پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو کو فون پر دھمکیاں دیں مارک سیگل کا بیان ریکارڈ

مشرف نےبے نظیر کو کہا کہ اگر پاکستان آکر سیاسی سرگرمیاں شروع کیں تو وہ خود ذمہ دار ہوں گی، امریکی صحافی


ویب ڈیسک October 01, 2015
مشرف نےبے نظیر کو کہا کہ اگر پاکستان آکر سیاسی سرگرمیاں شروع کیں تو وہ خود ذمہ دار ہوں گی، امریکی صحافی۔ فوٹو:فائل

ISLAMABAD: بے نظیر کے قریبی دوست اور برطانوی صحافی مارک سیگل کا کہنا ہے سابق صدر پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو کے وطن واپس آنے پر سنگین دھمکیاں دی تھیں جس کے بعد وہ کچھ پریشان تھیں۔





واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے سے ویڈیو لنک کے ذریعے انسداد دہشت گردی عدالت کے جج رائے محمد ایوب کے سامنے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے مارک سیگل کا کہنا تھا کہ میں 1984 سے بے نظیر بھٹو کو جانتا ہوں، پرویز مشرف کی جانب سے 25 ستمبر 2007 کو دھمکی آمیز کال کی گئی جو ان کے پاکستان آنے سے 3 ہفتے قبل کی گئی اور بے نظیر بھٹو نے یہ کال امریکی سینیٹر ٹام لینٹوس کے دفتر میں لی جب کہ ان کی موجودگی میں پرویز مشرف نے یہ کال کی،فون کی اسکرین پر مشرف لکھا ہوا آیا جو بے نظیر بھٹو نے مجھے دکھایا اور بتایا کہ پرویزمشرف کا لہجہ دھمکی آمیز تھا، مشرف نے کہا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اوراگر انہوں نے پاکستان آکر سیاسی سرگرمیاں شروع کیں تو وہ خود ذمہ دار ہوں گی جب کہ پرویز مشرف نے دھمکی بھی دی کہ آپ کی سلامتی کا انحصار آپ کے اور میرے تعلقات پرہے۔ انہوں نے کہا کہ 26 ستمبر 2007 کو بے نظیر امریکا سے دبئی چلی گئیں، دبئی میں بھی میری بے نظیر سے ملاقات ہوئی، انہوں نے مشرف کو خط اور سیکیورٹی خدشات سے آگاہ کرنے کا بتایا، بے نظیر نے مشرف کو اپنے خط میں لکھا کہ 18 اکتوبرکو ہر صورت وطن واپس آرہی ہوں اور ان کی واپسی پر کراچی میں ان کے قافلے پر خود کش حملہ ہوا۔



امریکی صحافی کا کہنا تھا کہ بے نظیر سے آخری فون رابطہ 23 ستمبر 2007 کومیری سالگرہ پر ہوا اور26 اکتوبر 2007 کو بی بی کی ای میل میرے ذاتی اکاؤنٹ پر آئی انہوں نے کہا کہ تم دلیراورقابل اعتماد ہواس لیے تمہیں ای میل کی اور انہوں نے مجھے جو میل کی اس کا سبجیکٹ تھا موسٹ ارجنٹ، بے نظیر بھٹو کراچی دھماکے بعد بہت پریشان تھیں، بے نظیر نے کہا انہیں پروٹوکول کے مطابق سیکیورٹی نہیں دی گئی، وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کررہی تھیں، میری ان سے بات بھی ہوئی تھی، کراچی میں بی بی کے ٹرک پرموجود لوگ فون پربات کررہے تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ ان کی سیکیورٹی کے لئے لگائے گئے جیمرز کام ہی نہیں کررہے تھے۔



مارک سیگل نے کہا کہ بے نظیر نے انہیں بتایا کہ میری زندگی کو خطرہ ہے اور اگر انہیں کچھ ہوا تو ذمہ دار پرویز مشرف ہوں گے اور یہ میل اوپن کردینا، میں نے بے نظیر کی ای میل نمائندہ سی این این وولف والٹرز کو بھیج دی۔ بیان ریکارڈ کرانے کے دوران مارک سیگل آبدیدہ ہوگئے جس کے بعد کچھ دیر کے لئے سماعت روک دی گئی تاہم تھوڑی دیر بعد مارک سیگل نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے مزید کہا کہ امریکی صحافی وولف سے کہا کہ بے نظیر بھٹو کی ای میل امانت ہے، بے نظیر کو کچھ ہوا تو اوپن کرسکتے ہیں اور27 دسمبر کو جب بے نظیربھٹو خودکش دھماکے میں جاں بحق ہوئیں تو وولف کا فون آیا جس میں وولف کو بے نظیر کی خواہش کے مطابق میل اوپن کرنے کی اجازت دی۔ کیس کی مزید سماعت 5 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی اور آئندہ سماعت پر پرویز مشرف کے وکیل مارک سیگل پر جرح کریں گے۔



سماعت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے پرویز مشرف کے وکیل الیاس صدیقی کا کہنا تھا کہ صدر کا کام کسی کو سیکیورٹی دینا نہیں ہوتا بلکہ یہ کام اداروں کا ہوتا ہے اگر انہوں نے بینظیر کو فون کیا تو رکارڈنگ آسکتی تھی تاہم کچھ بھی ریکارڈ پر نہیں اور پرویز مشرف کی کال کا رکارڈ حاصل کرنا ہمارا نہیں تفتیشی افسر کا کام تھا۔ انہوں نے کہا کہ مارک سیگل بے نظیر کا ملازم تھا اور انہوں نے وکیل پاکستان سے لیا، میں نےمارک سیگل کےلکھےگئےبیان،ای میل اور دی گئی دستاویز پر اعتراض کیا، جس ای امیل کا حوالہ دیا گیا وہ قانون کے طور پر ریکارڈ پر نہیں آسکتی۔





دوسری جانب پیپلزپارٹی کے رہنما لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ مارک سیگل کے بیان کے بعد ثابت ہوگیا کہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں کون ملوث تھا، مارک سیگل نے اپنے بیان میں بتایا کہ بینظیر نے جو باتیں سنیں وہ لرزانے والی تھیں، مارک سیگل نے ایک سیدھا سادہ بیان دیا کہ بینظیر نے ای میل بھیجی، ای میل میں انھوں نے لکھا کہ اگر مجھے کچھ ہوا تو مشرف ذمےدارہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وکلائے دفاع کا حق تسلیم کرتے ہیں مگر ان کا حق طوالت تسلیم نہیں کرتے اگر جنرل مشرف کسی گواہ پر جرح کرنا چاہتےہیں تو میں معترض نہیں ہوں گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔