تحریک آزادی کے ہیرو
نہرو کی یہ بات الہامی نکلی کیونکہ اس کے چند سال بعد ہی برطانیہ کو برصغیر سے نکل جانا پڑا
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر پاکستان برصغیر کی جنگ آزادی کے ''ہیروز'' کو تسلیم کرنے سے کیوں متردد ہے، بھگت سنگھ بھی ان میں سے ایک ہے۔ چوراسی سال پہلے اس کو لاہور میں ایک خصوصی عدالت نے سزائے موت سنائی اور اسے شہر کی جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ پاکستان کو اس حوالے سے ہونے والی تقریبات کی سربراہی کرنی چاہیے۔ بھگت سنگھ کی زندگی کے بارے میں پاکستان کے اسکولوں میں بھی پڑھایا جانا چاہیے جیسا کہ بھارت میں ہوتا ہے۔ اسلام میں ایسی کوئی رکاوٹ نہیں کہ دوسرے مذاہب کے ہیروز کو تسلیم نہ کیا جائے۔
بھگت سنگھ نے جان ساؤنڈرز (John Saunders) کو غلطی سے جنرل اسکاٹ سمجھ کر گولی مار دی کیونکہ جنرل اسکاٹ نے تحریک آزادی کے ایک لیڈر لالہ لاجپت رائے پر بنفس نفیس نہایت سفاکی کے ساتھ لاٹھی چارج کیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب جواہر لعل نہرو نے کہا کہ لاٹھی چارج برطانوی سامراج کے تابوت میں آخری کیل ہے۔
نہرو کی یہ بات الہامی نکلی کیونکہ اس کے چند سال بعد ہی برطانیہ کو برصغیر سے نکل جانا پڑا۔ بھارت کے چند متحرک لوگ پاکستان کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ راج گرو اور سُکھ دیو کو بھی خراج عقیدت پیش کیا جائے جنھیں بھگت سنگھ کے ساتھ ہی پھانسی دیدی گئی تھی۔ ہم میں سے بعض لوگ چند سال قبل لاہور گئے تھے تا کہ اس جگہ کو صاف کروایا جا سکے جہاں انھیں پھانسی دی گئی تھی۔ اس جگہ پر ٹریفک کا ایک چوک بنا ہوا ہے۔ اور اس وقت ہم نے پاکستانی میڈیا کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ بھگت سنگھ کی یاد میں بھی کوئی پروگرام تشکیل دیں۔
لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بھارت میں بھی کئی سال سے بھگت سنگھ پر توجہ کم ہو رہی ہے۔ میڈیا بھی خاموش ہے۔ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی آزادی کے لیے قربانیوں کی یاد میں شاذ و نادر ہی کوئی جلسہ ہوا ہو گا۔ دوسری طرف برطانوی تاریخ دان مسلسل بھگت سنگھ اور چندر شیکھر آزاد کو ''دہشت گرد'' قرار دے دے کر ان کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چندر شیکھر آزاد کو بھی غیر ملکی حکومت کے خلاف بغاوت کے الزام میں پھانسی دی گئی تھی۔
ظاہر ہے کہ برطانیہ کو دہشت گرد اور انقلابی میں فرق کا پتہ ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ خود دہشت گرد کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ اس نے آزادی طلب کرنے والے ہزاروں انقلابیوں کو ہلاک کیا اور دوسری طرف وہ دنیا کی قدیم ترین جمہوریت ہونے کا دعویدار بھی ہے۔غیر ملکی حکمران ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی حکومت محکوموں کی مدد کرتی ہے۔
برطانوی حکومت کو بھی کوئی استثناء نہیں۔ وہ اپنی حکمرانی کے بارے میں بھی یہی کہتے ہیں لیکن اگر ان کی ایذا رسانیوں کا شمار کیا جائے تو ریکارڈ بے حد ہولناک بنتا ہے۔ اگر یہ پوچھا جائے کہ برطانیہ کی 150 سالہ حکومت کے بارے میں ہمارے باشندوں نے اسے بدنام کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی تو اس کا سہرا ہمارے ہی سر بندھتا ہے کہ ہم نے ماضی کی تلخیاں بھلا کر ملکہ کی سربراہی میں دولت مشترکہ میں بھی شمولیت اختیار کر لی۔ اس کے باوجود برطانیہ والوں نے کبھی بھارتیوں کی اس فراخدلی کے بارے میں انھیں کوئی خراج تحسین پیش نہیں کیا بلکہ تحریک آزادی کے بارے میں تنقید جاری رکھی۔
یہ اطلاع بڑی خوش آئند ہے کہ پاکستان اس گھر کو محفوظ رکھنے کے لیے رقم مختص کر رہا ہے جہاں بھگت سنگھ نے اپنا بچپن اور لڑکپن کا زمانہ گزارا۔ بے شک جنھوں نے تقسیم سے قبل برطانیہ کے ہاتھوں اذیتیں اٹھائیں وہ تینوں ملکوں کے ہیرو ہیں یعنی پاکستان' بنگلہ دیش اور بھارت کے ہیرو۔ کاش کہ تینوں ملک مشترکہ طور پر اپنے عوام کو ان کے کارناموں سے آگاہ کرتے کیونکہ تینوں ملکوں کی تاریخ ایک ہی ہے۔ ان کا ورثہ بھی سانجھا ہے اور تینوں نے ہی برطانیہ کے ہاتھوں زک اٹھائی ہے۔
برطانوی سفاکیت کی کئی مثالیں ہیں۔ جلیانوالہ باغ کا سانحہ (13 اپریل1919ء) یہ تحریک آزادی کا ایک سنگ میل تھا۔ بریگیڈئیر جنرل ریجنلڈ ڈائیر نے، جسے لیفٹیننٹ گورنر پنجاب مائیکل اودوائر نے امرتسر کا کنٹرول سونپا تھا، 13 اپریل 1919ء کو بیساکھی کے میلے کو پنے انتقامی جذبے کی تسکین کے لیے منتخب کیا۔ وہاں پر لوگ نئے نافذ ہونیوالے برطانوی قانون ''رولٹ ایکٹ'' کے خلاف احتجاج کر رہے تھے جس کے تحت حکمرانوں کو بغیر مقدمہ چلائے کسی کو بھی حراست میں لینے کا اختیار دیدیا گیا تھا۔
اس موقع پر تقریباً 20,000 افراد باغ میں جمع تھے جسے جلیانوالہ باغ کہا جاتا تھا، جو کہ دربار صاحب یا گولڈن ٹمپل کے بازو میں تھا۔ ڈائیر نے پولیس والوں کو اس انداز سے مظاہرین پر چھوڑ دیا جیسے شکاری اپنے کتوں کو شکار پر چھوڑتے ہیں۔ اور اس نے باغ کے اکلوتے دروازے کو جان بوجھ کر بند کرا دیا تا کہ کوئی بھی بچ کر نہ نکل سکے۔ مردوں' عورتوں اور بچوں کو مشین گنوں سے نشانہ بنایا گیا اور اس وقت تک ان پر گولیاں برسائی جاتی رہیں جب تک کہ ان کا سارا بارود ختم نہ ہو گیا۔
اس موقع پر 1650 گولیاں چلائی گئیں۔ بیسیوں لوگوں نے جان بچانے کے لیے باغ میں واقع اکلوتے کنوئیں میں چھلانگیں لگا دیں۔ کہا جاتا ہے کہ کنواں لاشوں سے بھر گیا تھا۔ کم از کم 400 افراد موقع پر ہلاک ہوئے جب کہ 1500 زخمیوں کو اسپتال لے جایا گیا۔ اس واقعے سے لندن کی حکومت خود لرز اٹھی۔ انھوں نے ڈائیر کو برصغیر سے واپس بلا لیا اور اسے ایک تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا جہاں اس نے کہا کہ اس نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔
اس نے ندامت کا کوئی تاثر دیا اور نہ ہی اسے اعلی حکام کی طرف سے کوئی تنبیہ کی گئی، بلکہ برطانیہ کی سیاسی حلقوں میں الٹا اس کی ستائش کی گئی اور کہا گیا کہ اس نے پنجاب کو ''انارکی'' سے بچا لیا ہے۔ جو حکمران مہاتما گاندھی پر انارکسٹ ہونے کا الزام لگاتے ہیں تھے وہ کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں تا کہ جدوجہد آزادی کو بدنام کیا جائے۔ انقلابی اپنے آپ کو شمع کے پروانوں سے تشبیہ دیتے تھے جو شمع جلنے پر بھسم ہو جاتے ہیں۔ اگر ہمارے انقلابی ہیرو اپنی جانوں کے نذرانے پیش نہ کرتے تو وہ ہزاروں افراد جن کو برطانوی حکمرانوں نے جیلوں میں ٹھونس رکھا تھا کبھی رہائی حاصل نہ کرتے اور نہ ہی ان کے دل میں آزادی کے لیے جان دینے کا جذبہ بیدار ہوتا۔
بھگت سنگھ بڑی تفصیل سے روزنامچہ لکھتا تھا کئی جگہ اس نے بتایا کہ کسی کو ہلاک کرنے کے بارے میں اس کا کیا نظریہ ہے۔ ''ہم انسانی زندگی کو بے حد مقدس قرار دیتے ہیں لیکن ہم انسانیت کی خاطر کسی کو زخمی کرنے کے بجائے اپنی جان دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمارے دل میں کوئی انتقام یا بدلے کے لیے خون خرابہ کرنے کا جذبہ نہیں۔ یہ بنیادی طور پر ایک سیاسی اہمیت کی جدوجہد ہے جو ہماری آخری جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرے گی۔''
مہاتما گاندھی جو کہ انقلابیوں کے پر تشدد طریق کار کے خلاف تھے انھوں نے بھی جان دینے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا جب انھیں پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا ''بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی جنھیں پھانسی دی گئی وہ سب شہید ہیں ان کی موت سے بہت سے لوگوں کو ذاتی نقصان ہوا ہو گا۔ میں بھی ان نوجوانوں کی یاد کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں لیکن اس کے ساتھ ہی میں ملک کے نوجوانوں کو انتباہ کرتا ہوں کہ وہ ان کی مثال کی پیروی نہ کریں۔ ہمیں اپنی توانائی اور قربانی کے جذبے کو اس طرح ضایع نہیں کرنا چاہیے۔ اس ملک کو خون خرابے کے ذریعے آزاد نہیں کرانا چاہیے''۔ مہاتما گاندھی کے یہ الفاظ بھارت اور پاکستان دونوں کے لیے نصیحت کا درجہ رکھتے ہیں۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)