پی آئی اے پالپا تنازع اندرون وبیرون ملک جانیوالی 50 سےز ائد پروازیں منسوخ

ڈی جی سول ایوی ایشن غیر ملکی ہوائی کمپنیوں کے ساتھ تجارت کر رہے ہیں اسلئے پی آئی اے کو ترجیح نہیں دی جا رہی، صدر پالپا


ویب ڈیسک October 03, 2015
اگر حکومت مذاکرات کے لئے بلاتی تو ضرور شرکت کرتے، عام ہاشمی. فوٹو : فائل

GILGIT: پی آئی اے اور پائلٹس ایسوسی ایشن کی تنظیم پالپا کے درمیان جاری تنازع شدت اختیار کر گیا ہے جس کے بعد مسلسل تیسرے روز پروازوں کا شیڈول بری طرح متاثر ہے اور اب تک اندرون و بیرون ملک جانے والی 51 پروازیں منسوخ ہو چکی ہیں۔

پی آئی اے اور پالپا کے درمیان 16 گھنٹے سے زائد پرواز کرنے پر پائلٹوں کے لائسنس کی منسوخی کے معاملے پر شروع ہونے والا تنازع شدت اختیار کر گیا ہے اور ملک کے مختلف ایئر پورٹس سے اندرون و بیرون ملک جانے والی 51 پروازیں منسوخ ہو چکی ہیں جس کے باعث 5 ہزار سے زائد مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اب تک کراچی سے 21، راولپنڈی سے 12 اور لاہور میں 10 پروازیں منسوخ ہو چکی ہیں۔

گزشتہ روز حکومت نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے معاملے کو سلجھانے کے لئے آج پی آئی اے اور پالپا حکام کا اجلاس اسلام آباد میں طلب کیا تھا تاہم پالپا کے صدر عامر ہاشمی نے ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت معاملے کو حل کرنا چاہتی ہے اورنہ ہی ہمیں اجلاس میں شرکت کے لئے کوئی دعوت نامہ نہیں دیا گیا ہے۔

عامر ہاشمی کا کہنا تھا کہ مختلف چینلز پر اس قسم کی خبریں چل رہی ہیں کہ پالپا کو مذاکرات کے لئے بلایا گیا لیکن انھوں نے مذکرات سے انکار کردیا، اس قسم کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے، اگر مجھے بلایا جاتا تو جس طرح پہلے اجلاسوں میں شرکت کی آج کے اجلاس میں بھی شرکت کرتا۔

صدر پالپا کا کہنا تھا کہ اصل بات یہ ہے کہ ہماری تنظیم نے سول ایوی ایشن کی اینٹی ڈمپنگ پالیسی کی مخالفت کر رکھی ہے جو کہ چیرمین کا کام تھا، چونکہ ڈی جی سول ایوی ایشن شجاعت عظیم کا کاروبار ہے اور وہ غیر ملکی ہوائی کمپنیوں کے ساتھ تجارت کر رہے ہیں اس لئے پی آئی اے کو ترجیح نہیں دی جا رہی۔

عامر ہاشمی کا کہنا تھا کہ شجاعت عظیم کو سول ایوی ایشن کا کوئی تجربہ نہیں ہے اور وہ ایم ڈی پی آئی کے طور پر بھی کام کر رہے ہیں۔ شجاعت عظیم کو جو بات ڈائریکٹر فلائٹ آپریشن کہہ دیتے ہیں یہ وہی میڈیا میں آکر کہہ دیتے ہیں، دوسری جانب ڈائریکٹر فلائٹ آپریشن کا ذاتی مفاد بھی ہے کہ وہ 60 سال کے بعد بھی کام کرنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے ساتھ پہلے بھی جو مذاکرات ہوئے، اس کے بعد جو معاہدہ ہوا اسے رد کر دیا گیا، ہمیں مسافروں کی پریشانی کا بھی احساس ہے اور اس پر ان سے معافی چاہتے ہیں لیکن حکومت معاملے کو سلجھانہ ہی نہیں چاہتی تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔