ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
ہم بھی کتنے ہی ہوشیار کیوں نہ ہوں، ہمدردی کے جذبات سے مغلوب ہو کر دھوکا کھا ہی جاتے ہیں۔
کافی روز ہوگئے تھے دوستوں کے ہمراہ گھر سے باہر کچھ وقت گذارے، دوستوں کی جیب ڈھیلی کرائے تو،سوچا کیوں نہ فالودہ کھانے چلیں اور اس نیک خیال کے آتے ہی میں نے تحسین کو فون کھڑکایا، کیوں کہ کھانے پلانے کے معاملے میں بادشاہ آدمی ہیں، سو ان کو ہی ساتھ لے جانا بہتر سمجھا اور گاڑی نکالی، تحسین صاحب کو گھر سے پِک کیا اور روانہ ہو گئے۔
گاڑی میں گپ شپ کرتے اور ہنستے ہنساتے ابھی واٹر پمپ کے پُل پر چڑھے ہی تھے کہ دیکھا، ایک خاتون لڑکے کے کاندھے پر ہاتھ رکھے بہت مشکل سے بیچ پُل پر چل رہی تھیں، میں نے ایمرجنسی بریک لگا کر گاڑی سائیڈ میں روکی اور فوراً اتر کے ان دونوں سے پوچھا، ارے بھائی خیریت تو ہے، یہ آپ کے ساتھ جو خاتون ہیں بیمار محسوس ہو رہی ہیں اگر آپ کو اسپتال وغیرہ جانا ہے تو بتائیے۔ وہ لڑکا گویا ہوا اور کہنے لگا نہیں بھائی یہ میری والدہ ہیں اور ہمیں حیدرآباد جانا ہے لیکن ہمارے پاس جانے کا کرایہ نہیں ہے، میرا پرس نہ جانے سفر میں کس نے نکال لیا، اگر آپ اس سلسلے میں کچھ مدد کر سکیں تو مہربانی ہوگی، میں نے کہا جناب وہ تو ہم کچھ کریں گے ہی لیکن ابھی آپ اپنی والدہ کو لے کر کسی اسپتال جائیے کیونکہ خاتون کی حالت کافی خستہ لگ رہی تھی۔
خیر میری یہ بات سن کر بھی لڑکا بضد رہا کہ آپ بس ہمارے حیدرآباد جانے کا بندوبست کر دیجئے، میں خود ہی ان کو وہاں کے اسپتال لے جاؤں گا، میں فالودہ کھانے تو خود تحسین کے آسرے پر جا رہا تھا تو جیب میں فقط 100 ہی روپے پڑے تھے، میں نے تحسین کی جانب دیکھا اور ابرو کی جنبش سے تحسین سے پوچھا، تحسین اپنی جیب میں موجود 5 ہزار کا نوٹ کسی طرح اس غریب نظر آنے والے ماں بیٹے کو دینے کے لئے تیار نہیں تھا، لیکن میں نے اتنی شاندار طریقے سے کچھ لمحوں میں ہی تحسین کی ایسی برین واشنگ کی کہ وہ 5 ہزار روپے دینے پر راضی ہوگیا۔ پیسے دینے کے بعد میں نے ان سے کہا کہ میں آپ کو سہراب گوٹھ کے بس اڈے پر حیدرآباد کی بس میں بٹھا دیتا ہوں، لیکن خاتون کہنے لگیں کہ نہیں بیٹا ہم چلے جائیں گے، تو ہم بھی چل دئے اور درویش ہوٹل کی چائے پینے پرہی اکتفا کیا۔
اس واقعے کو گزرے ابھی تین سے چار ہفتے ہی گزرے تھے کہ مجھے اپنی والدہ کے ساتھ کچھ خریداری کے سلسلے میں حیدری مارکیٹ جانا پڑا، ابھی ہم سیفی کالج کے سامنے سے ہی گذر رہے تھے کہ انہی ماں اور بیٹے کو دیکھا۔ والدہ کے منع کرنے کے باوجود میں نے گاڑی کو روکا اور فوراً انجان بن کے ان سے پوچھا، اماں کیا ہوا؟ آپ بیمار ہیں؟ جس پر وہ کھانسنے لگیں اور لڑکا بولا بھائی ہم حیدرآباد میں رہتے ہیں اور ہمارے پاس گھر جانے کے پیسے نہیں ہیں ہمیں وہاں جانے کے پیسے دے دیجئے تو مہربانی ہوگی ۔۔۔۔میں ابھی 5 ہزار یاد آجانے پر آگ بگولا ہو ہی رہا تھا کہ گاڑی میں والدہ ان کی یہ حالت دیکھ کر آبدیدہ ہو گئیں، اور فوراً 1 ہزار کا نوٹ نکال کر مجھ سے گویا ہوئیں کہ بیٹا ان کو دے دو، میں نے کہا امی سے کہا کہ ذرا رکئے اور ملاحظہ کیجئے، پھر میں خاتون سے گویا ہوا! آئے آپ کو حیدرآباد پولیس کے ذریعے پہنچواتا ہوں، ابھی یہ الفاظ کہہ کر جیب سے موبائل فون نکالا ہی تھا کہ وہ عورت جو بیمار نظر آرہی تھی وہ ایسے ایکٹو ہوگئیں جیسے اولمپک ریس میں گولڈ میڈل جیتنے کا ارادہ ہو، وہ لڑکا بھی شاید مجھے پہچان گیا تھا، اس کے بعد بغیر کچھ کہے وہ دونوں اتنی تیز رفتاری سے وہاں سے بھاگے جیسے اگلا اسٹاپ حیدرآباد کا ہو۔ میری والدہ یہ سب دیکھ کے پریشان نظر آرہی تھیں جس پر ان کو سارا واقعہ سنایا۔
اگر آپ بھی کراچی کی کسی سڑک پر ایسے کسی کو دیکھیں تو ذرا تحقیق کر لیجئے گا، 5 ہزار کا یہ دھچکا مجھے ہمیشہ یاد رہے گا، مزید سنیئے جس سے آ پ کو معلوم ہوگا کہ کراچی میں فنکاروں کی کوئی کمی نہیں ہے، آجکل کراچی کے سڑکوں پر ایک اور ڈرامہ بھی پیش ہورہا ہے، اور وہ کچھ یوں کہ 14 سے 15 سال کا ایک بچہ سڑے ہوئے چھولے جن پر زردے کا رنگ لگا کر انھیں ایسا کر دیا جاتا ہے جیسے بالکل تازے ہوں وہ کسی بھی شاہراہ پر گرا دیتا ہے اور اسی مُقام پر وہ لڑکا اس انداز میں بیٹھتا ہے جیسے رو رہا ہو، اس اداکاری کی مثال نہیں ملتی، بس راہ چلتے جو بھی دیکھتا ہے وہ یہی گمان کرتا ہے کہ بچہ کمانے نکلا تھا اور اس کے تھال میں رکھے سارے چھولے گر گئے تو کوئی 50 روپے دیتا ہے تو کوئی 500 سو روپے۔
یہ واقعات بیان کرنے کا مقصد محض یہی ہے کہ اس طرح کے بہت سے غریب اور ضرورت مند آپ کو نظر آئیں گے، جو اس طرح کے ڈرامے رچاکر اور مستحقین کا حصہ بٹور رہے ہیں، اور ان کا یہ کاروبار پھل پھول ہی رہا ہے۔ یہاں ایک غلطی ہم سب کی بھی ہے کہ اور وہ یہ کہ ہم بھی کتنے ہی ہوشیار کیوں نہ ہوں، ہمدردی کے جذبات سے مغلوب ہو کر یہ نہیں دیکھتے کہ ہمارے آگئے ہاتھ پھیلانے والا آیا اس بھیک کا مستحق بھی ہے یا پھر وہ بغیر کسی محنت کے دن بھر مانگنے کا عادی بن چکا ہے۔
تحسین کے 5 ہزار روپے تو فراڈ کی نذر ہوگئے لیکن اس واقعہ سے میں نے سیکھا کہ ہمیں اس طرح کے ڈرامے بازوں سے بچ کر رہنا چاہئے اور ان کی حوصلہ شکنی کے ساتھ ہی ہمارا فرض ہے کہ سڑکوں پر پھرنے والے ان مافیا کو بے نقاب بھی کریں تاکہ معاشرے سے یہ ناسور ختم ہو سکے۔
[poll id="693"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
گاڑی میں گپ شپ کرتے اور ہنستے ہنساتے ابھی واٹر پمپ کے پُل پر چڑھے ہی تھے کہ دیکھا، ایک خاتون لڑکے کے کاندھے پر ہاتھ رکھے بہت مشکل سے بیچ پُل پر چل رہی تھیں، میں نے ایمرجنسی بریک لگا کر گاڑی سائیڈ میں روکی اور فوراً اتر کے ان دونوں سے پوچھا، ارے بھائی خیریت تو ہے، یہ آپ کے ساتھ جو خاتون ہیں بیمار محسوس ہو رہی ہیں اگر آپ کو اسپتال وغیرہ جانا ہے تو بتائیے۔ وہ لڑکا گویا ہوا اور کہنے لگا نہیں بھائی یہ میری والدہ ہیں اور ہمیں حیدرآباد جانا ہے لیکن ہمارے پاس جانے کا کرایہ نہیں ہے، میرا پرس نہ جانے سفر میں کس نے نکال لیا، اگر آپ اس سلسلے میں کچھ مدد کر سکیں تو مہربانی ہوگی، میں نے کہا جناب وہ تو ہم کچھ کریں گے ہی لیکن ابھی آپ اپنی والدہ کو لے کر کسی اسپتال جائیے کیونکہ خاتون کی حالت کافی خستہ لگ رہی تھی۔
خیر میری یہ بات سن کر بھی لڑکا بضد رہا کہ آپ بس ہمارے حیدرآباد جانے کا بندوبست کر دیجئے، میں خود ہی ان کو وہاں کے اسپتال لے جاؤں گا، میں فالودہ کھانے تو خود تحسین کے آسرے پر جا رہا تھا تو جیب میں فقط 100 ہی روپے پڑے تھے، میں نے تحسین کی جانب دیکھا اور ابرو کی جنبش سے تحسین سے پوچھا، تحسین اپنی جیب میں موجود 5 ہزار کا نوٹ کسی طرح اس غریب نظر آنے والے ماں بیٹے کو دینے کے لئے تیار نہیں تھا، لیکن میں نے اتنی شاندار طریقے سے کچھ لمحوں میں ہی تحسین کی ایسی برین واشنگ کی کہ وہ 5 ہزار روپے دینے پر راضی ہوگیا۔ پیسے دینے کے بعد میں نے ان سے کہا کہ میں آپ کو سہراب گوٹھ کے بس اڈے پر حیدرآباد کی بس میں بٹھا دیتا ہوں، لیکن خاتون کہنے لگیں کہ نہیں بیٹا ہم چلے جائیں گے، تو ہم بھی چل دئے اور درویش ہوٹل کی چائے پینے پرہی اکتفا کیا۔
اس واقعے کو گزرے ابھی تین سے چار ہفتے ہی گزرے تھے کہ مجھے اپنی والدہ کے ساتھ کچھ خریداری کے سلسلے میں حیدری مارکیٹ جانا پڑا، ابھی ہم سیفی کالج کے سامنے سے ہی گذر رہے تھے کہ انہی ماں اور بیٹے کو دیکھا۔ والدہ کے منع کرنے کے باوجود میں نے گاڑی کو روکا اور فوراً انجان بن کے ان سے پوچھا، اماں کیا ہوا؟ آپ بیمار ہیں؟ جس پر وہ کھانسنے لگیں اور لڑکا بولا بھائی ہم حیدرآباد میں رہتے ہیں اور ہمارے پاس گھر جانے کے پیسے نہیں ہیں ہمیں وہاں جانے کے پیسے دے دیجئے تو مہربانی ہوگی ۔۔۔۔میں ابھی 5 ہزار یاد آجانے پر آگ بگولا ہو ہی رہا تھا کہ گاڑی میں والدہ ان کی یہ حالت دیکھ کر آبدیدہ ہو گئیں، اور فوراً 1 ہزار کا نوٹ نکال کر مجھ سے گویا ہوئیں کہ بیٹا ان کو دے دو، میں نے کہا امی سے کہا کہ ذرا رکئے اور ملاحظہ کیجئے، پھر میں خاتون سے گویا ہوا! آئے آپ کو حیدرآباد پولیس کے ذریعے پہنچواتا ہوں، ابھی یہ الفاظ کہہ کر جیب سے موبائل فون نکالا ہی تھا کہ وہ عورت جو بیمار نظر آرہی تھی وہ ایسے ایکٹو ہوگئیں جیسے اولمپک ریس میں گولڈ میڈل جیتنے کا ارادہ ہو، وہ لڑکا بھی شاید مجھے پہچان گیا تھا، اس کے بعد بغیر کچھ کہے وہ دونوں اتنی تیز رفتاری سے وہاں سے بھاگے جیسے اگلا اسٹاپ حیدرآباد کا ہو۔ میری والدہ یہ سب دیکھ کے پریشان نظر آرہی تھیں جس پر ان کو سارا واقعہ سنایا۔
اگر آپ بھی کراچی کی کسی سڑک پر ایسے کسی کو دیکھیں تو ذرا تحقیق کر لیجئے گا، 5 ہزار کا یہ دھچکا مجھے ہمیشہ یاد رہے گا، مزید سنیئے جس سے آ پ کو معلوم ہوگا کہ کراچی میں فنکاروں کی کوئی کمی نہیں ہے، آجکل کراچی کے سڑکوں پر ایک اور ڈرامہ بھی پیش ہورہا ہے، اور وہ کچھ یوں کہ 14 سے 15 سال کا ایک بچہ سڑے ہوئے چھولے جن پر زردے کا رنگ لگا کر انھیں ایسا کر دیا جاتا ہے جیسے بالکل تازے ہوں وہ کسی بھی شاہراہ پر گرا دیتا ہے اور اسی مُقام پر وہ لڑکا اس انداز میں بیٹھتا ہے جیسے رو رہا ہو، اس اداکاری کی مثال نہیں ملتی، بس راہ چلتے جو بھی دیکھتا ہے وہ یہی گمان کرتا ہے کہ بچہ کمانے نکلا تھا اور اس کے تھال میں رکھے سارے چھولے گر گئے تو کوئی 50 روپے دیتا ہے تو کوئی 500 سو روپے۔
یہ واقعات بیان کرنے کا مقصد محض یہی ہے کہ اس طرح کے بہت سے غریب اور ضرورت مند آپ کو نظر آئیں گے، جو اس طرح کے ڈرامے رچاکر اور مستحقین کا حصہ بٹور رہے ہیں، اور ان کا یہ کاروبار پھل پھول ہی رہا ہے۔ یہاں ایک غلطی ہم سب کی بھی ہے کہ اور وہ یہ کہ ہم بھی کتنے ہی ہوشیار کیوں نہ ہوں، ہمدردی کے جذبات سے مغلوب ہو کر یہ نہیں دیکھتے کہ ہمارے آگئے ہاتھ پھیلانے والا آیا اس بھیک کا مستحق بھی ہے یا پھر وہ بغیر کسی محنت کے دن بھر مانگنے کا عادی بن چکا ہے۔
تحسین کے 5 ہزار روپے تو فراڈ کی نذر ہوگئے لیکن اس واقعہ سے میں نے سیکھا کہ ہمیں اس طرح کے ڈرامے بازوں سے بچ کر رہنا چاہئے اور ان کی حوصلہ شکنی کے ساتھ ہی ہمارا فرض ہے کہ سڑکوں پر پھرنے والے ان مافیا کو بے نقاب بھی کریں تاکہ معاشرے سے یہ ناسور ختم ہو سکے۔
[poll id="693"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس