قانون کے کُھلے تضاد
جب ایک دودھ فروش کو نا اہل قرار دیا جاسکتا ہے تو کرپشن اسکینڈلز میں ملوث مجرموں کی باری کب آئے گی؟
ISLAMABAD:
کہانی کا آغاز ہوتا ہے میرے اسکول کے دور سے، جب میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا، تب ہماری جماعت میں ولید نامی لڑکے کا ایڈمشن ہوا، چونکہ ہم ''بیک بینچرز'' تھے، لہٰذا ٹیچر نے اسے اگلی ڈیسک پر بٹھایا جہاں عموماً پڑھاکو طالب علم بیٹھا کرتے تھے۔ کچھ عرصے بعد ہی ہمیں اندازہ ہوگیا کہ ولید صاحب میں پڑھنے لکھنے والی کوئی صلاحیت نہیں ہے، موصوف اپنی چرب زبانی اور خوش آمدانہ فطرت کی وجہ سے ہی ٹیچرز کے لاڈلے بنے بیٹھے ہیں۔
ہمارے ریاضی کے استاد اسپیڈ اسٹار شعیب اختر کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے ریاضی کی گتھیاں سلجھاتے تھے جو ہمیں بالکل پلے نہیں پڑتی تھیں، پر جوں ہی ہم کہتے کہ ''سر ہمیں سوال سمجھ نہیں آیا'' تب ہی اچانک ولید با آواز بلند کہتا ''سر سمجھ آگیا'' اور پھر جب ہاف ٹائم میں ولید سے اس سوال کی بابت پوچھا کرتے تو موصوف چمکدار دندیاں دکھاتے ہوئے کہتے،
کچھ عرصہ بعد ماہانہ ٹیسٹ شروع ہو گئے اور حسبِ توقع ریاضی میں ہم چاروں دوستوں کی ٹولی بری طرح فیل ہوگئی لہٰذا ہم چاروں کو ڈیسک پر کھڑا کردیا گیا، پر حیرت تب ہوئی جب ہم نے ولید کو بھی ڈیسک پر کھڑے ہوتے دیکھا، اب تھوڑی دلی تسلی ہوگئی کہ چلو آج اس ''پڑھاکو'' کو بھی ہمارے ساتھ سزا ملے گی، ریاضی کے استاد صاحب کلاس میں داخل ہوئے اور ایک ایک کر کے ہم چاروں دوستوں کو اپنے پاس بلایا اورخوب درگت بنائی، خیر ہم تو عادی تھے ایسی سزاؤں کے، سو مار کھا کر اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے اور بہت اشتیاق سے ولید کو پڑنے والی متوقع مار کا نظارہ دیکھنے کو تیار ہوگئے۔ جوں ہی ولید کی باری آئی استادِ محترم نے موصوف کو اپنے پاس بلایا اور اسکی خاطر تواضع کرنے کے بجائے اسے سمجھانے لگے ''بیٹا دیکھو نالائق بچوں کے ساتھ نہ بیٹھا کرو، تم تو اتنے ''ذہین'' ہو، آئندہ اچھی طرح سے تیاری کرنا شاباش اپنی سیٹ پر جا کر بیٹھ جاؤ'' ۔
یہ سنتے ہی ہمارا خون جل گیا اور ہم نے صدائے احتجاج بلند کردی، سر یہ بھی تو فیل ہوا ہے اسے بھی سزا دیجئے۔ چپ کرو نالائقو! اگر تم لوگ ٹھیک سے پڑھنے والے ہوتے تو آج ولید فیل نہ ہوتا۔ تمھیں دیکھ دیکھ کر یہ ''بیچارہ'' ایسا ہوگیا۔۔۔ سر نے گرجتے ہوئے کہا، اور ہم جھاگ کی طرح بیٹھ گئے کہ یہاں تو الٹا دوسروں کے اعمالِ بد بھی ہمارے پلڑے میں ڈالے جا رہے ہیں۔
یہ تو میرے زمانہ طالب علمی کا واقعہ ہے، واقعہ بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ چند روز پہلے ایک خبر پڑھی کہ گوجرانوالہ میں ریٹرننگ افسر نے ایک امیدوار کے کاغذات نامزدگی یہ کہہ کر مسترد کردئیے کہ، جناب دودھ سرکاری نرخ سے زائد قیمت پر بیچ کر عوام کو ''دھوکہ'' دینے کا مرتکب ہوا ہے لہٰذا یہ الیکشن لڑنے کا اہل نہیں۔ یہ سنتے ہی وہ دودھ فروش بیہوش ہوگیا اور اسے ایمبولینس میں اسپتال لے جایا گیا.
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ وہ نااہلی کے صدمے کی وجہ سے بیہوش ہوا ؟ نہیں سرکار میری ناقص رائے کے مطابق ایسا نہیں ہوا ہوگا، بلکہ اس پر بیہوشی طاری ہونے کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جہاں رینٹل پاور سے لیکر سولر پاور تک اربوں روپے کے گھپلے کرنے والے، ناجائز شوگر ملز سے ذخیرہ اندوزی کرکے ناجائز منافع کمانے، ٹیکس چوری کرنے والے، سیاست سیاست کھیل کر عوام کو آپس میں لڑوا کر خود شیر و شکر ہوجانے والے، منی لانڈرنگ میں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے تک سب قانون کو منہ چڑا کر اپنے نام کے ساتھ ''معزز'' اور ''صاحب'' کے لاحقہ اور سابقہ لگانے کے حقدار ہیں، شرفا کہلانے کے حقدار ہوسکتے ہیں پر ایک دودھ فروش الیکشن لڑنے کا حقدار نہیں ہوسکتا کیوں کہ اس نے،
کیا کوئی وضاحت کرسکتا ہے کہ یہ دہرے معیار کیوں ہیں؟ جب ایک دودھ فروش کو نا اہل قرار دیا جاسکتا ہے تو بڑے بڑے کرپشن اسکینڈلز میں ملوث مجرموں کی باری کب آئے گی؟ ان کا احتساب بھی کیا جائے گا یا قانون بھی اپنی چابک دستیاں محض عوام پر ہی آزما تے ہوئے ہمارے ریاضی کے استاد کی طرح کمزور جواز ہی گھڑ سکتا ہے کہ،
[poll id="699"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
کہانی کا آغاز ہوتا ہے میرے اسکول کے دور سے، جب میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا، تب ہماری جماعت میں ولید نامی لڑکے کا ایڈمشن ہوا، چونکہ ہم ''بیک بینچرز'' تھے، لہٰذا ٹیچر نے اسے اگلی ڈیسک پر بٹھایا جہاں عموماً پڑھاکو طالب علم بیٹھا کرتے تھے۔ کچھ عرصے بعد ہی ہمیں اندازہ ہوگیا کہ ولید صاحب میں پڑھنے لکھنے والی کوئی صلاحیت نہیں ہے، موصوف اپنی چرب زبانی اور خوش آمدانہ فطرت کی وجہ سے ہی ٹیچرز کے لاڈلے بنے بیٹھے ہیں۔
ہمارے ریاضی کے استاد اسپیڈ اسٹار شعیب اختر کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے ریاضی کی گتھیاں سلجھاتے تھے جو ہمیں بالکل پلے نہیں پڑتی تھیں، پر جوں ہی ہم کہتے کہ ''سر ہمیں سوال سمجھ نہیں آیا'' تب ہی اچانک ولید با آواز بلند کہتا ''سر سمجھ آگیا'' اور پھر جب ہاف ٹائم میں ولید سے اس سوال کی بابت پوچھا کرتے تو موصوف چمکدار دندیاں دکھاتے ہوئے کہتے،
''سمجھ تو مجھے بھی نہیں آیا''
کچھ عرصہ بعد ماہانہ ٹیسٹ شروع ہو گئے اور حسبِ توقع ریاضی میں ہم چاروں دوستوں کی ٹولی بری طرح فیل ہوگئی لہٰذا ہم چاروں کو ڈیسک پر کھڑا کردیا گیا، پر حیرت تب ہوئی جب ہم نے ولید کو بھی ڈیسک پر کھڑے ہوتے دیکھا، اب تھوڑی دلی تسلی ہوگئی کہ چلو آج اس ''پڑھاکو'' کو بھی ہمارے ساتھ سزا ملے گی، ریاضی کے استاد صاحب کلاس میں داخل ہوئے اور ایک ایک کر کے ہم چاروں دوستوں کو اپنے پاس بلایا اورخوب درگت بنائی، خیر ہم تو عادی تھے ایسی سزاؤں کے، سو مار کھا کر اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے اور بہت اشتیاق سے ولید کو پڑنے والی متوقع مار کا نظارہ دیکھنے کو تیار ہوگئے۔ جوں ہی ولید کی باری آئی استادِ محترم نے موصوف کو اپنے پاس بلایا اور اسکی خاطر تواضع کرنے کے بجائے اسے سمجھانے لگے ''بیٹا دیکھو نالائق بچوں کے ساتھ نہ بیٹھا کرو، تم تو اتنے ''ذہین'' ہو، آئندہ اچھی طرح سے تیاری کرنا شاباش اپنی سیٹ پر جا کر بیٹھ جاؤ'' ۔
یہ سنتے ہی ہمارا خون جل گیا اور ہم نے صدائے احتجاج بلند کردی، سر یہ بھی تو فیل ہوا ہے اسے بھی سزا دیجئے۔ چپ کرو نالائقو! اگر تم لوگ ٹھیک سے پڑھنے والے ہوتے تو آج ولید فیل نہ ہوتا۔ تمھیں دیکھ دیکھ کر یہ ''بیچارہ'' ایسا ہوگیا۔۔۔ سر نے گرجتے ہوئے کہا، اور ہم جھاگ کی طرح بیٹھ گئے کہ یہاں تو الٹا دوسروں کے اعمالِ بد بھی ہمارے پلڑے میں ڈالے جا رہے ہیں۔
یہ تو میرے زمانہ طالب علمی کا واقعہ ہے، واقعہ بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ چند روز پہلے ایک خبر پڑھی کہ گوجرانوالہ میں ریٹرننگ افسر نے ایک امیدوار کے کاغذات نامزدگی یہ کہہ کر مسترد کردئیے کہ، جناب دودھ سرکاری نرخ سے زائد قیمت پر بیچ کر عوام کو ''دھوکہ'' دینے کا مرتکب ہوا ہے لہٰذا یہ الیکشن لڑنے کا اہل نہیں۔ یہ سنتے ہی وہ دودھ فروش بیہوش ہوگیا اور اسے ایمبولینس میں اسپتال لے جایا گیا.
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ وہ نااہلی کے صدمے کی وجہ سے بیہوش ہوا ؟ نہیں سرکار میری ناقص رائے کے مطابق ایسا نہیں ہوا ہوگا، بلکہ اس پر بیہوشی طاری ہونے کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جہاں رینٹل پاور سے لیکر سولر پاور تک اربوں روپے کے گھپلے کرنے والے، ناجائز شوگر ملز سے ذخیرہ اندوزی کرکے ناجائز منافع کمانے، ٹیکس چوری کرنے والے، سیاست سیاست کھیل کر عوام کو آپس میں لڑوا کر خود شیر و شکر ہوجانے والے، منی لانڈرنگ میں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے تک سب قانون کو منہ چڑا کر اپنے نام کے ساتھ ''معزز'' اور ''صاحب'' کے لاحقہ اور سابقہ لگانے کے حقدار ہیں، شرفا کہلانے کے حقدار ہوسکتے ہیں پر ایک دودھ فروش الیکشن لڑنے کا حقدار نہیں ہوسکتا کیوں کہ اس نے،
''عوام سے20 روپے کا دھوکہ کیا اور یہ دھوکہ کوئی زور زبردستی نہیں کیا گیا بلکہ عوام نے اپنی مرضی سے اسے رقم دی'' ۔
کیا کوئی وضاحت کرسکتا ہے کہ یہ دہرے معیار کیوں ہیں؟ جب ایک دودھ فروش کو نا اہل قرار دیا جاسکتا ہے تو بڑے بڑے کرپشن اسکینڈلز میں ملوث مجرموں کی باری کب آئے گی؟ ان کا احتساب بھی کیا جائے گا یا قانون بھی اپنی چابک دستیاں محض عوام پر ہی آزما تے ہوئے ہمارے ریاضی کے استاد کی طرح کمزور جواز ہی گھڑ سکتا ہے کہ،
یہ تو تمھیں دیکھ دیکھ کر ''بیچارے'' ایسے ہوگئے۔۔۔
[poll id="699"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس