اربوں ٹن خوراک کا ضیاع
غریب ممالک میں صارفین کی سطح پر بہت کم خوراک ضایع ہوتی ہے
ایک طرف دنیا میں فاقہ کشی کے شکار انسانوں کی تعداد کروڑوں میں بتائی جاتی ہے لیکن دوسری طرف دنیا بھر میں ضایع ہونے والی خوراک کا حجم بھی اربوں ٹن بتایا گیا ہے۔
فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کے زیر اہتمام کرائی جانے والی ایک اسٹڈی سے ظاہر ہوا ہے کہ ہر سال 1.3ملین (یعنی 13 سو کروڑ) ٹن خوراک ضایع ہو جاتی ہے یا ضایع کر دی جاتی ہے۔ اس اسٹڈی کے مطابق زیادہ تر خوراک تو کھیتوں سے نکل کر مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی صارفین کے لیے گھروں تک پہنچنے کے دوران ہی ضایع ہو جاتی ہے جب کہ دولت مند ممالک میں خوراک کا زیادہ ضیاع گھروں میں پہنچنے کے بعد ہوتا ہے یعنی کھانے کی اچھی بھلی اشیاء کو امیر گھرانے خود ضایع کر دیتے ہیں۔
البتہ غریب ممالک میں صارفین کی سطح پر بہت کم خوراک ضایع ہوتی ہے بلکہ یہاں پر زیادہ ضیاع زرعی کھیتوں سے منڈیوں تک اور پھر منڈیوں سے بڑے تاجروں کے گوداموں اور گوداموں سے دکانوں تک پہنچنے کے دوران ہوتا ہے۔ کم آمدنی والے ممالک میں خوراک کا ضیاع ناقص انتظامات کی وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ ان ممالک میں ذرایع نقل و حمل کے علاوہ اجناس خوردنی کو دیر تک محفوظ رکھنے کی ٹیکنالوجی کی بھی کمی ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں چالیس فیصد تک اجناس خوردنی کا ضیاع کاشتکاری کے بعد ہوتا ہے جب کہ مزید 40 فیصد نقصان پرچون فروشی اور صارفین کی سطح پر ہوتا ہے۔
صنعتی طور پر ترقی یافتہ ملکوں میں صارفین کی سطح پر 222 ملین ٹن (22کروڑ 20 لاکھ ٹن) خوراک ضایع ہو جاتی ہے جو کہ براعظم افریقہ کے صحرائی ممالک میں پیدا ہونے والی خوراک کے مجموعی حجم سے بھی زیادہ ہے۔ یورپ اور شمالی امریکا میں فی کس ضایع ہونے والی خوراک کا وزن 95 کلو گرام سے 115کلو گرام سالانہ بتایا گیا ہے البتہ جنوبی ایشیائی ممالک میں یہ ضیاع صرف 6 کلو گرام سے 11کلو گرام سالانہ تک ہے۔یہ رپورٹ دنیا کے غریب ، ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ملکوں کی قیادت کی آنکھیں کھولنے کے کافی ہونی چاہیے ، اس سے ظاہر ہوتا کہ اگر درست منصوبہ بندی کی جائے اور خوراک کے ضیاع کو روکا جائے تو دنیا بھر سے بھوک کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کے زیر اہتمام کرائی جانے والی ایک اسٹڈی سے ظاہر ہوا ہے کہ ہر سال 1.3ملین (یعنی 13 سو کروڑ) ٹن خوراک ضایع ہو جاتی ہے یا ضایع کر دی جاتی ہے۔ اس اسٹڈی کے مطابق زیادہ تر خوراک تو کھیتوں سے نکل کر مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی صارفین کے لیے گھروں تک پہنچنے کے دوران ہی ضایع ہو جاتی ہے جب کہ دولت مند ممالک میں خوراک کا زیادہ ضیاع گھروں میں پہنچنے کے بعد ہوتا ہے یعنی کھانے کی اچھی بھلی اشیاء کو امیر گھرانے خود ضایع کر دیتے ہیں۔
البتہ غریب ممالک میں صارفین کی سطح پر بہت کم خوراک ضایع ہوتی ہے بلکہ یہاں پر زیادہ ضیاع زرعی کھیتوں سے منڈیوں تک اور پھر منڈیوں سے بڑے تاجروں کے گوداموں اور گوداموں سے دکانوں تک پہنچنے کے دوران ہوتا ہے۔ کم آمدنی والے ممالک میں خوراک کا ضیاع ناقص انتظامات کی وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ ان ممالک میں ذرایع نقل و حمل کے علاوہ اجناس خوردنی کو دیر تک محفوظ رکھنے کی ٹیکنالوجی کی بھی کمی ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں چالیس فیصد تک اجناس خوردنی کا ضیاع کاشتکاری کے بعد ہوتا ہے جب کہ مزید 40 فیصد نقصان پرچون فروشی اور صارفین کی سطح پر ہوتا ہے۔
صنعتی طور پر ترقی یافتہ ملکوں میں صارفین کی سطح پر 222 ملین ٹن (22کروڑ 20 لاکھ ٹن) خوراک ضایع ہو جاتی ہے جو کہ براعظم افریقہ کے صحرائی ممالک میں پیدا ہونے والی خوراک کے مجموعی حجم سے بھی زیادہ ہے۔ یورپ اور شمالی امریکا میں فی کس ضایع ہونے والی خوراک کا وزن 95 کلو گرام سے 115کلو گرام سالانہ بتایا گیا ہے البتہ جنوبی ایشیائی ممالک میں یہ ضیاع صرف 6 کلو گرام سے 11کلو گرام سالانہ تک ہے۔یہ رپورٹ دنیا کے غریب ، ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ملکوں کی قیادت کی آنکھیں کھولنے کے کافی ہونی چاہیے ، اس سے ظاہر ہوتا کہ اگر درست منصوبہ بندی کی جائے اور خوراک کے ضیاع کو روکا جائے تو دنیا بھر سے بھوک کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔