سیاسی جماعتوں کا المیہ
حکومت کو اہم اور فوری امور پر فیصلے کرنے کا مینڈیٹ حاصل ہوتا ہے
STOCKHOLM:
پاکستان میں غلطیوں اور کوتاہیوں سے سیکھنے اور تلخ تجربات سے سبق حاصل کرنے کا کوئی تصور نہیں ہے۔
یہی سبب ہے کہ بڑے سے بڑے سانحے اور انتہائی نامساعد حالات نے بھی حکمرانوں اور رہنمائوں کی سوچ کے انداز کو تبدیل نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے ایک ہی غلطی بار بار دہرائی جاتی ہے۔ چار طویل فوجی آمریتوں سے ملک کو پہنچنے والا نقصان ہو یا سقوط ڈھاکا کی ہزیمت یا پھر افغانستان کے معاملات میں الجھنے کے نتیجے میں ملکی سلامتی کو لاحق خطرات ہوں، کوئی ایک واقعہ یا سانحہ بھی فکری رویوں میں تبدیلی نہ لا سکا۔
جب کہ دنیا کی معلوم تاریخ میں انسانوں اور قوموں نے اپنی غلطیوں اور تجربات ہی سے گِر کر سنبھلنے اور پھر آگے بڑھنے کا حوصلہ پایا۔ ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے کے بعد یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ حکمران اور سیاسی جماعتیں اس اہم اور سنگین مسئلے کے حل کے لیے کوئی ٹھوس اور پائیدار پالیسی تشکیل دیں گی۔ مگر حسب روایت حکمران سیاسی عزم سے عاری اور سیاسی جماعتیں فکری انتشار میں مبتلا ہیں۔ حالانکہ اس واقعے کے بعد پاکستانی عوام شدت غم سے لرز اٹھے اور انھوں نے کھل کر اپنے غم و غصے کا اظہار بھی کیا۔ مگر لگتا ہے سب کچھ بے سود ہے۔
اس میں شک نہیں کہ جمہوری معاشروں میں فیصلہ سازی کا کلیدی ادارہ پارلیمان ہوتی ہے۔ لیکن حکومت کو اہم اور فوری امور پر فیصلے کرنے کا مینڈیٹ حاصل ہوتا ہے، جس کی توثیق بعد میں پارلیمان سے کرائی جاتی ہے۔ دنیا بھر کی جمہوریتوں میں یہی روایت قائم ہے۔ مگر پاکستان میں حکومتیں بعض حساس نوعیت کے معاملات پر فوری فیصلہ کرنے سے کتراتی ہیں۔ اس لیے حکومت اپنی جان چھڑانے کے لیے کبھی مسئلے کو پارلیمان کی طرف اچھال دیتی ہے یا پھر اسٹیبلشمنٹ کے فیصلے کا انتظار کرتی ہے۔ اس رویے کے کئی اسباب ہیں۔
اول: سویلین حکومت میں سیاسی عزم کا فقدان۔ دوئم: پالیسی سازی پر ریاستی اسٹیبلشمنٹ کی مضبوط گرفت۔ سوئم: سیاسی جماعتوں میں قومی امور کی اہمیت اور افادیت کو سمجھنے کا فقدان اور اس کی وجہ سے عدم اتفاق۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے بہت سے معاملات جن کا فوری حل ضروری ہوتا ہے، حکومتی لیت و لعل کے باعث طویل عرصے تک اٹکے رہتے ہیں اور ان پر کوئی فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ انھی چند برسوں کے دوران رونما ہونے والے واقعات پر نظر ڈالیں تو بات صاف ہو جاتی ہے، یعنی معاملہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اہداف کا تعین ہو یا ریمنڈ ڈیوس کی رہائی یا پھر نیٹو سپلائی، ہمیشہ غیر سنجیدہ رویوں کے سبب فیصلوں میں تاخیر ہوئی، جس کا نقصان پورے ملک کو اٹھانا پڑا۔
اس کے برعکس دنیا بھر میں سیاسی جماعتیں، اپنے مخصوص نظریات اور ریاستی امور پر مختلف ترجیحات رکھنے کے باوجود قومی سلامتی کے معاملات پر سیاسی مفادات سے بلند ہو کر یکساں رویہ اختیار کرتی ہیں۔ اولاً یہ حکومت کے کسی فوری اقدام کی راہ میں روڑے نہیں اٹکاتیں۔ دوئم منطقی انجام تک پہنچنے سے پہلے اس پر ردعمل ظاہر نہیں کرتیں۔ اس سلسلے میں دنیا کے کئی ممالک کی مثال دی جا سکتی ہے۔ بھارت میں درجنوں چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں موجود ہیں، مگر بھارت کے مجموعی مفاد میں کیے گئے بعض فیصلوں پر تحفظات کے باوجود وہ رکاوٹ نہیں ڈالتیں۔
دہلی میں موجود مرکزی حکومت قومی سلامتی کے حوالے سے جو بھی فیصلہ کرتی ہے، اس پر وقت آنے پر پارلیمان میں سوالات ضرور اٹھائے جاتے ہیں، لیکن ان امور پر جلسے جلوس کے ذریعے فیصلوں کی سمت تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ اسی طرح امریکا میں ڈیموکریٹ اور ری پبلکن پارٹی نظریاتی طور پر ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں۔ لیکن جب اقتدار میں موجود کوئی جماعت اہم قومی امور پر کوئی اقدام کرتی ہے، تو دوسری جماعت اس کے نتائج کا انتظار کرتی ہے اور پھر اس پالیسی کا قومی مفاد میں جائزہ لے کر اس پر تنقید یا بہتری کی تجاویز پیش کرتی ہے۔ 9/11 کے بعد افغانستان پر حملے کا فیصلہ ری پبلکن پارٹی کا تھا، جو اس نے اپنے سیاسی عزم کی بنیاد پر کیا۔
ڈیموکریٹ پارٹی نے اس حملے کے مضمرات پر کانگریس اور سینیٹ میں خاصی تنقید کی، لیکن جنگ کے فوری خاتمے پر اصرار نہیں کیا بلکہ 2009ء میں جب اقتدار میں آئی، تو اس نے افغانستان سے فوجوں کے انخلا کا ٹائم ٹیبل دیا، کیونکہ وہ کسی بھی مرحلے پر اپنے ملک کو ہزیمت کا شکار نہیں کرنا چاہتے تھے۔
پاکستان کا معاملہ قطعی مختلف ہے۔ یہاں سیاسی جماعتیں قومی امور پر بیان بازیاں اور دعوے تو بہت کرتی ہیں، لیکن واضح حکمت عملی پیش کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر جنرل پرویز مشرف کے دہشت گردی کی جنگ میں شریک ہونے پر سبھی جماعتیں تنقید کرتی ہیں۔ لیکن کوئی بھی جماعت یہ نہیں بتا پا رہی کہ اس وقت کے معروضی حالات میں اس کے علاوہ دوسرا کون سا فیصلہ کیا جا سکتا تھا۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے سامنے دیگر کئی اہم اور نازک سوالات ہیں جن پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا جا رہا۔
اول: دہشت گردی کے خلاف جنگ جس میں پاکستان چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے شریک ہو چکا ہے، کیا اس سے فوری چھٹکارا ممکن ہے؟ دوئم: یہ جنگ جو اب ہماری حدود میں داخل ہو چکی ہے، اس سے کس طرح نبرد آزما ہونا ہے؟ سوئم: کیا امریکا کے ساتھ بامقصد ڈائیلاگ کے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ سے فوری کنارہ کشی عملاً ممکن ہے؟ چہارم: پاکستان کے وہ دوست ممالک جو مذہبی شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے بارے میں ایک سے زائد مرتبہ اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں، کیا کسی افتاد کی صورت میں پاکستان کی مدد کر سکیں گے؟ پنجم: کیا خطے کی تبدیل ہوتی صورتحال اور ملک کے اندرونی حالات اس بات کی اجازت دے رہے ہیں کہ پاکستان کوئی بڑا ایڈونچر کر سکے؟
اس کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو صرف 9/11 کے پس منظر میں دیکھنا بھی صرف کوتاہ بینی نہیں بلکہ سیاسی عیاری ہے۔ اس تلخ حقیقت کو مذہبی جماعتیں تو تسلیم نہیں کریں گی، جنھوں نے پہلی افغان جنگ میں جہاد کے نام پر بیشمار فوائد حاصل کیے تھے لیکن قومی سیاسی جماعتوں کو اس منافقت سے باہر نکل کر حقیقت پسندی پر مبنی سوچ کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ انھیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ موجودہ حالات 1980ء میں جنرل ضیاء الحق کے غلط فیصلوں کا تسلسل ہیں۔ وہ عناصر جن کی افغانستان میں تزویراتی گہرائی حاصل کرنے کی خواہش میں سرپرستی کی گئی تھی، آج وہی پاکستان کے وجود کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔
اب یہ عناصر اس قدر منہ زور ہو گئے ہیں کہ فوج اور فوجی تنصیبات پر حملے کر رہے ہیں۔ پولیس اور انتظامہ کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ مختلف مسلک یا عقیدہ رکھنے والے شہریوں کو بسوں اور گاڑیوں سے اتار کر قتل کر رہے ہیں اور جا بجا ان کی ٹارگٹ کلنگ کر رہے ہیں۔ بھرے بازاروں، مساجد، امام بارگاہوں، اسکولوں اور اولیا کے مقابر کو بموں سے اڑا رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر پاکستان کے آئین اور جمہوری نظم حکمرانی کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ اس لیے وہ سیاسی جماعتیں اور حلقے جو ان عناصر سے مذاکرات کے حامی ہیں، انھیں کن بنیادوں پر مذاکرات میں کامیابی کی امید ہے؟ کیا ان عناصر کو وہ سب کچھ کرنے کی کھلی چھٹی دینا چاہتے ہیں، جو وہ اس وقت کر رہے ہیں؟
ملالہ یوسف زئی پر حملہ، اس کی ذمے داری قبول کرنے اور پھر اس پر گھنائونی الزام تراشیوں نے شدت پسند عناصر کا مکروہ چہرہ مزید نمایاں کر دیا ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر ان سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جمہوریت نوازی کا پردہ بھی چاک کر دیا ہے جو صبح شام جمہوریت کے لیے رطب اللسان رہتی ہیں، لیکن اندر سے مسلکی فاشزم کے قیام کی حامی ہیں۔ یہ سیاسی جماعتیں عوام کے غیظ و غضب کو محسوس کرتے ہوئے معصوم بچی پر ہونے والے قاتلانہ حملے پر افسوس کا اظہار تو کر رہی ہیں، لیکن ساتھ ہی چونکہ۔
چنانچہ کا سہارا لے کر واضح مذمت سے بچنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ کبھی عافیہ صدیقی کا معاملہ بیچ میں لایا جا رہا ہے، کبھی ڈرون حملوں کو وجہ بتایا جا رہا ہے، کبھی امریکا کو مورد ِالزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ مقصد صرف ایک ہے کہ کسی طرح شدت پسند عناصر کے جرائم پر پردہ ڈالا جا سکے۔ یہ عناصر جو چیچنیا، برما اور فلسطین میں ہونے والے مظالم پر تو بڑے بڑے جلوس نکالتے ہیں لیکن اپنے ملک میں لوگوں کے جان و مال سے کھیلنے والے درندوں کے خلاف آواز اٹھانے پر آمادہ نہیں ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کی تمام قومی سیاسی جماعتیں اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ پاکستان ایک کثیر القومی اور کثیر المسلکی ملک ہے، جس میں دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی آباد ہیں۔ اس لیے اس ملک میں کوئی ایسا نظام نہیں چل سکتا، جس میں دیگر عقائد اور مسالک کے لوگوں کے حقوق پامال ہوتے ہوں اور ان کا حلقہ حیات تنگ کیا جاتا ہو۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ملک میں سوائے ایم کیو ایم کے کوئی اور جماعت کھل کر دہشت گردی کے خلاف صف آراء ہونے کی جرأت کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔ پیپلز پارٹی کو اپنے اقتدار کی فکر ہے۔ اے این پی قبائلی روایات بچانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
جب کہ مسلم لیگ (ن) میں موجود بہت سے Hawks صحیح سمت اختیار کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ رہ گئی تحریک انصاف تو وہ فکری بلوغت کی اس منزل تک پہنچ ہی نہیں سکی ہے کہ سیاسی دور اندیشی پر مبنی کوئی صائب فیصلہ کر سکے، اسے دوسری جماعتوں سے آنے والے مسافروں نے اس قدر کنفیوژن کا شکار کر دیا ہے کہ رہی سہی صلاحیت بھی مفقود ہو کر رہ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پورا ملک شدت پسند جنونیوں کے رحم کرم پر ہے اور کوئی پرسان حال نہیں ہے۔