جھانکنے کی غلطی مت کرنا
عبادت گاہیں معصوم انسانوں کے خون سے رنگی جا رہی ہیں تو دیکھنے والے کو ماضی کا اسکاٹ لینڈ یاد آ جاتاہے
امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا یا یورپ کے کسی بھی ملک کا خوشحال، آزاد، بااختیار، خود مختار، شہری ازرائے شوق پاکستان کے اندر جھانکنے کی غلطی کر بیٹھے تو وہ یہ منظر دیکھ کر دہشت زدہ اور خوف زدہ ہو جائے گا کہ 20 کروڑ لٹے پٹے، بھوکے پیاسے، نڈھال، بدحال، پھٹے کپڑوں میں ملبوس ٹوٹی چپلیں پہنے انسان ایک کونے میں کھڑے خو ف سے کانپ رہے ہیں اور ان کے چارو ں طرف چند سو لالچی، کرپٹ، خود غرض، بے حس، راشی لٹیرے کھڑے زور زور سے قہقہے لگا رہے ہیں۔
جب ان کے قہقہے ختم ہو جاتے ہیں تو پھر وہ سب کے سب پلاٹ، پرمٹ، عہدوں، کمیشن ہیرے جواہرات اور قبضوں کے لیے ایک دوسرے سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کو نو چنا شروع کر دیتے ہیں ایک دوسرے کو کچلنا شروع کر دیتے ہیں ایک دوسرے کو روندنا شروع کر دیتے ہیں اور جب وہ لڑ لڑ کر ہانپنے لگتے ہیں اور زخمی ہو جاتے ہیں تو پھر واپس دوبارہ سے 20 کروڑ معصوم انسانوں کے گرد جمع ہو کر زور زور سے قہقہے لگا نا شروع کر دیتے ہیں اور ان کا یہ عمل مسلسل اسی طرح جاری رہتا ہے۔
جب وہ دوسری جانب دیکھتا ہے تو اس سے زیادہ دہشت ناک اور خو فناک منظر اس کا منتظر ہو تا ہے کہ بنیاد پرست، رجعت پر ست، انتہا پسند ڈرا دھمکا کر معصوم لوگوں سے اپنے عقائد منوانے کی کوشش کر رہے ہیں و ہ معصوم لوگوں کے ذہنوں اور فراست پر تالے ڈال کر مذہبیت کے بہانے اپنے بدترین اغراض نفسانی پورا کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں کفر و الحاد کے فتوے صادر کیے جا رہے ہیں، وحشیانہ سزائیں دی جا رہی ہیں، معصوم بچوں کو بموں سے اڑایا جا رہا ہے۔
عبادت گاہیں معصوم انسانوں کے خون سے رنگی جا رہی ہیں تو دیکھنے والے کو ماضی کا اسکاٹ لینڈ یاد آ جاتاہے وہاں بھی مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں خدا کو ماننے والی تمام آبادی کو ان ہی ظالم لوگوں کا غلام بن کے رہنا پڑا تھا پادری ہر خاندان میں گھس جاتے تھے اور خوف و واہمہ پرستی پھیلا پھیلا کر لوگوں کی عقلیں سلب کر لیا کرتے تھے وہ اپنی ہدایات کو الہام ربانی کہتے تھے اور ان سے انحراف کر نے والے عذاب خداوندی کا مستوجب قرار دیتے تھے۔
اسے اس کے ساتھ ہی انگلستان بھی یاد آ جاتا ہے جہاں مذہبی انتہاپسندوں نے جو گل کھلائے وہ بھی کسی سے مخفی نہیں، اس زمانے کے قانون اور اس زمانے کے اوہام و تعصبات اس قدر سخت تھے کہ خدا کی پنا ہ پادری خدا کے بیٹے بنے ہوئے آسمان و زمین کی ملکیت کا دعویٰ کر رہے تھے، جنت و دوزخ کی کنجیاں ہر وقت ان کے ہاتھ میں ہوتی تھیں اور جس کو جہاں جی چاہتا تھا دھکیل دیتے تھے نہ ان کے دلوں میں رحم تھا نہ آنکھوں میں مروت چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر دین سے خارج کر دینا کوڑے لگوانا اور قید و بند میں ڈال دینا معمولی بات تھی ہزاروں سولیاں ہر وقت خون سے تر رہتی تھیں۔
بے شمار تلواریں انسانی سینے میں پیو ست اور قید خانے کھچا کھچ بھر ے رہتے تھے، سیکڑوں انسان دہکتی ہوئی آگ کے اندر پڑے ہو ئے تڑپا کر تے تھے، کوئی ظلم ایسا نہ تھا جو خدا کے نا م پر روا نہ رکھا گیا ہو اور کوئی جرم ایسا نہ تھا جس کا ارتکاب مذہب کے پردے میں نہ ہوتا ہو اور جب دیکھنے والا اور تاریک ماضی کی طرف نظریں دوڑاتا ہے تو اس کا ریشہ ریشہ کانپ اٹھتا ہے سب سے پہلے اسے وہ تاریک و تنگ غار نظر آتے ہیں جہاں مقدس اژدھے کنڈلیاں مارے ہوئے قر بانیوں کا انتظار کر رہے ہیں۔
ان کے جبڑے کھلے ہوئے ہیں، ان کی زبانیں باہر نکلی ہوئی ہیں آنکھیں چمک رہی ہیں اور زہریلے دانت خون آلود ہیں۔ جاہل ماں باپ اپنے معصوم بچوں کو اس دیوتا کے حضور پیش کر رہے ہیں وہ ان چیختے تڑپتے ہوئے بچوں کو اپنے بل میں لپیٹ کر پیس ڈال رہا ہے اور بے رحم والدین اپنے اس ہدیے کے قبول ہونے پر خوش خوش واپس جا رہے ہیں اس کے بعد اسے وہ عبادت گاہیں نظر آتی ہیں جن کو بڑے بڑے پتھروں سے تیار کیا گیا ہے یہاں کی قربان گاہیں بھی خون سے رنگین ہیں اور مقدس پجاریوں کے خنجر معصوم لڑکیوں کے سینوں میں پیوست نظر آتے ہیں اور جب دیکھنے والا واپس حال کی طرف لوٹتا ہے تو وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ صدیوں بعد بھی وہی سب کچھ آج پاکستان میں ہو رہا ہے۔
لگتا ہے کہ پاکستان کی زمین پر وقت صدیوں سے ٹہرا اور رکا پڑا ہے پوری دنیا تبدیل ہو چکی ہے نجانے کتنا آگے نکل گئی ہے انسان یکسر تبدیل ہو چکا ہے لیکن آج بھی پاکستان وہیں کھڑا ہے جہاں صدیوں پہلے دنیا کھڑی ہوئی تھی۔
آیے ذرا ہم سب مل کر امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا یا کسی بھی یورپ کے ملک میں جھانک کر دیکھتے ہیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے جب ہم جھانکنا شروع کریں گے تو ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی کہ وہاں ہر شخص آزاد، خوشحال اور اپنی زندگی میں خوش و خرم ہے اور خدا کی دی گئی تمام نعمتوں سے بھرپور لطف اندوز ہو رہا ہے۔
ہر شخص اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق روزگار پر لگا ہوا ہے نہ اسے تعلیم و صحت یا روزگار کی کوئی فکر ہے نہ اسے پانی، گیس، بجلی یا گندگی کا کوئی مسئلہ لاحق ہے نہ اسے مذہبی انتہا پسندوں، دہشت گردوں، خود کش حملوں کا سامنا اور نہ ہی اسے پادریوں کی من مانی کا سامنا ہے ان کا سماج ہر قسم کے دباؤ، خوف، گھٹن اور حبس سے پاک ہے نہ وہاں سولیاں ہیں نہ قید خانے نہ جہنم کے اژدھے نہ فرشتوں کے کو ڑے بلکہ وہاں عقل کا راج اور مذہب کی مکمل آزادی ہے۔
ایک ایسی دنیا ہے جہاں سوائے صداقت کے کسی چیز کا گزر نہیں اور نہ ہی انھیں کرپٹ، راشی لوگوں کا سامنا ہے بلکہ وہاں زندگی اور حکومت کے ہر معاملے میں مکمل شفافیت ہے۔ جب ہم جھانک چکے ہونگے تو ہم پر یہ المناک انکشاف ہو چکا ہو گا کہ ہم چیزوں کے حساب سے تو آج میں رہتے ہیں لیکن فکر، سو چ، نظریے، عقیدے اور عمل کے حساب سے صدیوں پہلے کل میں رہتے ہیں جب کہ، امریکا، برطانیہ، آسڑیلیا اور یورپ کے لوگ چیزوں، فکر، سوچ، نظریے، عقیدے اور عمل کے حساب سے آج ہی میں رہتے ہیں۔