نسوانی خاکے
شاہد حنائی نے’’نسوانی خاکے‘‘ کے عنوان سے کچھ ایسے خاکے جمع کیے ہیں جو خواتین کے لکھے ہوئے ہیں۔
ISLAMABAD:
شاہد حنائی نے''نسوانی خاکے'' کے عنوان سے کچھ ایسے خاکے جمع کیے ہیں جو خواتین کے لکھے ہوئے ہیں۔ امریتا پریتم نے خود اپنا خاکہ لکھا ہے جوان کی جیون کہانی ہے۔
وہ چھوٹی سی تھیں کہ ان کی ماں کا انتقال ہوگیا۔ ماں کی موت کا ان پر بڑا اثر تھا۔ لکھتی ہیں ''میں چھوٹی تھی، ماں مر چکی تھی، بھائی بہن کوئی تھا نہیں اور پتا جی رات بھر اپنے کمرے میں بیٹھے کچھ لکھتے رہتے تھے، میں بالکل اکیلی اپنے گھر کی چھت پر کھڑی ہوکر چاند کی جانب دیکھتی رہتی تھی۔ چاند کے سینے میں پڑے ہوئے داغ مجھے یوں نظر آتے جیسے کسی کا نام لکھا ہو اور میری آنکھوں میں یہ نام میری ماں کا نام بن جاتا۔ راج ! پھر جب میں جوان ہوگئی اور تصور میں اپنے محبوب کا چہرہ دیکھنے لگی تو میں نے اس تخیلی محبوب کا ایک تخیلی نام بھی رکھ لیا۔ ''راجن'' میں جب چاندکو دیکھتی تو یوں محسوس ہوتا جیسے چاند کے سینے کے داغ بڑے ہوگئے ہیں اور اب وہاں لکھا ہوا ہے۔
''راجن'' چاند کے سینے میں پڑے ہوئے داغ بھی ابدی ہیں اور میری بھٹکی ہوئی نظریں بھی ابدی ہیں۔ میری نظموں اور افسانوں کے سینے میں جو داغ ہیں اگر کوئی انھیں حروف کی مانند آپس میں ملا کر دیکھے تو یہی دو لفظ بنیں گے۔ راج اور راجن۔''امریتا پریتم کی ماں کے مرنے کے بعد لوگوں نے ان کے باپ کو مشورہ دیا کہ وہ دوسری شادی کرلیں لیکن انھوں نے شادی نہیں کی اور ایک دن اس ننھی بچی کو اپنے پاس بٹھا کرکہا ''لوگ شادی اس لیے کرتے ہیں کہ ان کے گھر میں بیٹا ہو۔ لوگ اس لیے بیٹے کی تمنا کرتے ہیں کہ ان کے خاندان کا نام چلے۔ میں تمہیں ایسا فن سکھاؤں گا کہ تمہارا نام ہزاروں کے بیٹوں کے نام سے زیادہ روشن اور مشہورہوگا اوراس طرح تمہارے نام سے میرے خاندان کا نام چلے گا۔''
امریتا لکھتی ہیں ''اس بچی نے ہاتھوں میں کاغذ قلم لے کر سیکھنا شروع کیا اور پنجاب کی مشہور شاعرہ امریتا پریتم بن گئی۔مجھے وہ جوان لڑکی بھی نہیں بھولتی جس نے کئی سال تک دل ہی دل میں کسی سے پریم کیا۔ جب بھی کوئی گیت لکھا تو اسی کے چہرے کو اپنے تصور میں رکھا لیکن جس سے پریم کیا وہ ہمیشہ اس سے بے پرواہ رہا۔''
امرتا پریتم لکھتی ہیں۔ پھر اس شخص نے اس لڑکی سے کہا۔ تم درحقیقت اتنی حسین ہو کہ تم سے پیارکرتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ اس کے بعد اس لڑکی کی عمر کے تمام جوان سال سوچ بچار کی الجھن میں گم ہوگئے۔ اب وہ جوان لڑکی یعنی میں جب بیالیس سال کی عورت بن گئی ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں جب بھی آئینے کے سامنے کھڑی ہوتی ہوں تو زبان حال سے کہتی ہوں۔ دیکھو! اب تو میں حسین نہیں رہی، میرے چہرے پر عمر کی کتنی لکیریں پڑ گئی ہیں، میرا رنگ کتنا کالا ہوتا جا رہا ہے۔کیا تم اب بھی مجھ سے پیار نہ کرو گے؟''ہندوستانی افسانہ نگار ڈاکٹر رینو بہل نے اپنی ماں کا خاکہ لکھا ہے۔
ان کی چاچی اپنی اکلوتی بیٹی کو دل و جان سے پیارکرتی تھیں تو انھیں بڑا رشک آتا تھا اور وہ یہ سوچتی تھیں کہ میری ماں مجھے اس طرح پیارکیوں نہیں کرتی۔ پھر وہ یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دے لیتیں کہ شاید انھیں لاڈ کرنا، چومنا اور چھاتی سے لگانا یہ سب آتا ہی نہیں یا پھر ان کے پاس اس کے لیے وقت ہی نہیں۔ حقیقت بھی یہ تھی کہ وہ اکیلی ہی گھر کا سارا کام سنبھالتیں۔ صبح سے شام تک وہ گھر کے کاموں میں مصروف رہتیں۔ رینو لکھتی ہیں۔''ماں ضد کی بڑی پکی تھیں۔
ان کی دلی خواہش تھی کہ وہ اپنی بیٹیوں کو (یہ چار تھیں) اچھی تعلیم دیں۔ انھیں اپنی تعلیم بیچ میں چھوٹ جانے کا بڑا رنج تھا۔ انھوں نے ہمیں بہترین انگلش میڈیم اسکول میں داخلہ دلوانے کی ضد پکڑی۔ پاپا کہتے میں اکیلا کمانے والا ہوں، میرے لیے یہ مشکل ہوجائے گا۔ ماں ضد پر اڑی رہیں۔ کہنے لگیں میں گھر کے اخراجات میں کمی کرلوں گی، اگر ایک ساڑھی میں گزارا کرنا پڑا تو کرلوں گی مگر لڑکیاں پڑھیں گی وہیں۔ آخر ماں کی ضد کے آگے بابا کو جھکنا پڑا۔''
رینو بہل لکھتی ہیں کہ ان کی ماں کو اپنی بات منوانے اور دوسروں سے کام لینے کا ہنر خوب آتا تھا۔ گھر میں ان کی مرضی کے بغیر پتّا بھی نہیں ہلتا تھا۔ وہ کوئی فضول بات نہ کہتی تھیں، نہ سنتی تھیں۔ ہم ماں سے زیادہ اپنے باپ سے قریب تھے، وہ والد ہی نہیں بھائی اور دوست بھی تھے۔ پھر اچانک سڑک کے ایک حادثے میں وہ چل بسے۔ یہ ہماری زندگی کا سب سے بڑا سانحہ تھا، ڈر تھا کہ کہیں یہ طوفان ماں کو بہا نہ لے جائے مگر وہ ایک مضبوط چٹان کی طرح جمی رہیں۔
نہ خود ٹوٹیں اور نہ ہمیں ٹوٹنے دیا۔عصمت چغتائی نے اپنے خاکے میں خود اپنا احوال لکھا ہے۔ وہ لکھتی ہیں ۔''ددھیال والوں کا خیال تھا کہ میں پورم پور اپنی ننھیال والوں پرگئی ہوں۔ نگوڑے شیخ، پتلی دال کھانے والے، مگر ننھیال کو یقین تھا کہ میں سو فی صد ددھیال والوں پر پڑی ہوں۔ وہی اپنی پھوپی جیسا تیہا اورگز بھر کی زبان، چنگیز خان کی اولاد سے اور کیا امید کی جاسکتی ہے۔ لیکن اگر کوئی میری اماں سے پوچھتا کہ بیٹی کو کیا ہوگیا ہے تو وہ ٹھنڈی سانس بھر کرکہتیں، کہ ددھیال والوں کا قصور ہے نہ ننھیال کا۔ یہ سب نصیب کا پھیر ہے۔''
عصمت کا اپنا خیال یہ تھا کہ ضرور پالنے پوسنے میں کہیں بھول چوک ہوئی ہے۔ لکھتی ہیں۔ ''مگر مجھے بہ ذات خود اس ماحول سے کوئی شکایت نہیں جہاں میری تراش خراش ہوئی۔ کچر پچر بچوں کے جم غفیر میں ایک پاپیادہ سپاہی کی طرح میں نے تربیت پائی، نہ لاڈ ہوئے، نہ نخرے۔ نہ کبھی تعویذ گنڈے بندھے، نہ نظر اتاری گئی، نہ کبھی میں نے خود کوکسی کی زندگی کا اہم حصہ محسوس کیا۔ بہنیں چونکہ بڑی نکل گئیں، اس لیے بھائیوں کی صف میں جگہ ملی۔ کھیل کود کا زمانہ انھی کے ساتھ گلی ڈنڈا، فٹ بال اور ہاکی کھیلنے میں گزرا، پڑھائی بھی ان ہی کے ساتھ ہوئی۔ سچ پوچھیے تو اصل مجرم میرے بھائی ہی تھے جن کی صحبت نے مجھے ان ہی کی طرح آزادی سے سوچنے پر مجبورکیا۔ وہ شرم وحیا جو عام طور پر درمیانے طبقے کی لڑکیوں کی لازمی صفت سمجھی جاتی ہے، پنپ نہ سکی۔
عصمت کے والد کی پنشن ہوگئی تو وہ آکر آگرہ کے موروثی گھر میں رہنے لگے۔ لکھتی ہیں۔ ''کھلی ہوا میں اڑنے کے بعد ایک دم سے نہایت بوسیدہ ماحول کی گھٹن سے واسطہ پڑا۔کہاں فٹ بال اورگلی ڈنڈا اورکہاں آگرہ کی بوسیدہ گلیاں اور ان میں پلنے والی جھکی جھکی، نیم مدقوق لڑکیاں جو اپنے دل کی دھڑکن سے سہم جاتیں۔ میری ان لڑکیوں سے بالکل نہ بنی اور ان بوڑھیوں سے ٹھن گئی جو مجھے چھجوں پر قلانچیں بھرتا دیکھ کر ہیبت زدہ ہوجاتیں۔''مگر یہ ماحول جلد ہی بدل گیا اور جب عصمت کے گھر والے علی گڑھ منتقل ہوگئے تو یہاں کی کھلی فضا میں ان کی پرانی زندگی لوٹ آئی۔
علی گڑھ میں عظیم بیگ چغتائی نے جو ان کے بڑے بھائی تھے انھیں تاریخ اور انگریزی پڑھانی شروع کردی۔ لکھتی ہیں۔ ''ان کے پڑھانے کا طریقہ عجیب تھا۔ کوئی ناول دیتے کہ اس کا ترجمہ کر ڈالو۔ انگریزی سے اردو میں، اردو سے انگریزی میں۔ ناولوں کا ترجمہ کرنے میں کئی فائدے تھے، ایک تو یہ کہ پوری ناول کا ترجمہ کرنے سے پہلے ناول ختم کرنا پڑتی تھی۔ اسی زمانے میں مجھے شدت سے ناولیں پڑھنے کا چسکا پڑ گیا۔ ساری ساری رات ناولیں، کہانیاں پڑھا کرتی۔''
بعد میں عظیم بیگ کے افسانے پڑھ پڑھ کر عصمت نے خود بھی چھپ چھپ کے لکھنا شروع کردیا۔ وہ لکھتی ہیں۔ ''حجاب اسمٰعیل، مجنوں گورکھپوری اور نیاز فتح پوری کے افسانے پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا گویا یہ سب کچھ میرے اوپر ہی بیت رہی ہے اور پھر میں نے خود کو افسانے کی ہیروئن تصور کرکے نہایت چٹ پٹے قسم کے واقعات لکھنا شروع کردیے۔''
عصمت عموماً ایسی کہانیاں لکھ کر فوراً پھاڑ ڈالا کرتی تھیں کیونکہ انھیں معلوم تھا وہ ''گندی'' ہیں اور اگر کسی نے پڑھ لیں تو بہت مار پڑے گی۔ پھرکالج کے دنوں میں انگریزی ادب خصوصاً برنارڈ شا کے مطالعے سے متاثر ہوکر پہلا ڈرامہ ''فسادی'' لکھا مگر جلد ہی اس سحر سے آزاد ہوکر کہانیاں لکھنا شروع کردیں۔
اسی دور میں ان کی ملاقات رشید جہاں سے ہوئی جن کی ''طوفانی ہستی'' نے ان کے وجود کو ہلاکر رکھ دیا۔ لکھتی ہیں۔''زندگی ننگی چم ہوکر سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔ ان سے گھنٹوں باتیں کرکے بھی جی سیر نہ ہوتا۔ جی چاہتا انھیں کھا جاؤں۔ کیا کروں، جو رشیدہ آپا سے مل چکے ہیں، انھیں اچھی طرح جانتے ہیں اگر وہ میری کہانیوں کی ہیروئن سے ملیں تو دونوں انھیں جڑواں بہنیں نظر آئیں کیونکہ انجانے طور پر میں نے رشیدہ آپا ہی کو اٹھا کر اپنے افسانوں کے طاقچے میں بٹھا دیا کہ میرے تصور کی دنیا کی ہیروئن بس وہی ہوسکتی تھیں۔''