منٹو اور منٹو کی عورت
ہجرت کے سفینوں کو مذہب کے لبادے اوڑھ کرکوئی اس پار آرہا تھا توکوئی اس پارجا رہا تھا
میں بھی منٹو دیکھنے گیا۔ ایک منٹو کی اپنی آپ بیتی تھی تودوسری طرف منٹو کے قلم سے گھڑی عورت کے کرداروں کی آپ بیتی تھی۔ وہ اپنے کرداروں سے الجھ سا گیا۔ حساس جو تھا، وہ ان کو وجود پر لے کے بیٹھ گیا۔وہ ہندوستان اور پاکستان کے بٹوارے کا امین تھا۔ اس نے اس خانہ جنگی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
ہجرت کے سفینوں کو مذہب کے لبادے اوڑھ کرکوئی اس پار آرہا تھا توکوئی اس پارجا رہا تھا۔ ہجرت میں عورت پر کیا گزرتی ہے، بٹوارے بچوں پرکس طرح بجلی بن کر گرتے ہیں ، ان کے خواب چکنا چور ہو کے کیسے ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ کس طرح ہجرت کدہ کنبے، خاندان، راستے میں لٹ جاتے ہیں، ان کی عورتوں کی کس طرح عزتیں لوٹی جاتی ہیں۔ اس بازار نے مذہب کے فرق کو مٹا دیا۔ خنجر جب پار ہوتا تھا تو اسے یہ معلوم نہ تھا کہ کون ہندو ہے، سکھ ہے، مسلمان ہے۔
انسان کی پست آمیز شکل سعادت حسن منٹو نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ اس نے سماجی قدروں کو بھسم ہوتے دیکھا، اسے آدمی بھیڑیا نظر آیا اور عورت اس بھیڑیے کا شکار۔ اس نے جو دیکھا وہ رقم کیا۔ امرتسر میں پیدا ہوا، بمبئی چلا گیا اور بالآخر لاہور میں مکین ہوا، تین بیٹیوں کا باپ اور ایک بہت ہی نیک پروین عورت کا وہ شوہر تھا۔''منٹو '' دیکھنے کے بعد میں اپنے ماضی میں چلا گیا جب چیخوف کی کتاب میرے سرہانے رہا کرتی تھی۔ کتنی خوبصورتی سے وہ اپنی عورت کے کردار کو تراشتا تھا۔ مگر روس کی عورت کی آپ بیتی اتنی پست تو نہ تھی۔
ہمارے شاہ لطیف عورت کے کردار کو تراشنے میں اپنی مثال آپ تھے۔ ''شاہ جو رسالو'' اس کی عورت کے کرداروں سے بھری داستانوں کا مجموعہ ہے۔ سب جیسے ''میری ہم جولیاں'' ہوں ریشماں کے اس گانے کی طرح اور اب بھی شاہ کے فقیر جب اسے گاتے ہیں تو ایک فقیر عورت کی آواز میں گاتا ہے اور ایک مرد کی۔ سگمنڈ فرائڈ کوئی نفسیات کا ماہر نہیں تھا مگر نفسیات کے علم میں ابتدا اس کی مابعد الطبیعاتی یا غیر تحقیق شدہ باتوں سے ہوئی۔ وہ کہتا تھا میرے نفسیاتی علم میں صرف مردوں کی نفسیات کا تذکرہ ملے گا۔ میں عورت کو شاعری کے لیے رکھتا ہوں کہ شاید وہ اسے سمجھتا ہو۔
سچ تو یہ ہے کہ مرد عورت کو سمجھ ہی نہیں سکتا یا شاید سمجھنا چاہتا بھی نہیں ۔ اور سچ تو یہ ہے کہ وہ جب تک عورت کو مرد کی آنکھ سے دیکھے گا تب تک وہ عورت کو سمجھ سکتا بھی نہیں۔ کیونکہ مرد خود کچھ بھی نہیں ہوتا بلکہ وہ سماج کا عکس ہوتا ہے۔ اس کے گھر میں جو عورت کو مقام حاصل ہوتا ہے وہی اس کو وہ خود بھی دیتا ہے۔ اور ہم سب جانتے ہیں ہم نے عورت کو کیا مقام دیا ہوا ہے۔
یہی منٹو نے دیکھا، اور جو دیکھا وہ قلم کو خون جگر میں ڈبو کر لکھا ۔ کیونکہ وہ سماج کے کشش ثقل سے اوپر تھا، وہ زماں و مکاں سے بھی اوپر تھا، وہ تو نشتر زن اور نقاد تھا۔ اس نے اپنے شعورکی تندی سے، اپنے وجود کے اندر رہتے ہوئے روایتی مرد کو شکست دی۔ مگر کیا کرتا ، اس سے عورت کی کتھا سہی نہ گئی، وہ سہم سا گیا اور پھر اسے شراب کی لت لگ گئی اس نے شراب میں پناہ لے لی اور پھر شراب کسی خنجر سے کم نہ تھی۔
اس کا وجود لہو کی پچکاریوں میں لت پت ہوگیا۔منٹو نے 47 برس کی عمر میں، روس کے پشکن کی طرح اپنے اوج میں زندگی کا دامن چھوڑ دیا کہ اسے ابھی بہت کچھ لکھنا تھا۔ کتنی ساری کہانیاں اس کے مرنے سے مر گئیں۔میں شاید منٹو پہ نہیں لکھنا چاہتا تھا۔ میں تو منٹو کی عورت پر لکھنا چاہتا تھا۔ کیسے ! جب گھر کا مرد اس بہانے یا اس بہانے وقت سے پہلے خالق حقیقی سے جا ملتا ہے۔
اس کے پیچھے رہنے والی عورت پر کیا گزرتی ہے اور ایک ایسے لمحے میں جب وہ اس گھر کا واحد کمانے والا ہو اور ساتھ ساتھ بیٹیوں کا والد بھی ہو۔میں نے پڑھی تھی راشیل موراں(Rachel Moran) کی آپ بیتی "Paid For" کے کچھ حصے۔ ایک ایسی عورت کی کتھا جو اس وقت عورت بھی نہ تھی بلکہ ایک بچی تھی جب اس کا باپ خودکشی کرلیتا ہے اور اس کی ماں ذہنی مریضہ ہوتی ہے۔
ریاست ایسی صورتحال دیکھ کر راشیل کو اپنی تحویل میں لے لیتی ہے۔ ریاست کتنی بھی مہذب ہو مگر وہ ماں نہیں ہوسکتی ، باپ نہیں ہوسکتی بالآخر راشیل سڑکوں پر آگئی۔اس کا کوئی گھر نہ تھا، کوئی در نہ تھا ، کوئی ہم جولی تھی، نہ اسکول اپنا تھا۔وہ یگانہ و تنہا تھی اور ہر طرف خونخوار بھوکے بھیڑیے تھے۔ انسانی روپ میں ، بس اس کے پاس ایک جسم تھا جو شاید اس کے پیٹ کی بھوک کو سہارا دے سکتا تھا۔ 15 سال کی عمر میں اس کی ایک شخص سے ملاقات ہوتی ہے جو اسے یہی مشورہ دیتا ہے کہ وہ اب اپنا جسم بیچ کر گزارا کرے۔ پورے سات سال اس کی خرید و فروخت ہوتی رہی۔ کتنے نفسیاتی بحران سے وہ گزری ہوگی۔
یہ سب حادثاتی تھا۔ وہ حادثاتی طور پر ایک ذہنی مریض عورت کی بیٹی تھی، وہ حادثاتی طور پر ایک بے منزل باپ کی بیٹی تھی جس نے خودکشی کرلی۔ اس میں اس کا کوئی بھی عمل دخل نہ تھا۔ راشیل ٹوٹ پھوٹ کر بکھر سی جاتی ہے اور اپنی خود اعتمادی تباہ کرنے کے لیے وہ Cocaine کے نشے کا سہارا لیتی ہے۔ وہ لکھتی ہے کہ اس کا استحصال اس دھندے کے دو اہم کرداروں نے کیا۔ ایک دلالPimp اور دوسرا اس کے جسم کا خریدار۔کبھی کبھار تو ایسا بھی ہوا کہ ایک رات میں دس دس ہاتھوں میں تبدیلی ہوتی رہی۔ کچھ اس طرح سے تھا اس کے لیے سب کچھ:بقول مجروح سلطان پوری
ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح
منٹوکی تانگے والی عورت کی کہانی جو اس فلم میں دکھائی گئی ۔ ایک ایسی نوجوان عورت جس کا شوہر جوانی میں مر جاتا ہے۔ بس اس کے لیے ایک عدد تانگہ اور گھوڑا چھوڑ جاتا ہے۔ وہ تانگے چلانے کے لیے بندہ رکھتی ہے وہ بندہ اسے شادی کی پیشکش کرتا ہے۔ وہ اسے نکال دیتی ہے۔ ایک اور بندہ رکھتی ہے ، وہ بندہ اسے میلی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ وہ اسے نکال دیتی ہے۔ ایک اور بندہ رکھتی ہے اور وہ بندہ اس کو کمائی کا صحیح حساب نہیں دیتا۔ وہ اسے بھی نکال دیتی ہے اور بالآخر تانگہ خود چلانا شروع کردیتی ہے۔
شہر کے لوگوں کے لیے یہ بات کوئی اچھی نہیں تھی کہ عورت تانگہ چلائے اور پھر ایک دن پولیس کانسٹیبل اس کا تانگہ چلانے کا لائسنس کینسل کردیتا ہے۔ اور کینسل کرتے وقت صرف یہی کہتا ہے کہ تمہارے لیے اب بہتر ہوگا کہ کوٹھا سجاؤ اور بالآخر وہ عورت کوٹھے پر پناہ لیتی ہے۔
ہمارے اس ملک کے شرفا کوئی برلا و ٹاٹا نہیں ہیں ۔ یہ ایک ایسا اشرافیہ ہے جو لوگوں کے ویلفیئر کے مختص فنڈ کھاتی ہے ، ان کے اسکول کھا جاتی ہے ، ان کے اسپتال چبا جاتی ہے ۔ اور اب غریب کا بچہ سرکاری اسکولوں سے کوئی تعلیم حاصل نہیں کرسکتا ۔ اس طرح سے یہ غربت خاندان توڑ دیتی ہے اور اس کی مصیبت بالآخر عورتوں و بچوں پر گرتی ہے۔
منٹو کی فلم دیکھ کر میرا اپنے سے عہد اور بھی پختہ ہوجاتا ہے کہ ہمیں اس سماج کو تبدیل کرنا ہے۔ اس کی ہر اینٹ ہر دیوار گرا کے دم لینا ہے۔ تاکہ سحر کی گود میں رنگِ شکست ِشب کو سب استحصال پسند اور مفاد پرست دیکھ لیں۔
ہجرت کے سفینوں کو مذہب کے لبادے اوڑھ کرکوئی اس پار آرہا تھا توکوئی اس پارجا رہا تھا۔ ہجرت میں عورت پر کیا گزرتی ہے، بٹوارے بچوں پرکس طرح بجلی بن کر گرتے ہیں ، ان کے خواب چکنا چور ہو کے کیسے ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ کس طرح ہجرت کدہ کنبے، خاندان، راستے میں لٹ جاتے ہیں، ان کی عورتوں کی کس طرح عزتیں لوٹی جاتی ہیں۔ اس بازار نے مذہب کے فرق کو مٹا دیا۔ خنجر جب پار ہوتا تھا تو اسے یہ معلوم نہ تھا کہ کون ہندو ہے، سکھ ہے، مسلمان ہے۔
انسان کی پست آمیز شکل سعادت حسن منٹو نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ اس نے سماجی قدروں کو بھسم ہوتے دیکھا، اسے آدمی بھیڑیا نظر آیا اور عورت اس بھیڑیے کا شکار۔ اس نے جو دیکھا وہ رقم کیا۔ امرتسر میں پیدا ہوا، بمبئی چلا گیا اور بالآخر لاہور میں مکین ہوا، تین بیٹیوں کا باپ اور ایک بہت ہی نیک پروین عورت کا وہ شوہر تھا۔''منٹو '' دیکھنے کے بعد میں اپنے ماضی میں چلا گیا جب چیخوف کی کتاب میرے سرہانے رہا کرتی تھی۔ کتنی خوبصورتی سے وہ اپنی عورت کے کردار کو تراشتا تھا۔ مگر روس کی عورت کی آپ بیتی اتنی پست تو نہ تھی۔
ہمارے شاہ لطیف عورت کے کردار کو تراشنے میں اپنی مثال آپ تھے۔ ''شاہ جو رسالو'' اس کی عورت کے کرداروں سے بھری داستانوں کا مجموعہ ہے۔ سب جیسے ''میری ہم جولیاں'' ہوں ریشماں کے اس گانے کی طرح اور اب بھی شاہ کے فقیر جب اسے گاتے ہیں تو ایک فقیر عورت کی آواز میں گاتا ہے اور ایک مرد کی۔ سگمنڈ فرائڈ کوئی نفسیات کا ماہر نہیں تھا مگر نفسیات کے علم میں ابتدا اس کی مابعد الطبیعاتی یا غیر تحقیق شدہ باتوں سے ہوئی۔ وہ کہتا تھا میرے نفسیاتی علم میں صرف مردوں کی نفسیات کا تذکرہ ملے گا۔ میں عورت کو شاعری کے لیے رکھتا ہوں کہ شاید وہ اسے سمجھتا ہو۔
سچ تو یہ ہے کہ مرد عورت کو سمجھ ہی نہیں سکتا یا شاید سمجھنا چاہتا بھی نہیں ۔ اور سچ تو یہ ہے کہ وہ جب تک عورت کو مرد کی آنکھ سے دیکھے گا تب تک وہ عورت کو سمجھ سکتا بھی نہیں۔ کیونکہ مرد خود کچھ بھی نہیں ہوتا بلکہ وہ سماج کا عکس ہوتا ہے۔ اس کے گھر میں جو عورت کو مقام حاصل ہوتا ہے وہی اس کو وہ خود بھی دیتا ہے۔ اور ہم سب جانتے ہیں ہم نے عورت کو کیا مقام دیا ہوا ہے۔
یہی منٹو نے دیکھا، اور جو دیکھا وہ قلم کو خون جگر میں ڈبو کر لکھا ۔ کیونکہ وہ سماج کے کشش ثقل سے اوپر تھا، وہ زماں و مکاں سے بھی اوپر تھا، وہ تو نشتر زن اور نقاد تھا۔ اس نے اپنے شعورکی تندی سے، اپنے وجود کے اندر رہتے ہوئے روایتی مرد کو شکست دی۔ مگر کیا کرتا ، اس سے عورت کی کتھا سہی نہ گئی، وہ سہم سا گیا اور پھر اسے شراب کی لت لگ گئی اس نے شراب میں پناہ لے لی اور پھر شراب کسی خنجر سے کم نہ تھی۔
اس کا وجود لہو کی پچکاریوں میں لت پت ہوگیا۔منٹو نے 47 برس کی عمر میں، روس کے پشکن کی طرح اپنے اوج میں زندگی کا دامن چھوڑ دیا کہ اسے ابھی بہت کچھ لکھنا تھا۔ کتنی ساری کہانیاں اس کے مرنے سے مر گئیں۔میں شاید منٹو پہ نہیں لکھنا چاہتا تھا۔ میں تو منٹو کی عورت پر لکھنا چاہتا تھا۔ کیسے ! جب گھر کا مرد اس بہانے یا اس بہانے وقت سے پہلے خالق حقیقی سے جا ملتا ہے۔
اس کے پیچھے رہنے والی عورت پر کیا گزرتی ہے اور ایک ایسے لمحے میں جب وہ اس گھر کا واحد کمانے والا ہو اور ساتھ ساتھ بیٹیوں کا والد بھی ہو۔میں نے پڑھی تھی راشیل موراں(Rachel Moran) کی آپ بیتی "Paid For" کے کچھ حصے۔ ایک ایسی عورت کی کتھا جو اس وقت عورت بھی نہ تھی بلکہ ایک بچی تھی جب اس کا باپ خودکشی کرلیتا ہے اور اس کی ماں ذہنی مریضہ ہوتی ہے۔
ریاست ایسی صورتحال دیکھ کر راشیل کو اپنی تحویل میں لے لیتی ہے۔ ریاست کتنی بھی مہذب ہو مگر وہ ماں نہیں ہوسکتی ، باپ نہیں ہوسکتی بالآخر راشیل سڑکوں پر آگئی۔اس کا کوئی گھر نہ تھا، کوئی در نہ تھا ، کوئی ہم جولی تھی، نہ اسکول اپنا تھا۔وہ یگانہ و تنہا تھی اور ہر طرف خونخوار بھوکے بھیڑیے تھے۔ انسانی روپ میں ، بس اس کے پاس ایک جسم تھا جو شاید اس کے پیٹ کی بھوک کو سہارا دے سکتا تھا۔ 15 سال کی عمر میں اس کی ایک شخص سے ملاقات ہوتی ہے جو اسے یہی مشورہ دیتا ہے کہ وہ اب اپنا جسم بیچ کر گزارا کرے۔ پورے سات سال اس کی خرید و فروخت ہوتی رہی۔ کتنے نفسیاتی بحران سے وہ گزری ہوگی۔
یہ سب حادثاتی تھا۔ وہ حادثاتی طور پر ایک ذہنی مریض عورت کی بیٹی تھی، وہ حادثاتی طور پر ایک بے منزل باپ کی بیٹی تھی جس نے خودکشی کرلی۔ اس میں اس کا کوئی بھی عمل دخل نہ تھا۔ راشیل ٹوٹ پھوٹ کر بکھر سی جاتی ہے اور اپنی خود اعتمادی تباہ کرنے کے لیے وہ Cocaine کے نشے کا سہارا لیتی ہے۔ وہ لکھتی ہے کہ اس کا استحصال اس دھندے کے دو اہم کرداروں نے کیا۔ ایک دلالPimp اور دوسرا اس کے جسم کا خریدار۔کبھی کبھار تو ایسا بھی ہوا کہ ایک رات میں دس دس ہاتھوں میں تبدیلی ہوتی رہی۔ کچھ اس طرح سے تھا اس کے لیے سب کچھ:بقول مجروح سلطان پوری
ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح
منٹوکی تانگے والی عورت کی کہانی جو اس فلم میں دکھائی گئی ۔ ایک ایسی نوجوان عورت جس کا شوہر جوانی میں مر جاتا ہے۔ بس اس کے لیے ایک عدد تانگہ اور گھوڑا چھوڑ جاتا ہے۔ وہ تانگے چلانے کے لیے بندہ رکھتی ہے وہ بندہ اسے شادی کی پیشکش کرتا ہے۔ وہ اسے نکال دیتی ہے۔ ایک اور بندہ رکھتی ہے ، وہ بندہ اسے میلی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ وہ اسے نکال دیتی ہے۔ ایک اور بندہ رکھتی ہے اور وہ بندہ اس کو کمائی کا صحیح حساب نہیں دیتا۔ وہ اسے بھی نکال دیتی ہے اور بالآخر تانگہ خود چلانا شروع کردیتی ہے۔
شہر کے لوگوں کے لیے یہ بات کوئی اچھی نہیں تھی کہ عورت تانگہ چلائے اور پھر ایک دن پولیس کانسٹیبل اس کا تانگہ چلانے کا لائسنس کینسل کردیتا ہے۔ اور کینسل کرتے وقت صرف یہی کہتا ہے کہ تمہارے لیے اب بہتر ہوگا کہ کوٹھا سجاؤ اور بالآخر وہ عورت کوٹھے پر پناہ لیتی ہے۔
ہمارے اس ملک کے شرفا کوئی برلا و ٹاٹا نہیں ہیں ۔ یہ ایک ایسا اشرافیہ ہے جو لوگوں کے ویلفیئر کے مختص فنڈ کھاتی ہے ، ان کے اسکول کھا جاتی ہے ، ان کے اسپتال چبا جاتی ہے ۔ اور اب غریب کا بچہ سرکاری اسکولوں سے کوئی تعلیم حاصل نہیں کرسکتا ۔ اس طرح سے یہ غربت خاندان توڑ دیتی ہے اور اس کی مصیبت بالآخر عورتوں و بچوں پر گرتی ہے۔
منٹو کی فلم دیکھ کر میرا اپنے سے عہد اور بھی پختہ ہوجاتا ہے کہ ہمیں اس سماج کو تبدیل کرنا ہے۔ اس کی ہر اینٹ ہر دیوار گرا کے دم لینا ہے۔ تاکہ سحر کی گود میں رنگِ شکست ِشب کو سب استحصال پسند اور مفاد پرست دیکھ لیں۔