اِس نوٹیفیکشن پر جس میں ممبرانِ پارلیمنٹ پر انتخابی مہم چلانے پر پابندی لگا دی گئی ہے اِس لیے برہم ہیں کیونکہ یہ اُن کی ساری سیاسی مہم جوئی کی زندگی اور موت کا معاملہ بن گیا ہے۔ الیکشن2013ء میں ہونے والی انتظامی خامیوں اور غلطیوں کو جسے وہ دھاندلی کا نام دیتے ہیں صرف اِسی حلقے میں جیت کر ہی یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ وہ درست اور صحیح کہتے تھے ورنہ ہار جانے کی صورت میں مسلم لیگ (ن) کے موقف کو مزید تقویت ملے گی اور خان صاحب کے لیے اگلے دو تین برس سیاست کرنا مشکل ہو جائے گا۔
وہ جس جارحانہ اور محاذ آرائی کی سیاست پر عمل پیرا ہیں اِس حلقے میں جیت کر ہی وہ اِسے مزید آگے بڑھا پائیں گے اور شاید اِ سی مقصد کے حصول کے لیے وہ الیکشن کمیشن پر دو طرف سے حملہ آور ہونے جا رہے ہیں۔ ایک اُس نوٹیفکیشن کے خلاف ورزی کرتے ہوئے ہر قیمت پر علیم خان کے لیے انتخابی مہم چلا کر اور دوسرا الیکشن کمیشن کے ممبران کے استعفیٰ کے لیے 4 اکتوبر کو اسلام آباد میں ایک زبر دست جلسہ کر کے اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کرنا ہے۔
اگلے لائحہ عمل کو ابھی تک اِس لیے افشاء نہیں کیا گیا ہے کیونکہ وہ خود سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے ممبران کا استعفیٰ کا مطالبہ اُسی طرح غیر آئینی اور غیرقانونی ہے جس طرح وہ دھرنے والے دنوں میں وزیرِ اعظم کے استعفیٰ کے مطالبے کو اپنا جمہوری حق سمجھ بیٹھے تھے۔
اِن ممبران کے استعفے کے لیے ہمارے دستور میں مکمل طریقہ کار درج ہے جس سے ہٹ کر کوئی بھی طریقہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہی کہلائے گا۔ اب وہ 4 اکتوبر کو لاہور میں اپنی سیاسی پوزیشن دیکھ کر ہی کوئی فیصلہ کر پائیں گے کہ اُنہیں اِن ممبران کے استعفے کا بہانہ کر کے ضمنی انتخابات سمیت صوبہ سندھ اور پنجاب میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن سے فرار اختیار کرنا ہے یا پھر اِن ہی ممبران کے رہتے ہوئے عوامی عدالت میں جا کر اپنی مقبولیت کا اندازہ لگانا ہے۔
اُدھر پاکستان پیپلز پارٹی بھی شکست و ریخت کے مراحل سے خود کو باہر نکالنے کی جستجو میں سرگرداں ہے۔ اُسے ایک طرف عوام کی جانب سے انتہائی بے رخی اور عدم پذیرائی کا سامنا ہے اور دوسری جانب اپنے سابقہ کرتوتوں کی وجہ سے احتسابی گرفت کا ڈر اور خوف۔ ابھی تو اُس کی چند چھوٹے چھوٹے کارندوں پر ضربِ عضب کی ہلکی سی چوٹ پڑی ہے اور انتہائی بد حواسی اور پریشانی کے عالم میں اُس کے رہنما کبھی ملک کے معتبر اداروں کو اپنی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں اور کبھی حکومت ِ وقت کو دھمکا اور للکار رہے ہوتے ہیں۔
اُنہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اُن کا ووٹر اُن سے مایوس اور نااُمید ہو کر تحریکِ انصاف کی طرف متوجہ ہو چکا ہے لیکن وہ پھر بھی مسلم لیگ (ن) ہی کو اپنا حریف اور دشمن قرار دیتے ہوئے اُس کے خلاف صف آرا ہونے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ ویسے تو اُن کی اولین کوشش یہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اگلے بلدیاتی انتخابات سے فرار اختیار کیا جائے کیونکہ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات نوشتہ دیوار بن کر اُنہیں اِس معرکے میں اُترنے سے ہراساں کیے ہوئے ہے اور وہ شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ آیا اِن انتخابات میں حصہ لیا جائے یا پھر تحریکِ انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر سیٹ ایڈجسمنٹ کی جائے۔
تنِ تنہا تو وہ اپنی ساکھ بہتر بنانے کی پوزیشن میں قطعا ًنہیں ہیں۔ اِس مقصد کے لیے گرچہ وہ تحریک ِ انصاف سے ڈیل کرنے کا سوچ بچار کر رہی ہے مگر خان صاحب کے لیے یہ بہت مشکل ہو گا کہ وہ ایک ایسی پارٹی سے انتخابی سمجھوتہ اور مک مکا کر لیں جسے وہ کرپشن اور مالی بد عنوانی اور نون لیگ کے ساتھ مک مکا کا الزام دیکر اپنی ساری سیاست چمکاتے رہے ہیں۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) تمام کٹھن اور مشکل حالات کے باوجود اپنے اقتدار کے تقریباً ڈھائی سال گزار لینے کے بعد بھی اپنی سابقہ پوزیشن برقرار رکھے ہوئے ہے۔ دراصل خان صاحب کی سیاست جس میں وہ صرف میاں صاحب ہی کو اپنی تنقید کا نشانہ بنارہے ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت مستحکم کرنے کا سبب بنتی رہی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ملک میں اب صرف دو ہی سیاسی قوتیں موجود ہیں ایک مسلم لیگ (ن) اور ایک اُس کی مخالف قوت۔ اب اِس مخالف گروہ میں کون کون شامل ہوتا ہے اور اُن کا ووٹ بینک کیا کیا گل کھلاتا ہے یہ آنے والے دنوں میں معلوم ہو جائے گا لیکن فی الحال زمینی حقائق اِس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ تحریکِ انصاف اپنے ایک کمزور اُمیدوار کی وجہ سے حلقہ 122 میں شدید مشکلات سے دوچار ہے اور خان صاحب اِس صورتِ حال سے انتہائی مضطرب اور پریشان ہیں۔
اُن کا بس نہیں چل رہا کہ وہ با نفسِ نفیس خود میدان میں اتر کر ساری انتخابی مہم اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی وہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کی کھلم کھلا خلاف ورزی کا عندیہ دیتے ہیں تو کبھی مسلم لیگ کی پری پول دھاندلی کا شور مچا کر قبل از وقت ہی اپنی شکست کا اعتراف کر رہے ہوتے ہیں۔ سیاسی ماحول میں تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی گرما گرمی خطرناک حالات کی نشاندہی کر رہی ہے۔ یہ خطرناک حالات شاید پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف دونوں ہی کو سوٹ کرتے ہیں۔
تحریک انصاف تو شروع ہی سے اِس پالیسی پر عمل پیرا ہے کہ ملک میں کسی نہ کسی طرح ایسے حالا ت پیدا کر دیے جائیں کہ میاں صاحب حکومت کرنے کے قابل نہ رہیں اور وہ اپنی ڈیڑھ سالہ مہم جوئی میں سرخرو ہو جائے، جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی عوام میں اپنی بڑھتی ہوئی ناقدری اور حالیہ احتسابی عمل سے بچنے کے لیے کسی بھی ایسے ابتر حالات کی یقینا خواہش مند ہو گی ۔
جس میں افراتفری اور عدم استحکام کی وجہ سے مجوزہ بلدیاتی الیکشن ممکن نہ ہو پائیں اور وہ موجودہ کشمکش اور اضطرابی کیفیت سے باہر نکل کر خود کو مظلوم اور بے گناہ ثابت کرتی پھرے۔ دونوں فریق اپنی اِن خواہشات کے سبب ایک دوسرے سے ذہنی طور پر مکمل ہم آہنگ اور ہم سخن ہیں لیکن بس دیکھنا یہ ہے کہ آیندہ آنے والے حالات اُن کی خواہشوں کو قالب میں ڈھالنے کا سبب بنتے ہیں بھی یا نہیں یا پھر کسی غیبی سمت سے آنیوالی کوئی شٹ اپ کال اُن کے سارے ارمانوں کا خون کر کے رکھ دے گی۔