بے حسی کے شہر میں یہ چشمِ تر کچھ بھی نہیں… آخری حصہ
فلاحی اداروں کی طرف سے مجبور افراد کے لیے بنائے گئے آشیانے بہت سے خاندانی آشیانوں کے ٹوٹ جانے کا سبب بن سکتے ہیں
پاکستان میں اولڈ ہومز کے قیام کے حوالے سے بڑھتا ہوا رجحان اگرچہ بہت سے بے گھر افراد کے لیے اُمید کا روشن چراغ ہے، جو فلاحی اداروں کی جانب سے بڑی تیزی سے جلایا جا رہا ہے، مگر یہ عمل ہماری خاندانی زندگی کے توڑنے میں بنیادی کردار بھی ادا کرے گا۔
یہ عمل بظاہر بہت پر کشش ہے خصوصاََ ان افراد کے لیے جن کے پاس رہنے کے لیے کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا، مگر، ایسے فلاحی اداروں کی طرف سے مجبور افراد کے لیے بنائے گئے آشیانے بہت سے خاندانی آشیانوں کے ٹوٹ جانے کا سبب بن سکتے ہیں، کیونکہ اس سہولت سے آہستہ آہستہ ایسے لوگ ناجائز فائدہ اُٹھانے لگیں گے جو اپنی سطحی خواہشوں اور مغربی ممالک کی بظاہر چکا چوند کر دینے والے طرزِ زندگی سے ضرورت سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
اس لیے فلاحی ادارے اور ریاستی ادارے اپنے سماج کے پسِ منظر کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ان بزرگوں کو ان کے اپنے ہی خاندان کے ساتھ رہتے ہوئے زندگی کی سہولیات فراہم کر دیں تو اس سے ہمارے سماج کا خاندانی نظام جو ہماری ثقافت کی خوبصورتی ہے، کو بھی بچایا جا سکتا ہے اور بے سہارا اور مجبور افراد کی مدد بھی کی جا سکتی ہے۔
سسٹم یا کوئی بھی نظام جو کسی سماج کی برسوں کی عملی سرگرمی کا نتیجہ ہوتا ہے، مقامیت سے جڑا ہونے کی وجہ سے اپنے اندر اسی سماج کے لیے افادیت رکھتا ہے صرف اس کو بروئے کار لانیوالے اہل ہونے چاہیے۔ اس کو اپنے لیے کس طرح سے بدلتے وقت کی قدروں کی مناسبت سے مفید بنایا جا سکتا ہے اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ا پنی مقامی ضرورتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے دوسرے معاشروں کے طرزِ زندگی کو تجریدی سطح پر اپنانے سے سماج حقیقی ترقی نہیں کیا کرتے۔ مغربی معاشروں میں سرمایہ داری نظام اور ان کی ترقی کے نام پر جتنی بھی تبدیلیاں آئی ہیں انھوں نے انسانی جسم کو تو سہولتوں سے فیضیاب کیا ہے مگر انسانی دل و دماغ کو پر سکون کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ دماغی امراض کا شکار افراد مغربی معاشروں میں ہیں اور اب پھر سے کسی خیال یا عقیدے کی ڈور تھامنے کو بے قرار ہیں جو ان کے افراد کو ایک خاندان کے بندھن میں باندھ سکے، مگر ہمارے ہاں کچھ دانشوروں کا خیال ہے کہ ہمارا خاندانی سسٹم ہمارے معاشرے کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، جب کہ اصل مسئلہ ہمارے ملک میں بے روزگاری ہے اور بد عنوانی ہے، جس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
خاندانی نظام کے ٹوٹ جانے سے برطانیہ میں چائلڈ کیئر اور اولڈ ہومز کے قیام میں آنے کے بعد اس نظام نے سب سے زیادہ نقصان مقامی باشندوں کا کیا ہے۔ برطانوی ایک طرف تو اپنے سماج میں سب سے زیادہ اس مسئلے سے دوچار ہیں کہ کیسے ان کے بزرگوں کی روزمرہ زندگی آسان بنائی جا سکے، تو دوسری طرف نئی نسل کی پرورش اور تربیت کے لیے بہت سی پرائیویٹ کمپنیوں کی خدمات بھاری قیمت پر خریدنے پر مجبور ہیں، جن کے عوض برطانوی بزرگوں اور بچوں کو گھروں کے نام پر کوئی چھت تو میسر ہوتی ہے مگر گھروں میں ملنے والے رشتوں کا پیار اور ایک انسان کی کوئی قدر ہونے کا خوبصو رت احساس نہیں ملتا۔ جس کی عدم دستیابی کی وجہ سے بہت سے لوگ احساسِ تنہائی کا شکار ہو کر خود کشی کا سوچنے لگتے ہیں۔ یہاں نوجوان نسل بائی پولر کا سب سے زیادہ شکار ہے، ایسے افراد خود کشی کے احساسات سے بھرے رہتے ہیں۔
ان حالات میں دوسرے ممالک سے آنیوالے افراد جن کی پرورش پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش یا چین جیسی ریاستوں میں ہوئی ہوتی ہے، جدید سماج کی سہولتوں سے بھی مستفید ہوتے ہیں مگر اپنے سماجی پس منظر کا مضبوط حوالہ کسی حد تک یہاں بھی اپنائے رکھنے کے لیے جی جان سے محنت کرتے ہیں، تا کہ اپنے رسم و رواج اور اخلاقی معیارات کے مطابق ان کے گھرانے کے افراد اسی طرح یہاں بھی ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے رہیں۔ اس کی وجہ ہے کہ کسی انسان کو اپنے سماج کی خوبیوں کا ادراک دوسرے سماج میں زیادہ جلدی ہو جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جو لوگ پاکستان سے باہر آ بسے، پاکستان ان کے اندر جا بسا، مگر کسی بھی معاشرے کے مقامی باشندے اپنے معاشرے کی خوبیوں اور خامیوں کا ادراک جلدی نہیں کر پاتے۔ اسی لیے برطانیہ کے بھی مقامی افراد محنت کرنے کی بجائے برطانوی حکومت کی پا لیسیوں سے مستفید ہونے کے لیے اور کچھ اپنی ا پنی پرائیوسی برقرار رکھنے کے لیے اپنے بچوں کو کیئر ہومز کے حوالے کر دینے کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنے بزرگوں کو بھی اسی طرح اولڈ ہومز میں رکھنا کوئی معیوب نہیں سمجھتے۔ اس طرح سے بچے، بڑے اور بزرگ سب اپنے اپنے خانوں میں' آزاد'، مگر تنہائی کی زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔
جس کے نتیجے میں یہاں پر قومی اعداد و شمار کے ادارے کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک فرد ذہنی مرض کا شکار ہو چکا ہے۔ بہت سے افراد اس لیے ذہنی امراض میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ان سے بات کرنیوالا کوئی نہیں ہوتا، کیونکہ گھر کے ہر فرد کے مختلف اوقاتِ کار اور تفریحات ہیں۔ اس لیے ذہنی امراض میں مبتلا افراد کی دماغی حالت کو بہتر بنانے کے لیے برطانیہ میں ہزاروں کی تعداد میں talking therapy centres کا قیام عمل میں آ چکا ہے۔ جہاں پر جا کر یہ لوگ صرف باتیں کرتے ہیں اور ہر گھنٹہ بات کرنے کی فیس ادا کرتے ہیں۔ کتنے بد قسمت ہیں یہ لوگ اور کتنے بد قسمت ہیں ہم میں سے وہ لوگ جن کے گھروں میں بزرگ ہیں اور وہ ان سے نالاں ہیں، جن کے آنچل میں رشتوں کے پھول بندھے ہیں مگر وہ ان کی مہکار کو محسوس نہیں کرتے۔
جن کے آنگن میں دادا، دادی، نانا، نانی، ماں باپ جیسی گھنی چھاؤں ہے مگر وہ شجرِ سایہ دار کو کاٹ دینے کے لیے بے چین پھرتے ہیں۔ ہمارے سماج میں رہنے والے اپنے ہی خاندان کے افراد سے تنگ لوگوں کے لیے یہ بات سوچنے کی ہے کہ آپ کے بزرگ اور آپ کے گھر کے افراد آپ کی صحت مند زندگی کی اَن دیکھی ضمانت ہیں جس کا آپ کو ادراک نہیں اور شاید اسی لیے بہت سے لوگ اس کی قدر بھی نہیں کرتے۔ برطانیہ کا دانشور طبقہ اس مسئلے پر غور و فکر کر رہا ہے کہ کس طرح سے خاندانی نظام کی بحالی ہو سکے اور سرمایہ داری بھی پنپتی رہے، جب کہ ہمارے ہاں کچھ دانشور اس بات پر بضد ہیں کہ ''خاندانی نظام ہمارے ملک کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ہے'' اور اس کے لیے دلیل یہ دیتے ہیں کہ ایک ایک فرد پر کتنے کتنے افراد کی پرورش کا بوجھ ہوتا ہے۔
خاندانی نظام ہماری خوبصورتی بھی ہے اور مضبوطی بھی اس کو تباہ کر دینے سے معاشرے کی ترقی ہو نہ ہو مگر آزاد منڈی میں بطورِ جنس بکنے کے لیے انسان اور انسانیت کی تذلیل کی راہیں ضرور کھل جائیں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خاندانی نظام میں بہت سے رشتے خواتین کا استحصال کرتے ہیں مگر اس کا حل ان رشتوں کا مٹ جانا نہیں ہے، بلکہ ان کو آگہی کی روشنی فراہم کرنا ہے۔ یہ کام بھی خواتین ہی کر سکتی ہیں جن کی آغوش میں یہ رشتے پروان چڑھتے ہیں ان کے بیٹوں کی صور ت اور جو بعد میں کسی بھائی، کسی شوہر، کسی چچا، تایا، باپ یا دادا کا روپ دھارتے ہیں۔ خواتین بطورِ ماں ان رشتوں میں اپنے خاندان کو یکجا رکھنے کے لیے نفرتوں کی بجائے محبتوں کے بیچ بو سکتی ہیں۔
ورنہ انفرادی حقوق کے حصول کی کوشش میں خاندان کا شیرازہ بکھر جانے کے امکانات اس لیے زیادہ ہوتے ہیں کہ سرمایہ دار، مردوں کی بجائے خواتین کے لیے ملازمتوں کی فراہمی کو آسان بنا کر ان کا گھروں سے باہر نکلنا پر کشش بنا دیتے ہیں۔ خاندان میں ہونیوالے کسی استحصال سے بچنے کے لیے خواتین بآسانی سرمایہ دار کا شکار ہو جائیں گی اور خواتین کو اس بات کا ادراک تک نہ ہو سکے گا کہ جس آنچل کو انھوں نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے پرچم بنایا تھا اسے ا ن کے اپنی ہی محنت کے پسینے اور خون سے جلنے والا چراغ بنا کر سرمایہ دار انھی کے گھروں کو آگ لگا دیں گے، اور پھر ہمارے سماج میں میں بھی ایسی کئی لڑکیاں دکھائی دیں گی جن کی آنکھوں میں اشک انفرادیت کے سرد موسموں میں برفٖ کی ساخت میں ڈھل جائیں گے اور اگر کسی محبت اور احساس کی گرمی سے پگھل بھی جائیں تو ان کو دیکھنے اور سمیٹنے والا کسی رشتے کی صورت کوئی دستِ مہرباں موجود نہ ہو گا۔