امریکا کی افغان اسٹرٹیجی پر نظر رکھنے کی ضرورت

پاکستان امریکا پر واضح کر چکا ہے کہ وہ امریکی دبائو پر کوئی آپریشن نہیں کرے گا


Editorial October 21, 2012
مارک گراسمین نے ہفتے کو آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور وزیر خارجہ حنا ربانی کھر سے ملاقاتیں کیں جس میں انھوں نے پاک امریکا تعلقات‘ خطے میں سیکیورٹی پر تبادلہ خیال کیا۔ فوٹو: فائل

پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے امریکا کے خصوصی نمایندے مارک گراسمین نے کہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لیے پاکستان پر دبائو نہیں ڈال رہے' دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔

گراسمین نے ہفتے کو آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور وزیر خارجہ حنا ربانی کھر سے ملاقاتیں کیں جس میں انھوں نے پاک امریکا تعلقات' خطے میں سیکیورٹی' افغانستان کی صورتحال' پاک افغان سرحدی امور اور شدت پسندوں کے خلاف ممکنہ آپریشن پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ ایک عرصے سے یہ چہ میگوئیاں کی جا رہی ہیں کہ امریکا شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لیے پاکستان پر اپنا دبائو بڑھا رہا ہے لیکن پاکستان امریکا پر واضح کر چکا ہے کہ وہ امریکی دبائو پر کوئی آپریشن نہیں کرے گا بلکہ وہ اپنی ملکی سالمیت اور حالات کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی فیصلہ کرے گا۔

عسکری قیادت نہایت دانشمندی اور سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی بھی نیا قدم اٹھانے سے قبل سول حکومت اور سیاسی قوتوں سے مشاورت کے ساتھ ساتھ ملکی خود مختاری اور سالمیت کو مقدم رکھے ہوئے ہے۔ مارک گراسمین کے اس دورے کو افغانستان کی کشیدہ صورتحال اور اس کے پاکستان پر مرتب ہونے والے اثرات کے تناظر میں دیکھا جانا بھی ضروری ہے۔ دوسری جانب گراسمین کے دورے سے قبل امریکی سی آئی اے کے سربراہ ڈیوڈ پیٹریاس جمعرات کو کابل پہنچ گئے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق ان کا یہ دورہ بغیر شیڈول کے تھا' انھوں نے امریکی فورسز ہیڈ کوارٹر کابل میں نیٹو کمانڈ اور سی آئی اے حکام سے ملاقات کی۔ کہا جا رہا ہے کہ امریکا نے کابل میں 101 جدید ڈرون طیارے بھیج دیے ہیں جنھیں کابل سے نامعلوم مقام کی طرف منتقل کیا جائے گا۔ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ ان طیاروں کو طالبان کے خلاف استعمال کیا جائے گا ۔ بظاہر امریکا مسلسل یہ کہہ رہا ہے کہ وہ شمالی وزیرستان میں آپریشن نہیں کرے گا اور کوئی بھی قدم پاکستان کی مرضی کے خلاف نہیں اٹھائے گا۔ لیکن کابل میں نئی ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں سے لیس ڈرون طیاروں اور امریکی عہدیداروں کے اسے خطے میں دوروں سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ امریکا کے ارادے کچھ اور ہیں اور وہ نئی مہم کی تیاریاں کر رہا ہے۔ ممکن ہے کہ مستقبل میں قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں میں اضافہ ہو جائے۔ پاکستان ڈرون حملے بند کرنے کے لیے امریکا سے بارہا مطالبہ کر چکا ہے۔

اس کے مطابق ان حملوں میں بے گناہ افراد بھی بڑی تعداد میں ہلاک ہو رہے ہیں جس کی تصدیق امریکی یونیورسٹیوں کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات بھی کرتی ہیں کہ امریکی ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والے ہر 50افراد میں سے ایک شدت پسند تھا۔ امریکا افغانستان سے انخلا کی باتیں تو کر رہا ہے مگر قیاس کیا جا رہا ہے کہ وہ افغانستان میں طویل عرصے تک رہنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ وہ جدید ترین وار ٹیکنالوجی افغانستان لا رہا ہے۔ اگر امریکا افغانستان سے اپنی فوجیں نکالتا ہے تو ممکن ہے کہ وہاں حالات پھر سے دگرگوں ہو جائیں جس سے جنم لینے والے منفی اثرات سے پاکستان بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ اس لیے افغانستان کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرنے سے قبل امریکا کو پاکستانی قیادت کو بھی اعتماد میں لینا چاہیے اور ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے جو پاکستان کے مسائل میں اضافے کا باعث بنے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں