ایک راستہ ایک سڑک
چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) جسے چینی ایک راستہ ایک سڑک کہتے ہیں
JERUSALEM:
چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) جسے چینی ایک راستہ ایک سڑک کہتے ہیں اس کے اقتصادی اور سلامتی کے پہلوؤں کو یقینی بنانے کے لیے چائنا گروپ آف کمپنیز ایسوسی ایشن (سی جی سی اے) کے چیئرمین ڈاکٹر زھانگ چونگ چنگ چین کی چوٹی کی سیکیورٹی کمپنیوں (سی ایس ایس) میں سے ایک کمپنی کے ماہرین کے ہمراہ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ہیں انھوں نے اسلام آباد' کراچی اور لاہور کے تیز رفتار دورے میں بڑی تعداد میں پاکستانی کاروباری حضرات' یونیورسٹیوں کے اساتذہ' تھنک ٹینکس اور سول سوسائٹی کے مختلف طبقوں کے نمایندوں کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔
ایک نیشنل سوشل گروپ (سی جی سی اے) 1987ء میں قائم کیا گیا جس میں 200 سے زیادہ کمپنیاں رکن کے طور پر شامل ہیں۔ ان میں آئی ٹی اور تعمیراتی کمپنیاں بھی ہیں جب کہ مالیاتی شعبے کی تجارتی کمپنیاں بھی ہیں ایروسپیس' زراعت اور سیکیورٹی کی خدمات پیش کرنے والی بھی ہیں۔ سی جی سی اے کی قومی سرگرمیوں میں اپنی رکن کمپنیوں کو پالیسی گائیڈ لائنز دینے کے علاوہ ان کو عالمی سطح پر متعارف کرانے میں مدد بھی شامل ہے۔
اسلام آباد اور کراچی میں ناشتہ کی میٹنگز میں چیئرمین سی جی سی اے نے کثیر تعداد میں شرکت کرنے والوں سے خطاب کیا اور بعد ازاں ظہرانوں میں شرکت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ چین اور پاکستان بہترین دوست ہیں جن کے عام آدمی کی غربت دور کرنے کے حوالے سے یکساں اہداف و مقاصد ہیں علاوہ ازیں ہماری اقتصادیات آپس میں مماثلت رکھتی ہیں بلکہ ایک دوسرے کو بڑھاوا بھی دیتی ہیں۔
انھوں نے کہا ہمیں ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھنا ہے اور اس کے ساتھ ہی ایسی خدمات اور سہولتیں فراہم کرنا ہے جس سے پاکستان کی تجارت کو فروغ ملے۔ ڈاکٹر چونگ چنگ نے پاکستانی کاروباری حضرات کے جذبات کو سراہتے ہوئے یقین دلایا کہ پاک چین اقتصادی راہداری پاکستان کے لیے ''گیم چینجر'' کا کام کرے گی جس کے جغرافیائی اور سیاسی اثرات ہونگے۔ اس موقع پر ڈاکٹر چونگ چنگ نے اپنی مادری زبان چینی میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں چینی سرمایہ کاری دونوں ممالک کے لیے بے حد سود مند ہو گی جس کا نتیجہ پاکستان کی معاشی ترقی اور دونوں ملکوں کے تعلقات کی مضبوطی کی شکل میں برآمد ہو گا۔
انھوں نے کہا پاکستانی عوام میں بہت صلاحیتیں ہیں۔ ہم آپ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری حدود آسمان تک بلند ہو سکتی ہیں۔ انھوں نے پاکستانیوں پر زور دیا کہ وہ اس سنہری موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔ انھوں نے دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے پاکستان کے عزم کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ پاکستانی ریگولیٹری اتھارٹیز کو محصولات کی تحصیل کے حوالے سے اپنے چینی ہم منصبوں سے قریبی رابطہ رکھنا چاہیے۔ ڈاکٹر چونگ چنگ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ پاکستانی افسران اور نجی کمپنیوں کے ساتھ CPEC پر مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ اس موقع پر انھوں نے شرکاء کی طرف سے پوچھے گئے بعض سخت سوالوں کے بھی بڑی رسانیت سے جواب دیے۔
سینیٹر مشاہد حسین، جو چین پاکستان راہداری پر پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین ہیں، نے کہا کہ چین نے اپنی آبادی کو جس طرح غربت کے گڑھے سے نکالا ہے وہ نہایت حیران کن ہے۔ صرف 25 سال کے مختصر عرصے میں 50 کروڑ لوگوں کو جو کہ چین کی مجموعی آبادی کا تقریباً نصف بنتے ہیں غریبی سے نکال کر متوسط طبقے میں شامل کر دیا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ چین میں ہر دس سال کے بعد سیاسی اقتدار کی پرامن منتقلی سیاست کی ایک انتہائی مثبت علامت ہے لہٰذا پاکستان کو بھی چین کے تجربے سے استفادہ کرنا چاہیے۔
مشاہد حسین نے کہا ''نئی شاہراہ ریشم'' 25 ممالک کو منسلک کرے گی۔ یہ تمام ممالک کاشغر اور گوادر کے راستے مربوط ہونگے۔ چین نے اقتصادی ترقی سخت محنت سے حاصل کی ہے نہ کہ اپنے پڑوسیوں پر دھونس جما کر ان کے وسائل کو چھینا ہے۔ اس وقت چین عالمی نظام میں ایک کلیدی حیثیت کا حامل ہے جو کہ اس نے انتہائی قلیل وقت میں حاصل کی جس کا کریڈٹ چین کے جفاکش عوام اور ان کی دیانت دار قیادت کے سر ہے۔
سینیٹر مشاہد حسین نے بتایا کہ پڑوسی ملک جیسے ایران' افغانستان اور وسطیٰ ایشیاء کی تمام ریاستوں کو ریل اور سڑکوں کے رابطے کے ساتھ باہم منسلک کر دیا جائے گا جس کے نتیجے میں ایک عظیم تر جنوبی ایشیاء ابھر کر سامنے آئے گا اور یہ سب چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے طفیل ممکن ہو گا۔ انھوں نے کہا دوسری طرف امریکا نے بھارت کے ساتھ جو 46 ارب ڈالر کے منصوبے کا اعلان کیا ہے جو کہ محض خیالی پلاؤ ہے اس کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں۔ مشاہد حسین نے کہا کہ پاکستان بیرونی دباؤ اور سازشوں کا بڑی کامیابی سے مقابلہ کرتا رہا ہے جو کہ اس کی تاریخ سے عیاں ہے۔ انھوں نے اس یقین اور اعتماد کا اظہار کیا کہ پاکستان مستقبل کو تابناک بنانیوالے اس منصوبے پر ہر گز کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (IBA Karachi) کے ڈین اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین نے کراچی میں ناشتے کی میٹنگ میں کہا کہ چین پاک اقتصادی راہداری یقیناً جغرافیائی سیاسی اور جغرافیائی اقتصادی حوالوں سے ایک ''گیم چینجر'' ہے۔ ڈاکٹر عشرت حسین ورلڈ بینک میں ایشیاء چپٹر کے سربراہ بھی رہے ہیں اس لحاظ سے وہ چین کی غیر معمولی کامیابیوں کے چشم دید گواہ ہیں۔ چین نے اپنی فی کس آمدنی جو 25 سال پہلے صرف 150 ڈالر تھی بڑھ کر 5000 امریکی ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارت کی فی کس اوسط 1500 ڈالر جب کہ پاکستان کی 1350 ڈالر ہے۔
انھوں نے کہا چین نے صرف سات سال میں اتنی ترقی کر لی جس کے لیے امریکا کو سو سال کا عرصہ لگا۔ اس حوالے سے چین نے ''ہزاری ترقیاتی اہداف'' حاصل کرنے میں سب سے زیادہ کامیابی حاصل کی۔ سی جی سی اے کے چیئرمین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ کم سے کم وقت میں پاکستان میں ایک نمایندہ دفتر قائم کرنا چاہتے ہیں جو کہ ''ایک راہداری' ایک سڑک'' کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں نمایاں مدد دے گا۔ انھوں نے کہا چین تجارت اور کاروبار کے لیے ایک اور روٹ بھی کھولنا چاہتا ہے۔ واضح رہے عظیم چینی سیاح سوآن زینگ (Xuanzang) کا تعلق چینی صوبہ حنان سے تھا۔ وہ 602ء کے لگ بھگ پیدا ہوئے۔
ان کا آبائی گاؤں چن ہی تھا۔ وہ ایک چینی بودھ راہب تھے۔ وہ بہت پڑھے لکھے تھے جو بعد میں سانسی صوبے میں منتقل ہو گئے جہاں پر کہ ڈاکٹر چونگ چنگ بھی پیدا ہوئے اور وہیں پرورش پائی۔ سوآن زینگ کو زیادہ شہرت ان کے 17 سالوں پر مشتمل اس سفر کی وجہ سے ملی جو انھوں نے برصغیر میں پاپیادہ کیا۔ اس دوران انھوں نے زیادہ وقت ٹیکسلا میں گزارا۔ مشہور چینی فلسفی کنفیوشس کا کہنا ہے ''آپ جو بھی ہوں اور جہاں بھی جائیں' اپنے پورے دل کے ساتھ جائیں''۔ کیسا حسن اتفاق ہے کہ سی جی سی اے کے چیئرمین بھی اپنے پیشرو کے نقش قدم پر اسی جذبے کے ساتھ رواں دواں ہیں۔ شاہراہ ریشم کہلوانے والا راستہ بے حد قدیم ہے جو کہ بے حد کامیاب بھی رہا ہے۔ اب اسی راستے کو تعمیر و ترقی کے لیے دوبارہ کھولا جا رہا ہے۔
پروفیسر چونگ چنگ نے آخر میں کہا کہ پاکستان اور چین کے قریبی دوستانہ تعلقات دونوں ہی ملکوں کے لیے بے حد اہم ہیں جس کا دونوں کو ہی بہت فائدہ ہو گا اور قومی مفادات کو بڑھاوا ملے گا۔ انھوں نے بتایا کہ ''چائنہ موبائل'' کمپنی نے پاکستان میں 3 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے اور کسی اکلوتی کارپوریٹ کمپنی نے اتنی زیادہ سرمایہ کاری نہیں کی۔ لہٰذا چین پاک تعاون میں وقت گزرنے کے ساتھ مزید اضافہ ہوتا رہے گا۔
٭٭٭
چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) جسے چینی ایک راستہ ایک سڑک کہتے ہیں اس کے اقتصادی اور سلامتی کے پہلوؤں کو یقینی بنانے کے لیے چائنا گروپ آف کمپنیز ایسوسی ایشن (سی جی سی اے) کے چیئرمین ڈاکٹر زھانگ چونگ چنگ چین کی چوٹی کی سیکیورٹی کمپنیوں (سی ایس ایس) میں سے ایک کمپنی کے ماہرین کے ہمراہ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ہیں انھوں نے اسلام آباد' کراچی اور لاہور کے تیز رفتار دورے میں بڑی تعداد میں پاکستانی کاروباری حضرات' یونیورسٹیوں کے اساتذہ' تھنک ٹینکس اور سول سوسائٹی کے مختلف طبقوں کے نمایندوں کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔
ایک نیشنل سوشل گروپ (سی جی سی اے) 1987ء میں قائم کیا گیا جس میں 200 سے زیادہ کمپنیاں رکن کے طور پر شامل ہیں۔ ان میں آئی ٹی اور تعمیراتی کمپنیاں بھی ہیں جب کہ مالیاتی شعبے کی تجارتی کمپنیاں بھی ہیں ایروسپیس' زراعت اور سیکیورٹی کی خدمات پیش کرنے والی بھی ہیں۔ سی جی سی اے کی قومی سرگرمیوں میں اپنی رکن کمپنیوں کو پالیسی گائیڈ لائنز دینے کے علاوہ ان کو عالمی سطح پر متعارف کرانے میں مدد بھی شامل ہے۔
اسلام آباد اور کراچی میں ناشتہ کی میٹنگز میں چیئرمین سی جی سی اے نے کثیر تعداد میں شرکت کرنے والوں سے خطاب کیا اور بعد ازاں ظہرانوں میں شرکت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ چین اور پاکستان بہترین دوست ہیں جن کے عام آدمی کی غربت دور کرنے کے حوالے سے یکساں اہداف و مقاصد ہیں علاوہ ازیں ہماری اقتصادیات آپس میں مماثلت رکھتی ہیں بلکہ ایک دوسرے کو بڑھاوا بھی دیتی ہیں۔
انھوں نے کہا ہمیں ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھنا ہے اور اس کے ساتھ ہی ایسی خدمات اور سہولتیں فراہم کرنا ہے جس سے پاکستان کی تجارت کو فروغ ملے۔ ڈاکٹر چونگ چنگ نے پاکستانی کاروباری حضرات کے جذبات کو سراہتے ہوئے یقین دلایا کہ پاک چین اقتصادی راہداری پاکستان کے لیے ''گیم چینجر'' کا کام کرے گی جس کے جغرافیائی اور سیاسی اثرات ہونگے۔ اس موقع پر ڈاکٹر چونگ چنگ نے اپنی مادری زبان چینی میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں چینی سرمایہ کاری دونوں ممالک کے لیے بے حد سود مند ہو گی جس کا نتیجہ پاکستان کی معاشی ترقی اور دونوں ملکوں کے تعلقات کی مضبوطی کی شکل میں برآمد ہو گا۔
انھوں نے کہا پاکستانی عوام میں بہت صلاحیتیں ہیں۔ ہم آپ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری حدود آسمان تک بلند ہو سکتی ہیں۔ انھوں نے پاکستانیوں پر زور دیا کہ وہ اس سنہری موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔ انھوں نے دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے پاکستان کے عزم کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ پاکستانی ریگولیٹری اتھارٹیز کو محصولات کی تحصیل کے حوالے سے اپنے چینی ہم منصبوں سے قریبی رابطہ رکھنا چاہیے۔ ڈاکٹر چونگ چنگ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ پاکستانی افسران اور نجی کمپنیوں کے ساتھ CPEC پر مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ اس موقع پر انھوں نے شرکاء کی طرف سے پوچھے گئے بعض سخت سوالوں کے بھی بڑی رسانیت سے جواب دیے۔
سینیٹر مشاہد حسین، جو چین پاکستان راہداری پر پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین ہیں، نے کہا کہ چین نے اپنی آبادی کو جس طرح غربت کے گڑھے سے نکالا ہے وہ نہایت حیران کن ہے۔ صرف 25 سال کے مختصر عرصے میں 50 کروڑ لوگوں کو جو کہ چین کی مجموعی آبادی کا تقریباً نصف بنتے ہیں غریبی سے نکال کر متوسط طبقے میں شامل کر دیا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ چین میں ہر دس سال کے بعد سیاسی اقتدار کی پرامن منتقلی سیاست کی ایک انتہائی مثبت علامت ہے لہٰذا پاکستان کو بھی چین کے تجربے سے استفادہ کرنا چاہیے۔
مشاہد حسین نے کہا ''نئی شاہراہ ریشم'' 25 ممالک کو منسلک کرے گی۔ یہ تمام ممالک کاشغر اور گوادر کے راستے مربوط ہونگے۔ چین نے اقتصادی ترقی سخت محنت سے حاصل کی ہے نہ کہ اپنے پڑوسیوں پر دھونس جما کر ان کے وسائل کو چھینا ہے۔ اس وقت چین عالمی نظام میں ایک کلیدی حیثیت کا حامل ہے جو کہ اس نے انتہائی قلیل وقت میں حاصل کی جس کا کریڈٹ چین کے جفاکش عوام اور ان کی دیانت دار قیادت کے سر ہے۔
سینیٹر مشاہد حسین نے بتایا کہ پڑوسی ملک جیسے ایران' افغانستان اور وسطیٰ ایشیاء کی تمام ریاستوں کو ریل اور سڑکوں کے رابطے کے ساتھ باہم منسلک کر دیا جائے گا جس کے نتیجے میں ایک عظیم تر جنوبی ایشیاء ابھر کر سامنے آئے گا اور یہ سب چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے طفیل ممکن ہو گا۔ انھوں نے کہا دوسری طرف امریکا نے بھارت کے ساتھ جو 46 ارب ڈالر کے منصوبے کا اعلان کیا ہے جو کہ محض خیالی پلاؤ ہے اس کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں۔ مشاہد حسین نے کہا کہ پاکستان بیرونی دباؤ اور سازشوں کا بڑی کامیابی سے مقابلہ کرتا رہا ہے جو کہ اس کی تاریخ سے عیاں ہے۔ انھوں نے اس یقین اور اعتماد کا اظہار کیا کہ پاکستان مستقبل کو تابناک بنانیوالے اس منصوبے پر ہر گز کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (IBA Karachi) کے ڈین اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین نے کراچی میں ناشتے کی میٹنگ میں کہا کہ چین پاک اقتصادی راہداری یقیناً جغرافیائی سیاسی اور جغرافیائی اقتصادی حوالوں سے ایک ''گیم چینجر'' ہے۔ ڈاکٹر عشرت حسین ورلڈ بینک میں ایشیاء چپٹر کے سربراہ بھی رہے ہیں اس لحاظ سے وہ چین کی غیر معمولی کامیابیوں کے چشم دید گواہ ہیں۔ چین نے اپنی فی کس آمدنی جو 25 سال پہلے صرف 150 ڈالر تھی بڑھ کر 5000 امریکی ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارت کی فی کس اوسط 1500 ڈالر جب کہ پاکستان کی 1350 ڈالر ہے۔
انھوں نے کہا چین نے صرف سات سال میں اتنی ترقی کر لی جس کے لیے امریکا کو سو سال کا عرصہ لگا۔ اس حوالے سے چین نے ''ہزاری ترقیاتی اہداف'' حاصل کرنے میں سب سے زیادہ کامیابی حاصل کی۔ سی جی سی اے کے چیئرمین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ کم سے کم وقت میں پاکستان میں ایک نمایندہ دفتر قائم کرنا چاہتے ہیں جو کہ ''ایک راہداری' ایک سڑک'' کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں نمایاں مدد دے گا۔ انھوں نے کہا چین تجارت اور کاروبار کے لیے ایک اور روٹ بھی کھولنا چاہتا ہے۔ واضح رہے عظیم چینی سیاح سوآن زینگ (Xuanzang) کا تعلق چینی صوبہ حنان سے تھا۔ وہ 602ء کے لگ بھگ پیدا ہوئے۔
ان کا آبائی گاؤں چن ہی تھا۔ وہ ایک چینی بودھ راہب تھے۔ وہ بہت پڑھے لکھے تھے جو بعد میں سانسی صوبے میں منتقل ہو گئے جہاں پر کہ ڈاکٹر چونگ چنگ بھی پیدا ہوئے اور وہیں پرورش پائی۔ سوآن زینگ کو زیادہ شہرت ان کے 17 سالوں پر مشتمل اس سفر کی وجہ سے ملی جو انھوں نے برصغیر میں پاپیادہ کیا۔ اس دوران انھوں نے زیادہ وقت ٹیکسلا میں گزارا۔ مشہور چینی فلسفی کنفیوشس کا کہنا ہے ''آپ جو بھی ہوں اور جہاں بھی جائیں' اپنے پورے دل کے ساتھ جائیں''۔ کیسا حسن اتفاق ہے کہ سی جی سی اے کے چیئرمین بھی اپنے پیشرو کے نقش قدم پر اسی جذبے کے ساتھ رواں دواں ہیں۔ شاہراہ ریشم کہلوانے والا راستہ بے حد قدیم ہے جو کہ بے حد کامیاب بھی رہا ہے۔ اب اسی راستے کو تعمیر و ترقی کے لیے دوبارہ کھولا جا رہا ہے۔
پروفیسر چونگ چنگ نے آخر میں کہا کہ پاکستان اور چین کے قریبی دوستانہ تعلقات دونوں ہی ملکوں کے لیے بے حد اہم ہیں جس کا دونوں کو ہی بہت فائدہ ہو گا اور قومی مفادات کو بڑھاوا ملے گا۔ انھوں نے بتایا کہ ''چائنہ موبائل'' کمپنی نے پاکستان میں 3 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے اور کسی اکلوتی کارپوریٹ کمپنی نے اتنی زیادہ سرمایہ کاری نہیں کی۔ لہٰذا چین پاک تعاون میں وقت گزرنے کے ساتھ مزید اضافہ ہوتا رہے گا۔
٭٭٭