فطرت کی پکار
یونیسیف رپورٹ کے مطابق دنیا کی ایک تہائی آبادی، نکاسی کے بہتر نظام اور مناسب بیت الخلا کی سہولت سے محروم ہیں
عالمی ادارہ صحت (W.H.O) اور بچوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے (یونیسیف) کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق دنیا کی ایک تہائی آبادی، نکاسی کے بہتر نظام اور مناسب بیت الخلا کی سہولت سے محروم ہیں اور اس جدید دور میں بھی ایک ارب افراد چار دیواری کے بجائے سرعام رفع حاجت کرتے ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سرعام رفع حاجت کرنیوالے ان افراد کی نصف سے زائد تعداد یعنی لگ بھگ 60 کروڑ افراد بھارت میں بستی ہے۔ ان عالمی اداروں نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سر عام رفع حاجت اور آلودہ پانی پینے کے نتیجے میں کالرا، ڈائریا، ہیپاٹائٹس اور ٹائیفائیڈ جیسی ہلاکت خیز بیماریاں پھیلتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دنیا کی نصف آبادی شہروں میں رہتی ہے جہاں فراہمی، نکاسی آب کی بہتر سہولتیں دستیاب ہیں لیکن اب بھی بیشتر دیہی علاقوں کی صورتحال انتہائی خراب ہے جہاں بیت الخلا اور نلکے کے پانی جیسی بنیادی ضرورتیں بھی دستیاب نہیں۔دیہاتوں کو چھوڑیے، کراچی جو روشنیوں کا شہر کہلاتا ہے میں ''بیت الخلا کی کمیابی'' ایک مسئلہ بنا ہوا ہے، مثال کے طور پر ایمپریس مارکیٹ یا صدر میں واقع دیگر مارکیٹوں کا حال دیکھیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں دکاندار اور ملازم بارہ تیرہ گھنٹے موجود رہتے ہیں اور یومیہ لاکھوں افراد خریداری کے لیے آتے ہیں لیکن اس تناسب سے مارکیٹوں میں بیت الخلا موجود نہیں ہیں۔
دکاندار اور ملازمین رفع حاجت کے لیے یا تو قریبی مساجد کا رخ کرتے ہیں یا کھلے نالوں، کونوں اور دیواروں کی آڑ لیتے ہیں اسی طرح گاہکوں کو بھی بیت الخلا کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی کھلی جگہوں کو ہی استعمال میں لاتے ہیں خاص کر پیشاب کرنے کے لیے مرد حضرات جیسا تیسا کر کے ضرورت پوری کر لیتے ہیں لیکن خواتین کو بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس جانب توجہ کی ضرورت ہے۔
کراچی میں عوامی بیت الخلا کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، پندرہ سال پہلے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے دور میں نجی شعبے کے تعاون سے کچھ جگہوں پر عوامی بیت الخلا تعمیر کیے گئے تھے لیکن مناسب دیکھ بھال نہ ہونے اور شہری حکومت کی عدم موجودگی نے اس منصوبے کے وجود کو ہی ختم کر دیا ہے۔ 2009ء میں آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت سندھ ہائی کورٹ میں ایک ایسے معاملے پر درخواست دائر کی گئی۔
یہ آئینی درخواست عوامی بیت الخلا سے متعلق تھی جس میں حکومت سندھ اور سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کو فریق بناتے ہوئے مو قف اختیار کیا گیا تھا کہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں عوامی بیت الخلا نہ ہونے کے برابر ہے اور عوام خاص طور پر خواتین کو اذیت اور کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے چنانچہ مسئلے کی سنگینی کو مد نظر رکھتے ہوئے عوامی بیت الخلا کی سہولت کو بنیادی انسانی حقوق میں شامل کیا جائے اور عوامی مقامات پر ان کی تعمیر کا حکم دیا جائے درخواست گزار آغا عطا اﷲ شاہ بنیادی طور پر ایک وکیل ہیں جو سابق ایڈیشنل سیکریٹری بھی رہ چکے ہیں۔
عوامی مسائل کی طرف حکام بالا کی توجہ مبذول کرانے کے لیے انھوں نے ''راہ راست ٹرسٹ'' کے نام سے ایک تنظیم بنا رکھی ہے جس کے وہ چیئرمین ہیں ان کا کہنا ہے کہ ''انسان پورا دن بھوکا پیاسا رہ سکتا ہے لیکن بیت الخلا جانے کی حاجت کو چند گھنٹے بھی برداشت نہیں کر سکتا جب فطرت پکارتی ہے تو اسے ہر حال میں اس کا جواب دینا پڑتا ہے۔''پبلک ٹوائلٹ سے متعلق سب سے زیادہ مسائل خواتین کو درپیش ہیں، لیکن وہ مسئلہ بیان کرنے سے جھجکتی ہیں، مرد حضرات ٹوائلٹ کی سہولت نہ ملنے پر کسی دیوار یا درخت کی آڑ میں اپنا گزارا کر لیتے ہیں لیکن خواتین کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا اگرچہ مساجد کے استنجا خانوں نے بڑی حد تک پبلک کا مسئلہ حل کیا ہے لیکن یہاں بھی خواتین کے لیے الگ سے کوئی انتظام نہیں ہے یہ استنجا خانے صرف نماز کے اوقات میں استعمال کیے جا سکتے ہیں مسجد بند ہونے کے ساتھ یہ بھی بند ہو جاتے ہیں۔
مسجد کی پاکیزگی کو مد نظر رکھتے ہوئے اب استنجا خانے مسجد کے باہر بن رہے ہیں انھیں ٹھیکے پر جمعداروں کے حوالے کر دیا گیا ہے جو بیت الخلا استعمال کرنے پر 5 سے 10 روپے وصول کرتے ہیں، ٹھیکے پر چلائے جانے والے استنجا خانے صبح سے رات تک نمازیوں، دکانداروں اور مسافروں کی مشکل آسان کرتے رہتے ہیں۔
یاد رہے کہ ماضی میں چھوٹے چھوٹے گٹر اور برساتی نالے موجود تھے جنھیں بڑے نالوں سے منسلک کر دیا گیا تھا شہر کراچی میں جگہ جگہ بلدیہ کے بیت الخلا بنائے گئے تھے جب کہ گھروں کے بیت الخلا میں ڈبے استعمال ہوتے تھے، روزانہ خاکروب گاڑیوں کے ساتھ آ کر انھیں صاف کرتے تھے اگر کسی دن کسی علاقے کا خاکروب نہیں آتا تو اس علاقے میں گندگی جمع ہونے کی وجہ سے علاقے میں تعفن پھیلتا تھا۔
اس طرح یہ گندے نالے صفائی کے متقاضی رہتے تھے پھر وقت اور حالات بدل گئے، شہر کراچی میں سیوریج لائن بچھائی گئی، سرکاری بیت الخلا ختم کر دیے گئے ان کی جگہ رفاعی ادارے بنا دیے گئے گھروں کے بیت الخلا سیوریج لائن سے ملا دیے گئے لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ ٹیکنالوجی کی انتہائی تیز رفتار ترقی اور چاند ستاروں پر کمند ڈالنے کے باوجود دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ انسان کی بنیادی ضرورت یعنی بیت الخلا سے محروم ہے۔ اس مقصد کے لیے زیادہ تر ریلوے لائنوں، کھیتوں، میدانوں اور دیگر کھلی جگہوں کو زیر استعمال لایا جاتا ہے کھلی جگہیں خواتین اور لڑکیوں پر جانوروں اور شیطانی حملوں سے غیر محفوظ ہیں۔
سال 2010ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سینی ٹیشن اور پانی کو انسان کا بنیادی حق قرار دیتے ہوئے ہر سال 19 نومبر کو ''ورلڈ ٹوائلٹ ڈے'' منانے کا اعلان کیا تھا۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر کی حکومتوں اور اداروں کی توجہ اس طرف مبذول کرانا ہے کہ وہ لوگوں کو صفائی اور صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کریں اس سلسلے میں میڈیا اور این جی اوز کو بھی فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
بیت الخلا کیوں ضروری ہے؟ ہو سکتا ہے یہ سوال آپ کو ''پاگل پن'' لگے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ٹوائلٹس کی موجودگی کے بغیر انسانی زندگی کا تصور محال ہے اگر ٹوائلٹس محفوظ، جراثیم سے پاک، صاف ستھرے اور پانی کی سہولت رکھتے ہو تو ماحول اور معاشرہ تو صاف ستھرا ہو گا اور بیماریاں بھی قریب نہیں آئیں گی۔
رپورٹ کے مطابق دنیا کی نصف آبادی شہروں میں رہتی ہے جہاں فراہمی، نکاسی آب کی بہتر سہولتیں دستیاب ہیں لیکن اب بھی بیشتر دیہی علاقوں کی صورتحال انتہائی خراب ہے جہاں بیت الخلا اور نلکے کے پانی جیسی بنیادی ضرورتیں بھی دستیاب نہیں۔دیہاتوں کو چھوڑیے، کراچی جو روشنیوں کا شہر کہلاتا ہے میں ''بیت الخلا کی کمیابی'' ایک مسئلہ بنا ہوا ہے، مثال کے طور پر ایمپریس مارکیٹ یا صدر میں واقع دیگر مارکیٹوں کا حال دیکھیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں دکاندار اور ملازم بارہ تیرہ گھنٹے موجود رہتے ہیں اور یومیہ لاکھوں افراد خریداری کے لیے آتے ہیں لیکن اس تناسب سے مارکیٹوں میں بیت الخلا موجود نہیں ہیں۔
دکاندار اور ملازمین رفع حاجت کے لیے یا تو قریبی مساجد کا رخ کرتے ہیں یا کھلے نالوں، کونوں اور دیواروں کی آڑ لیتے ہیں اسی طرح گاہکوں کو بھی بیت الخلا کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی کھلی جگہوں کو ہی استعمال میں لاتے ہیں خاص کر پیشاب کرنے کے لیے مرد حضرات جیسا تیسا کر کے ضرورت پوری کر لیتے ہیں لیکن خواتین کو بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس جانب توجہ کی ضرورت ہے۔
کراچی میں عوامی بیت الخلا کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، پندرہ سال پہلے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے دور میں نجی شعبے کے تعاون سے کچھ جگہوں پر عوامی بیت الخلا تعمیر کیے گئے تھے لیکن مناسب دیکھ بھال نہ ہونے اور شہری حکومت کی عدم موجودگی نے اس منصوبے کے وجود کو ہی ختم کر دیا ہے۔ 2009ء میں آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت سندھ ہائی کورٹ میں ایک ایسے معاملے پر درخواست دائر کی گئی۔
یہ آئینی درخواست عوامی بیت الخلا سے متعلق تھی جس میں حکومت سندھ اور سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کو فریق بناتے ہوئے مو قف اختیار کیا گیا تھا کہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں عوامی بیت الخلا نہ ہونے کے برابر ہے اور عوام خاص طور پر خواتین کو اذیت اور کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے چنانچہ مسئلے کی سنگینی کو مد نظر رکھتے ہوئے عوامی بیت الخلا کی سہولت کو بنیادی انسانی حقوق میں شامل کیا جائے اور عوامی مقامات پر ان کی تعمیر کا حکم دیا جائے درخواست گزار آغا عطا اﷲ شاہ بنیادی طور پر ایک وکیل ہیں جو سابق ایڈیشنل سیکریٹری بھی رہ چکے ہیں۔
عوامی مسائل کی طرف حکام بالا کی توجہ مبذول کرانے کے لیے انھوں نے ''راہ راست ٹرسٹ'' کے نام سے ایک تنظیم بنا رکھی ہے جس کے وہ چیئرمین ہیں ان کا کہنا ہے کہ ''انسان پورا دن بھوکا پیاسا رہ سکتا ہے لیکن بیت الخلا جانے کی حاجت کو چند گھنٹے بھی برداشت نہیں کر سکتا جب فطرت پکارتی ہے تو اسے ہر حال میں اس کا جواب دینا پڑتا ہے۔''پبلک ٹوائلٹ سے متعلق سب سے زیادہ مسائل خواتین کو درپیش ہیں، لیکن وہ مسئلہ بیان کرنے سے جھجکتی ہیں، مرد حضرات ٹوائلٹ کی سہولت نہ ملنے پر کسی دیوار یا درخت کی آڑ میں اپنا گزارا کر لیتے ہیں لیکن خواتین کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا اگرچہ مساجد کے استنجا خانوں نے بڑی حد تک پبلک کا مسئلہ حل کیا ہے لیکن یہاں بھی خواتین کے لیے الگ سے کوئی انتظام نہیں ہے یہ استنجا خانے صرف نماز کے اوقات میں استعمال کیے جا سکتے ہیں مسجد بند ہونے کے ساتھ یہ بھی بند ہو جاتے ہیں۔
مسجد کی پاکیزگی کو مد نظر رکھتے ہوئے اب استنجا خانے مسجد کے باہر بن رہے ہیں انھیں ٹھیکے پر جمعداروں کے حوالے کر دیا گیا ہے جو بیت الخلا استعمال کرنے پر 5 سے 10 روپے وصول کرتے ہیں، ٹھیکے پر چلائے جانے والے استنجا خانے صبح سے رات تک نمازیوں، دکانداروں اور مسافروں کی مشکل آسان کرتے رہتے ہیں۔
یاد رہے کہ ماضی میں چھوٹے چھوٹے گٹر اور برساتی نالے موجود تھے جنھیں بڑے نالوں سے منسلک کر دیا گیا تھا شہر کراچی میں جگہ جگہ بلدیہ کے بیت الخلا بنائے گئے تھے جب کہ گھروں کے بیت الخلا میں ڈبے استعمال ہوتے تھے، روزانہ خاکروب گاڑیوں کے ساتھ آ کر انھیں صاف کرتے تھے اگر کسی دن کسی علاقے کا خاکروب نہیں آتا تو اس علاقے میں گندگی جمع ہونے کی وجہ سے علاقے میں تعفن پھیلتا تھا۔
اس طرح یہ گندے نالے صفائی کے متقاضی رہتے تھے پھر وقت اور حالات بدل گئے، شہر کراچی میں سیوریج لائن بچھائی گئی، سرکاری بیت الخلا ختم کر دیے گئے ان کی جگہ رفاعی ادارے بنا دیے گئے گھروں کے بیت الخلا سیوریج لائن سے ملا دیے گئے لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ ٹیکنالوجی کی انتہائی تیز رفتار ترقی اور چاند ستاروں پر کمند ڈالنے کے باوجود دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ انسان کی بنیادی ضرورت یعنی بیت الخلا سے محروم ہے۔ اس مقصد کے لیے زیادہ تر ریلوے لائنوں، کھیتوں، میدانوں اور دیگر کھلی جگہوں کو زیر استعمال لایا جاتا ہے کھلی جگہیں خواتین اور لڑکیوں پر جانوروں اور شیطانی حملوں سے غیر محفوظ ہیں۔
سال 2010ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سینی ٹیشن اور پانی کو انسان کا بنیادی حق قرار دیتے ہوئے ہر سال 19 نومبر کو ''ورلڈ ٹوائلٹ ڈے'' منانے کا اعلان کیا تھا۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر کی حکومتوں اور اداروں کی توجہ اس طرف مبذول کرانا ہے کہ وہ لوگوں کو صفائی اور صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کریں اس سلسلے میں میڈیا اور این جی اوز کو بھی فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
بیت الخلا کیوں ضروری ہے؟ ہو سکتا ہے یہ سوال آپ کو ''پاگل پن'' لگے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ٹوائلٹس کی موجودگی کے بغیر انسانی زندگی کا تصور محال ہے اگر ٹوائلٹس محفوظ، جراثیم سے پاک، صاف ستھرے اور پانی کی سہولت رکھتے ہو تو ماحول اور معاشرہ تو صاف ستھرا ہو گا اور بیماریاں بھی قریب نہیں آئیں گی۔