مقامی حکومت

آرڈیننس کے مطابق مقامی حکومتوں کے انتخابات ہر پانچ سال کے بعد ہونے تھے

وائسرائے ہند لارڈ رپن نے 1883 میں Local Self Government کے نام سے پنچایتی نظام، نمبرداری نظام اور جرگہ سسٹم کے نعم البدل کے طور نافذ کیا تھا۔ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے، یہ نظام نچلی سطح پر رائج کیا گیا تھا اور مقصد تھا صوبائی حکومتوں پر سے بوجھ کم کرنے کے لیے، تاکہ وہ بڑے کاموں، اصلاحات، قانون سازی وغیرہ کی طرف زیادہ توجہ مرکوز کریں اور اس لیے اپنے اختیارات نیچے کی طرف منتقل کریں۔

ایک مقصد اور بھی تھا کہ عام لوگ حکومت کا حصہ بنیں اور اپنے مسائل خود حل کریں۔ ضلعی سطح پر ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ، بڑے شہروں کے لیے میونسپل کارپوریشن، چھوٹے شہروں کے لیے میونسپل کمیٹیاں، قصبات کے لیے ٹاؤن کمیٹیاں اور چھوٹے قصبات کے لیے نوٹیفائیڈ ایریا کمیٹیاں بنائی گئیں۔ گاؤں ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ کے ساتھ منسلک کیے گئے۔

یہ نظام ہمیں 1947 میں جہیز میں ملا اور صحیح طریقے پر چل رہا تھا۔ اس کے بعد ہمارے حکمرانوں نے کچھ حیلے بہانے بناکر، اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے اس میں تبدیلیاں کیں۔ ایک صاحب نے اس نظام کے کان میں اذان دے کر اسے نومولود قرار دیا اور نام رکھا بنیادی جمہوریتیں اور اس کے تحت اپنے آپ کو منتخب کراکے دس سال نکال لیے۔ دوسرے صاحب نے پھر اس کے کان میں اذان دے کر نام رکھا Local Government System ، جس کا کمال یہ تھا کہ ڈھائی، تین کروڑ کی آبادی والے شہر کو ایک ضلع قرار دیا اور صرف 25 لاکھ والے ضلع کو تین حصوں میں حصے بخرے کر دیے اور اس پر طرہ یہ کہ کارپوریشنوں کے میئر صاحبان اور ضلعی اور دوسرے چیئرمین صاحبان کے لیے من پسند غیر منتخب صاحبان کو منتخب ممبران سے ووٹ دلا کر کامیاب کروایا۔

1950 میں امریکا کی طرف Village Agricultural & Industrial Development ، جسے عرف عام میں Village AID کہا جاتا تھا، بلکہ گوٹھ (گاؤں) سدھار پروگرام کہا جاتا تھا، امداد دی گئی۔ اس امدادی پروگرام کا مقصد تھا گاؤں کا شہروں سے سڑکوں کے ذریعے رابطہ، زراعت کے لیے واٹر کورس کو سیمنٹ سے پکا کرنا، زراعت کے جدید طریقے سکھانا۔ فصلوں کی بوائی اور کٹائی کے جدید طریقے متعارف کرائے گئے اور ان جنسوں کی بھی پیداوار بڑھی۔ ریڈیو سے بھی بہت سارے ایسے پروگرام نشر کیے جاتے تھے جن میں زندگی کے ہر شعبے، مثلاً صحت وغیرہ کے بارے میں بھی پروگرام نشر کیے جاتے تھے۔ کسانوں کو بھی ان پروگراموں میں بلایا جاتا تھا اور ان سے گاؤں کی زندگی کے ہر پہلو پر گفتگو کی جاتی تھی۔ سرکاری افسران بھی گاؤں میں جاتے تھے اور لوگوں سے رابطہ رکھتے تھے۔ اس پورے سلسلے کا اثر یہ ہوا کہ گاؤں کے لوگوں میں خود اعتمادی پیدا ہوئی۔

افسوس یہ کہ یہ امداد صرف پانچ سال کے لیے تھی۔ امداد دینے والوں نے یہ سوچا تھا کہ وہ ترقی کی اساس رکھیں گے، باقی کام وہ لوگ خود کریں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ آخر ایسا تو نہیں کہ کوئی ملک آپ کو بوتل کا دودھ بھی پلائے، کھلائے اور بڑھاپے تک آپ کی دیکھ بھال کرے۔ سب سے بڑا نقص یہ ہوا کہ بجلی گاؤں تک نہیں پہنچائی گئی، جس کی وجہ سے چھوٹی اور گھریلو صنعتیں (Cottage Industries)پروان نہیں چڑھ سکیں اور اس طرح یہ پروگرام بخیر و عافیت دفن ہوگیا۔

خود مکانی حکومت کے نظام میں سیاست بالکل نہیں ہوتی تھی۔ لوگ انتخاب لڑتے تھے، جس کے دوران تھوڑی بہت تلخیاں تو ہوتی تھیں، لیکن انتخاب ختم ہونے کے بعد لوگ وہ تلخیاں بھول کر آپس میں شِیر و شکر ہوجاتے تھے۔ بے شک ووٹ ذات برادری کی بنیاد پر بھی دیے جاتے تھے۔

جیساکہ اوپر عرض کیا ہے کہ خود مکانی حکومت کے نظام کا مقصد لوگوں کی بنیادی ضرورتیں مثلاً صفائی، ستھرائی، صحت، بیماریوں سے بچاؤ کے لیے حفاظتی اقدام لینا، تعلیم، صفائی وغیرہ کا اتنا خیال رکھا جاتا تھا کہ نالیاں روزانہ پانی سے دھوئی جاتی تھیں، ان میں چونا بھی ڈالا جاتا تھا تاکہ مچھروں کی افزائش نہ ہو۔ آج کل وہ چونا عوام کو لگایا جاتا ہے اور جب کوئی بڑا آدمی کہیں دورے پر آتا ہے تو اس کی سواری کے راستے میں چونے سے لکیریں لگائی جاتی ہیں۔


اب تو پانی پینے کے لیے بھی دستیاب نہیں ہے، نالیاں کیا صاف ہوں گی۔ کراچی کے بندر روڈ (اب ایم اے جناح روڈ)، میکلوڈ روڈ (اب آئی آئی چندریگر روڈ)، ڈرگ روڈ (اب شارع فیصل) روزانہ رات کو پانی سے دھوئے جاتے تھے۔ کراچی کاروں کا شہر تو کہلایا کرتا تھا، لیکن ساتھ ساتھ وہاں وکٹوریہ، تانگے، اونٹ گاڑیاں اور گدھا گاڑیاں بھی چلتی تھیں۔ کراچی کے پرانے شہری یہ بھی بتاتے ہیں کہ سڑکوں کے دونوں اطراف میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر صفائی کا عملہ متعین ہوتا تھا، جو گھوڑوں، اونٹوں اور گدھوں کا فضلہ فوری طور پر اٹھا لیتے تھے، تاکہ سڑکیں گندی نہ ہوں۔ اسی طریقے پر حیدرآباد، سکھر اور دوسرے شہروں میں صفائی کا مناسب بندوبست ہوتا تھا۔

گوشت اور مچھلی مارکیٹوں کے دروازوں کو جالیاں لگی ہوتی تھیں تا کہ مچھر اور دیگر کیڑے مکوڑے سے حفاظت ہو۔ شہروں میں باہر سے لایا جانے والا دودھ Lactometer سے چیک کیا جاتا تھا۔ اسی طرح مارکیٹوں میں بھی پھل اور سبزیاں چیک کی جاتی تھیں اور خراب پھل اور سبزیاں پھینک دی جاتی تھیں۔

اسکولوں میں بچوں کو موسم سرما شروع ہونے سے پہلے ملیریا سے بچاؤ کے لیے کونین کی گولیاں کھلائی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ دیگر متعدی بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن کا بندوبست بھی کیا جاتا تھا۔ آج کل بڑی بڑی فیسوں والے اسکولوں میں بھی اس قسم کے انتظامات نہیں کیے جاتے۔ اسٹریٹ لائٹس بھی باقاعدہ جلتی تھیں۔ لوڈشیڈنگ کی مصیبت اتنی نہیں ہوتی تھی، جتنی کہ اب ہے۔ ماحولیاتی نظام کا بھی خاص خیال رکھا جاتا تھا۔

ہر سال نئے درخت لگائے جاتے تھے اور ان کی افزائش کے لیے ان کو باقاعدہ پانی دیا جاتا تھا، جب کہ آج کل بڑی بڑی بلڈنگیں بنانے کے لیے اور بڑے بڑے بل بورڈز لگانے کے لیے درخت کاٹے جاتے ہیں اور پانی تو پینے کے لیے دستیاب نہیں ہے، درختوں کو کیا دیں گے۔ درختوں کے ہونے کی وجہ سے بارشیں بھی زیادہ پڑتی ہیں اور ماحول سے کثافت بھی ختم ہوتی ہے، جس کے سبب بیماریاں بھی کم ہوتی نہیں۔ جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے پارک بنائے جاتے تھے، جو لوگوں کے تفریح کا سامان فراہم کرتے تھے۔

ہر سال گاؤں کے کنوؤں میں پوٹاشیم پرمیگنیٹ ڈالا جاتا تھا اور شہروں میں واٹر سپلائی کی ٹنکیوں میں کلورین ڈالی جاتی تھی۔ (آج کل ہمیں اخبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوائیں صرف سرکاری کھاتوں کی کتابوں میں تو لکھی ہوئی ہے، لیکن ڈالی نہیں جاتی، جس کی وجہ سے نگلیریا جیسی بیماری ہوجاتی ہے اور اس سے اموات واقع ہو رہی ہیں۔) اس کے علاوہ پانی کی ٹنکیاں ہر سال صاف کرائی جاتی تھیں۔ پینے کے پانی میں گٹر کے پانی کا مل جانے کا تو تصور بھی نہیں کیا جاتا تھا۔

بازاروں میں دکانوں کے سامنے آدھی سڑک پر قبضہ کرنا مشکل تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میونسپل کے لوگ باقاعدگی سے چکر لگاتے تھے اور وہ قبضے ہٹاتے تھے۔ اگر کوئی دکاندار پھر سے قبضہ کرتا تھا تو دوسرے ہفتے میونسپل کے لوگ آکر ہٹاتے تھے۔ میونسپلٹی اسکول، اسپتال اور میٹرنٹی ہوم اور دوسرے ادارے بھی لاتی تھیں (اب بھی چلاتی ہیں لیکن ان کی حالت غیر ہوتی ہے)۔ سڑکیں بھی بناتی تھیں، لیکن آج کل سڑکوں پر کھڈے بھی پر نہیں ہوتے۔ اور تو اور اسپتالوں کے باہر کی سڑکوں میں بڑے بڑے کھڈے پڑگئے ہیں، لیکن ان کو بھرا نہیں جاتا ہے اور ایمبولینسوں میں آنے والے مریض ادھ موئے ہو کر اسپتال پہنچتے ہیں۔

گزشتہ دہائی میں مقامی حکومتLocal Government کا نیا نظام نافذ کیا گیا۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔ یہ سب کام جو اوپر بیان کیے گئے ہیں، وہ Local Self Government کے ادارے کر رہے تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس نظام کے تحت ولیج کونسل، محلہ کونسل، شہری کمیونٹی بورڈ، چھوٹے چھوٹے اختلافات حل کرانے کے لیے مصالحتی انجمنیں یا انصاف کمیٹیاں اور پتہ نہیں کیا کیا ادارے بننے تھے، لیکن وہ نہیں بنے۔ ناظم صاحبان کے حصے میں صرف طلاقوں کے مصالحتی کردار ادا کرنا رہ گئے۔

آرڈیننس کے مطابق مقامی حکومتوں کے انتخابات ہر پانچ سال کے بعد ہونے تھے، لیکن اس معاملے میں حیلوں بہانوں سے ٹال مٹول سے کام لیا گیا۔ وہ تو سپریم کورٹ نے صوبوں کے پیچھے پڑ کے وہاں انتخابات کا بندوبست کروایا۔ جو ابھی تک صرف بلوچستان اور کے پی کے میں تو ہوئے ہیں، لیکن پنجاب اور سندھ میں ابھی ہونے ہیں۔ ان کے التوا کے لیے بھی حیلے بہانے گڑھے جارہے ہیں۔ لوگوں کو تو تب یقین ہوگا جب یہ انتخابات ہوجائیں گے۔
Load Next Story