ایک نئی مزاحمت کو طاقت دینی ہو گی

ہمیں اچھے کو اچھا اور برے کو برا کہنے کے رجحان کو قومی سیاست کا محور بنانا ہو گا

ہمیں اچھے کو اچھا اور برے کو برا کہنے کے رجحان کو قومی سیاست کا محور بنانا ہو گا۔

پاکستان میں حکمرانی کے بحران کو جدید خطوط پر حل کرنے، شفافیت اور جوابدہی سمیت وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے ہمیں قومی سطح پر ایک نئی مزاحمت کی ضرورت ہے۔ یہ مزاحمت محض جذباتی بنیادوں یا انتشار سمیت پرتشدد عمل کی صورت میں نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ہمیں ایک پرامن جدوجہد کو نئے سرے سے منظم کرنا ہو گا۔

کیونکہ پاکستان کا موجودہ طرز حکمرانی کا ماڈل بدبودار اور اپنی افادیت کھو چکا ہے۔یہ نظام مخصوص طاقتور گروہوں کے مفادات کو تقویت دے کر عام اور کمزور آدمی کا سب سے زیادہ معاشی اور سیاسی استحصال کرتا ہے۔ یہ نظام جو جمہوری کہلواتا ہے اسے ایک پرائیویٹ کمپنی کے طور پر چلایا جا رہا ہے جس کی بنیاد عوامی فلاح و بہبود نہیں محض منافع کمانا ہے۔

بنیادی طور پر عام آدمی کے سامنے چند بڑے مسائل توجہ طلب ہوتے ہیں۔ ان میں معاشی خوشحالی، انصاف ، تعلیم ، صحت ، سیکیورٹی ، روزگار ، سازگار ماحول ، ترقی کے مواقع سمیت روزمرہ کے بنیادی نوعیت کے مسائل سرفہرست ہوتے ہیں۔ لوگوں کی کسی بھی طرح کے نظاموں سے محبت، لگن، شوق اور کمٹمنٹ سمیت اس کو قبول کرنے کی وجہ بھی ان ہی بنیادی مسائل کے حل کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ کیونکہ ہمارا نظام بری طرز حکمرانی کی کئی سنگین شکلوں کو ظاہر کرتا ہے جو لوگوں میں ریاست ، حکومت اور اس کے بنائے گئے نظام پر عدم اعتماد کا منظر پیش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اس نظام اور اس کے ثمرات سے مطمئن کم اور غیر مطمئن زیادہ نظر آتے ہیں۔

عام لوگوں کو بالادست طبقات کے مقابلے میں زیادہ توقعات اپنی حکومت اور اس سے وابستہ انتظامی اداروں سے ہوتی ہے۔ جہاں حکومت اور اس کے ادارے فعال اور شفافیت پر یقین رکھتے ہونگے وہاں صورتحال لوگوں کے مفادات کے قریب ہوتی ہے۔ کمزور افراد کا سب سے بڑا انحصار ہی اداروں کی خود مختاری اور اس کی فعالیت پر ہوتا ہے۔ جہاں ادارے مضبوط نہ ہوں اور وہ حکمران سمیت بالادست قوتوں کے آلۂ کار بن جائیں تو وہاں لوگوں کا اور زیادہ استحصال ہوتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ جہاں طاقتور طبقات کا مقصد لوگوں کا استحصال کر کے اپنی مفاداتی سیاست کو آگے بڑھانا ہوتا ہے ، کیا ان کے خلاف کوئی مضبوط دیوار بنائی جا سکتی ہے۔ یقیناً اس کا جواب مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں۔ ایسا نظام جو جکڑا ہوا ہو اور وہ لوگوں کی آزادی اور حقوق کو سلب کرتا ہو وہاں مزاحمتی عمل کو طاقت دینا اور اس کے متحرک اور فعال کرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

ایک فکری مغالطہ یہ دیا جاتا ہے کہ انتخابات میں پانچ برس بعد آپ ووٹ کی مدد سے اپنی مرضی کا نظام لا سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک منصفانہ نظام میں ووٹ کا حق اپنی مرضی کی قیادت کو چننے کا حق دیتا ہے۔ لیکن ہمارے جیسے معاشروں میں جہاں ووٹ کا تقدس کمزور اور طاقتور قوتوں کا اپنا نظام مضبوط ہو وہاں محض ووٹ ڈالنا بھی ایک نمائشی عمل بن جاتا ہے۔ انتخابات کا تسلسل اہمیت کا حامل ہے اور اس سے خرابیوں کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

لیکن یہ منطق کہ ووٹ ڈالنے کے بعد اب آپ پانچ برس خاموش ہو کر گھر بیٹھ جائیں درست حکمت عملی نہیں۔ ووٹ ڈالنے کے بعد ہی جب حکومت تشکیل پاتی ہے تو ووٹر کا اصل امتحان شروع ہو جاتا ہے۔ یہ ووٹر کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ مختلف طور طریقوں سے منتخب قیادت کو اپنے اور مسائل کے ہونے کا احساس دلائے ، دباؤ ڈالے، ان کو ان کے جذباتی وعدے یاد دلائے ، ان کی حکمرانی کے طور طریقوں کی نگرانی کر کے خرابیوں پر آواز اٹھائے اور افراد کے مقابلے میں اداروں کی بالادستی کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ جمہوریت یقینا ایک خاص مدت کے لیے حکومت کو ایک مینڈیٹ دیتی ہے ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب وہ اپنی مدت تک کسی کو جوابدہ نہیں۔ لوگوں کو ان کی حکمرانی پر سوالات اٹھانے چاہیے اور اپنے تحفظات پیش کر کے عملی طور پر جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے عمل کو مضبوط کرنا چاہیے۔

سیاست کا ایک بنیادی اصول ہوتا ہے کہ وہ کسی اصول پر چلنے کے بجائے اپنے مخصوص مفادات کے تحت کام کرتی ہے۔ اس میں وہی طبقہ کامیاب ہوتا ہے جو اپنی دباؤ کی سیاست کی مدد سے اس نظام میں اپنے اور کمزور طبقات کے لیے بھی جگہ پیدا کرتا ہے۔ یہ جنگ کسی بھی صورت میں انفرادی محاذ پر زیادہ کامیابی سے نہیں جیتی جا سکتی۔


اس کے لیے اپنے سمیت دیگر لوگوں کو بھی منظم کر کے اپنی اجتماعی طاقت کو آگے بڑھانا ہو گا۔ یہ طاقت سیاسی اقربا پروری سے پاک ہونی چاہیے۔ ہمارے سیاسی اور سماجی کارکنوں سمیت معاشرے میں بہتر تبدیلی کے عناصر کو عملی طور پر شفاف سسٹم کی جنگ لڑنی ہے۔ یہ جنگ اس لیے اہم ہے کہ یہاں سسٹم کو ڈھال بنا کر طاقتور طبقات محض اپنی طاقت کی جنگ میں ہمیں بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔

پاکستان میں اچھی حکمرانی کی جنگ طبقاتی سیاست کے ساتھ جڑ گئی ہے۔ وہ عناصر جو معاشرے میں واقعی تبدیلی چاہتے ہیں وہ بھی طبقاتی سیاست کے ایجنڈے کو پس پشت ڈال چکے ہیں۔ ہمیں یہ سوال بنیادی طور پر دوبارہ اپنے قومی ایجنڈے اور سیاست کی بنیاد بنانا ہو گا کہ ہماری ریاست ، حکومت اور بالادست طبقات کن طبقات کی ترقی کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔

ہمیں جذباتی سیاست سے باہر نکل کر تلخ حقائق کو خود بھی سمجھنا ہو گا اور دوسروں کو بھی سمجھانا ہو گا کہ ہم ترقی اور خوشحالی کے نام پر کہاں جا رہے ہیں۔ ان جذباتی سیاست دانوں، قومی رہنماؤں اور دانشور طبقات کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنا ہو گا کہ وہ لوگوں کو محض جذباتی باتوں سے گمراہ نہ کریں۔ حقیقی معنوں میں یہ جذباتی گمراہی سے آگے جا کر لوگوں میں اور زیادہ مایوسی اور اہل سیاست پر جھوٹے ہونے کے الزام کو تقویت دیتی ہے۔

پاکستان میں عام آدمی ، عورت ، مزارع ، بچے، معذور افراد ، مزدور ، کسان اور بالخصوص دیہات اور شہروں میں رہنے والے وہ طبقات جو انتہائی کسمپرسی اور غربت کی حالت میں جی رہے ہیں، ان کی حالت زار سب سے بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان کا نوجوان طبقہ جن میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں تعلیمی ڈگریاں لے کر کھڑا ہے ، لیکن ان کا کوئی ہاتھ پکڑنے کو تیار نہیں۔ اگرچہ حکومتیں دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کی ترجیحات میں عام اور غریب طبقہ پیش پیش ہے۔ لیکن یہ محض دعوے ہیں ، حقائق کافی تلخ ہیں۔ ایسا معاشرہ جہاں حکمرانوں اور عام افراد کی ترجیحات میں واضح فرق ہو گا وہاں ایک مضبوط ریاست کا عمل بھی کمزور ہو گا۔ ایسی ریاست کو عمومی طور پر خسارے کی ریاست کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔

اس نظام جس سے ہم نالاں ہیں میں رہ کر بھی ایک جنگ لڑ سکتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں اپنے اندر کے تعصبات ، پسند و ناپسند ، شخصیت پرستی، مفاداتی سیاست اور اپنے آپ کو حکمران اور ریاست کی ہونے والی سیاست سے لاتعلقی کے عمل کو ختم کرنا ہو گا ۔ ہم سیاسی جماعتوں کے اندھے جیالے، متوالے اور پروانے بننے کے بجائے اپنی آنکھیں کھول کر سیاست، سیاسی جماعتوں، قیادتوں کے اندر موجود کھوکھلے پن کو سمجھیں کہ وہ ان کو سیاست اور جمہوریت کے نام پر کیسے بے وقوف بنا رہے ہیں۔

لوگوں کے بے وقوف بننے کا عمل محض سیاست دانوں تک محدود نہیں ، بلکہ بیوروکریسی بھی تبدیلی کے نام پر ہمارا استحصال کرتی رہی ہے۔ ہمیں ریاست، حکومت اور عوام کے درمیان تعلق یا سماجی معاہدے کے بنیادی سوالات کو اپنی فکر کی بنیاد بنانا ہو گا ۔

ہماری اشرافیہ اور سیاست میں موجود اچھی شہرت کے حامل لوگوں کو ایک نئی سیاسی سوچ اور فکر کو پروان چڑھانا ہو گا۔ یہ کام روایتی سیاست اور اس حالیہ مروجہ طریقہ کار سے ممکن نہیں ہو گا۔ روایتی سیاست اور اس کا سماجی، معاشی عمل اپنی افادیت کھوتا جا رہا ہے۔

ہمیں اچھے کو اچھا اور برے کو برا کہنے کے رجحان کو قومی سیاست کا محور بنانا ہو گا۔ اہل سیاست اور بالادست طبقات کے سامنے یہ سوال بھی اٹھانا ہو گا کہ ان کے ذہن میں جو ترقی اور خوشحالی کا ماڈل ہے اس کا روڈ میپ اور ہوم ورک کہاں ہے۔ عام اور کمزور طبقات کو حکمرانی کے نظام میں حکمرانوں کی charity and begging کے ماڈل نہیں ، بلکہ ایک مضبوط اور شفافیت پر مبنی سسٹم درکار ہے۔ لوگوں کو فرد کی حکمرانی سے نکال کر اگر ہم نے سسٹم کی حکمرانی کو اپنی منزل بنا لیا تو کامیابی کے امکانات کو اجتماعی طور پر نئی جہت دی جا سکتی ہے۔
Load Next Story

@media only screen and (min-width: 1024px) { div#google_ads_iframe_\/11952262\/express-sports-story-1_0__container__ { margin-bottom: 15px; } } @media only screen and (max-width: 600px) { .sidebar-social-icons.widget-spacing { display: none; } }