جان دار16منٹ
تنقید اپنی جگہ لیکن اگر کچھ اچھا کریں گے تو تنقید کرنے والے ہی توصیف کریں گے۔
HARIPUR:
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب سے وزیر اعظم نواز شریف نے یقینًا اپنے مخالفین کو بھی تعریف پہ کسی حد تک مجبور ضرور کر دیا ہے۔ اسمبلی ہال کی کرسیاں بھری ہوئی نہیں تھیں۔ نہ ہی کوئی اہم سربراہ ِمملکت،نواز شریف صاحب کی تقریر کے دوران وہاں موجود تھا۔ لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان نے 15 سے16 منٹ کی تقریر کے دوران مدلل انداز گفتگو اختیار کیا۔
اس موقع پر کچھ گِلہ ضرور ہوا کہ جب چین جیسی ابھرتی ہوئی طاقت اور خطہِ عرب کے سربراہان اپنی زبان کو ذریعہ اظہار بنا سکتے ہیں تو پھر آخر ہم کیوں اردو کو اتنا کمتر سمجھتے ہیں کہ عالمی فورم پر اس کو استعمال کرنا گوارا نہیں کرتے، لیکن فی الحال بات صرف تقریر کی کرتے ہیں۔ تقریر سے پہلے جس طرح اندازے لگائے جا رہے تھے کہ میاں صاحب شاید مسئلہ کشمیر کا ذکر قدرے دھیمے انداز میں ہی کریں گے وہ تمام اندازے غلط ثابت ہوئے۔ کیوں کہ نواز شریف صاحب نے اپنی تقریر میں کم و بیش 50 فیصد سے زیادہ جگہ مسئلہِ کشمیر کو دی اور ساتھ ہی اقوام متحدہ کو بطور ایک ادارہ یہ بھی باور کرا دیا کہ نصف صدی سے زائد کے اس متنازعہ قصے میں ناکامی صرف اقوام متحدہ کی ہے جو اپنی ہی قراردادوں پر آج تک عمل درآمد نہیں کروا سکا۔
چند منٹوں میں میاں صاحب نے جس طرح مسئلہ کشمیر کو اُجاگر کیا، اس کا اندازہ انڈین ڈیسک پر بیٹھے ان کے نمائندے کی بڑبڑاہٹ سے بخوبی ہو رہا تھا۔ نہ صرف مسئلہ کشمیر بلکہ بلِا اشتعال سرحدی خلاف ورزیاں بھی موضوع بحث بنیں۔ ساتھ ہی ساتھ امن کی دعوت دے کر میاں صاحب نے یقینا مودی سرکار کو بیک فُٹ پر دھکیل دیا ہے۔ اس کے ساتھ 4 نکاتی فارمولا پیش کر کے میاں صاحب نے بال انڈیا کے کورٹ میں پھینک دی ہے۔
جس انداز میں میاں صاحب نے 4 نکاتی فارمولا پیش کیا ہے وہ یقینًا ان کی کامیابی تصور کیا جانا چاہیے۔ کیوں کہ یہ فارمولا انہوں نے مضبوط موقف پیش کرنے کے بعد بتایا۔ کشمیر کے مسئلے کا سب سے اہم فریق کشمیریوں کو کہہ کر یقینناً میاں صاحب نے حریت قیادت کے دلوں میں بھی گھر کر لیا ہے۔ کیوں کہ بھارت کے ساتھ تعلقات اور کشمیر پر نرم موقف کے حوالے سے میاں صاحب حریت قیادت کی گُڈبکس میں نہیں تھے لیکن اس تقریر کے بعد منظر نامہ یقینی طور پر کچھ نہ کچھ تبدیل ہو گیا ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ حریت قیادت نے میاں صاحب کی تقریر کو نہایت مثبت اور خوش آئند قرار دیا ہے۔ اگر واقعی بھارت اس حقیقت کا ادراک کر لے کہ ہمسائے کے بجائے غربت خطے کی سب سے بڑی دشمن ہے تو پورا خطہ ترقی کی نئی راہوں پہ گامزن ہو جائے گا۔
چند منٹ میں میاں صاحب نے نہ صرف پاک چین اقتصادی راہدراری پہ بات کی بلکہ مشرق وسطیٰ، داعش، پاک بھارت تعلقات، ذمہ دار ایٹمی قوت اور امن مشن میں پاکستان کی خدمات جیسے حساس موضوعات کا بھی احاطہ کیا۔ ضرب عضب کو موضوع بحث بنا کر میاں صاحب نے دنیا کی توجہ اس امر کی طرف منتقل کرنے کی بھی کامیاب کوشش کی کہ یہ آپریشن صرف پاکستان نہیں، بلکہ باقی دنیا کی سلامتی کے لیے بھی نہایت اہم ہے۔ سلامتی کونسل میں اصطلاحات کے حوالے سے پاکستان کا موقف مضبوط انداز میں دنیا تک پہنچایا گیا۔
میاں صاحب کی پوری تقریر میں سب سے اہم بات پاکستان اور چین کے تعلقات کے علاوہ روس کا ذکر بھی تھا۔ اب یہ پالیسی شفٹ ہے یا کچھ اور لیکن یہ بات عیاں نظر آئی ہے کہ میاں صاحب نے اپنے لفظوں سے اپنی خارجہ پالیسی کی راہ متعین کرنے کی کوشش کی ہے اور شاید پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ پوری تقریر میں امریکا کا ذکر نہیں تھا۔ اب یہ بدلتی ہوئی خارجہ پالیسی کا مظہر ہے یا کچھ اور، اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرئے گا۔ لیکن یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ میاں صاحب نے 15 سے 16 منٹوں میں پاکستان کا مقدمہ بہترین انداز میں لڑا ہے ۔
دورہِ امریکا کے دوران طارق فاطمی اور سرتاج عزیز جس انداز سے ناکام مشیر ثابت ہوئے ہیں اس سے کوئی شک نہیں رہ گیا کہ کُل وقتی وزیر خارجہ اتنا ہی اہم ہے جتنا کل وقتی وزیر خزانہ یا وزیر داخلہ۔ کیوں کہ دورہِ امریکا میں وزیر خارجہ کی کمی شدت سے محسوس کی گئی مشیر صاحبان کسی بھی طرح سے تاثر قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں، وہ نہ تو میڈیا کے نمائندوں کو باقاعدہ کسی بھی قسم کی بریفنگ دے پائے، نہ ہی غیر ملکی مندوبین کے ساتھ ملاقاتیں اس طرح سے ہو پائیں جس طرح سے توقعات وابستہ کی گئی تھیں۔
مدلل الفاظ یقینا تبھی دنیا پہ دھاک بٹھا سکتے ہیں جب ان الفاظ کے دفاع میں ہر طرح کے سوالات کے جوابات دینے کیلئے ایک کل وقتی وزیر خارجہ موجود ہو۔ تنقید اپنی جگہ لیکن اگر کچھ اچھا کریں گے تو تنقید کرنے والے ہی توصیف کریں گے۔ شرط یہ ہے کہ بہتر کارکردگی میں تسلسل لائیں۔
[poll id="697"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب سے وزیر اعظم نواز شریف نے یقینًا اپنے مخالفین کو بھی تعریف پہ کسی حد تک مجبور ضرور کر دیا ہے۔ اسمبلی ہال کی کرسیاں بھری ہوئی نہیں تھیں۔ نہ ہی کوئی اہم سربراہ ِمملکت،نواز شریف صاحب کی تقریر کے دوران وہاں موجود تھا۔ لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان نے 15 سے16 منٹ کی تقریر کے دوران مدلل انداز گفتگو اختیار کیا۔
اس موقع پر کچھ گِلہ ضرور ہوا کہ جب چین جیسی ابھرتی ہوئی طاقت اور خطہِ عرب کے سربراہان اپنی زبان کو ذریعہ اظہار بنا سکتے ہیں تو پھر آخر ہم کیوں اردو کو اتنا کمتر سمجھتے ہیں کہ عالمی فورم پر اس کو استعمال کرنا گوارا نہیں کرتے، لیکن فی الحال بات صرف تقریر کی کرتے ہیں۔ تقریر سے پہلے جس طرح اندازے لگائے جا رہے تھے کہ میاں صاحب شاید مسئلہ کشمیر کا ذکر قدرے دھیمے انداز میں ہی کریں گے وہ تمام اندازے غلط ثابت ہوئے۔ کیوں کہ نواز شریف صاحب نے اپنی تقریر میں کم و بیش 50 فیصد سے زیادہ جگہ مسئلہِ کشمیر کو دی اور ساتھ ہی اقوام متحدہ کو بطور ایک ادارہ یہ بھی باور کرا دیا کہ نصف صدی سے زائد کے اس متنازعہ قصے میں ناکامی صرف اقوام متحدہ کی ہے جو اپنی ہی قراردادوں پر آج تک عمل درآمد نہیں کروا سکا۔
چند منٹوں میں میاں صاحب نے جس طرح مسئلہ کشمیر کو اُجاگر کیا، اس کا اندازہ انڈین ڈیسک پر بیٹھے ان کے نمائندے کی بڑبڑاہٹ سے بخوبی ہو رہا تھا۔ نہ صرف مسئلہ کشمیر بلکہ بلِا اشتعال سرحدی خلاف ورزیاں بھی موضوع بحث بنیں۔ ساتھ ہی ساتھ امن کی دعوت دے کر میاں صاحب نے یقینا مودی سرکار کو بیک فُٹ پر دھکیل دیا ہے۔ اس کے ساتھ 4 نکاتی فارمولا پیش کر کے میاں صاحب نے بال انڈیا کے کورٹ میں پھینک دی ہے۔
جس انداز میں میاں صاحب نے 4 نکاتی فارمولا پیش کیا ہے وہ یقینًا ان کی کامیابی تصور کیا جانا چاہیے۔ کیوں کہ یہ فارمولا انہوں نے مضبوط موقف پیش کرنے کے بعد بتایا۔ کشمیر کے مسئلے کا سب سے اہم فریق کشمیریوں کو کہہ کر یقینناً میاں صاحب نے حریت قیادت کے دلوں میں بھی گھر کر لیا ہے۔ کیوں کہ بھارت کے ساتھ تعلقات اور کشمیر پر نرم موقف کے حوالے سے میاں صاحب حریت قیادت کی گُڈبکس میں نہیں تھے لیکن اس تقریر کے بعد منظر نامہ یقینی طور پر کچھ نہ کچھ تبدیل ہو گیا ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ حریت قیادت نے میاں صاحب کی تقریر کو نہایت مثبت اور خوش آئند قرار دیا ہے۔ اگر واقعی بھارت اس حقیقت کا ادراک کر لے کہ ہمسائے کے بجائے غربت خطے کی سب سے بڑی دشمن ہے تو پورا خطہ ترقی کی نئی راہوں پہ گامزن ہو جائے گا۔
چند منٹ میں میاں صاحب نے نہ صرف پاک چین اقتصادی راہدراری پہ بات کی بلکہ مشرق وسطیٰ، داعش، پاک بھارت تعلقات، ذمہ دار ایٹمی قوت اور امن مشن میں پاکستان کی خدمات جیسے حساس موضوعات کا بھی احاطہ کیا۔ ضرب عضب کو موضوع بحث بنا کر میاں صاحب نے دنیا کی توجہ اس امر کی طرف منتقل کرنے کی بھی کامیاب کوشش کی کہ یہ آپریشن صرف پاکستان نہیں، بلکہ باقی دنیا کی سلامتی کے لیے بھی نہایت اہم ہے۔ سلامتی کونسل میں اصطلاحات کے حوالے سے پاکستان کا موقف مضبوط انداز میں دنیا تک پہنچایا گیا۔
میاں صاحب کی پوری تقریر میں سب سے اہم بات پاکستان اور چین کے تعلقات کے علاوہ روس کا ذکر بھی تھا۔ اب یہ پالیسی شفٹ ہے یا کچھ اور لیکن یہ بات عیاں نظر آئی ہے کہ میاں صاحب نے اپنے لفظوں سے اپنی خارجہ پالیسی کی راہ متعین کرنے کی کوشش کی ہے اور شاید پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ پوری تقریر میں امریکا کا ذکر نہیں تھا۔ اب یہ بدلتی ہوئی خارجہ پالیسی کا مظہر ہے یا کچھ اور، اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرئے گا۔ لیکن یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ میاں صاحب نے 15 سے 16 منٹوں میں پاکستان کا مقدمہ بہترین انداز میں لڑا ہے ۔
دورہِ امریکا کے دوران طارق فاطمی اور سرتاج عزیز جس انداز سے ناکام مشیر ثابت ہوئے ہیں اس سے کوئی شک نہیں رہ گیا کہ کُل وقتی وزیر خارجہ اتنا ہی اہم ہے جتنا کل وقتی وزیر خزانہ یا وزیر داخلہ۔ کیوں کہ دورہِ امریکا میں وزیر خارجہ کی کمی شدت سے محسوس کی گئی مشیر صاحبان کسی بھی طرح سے تاثر قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں، وہ نہ تو میڈیا کے نمائندوں کو باقاعدہ کسی بھی قسم کی بریفنگ دے پائے، نہ ہی غیر ملکی مندوبین کے ساتھ ملاقاتیں اس طرح سے ہو پائیں جس طرح سے توقعات وابستہ کی گئی تھیں۔
مدلل الفاظ یقینا تبھی دنیا پہ دھاک بٹھا سکتے ہیں جب ان الفاظ کے دفاع میں ہر طرح کے سوالات کے جوابات دینے کیلئے ایک کل وقتی وزیر خارجہ موجود ہو۔ تنقید اپنی جگہ لیکن اگر کچھ اچھا کریں گے تو تنقید کرنے والے ہی توصیف کریں گے۔ شرط یہ ہے کہ بہتر کارکردگی میں تسلسل لائیں۔
[poll id="697"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس